امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
اہل سنت کے علما کی نظر میں امام ؑکی شخصیت ۔
خدمت خلق اور بے سہاروں کا سہارابننا۔
دوسری فصل : امام کی شخصیت کے اجتماعی پہلو :
عظمت سادات کے دفاع میں امام موسی کاظمؑ کا کردار :
اپنے پیرو اور چاهنے والوں کی حفاظت کا بندو بست:
آل رسول کا یہ روشن ستارا کیسے غروب ہوا :
تیسری فصل : اہل علم حضرات سے چند علمی باتیں :
امت میں فتنہ اندازی کا الزام کن پر لگنا چاہے ؟
کیا اولاد رسولؑ کے قاتلوں کو آپ کا جانشین کہا جاسکتا ہے ؟
امام موسی کاظمؑ اور اہل بیتؑ کے علمی وارث کو ن ؟
مقدمہ:
کسی عظیم شخصیت سے اظہار عقیدت اور اس کی عظمت کا بیان انسانی معاشرے میں رائج چیزوں میں سے ایک ہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ انسان کافضیلتوں اور کمالات سے فطری لگاؤ ہے ۔ انسان ہمیشہ کسی کامل اور برتر نمونے کی تلاش میں رہتے ہیں اور جہاں بھی پائے اسی کی مدحیت اور عظمت کی گیت گاتا ہے ۔لہذا انسان کسی نہ کسی شخصیت سے متاثر ہو کر اس سے اظہار عقیدت پر فخر کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اسی سے انسان کی زندگی کے مختلف شعبوں میں کامل نمونوں کی صحیح شناخت اور پہچان کی اہمیت کا اندازہ ہوجا تاہے.
مذہبی زندگی میں انسانوں کی کمال خواهی اور کمال دوستی کی فطری میلان سے غلط فائدہ اٹھانے کی داستانیں کچھ کم نہیں ، بعض لوگوں نے اپنے کو اللہ کے ولی اور کامل ترین انسان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کے ذریعے بہت سے سادہ لوح انسانوں کے احساسات کو اپنی دنیوی مقاصد کے حصول کا وسیلہ بنایا، بعض نے فضیلت اور عظمت کی جعلی داستانوں کے ذریعے کسی کی شخصیت بنائی اور بہت سے لوگوں کو ان کے اصلی نمونے کی تلاش سے روک دیا ، بعض نے تو اپنے مقاصد کی حصول کے لئے اصلی اور کامل نمونوں سے لوگوں کو دور
رکھنے کو ہی اپنا مشن بنایا، یہاں تک کہ انہیں زندان میں ڈالنے اور ان کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا اور یوں ان سب نے ملکر انسانی قافلے کو ان کے اصلی قافلہ سالاروں سے محروم کر دیا ۔
جیساکہ اسلامی دنیا بھی اسی المیہ سے دوچار ہوئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کےحقیقی محافظوں ، وارثوں اور ان کے عملی نمونوں کی پہچان اور پہچنوانے کے عظیم فریضے پر عمل پیرا ہو نے کی کوششوں کو تیز کیا جائے ۔ تاکہ دین اور دینداری سے لگاؤ رکھنے والوں کے احساسات سے غلط فائدہ اٹھا کر ان کے سامنے اسلامی تعلیمات کے غلط نمونے پیش کر نے اور انہیں دینی پیشوائی کی مسند پر بٹھا نے والوں کے غلط روش کا تدارک کیا جاسکے۔
ہم نے اس مختصر تحریر میں ائمہ اہل بیت ؑ میں سے امام موسیٰ کاظم ؑ کی سوانح حیات اور ان کی فضیلت،سیرت اور تعلیمات کے چند پہلوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہیں، امید ہے ہماری یہ کاوش ائمہ اہل بیتؑ کی نسبت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کی راہ میں ایک ادنیٰ قدم ثابت ہو ۔
مختصر سوانح حیات :
امام موسی کاظم ؑ بن جعفر صادقؑ ، سُلالہ فاطمہؑ کا آسمان ولایت و امامت پر چمکے روشن ستاروں میں سے ایک ستارہ ہیں ۔
آپ کے والد گرامی امام صادق[1] ؑ اور آپ کے اجداد وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کی فضیلت اور علمی مقام کے سبھی معترف ہیں۔آپ کی والدہ حمیدہ بریرہ بھی ایک پاکیزہ خاتون تھی۔امام صادقؑ ان کے بارے میں فرماتے ہیں : حمیدہ برائیوں سے اس طرح پاک ہے جیسے تپایا ہوا سونا میل کچیل سے پاک ہوتا ہے[2]۔
امام موسی کاظم ؑ 7 صفر 128 ھ کو مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقام ابواء میں پیدا ہوئے ۔ جناب حمیدہ نقل کرتی ہے کہ جب میرا یہ نور چشم دنیا میں آیا تو ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر آسمان کی طرف نظر کی اور اللہ کی تسبیح اور مدح کی اور پھر رسول اللہﷺ پر درود و صلوٰۃ پڑھا ۔[3]
آپ کی کنیت ابو الحسن اور آپ کا مشہور لقب عبد صالح اور کاظم تھا ۔
آپ کے بہت سے اولاد تھے بعض نے تیس سے زیادہ اولاد ہونے کی تصریح کی ہے،ان میں سب سے زیادہ شہرت آپ کے بیٹوں میں امام رضاؑ[4] اور بیٹیوں میں معصومہ قم[5]کو حاصل ہے ۔
امام موسیٰ کاظمؑ نے اپنے والد کی شہادت کے بعد 148ہجری میں امامت کے فرائض کو انجام دینے کی ذمہ داری سنبھالی اور 183ہجری تک ہدایت اور دین کی نشر و اشاعت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ آپ نے بنی عباس کے حکمرانوں میں سے منصور ، اس کا بیٹا مہدی عباسی ،ہادی عباسی اور پھر ہارون الرشید کا دور دیکھا ۔آپ 6 رجب 183 ہجری کو ۵۵ سال کی عمر میں ہارون الرشید کے زندان میں شہید ہوئے۔ آپ بغداد کے نذدیک کاظمین میں دفن ہیں ۔
اہل تشیع کے علماءکی نظر میں امام ؑکی شخصیت :
شیعہ امام موسیٰ کاظم ؑ کو سلسلہ امامت کے ساتواں تاجدار اور رسول اللہﷺ کے ان بارہ جانشینوں میں سے ایک مانتے ہیں کہ جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : میرے جانشینوں کی تعداد بارہ ہیں[6]لہذا اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ امام موسی کاظمؑ بھی انہیں جانشینوں میں سے ساتویں ہیں۔ جیساکہ آپ کے والد گرامی امام صادق ؑ کے اصحاب میں سے منصور ابن حازم نے امام سے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، جب آپ دنیا سے جائیں گے تو ہمارا امام کون ہوگا؟ فرمایا : یہ آپ کا امام ہے اور اپنا ہاتھ امام موسیٰ کاظم ؑ کے گندھے پر رکھا جبکہ آپ اس وقت پانچ سال کے تھے[7]. راوی کهتا هے: هم امام صادقؑ کے پاس تھے.
انهوں نے امام کاظم کو بلایا اور هم سے فرمایا : اپنے اس ساتھی کو جان لو میرے بعد یهی تمهارا امام یهی هوگا[8].
لہذا شیعوں کا اس پر اتفاق ہیں کہ آپ ہر جہت سے اپنے زمانے کے لوگوں سے افضل اور آپ رسول اللہﷺ کے علوم کے حقیقی وارث تھے۔ اسی لئے دوسرے آئمہ اہل بیت ؑ کی طرح ان کے بارے میں بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر کسی حدیث کی سلسلہ سند ان تک پہنچ جائے تو مزید سلسلہ سند کے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ۔
اہل سنت کے علما کی نظر میں امام ؑکی شخصیت ۔
امام موسیٰ کاظمؑ اسلامی دنیا کے ان عظیم شخصیتوں میں سے ہیں کہ جن کی عظمت کو سبھی مانتے ہیں ان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں، ہم علما اہل سنت میں سے بعض کی باتوں کو یہاں نقل کرتے ہیں ۔
امام احمد حنبل ،ایک روایت کے بارے میں جسے امام رضاؑ اپنے والد گرامی امام موسی کاظمؑ اور اپنے اجداد کے توسط سے رسول اللہﷺسے نقل کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ اس سلسلہ سند کو اگر کسی پاگل پر بھی پھونگا جائے تو وہ ٹھیک ہوگا[9].
صاحب صواعق المحرقہ لکھتے ہیں :شیعوں کے ساتویں امام موسیٰ کاظم ؑ ہیں ،جنہیں اپنے معاندین و مخالفین کے سامنے تحمل و برد باری کا مظاہرہ کرنے اور دشمنوں کے مقابل غیض و غضب پی جانے کی بنا پر مسلمانوں اور خاص کر شیعوں نے کاظم کا لقب دیا ہے ۔[10]دوسری جگہ وہ کہتے ہیں : موسیٰ کاظم ؑ اپنے والد صادق ؑ کے علم و معرفت اور کمال و فضیلت میں وارث ہیں ۔عراق والے آپ کو باب الحوائج کہتے تھے.
.. آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عبادت گذار اور سب سے بڑے عالم اور سخی تھے۔[11]
ابن ابی الحدید آپ کے بارے میں لکھتے ہیں : آپ فقاہت ، دیانت ، عبادت اور حلم و صبر کا مجموعہ تھے ۔[12]
شذرات الذہب میں ہے : آپ صالح ، عابد ، حلیم ، سخی اور عظیم الشان شخصیت کے مالک انسان تھے۔[13]
یافی لکھتے ہیں: آپ صالح ، عابد ،سخی اور حلیم تھے ۔[14]
تہذیب التہذیب میں ہے : موسیٰ بن جعفر اپنی عبادت اور سخت کوشی کی وجہ سے عبد صالح کہلائے جاتے تھے۔[15]
ابو حاتم کہتے ہیں : آپ ثقہ ( قابل اعتماد) اور مسلمانوں کے اماموں میں سے ہیں۔ ابو حاتم کا بیٹا کہتا ہے : آپ سچے اور مسلمانوں کے اماموں میں سے ایک ہیں [16]۔
علم رجال کے ماہر ذہبی کہتے ہیں : موسیٰ کاظم ؑ حکماء میں سخی ترین اور خدا کے پرہیز گار بندوں میں سے تھے ۔ [17]
شيخ سيد شبلنجي اہل علم کا یہ قول نقل کرتے ہیں : امام کاظم ؑعظیم منزلت والے امام تھے ,آپ عراق والوں کے ہاں’’ باب الحوائج الی اللہ ‘‘کے نام سے مشہور تھے اور یہ شہرت ان کے توسل سے لوگوں کی حاجت پوری ہونے کی وجہ سے ہے.[18]
النجوم الزاهرة میں ہے : موسیٰ کاظم ؑ کو عبد صالح کہا جاتا تھا ۔۔ آپ سید، عالم ،فاضل ،سخی اور مستجااب
الدعوۃ( ایسا شخص جس کی دعا رد نہیں ہوتی)تھے[19]۔
پہلی فصل :
امام کی شخصیت کے مختلف پہلو :
کسی بھی شخص کی شخصیت کو دو جہت سے پرکھا جاسکتا ہے ۔ اس کی ذاتی خصوصیات ( جیسے عبادت ، اللہ پر توکل، سخاوت ، عفو در گذر )اس کی اجتماعی نوعیت کی خصوصیات جیسے کلامی ، فقہی اور سیاسی نظریات ۔
آپ کی شخصیت کا ذاتی پہلو :
ہم اس مرحلے میں امام کی ذاتی خصوصیات میں سے چند اہم خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔تاکہ ہم ان کی سیرت اور تعلیمات کے مختلف شمعوں سے اپنی انفرادی ، فکری اور اجتماعی زندگی کو روشن کر سکے۔ ان خصوصیات پر بحث اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں ولی اور اولیاء کی عزت و تکریم بہت زیادہ ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے حقیقی اور کامل اولیاء کی پہچان اور شناخت حاصل کریں اور ان کی دینی خدمات اور سیرت و تعلیمات کومعاشرے میں روشناس کرائیں، تاکہ لوگ اولیاء اللہ سے محبت کے نتیجے میں دین اور دینی تعلیمات کی طرف راغب ہو ں اور اس ذہنیت کو معاشرے میں رائج ہونے سے بچایا جائے کہ ولی اللہ کا مطلب چند کرامات کی داستانیں بتانا اور دکھانا ہی ہو ۔( کرامات کی بحث میں اس سلسلے میں مذید گفتگو ہوگی)
عبادت اور اطاعت پروردگار:
اللہ کی عبادت و بندگی اور اطاعت، ائمہ اہل بیت ؑ کی بنیادی ترین خصوصات میں سے ہے ،ائمہ اہل بیت ؑ اپنے زمانے کے سب سے زیادہ عبادت گذار اور اللہ کے سب سے زیادہ مطیع بندے تھے ۔
سب نے کہا ہے کہ اما م موسی کاظم ؑ اپنی عبادت اور سخت کوشی کی وجہ سے عبد صالح کہلائے جاتے تھے۔[20]
جب آپ سندی بن شاہک کے زندان میں تھے تو سندی بن شاہک کی بہن نے کہا اس زندانی کی دیکھ بھال میرے حوالے کردو ، اس نے ایسا کیا ۔ وہ زندان میں امام کی حالات یوں بیان کرتی ہے : آپ اللہ کی حمد و ثنا کرتے ، ان سے راز و نیاز کرتے ، اسی حالت میں رات گذر جاتی ،نماز صبح کے بعد دعا اور اللہ کی حمد و ثنا کی حالت میں رہتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوتا اور آپ چاشت تک بیٹھ جاتے پھر تیار ی کرتے اور کھانا کھاتے اور زوال سے پہلےتھوڑی دیر آرام کرتے، پھر وضو کرتے اور نماز پڑھتے پھر قبلہ رخ کی حالت میں تسبیح اور ذکر میں مشغول رہتے یہاں تک کہ مغرب کی نماز پڑھتے امام کی یہ حالت دیکھ کر وہ کہتی تھی : اللہ ایسی قوم کو ذلیل کرے جو اس شخص کو اذیت و آزار پہنچاتی ہے[21].
ایک دفعہ ہارون الرشید نے اما م موسی کاظم ؑ کو دھوکہ دینے اور بدنام کرنے کی غرض سے ایک خوبصورت کنیز کو زندان میں امام کے پاس بھیجا ، آپ نے ہارون کے نمائندہ سے فرمایا : مجھے کنیز کی ضرورت نہیں اور تم ہارون سے کہے :بل أنتم بهديتكم تفرحون۔(سورہنمل 36)’تم لوگ اپنے ہدیے پر خوش رہو ‘‘ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ،ہارون کا نمائندہ واپس چلا گیا. ہارون نے غصے میں کہا:اس کے پاس جاؤ اور کہو : میں نے تمہاری مرضی کے مطابق تمہیں زندان میں نہیں ڈالا ہے اور تمہاری مرضی سے ہم نے اس کو تیرے پاس نہیں بھیجا ہے,خادم اس کنیز کو زندان میں امام کے پاس چھوڑ کر چلا گیا ۔ہارون نے ایک آدمی مقرر کیا کہ وہ چھپ کر اس کنیز کی حالت دیکھتا رہے اس نے دیکھا کہ وہ سجدے کی حالت میں ہی رہتی ہے اور کہتی ہے .قدّوس، قدّوس سبحانک سبحانک ، جب ہارون کو یہ اطلاع دی تو اس نے کہا !:معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ بن جعفر ؑ نے اس کنیز پر بھی جادو کردیا ہے اس کو میرے پاس لے آو ۔جب وہ ہارون کے پاس پیش ہوئی اس نے کنیز سے کہا !یہ تمہاری کیا حالت ہے؟ اس نے کہا !جب میں اس کے پاس قید خانے گئی تو میں ان کے سامنے کھڑی ہوگئی مگر انہوں نے میری طرف توجہ نہ کی اور وہ دن رات نماز پڑھتے رہے۔ جب تسبیح و تقدیس سے فارغ ہوئے تو میں نے ان سے کہا: اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں؟ انہوں نے کہا : مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کہا مجھے آپ کی خدمت کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ آپ نے فرمایا : ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ پھر آپ نے مجھے ایک باغ کا منظر دکھا یا جس میں خوبصورت کنیزیں موجود تھیں ، یہ دیکھنے کے بعد میری حالت غیر ہوگئی اور میں سجدے میں گر پڑی۔ ہارون نے اسے ٹوکا اور لوگوں سے اس واقعے کی نشر کرنے سے روکنے کے لئے اس کنیز کو زندان میں ڈال دیا اور وہ زندان میں اللہ کی عبادت کرتی رہی اور وہی اللہ کو پیارے ہوگئی[22]۔
لہذا اللہ سے عشق و محبت اور عبادت کا یہ حال تھا کہ زندان میں بھی بہت سے زندان بان اور آپ کے کنڑول پر مامور بہت سے لوگ ، آپ کی عبادت اور اللہ کی بندگی سے متاثر ہوئے اور آپؑ کے قتل میں ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ کر سکے۔ اسی لئے آپؑ کو کئی زندانوں میں منتقل کیے گئے ۔ آپ زندان میں بھی اللہ کا اس انداز میں شکرادا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں نے آپ سے آپ کی عبادت کے لئے فراغت چاہی تھی آپ نے مجھے یہ موقع فراہم کیا[23]۔
راز ونیاز ، دعا و مناجات :
ائمہ اہل بیت ؑ کی مشترکہ سیرت میں سے ایک اللہ کے حضور راز و نیاز اور دعا و مناجات سے ان کابے حد لگاو ہے ۔امام موسیٰ کاظم ؑ اکثر سجدے کی حالت میں یہ دعا کیا کرتے تھے"
اللَّهُمَّ إِنّى اَسْأَلُكَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسابِ""عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِكَ فَلْيَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ".
خدايا!میں تجھ سے موت کے وقت آسانی اور حساب کے وقت بخشش و عفو کا طلب کار ہوں ، آپ کے بندے کا گناہ زیادہ ہے لیکن آپ اپنی بزرگی کے سے اسے بخش دیں۔ اورآپ خوف خدا سے اتنا روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہوجاتی[24]۔
ذہبی لکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھیوں نے نقل کیا ہے کہ آپ مسجد نبوی میں داخل ہوئے ،رات کے شروع میں ایک سجدہ کیا ۔ آپؑ سجدے میں کہہ رہے تھے .عظم الذنب عندي فليحسن العفومن عندك،ياأهل التقوى،وياأهل المغفرة.... آپ اتنا اس کا تکرار کرتے رہے کہ صبح ہوگی[25]۔
امام موسی کاظمؑ سے منقول مشہور دعاؤوں میں سے ایک ،دعا ”دعای جوشن صغیر”ہے ۔جو امام موسی کاظمؑ نے ہادی عباسی کی طرف سے قتل کی دھمکی ملنے کے بعد پڑھی ۔ اس دعا کو پڑھنے کے بعد آ پ ؑنے رسول خداﷺ کو خواب میں دیکھا ،انہوں نے فرمایا: خدا تیرے دشمن کو ہلاک کر دے گا ۔ اور یہ دعا دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے پڑھی جانے والی بہترین دعاوں میں سے ہے اس دعا کے بعض جملے یہ ہیں :
اِلهي وكم مِنْ عَبْد اَمْسى وَاَصْبَحَ في ظُلُماتِ الْبِحارِ وَعَواصِفِ الرِّياحِ وَالاْهْوالِ وَالاْمْواجِ يَتَوقَّعُ الغَرَقَ وَالْهَلاكَ لا يَقْدِرُ عَلى حيلَة اَوْ مُبْتَلىً بِصاعِقَة اَوْ هَدْم اَوْ حَرْق اَوْ شَرْق اَوْ خَسْف اَوْ مَسْخ اَوْ قَذْف وَاَنَا فى عافِيَة مِنْ ذلِكَ كُلِّهِ فَلَكَ الْحَمْدُ يا رَبِّ مِنْ مُقْتَدِر لا يُغْلَبُ وَذي اَناة لا يَعْجَلُ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد وَاجْعَلني لِنَعْمائِكَ مِنَ الشّاكِرينَ وَلالائِكَ مِنَ الذّاكِرينَ[26].
گرچہ امام موسی کاظمؑ سے منقول دعائیں بہت ہے، اس مختصر کتابچے میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں، صاحبا ن بصیرت کے لئے ائمہ اہل بیتؑ کے نذدیک دعا کی قدر و منزلت کو بتانے کے لئے یہی کافی ہے ۔
خدمت خلق اور بے سہاروں کا سہارابننا۔
جیساکہ یہ بات ائمہ اہل بیت ؑ کی زندگی کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے عیاں ہے کہ آپ حضرات ہمیشہ مسکین اور بے سہارا لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی حمایت میں کوشاں رہتے تھے، ان کے حقوق سے دفاع کرتے اور بوقت ضرورت ان کی فکری اور مالی معاونت کرتے۔ ائمہ اہل بیت ؑ اس حد تک ان کی حمایت کرتے کہ وقت کے حکمران اس کو اپنے لئے ایک قسم کا خطرہ سمجھتے اور ان پر دباو ڈال کر ان کی ان خدمات سے لوگوں کو محروم کرتے ۔
امام موسی کاظمؑ کی خوبیوں میں سے جو چیز سب سے زیادہ قابل توجہ هے وہ آُ پ کی سخاوت اور فیاضی تھی ، جو ضرب المثل بن گئی تھی [27] ابن عنبہ لکھتے ہیں : آپ کے پاس ہمیشہ پیسوں سے بھری تھیلیاں رہا کرتی تھیں آپ کسی سے ملتے یا کوئی آپ کے کرم کا محتاج ہوتا ، اسے آپ ان میں سے عطا فرماتے، یہاں تک کہ آپ کی یہ تھیلیاں ضرب المثل بن گئی تھیں[28] ۔
ذہبی امام ؑ کے جود و سخیٰ کے بارے لکھتا ہے : آپ اتنے سخاوت مند تھے کہ اگر آپ تک یہ بات پہنچ جاتی کہ فلاں شخص آپ کو اذیت و آزار دیتا ہے تو آپ اس کو تھیلی میں دینار بھیج دیتے[29]۔ آپ اس قدر سخی و کریم تھے کہ آپ کو بتایا جاتا کہ فلاں شخص آپ کو تکلیف پہنچاتا ہے تو آپ اس کے پاس ہزار دینار کی تھیلی بھجواتے [30]۔
محمّد بن عبداللَّه بكرى کہتا ہے :میں قرض لینے کے لئے مدینہ آیا لیکن کامیاب نہیں ہوا جب تھک گیا تو کہا: کاش میں ابوالحسن موسیٰ کاظم ؑ کے پاس جاتا اور اپنی حاجت ان سے طلب کرتا۔یہ سوچ کر میں امام کے پاس گیا۔ امام کھیتوں میں اپنے غلام کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر میرے طرف آٓئے. ہم نے ساتھ کھانا کھایا اور انہوں نے مجھ سے میری حاجت پوچھی۔میں نے اپنی داستان سنا دی ، امام اپنے گھر میں داخل ہوئے اور کچھ دیر کے بعد واپس آئے اور اپنے غلام سے چلے جانے کے لئے کہا اور پھر میری طرف ایک تھیلی بڑھا دی جس میں ۳۰۰ درہم تھے[31]۔
امام موسی کاظمؑ کی بخشش اور سخاوت اور آپ کا بے سہارا لوگوں کا سہارا بننا بھی وقت کے حکمرانوں سے برداشت نہیں ہوا اور آپ پر دباؤ ڈالنے کے لئے آپ کی سخاوت اور بخشش کو بھی بہانا بنایا ۔ حتی اہل بیت ؑ کے مخالف حاکموں کو رسول اللہﷺ کا جانشین کہنے والوں کو بھی امام کی یہ بخشش ہضم نہ ہوسکی اور اس کوعباسی حکّام کی طرف سے امام کو دئے جانے والے عطیات کی زیادتی کی دلیل قرار دی[32] ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آپ کو ہی رسول اللہﷺ کا حقیقی جانشین مانتے تھے وہ اپنے خمس ،زکوۃ وغیرہ آپ تک پہنچاتے تھے[33] ۔
عفو درگزر:
خطا کاروں کی خطاؤں سے درگزر کرنا ائمہ اہل بیت ؑ کا شیوہ رہا ہے ۔ دشمنی کرنے والوں اور اذیت و آزار پہنچانے والوں کی گستاخی کے سامنے عفو و گذشت سے کام لینے کے بہت سے نمونے ان کی زندگیوں میں ملتے ہیں ۔ امام موسی کاظمؑ کو کاظم لقب ملنے کی وجہ آپ کی یہی اہم خصوصیت تھی ۔ ابن اثیر کہتا ہے : ان کا لقب کاظم تھا کیونکہ جو آپ سے برا سلوک کرتے آپ اس کے ساتھ اچھے انداز میں پیش آتے اور یہ آپ کا شیوہ تھا [34]۔
ابوالفرج اصفهاني نقل کرتے ہیں ، خلیفہ دوم کی آل میں سے ایک شخص جب امام موسیٰ کاظمؑ کو دیکھتا توامام علی بن ابی طالبؑ کو گالی دیتا اور امام کو تنگ کرتا تھا۔ امام کے بعض پیروکاروں نے کہا: ہمیں اجازت دیں ہم اسے قتل کردیتے ہیں, لیکن امام نے اس سے منع فرمایا۔ ایک دن آپؑ سوار ہو کر اس کے کھیت کی طرف گئے. اس نے امام کو آتے دیکھ کر شور مچاتے ہوئے کہا :فصل کو پاوں تلے مت روندو ، امام اسکی باتوں پر توجہ کیے بغیر اس کے پاس گئے اور ہنسنے لگے اور اس سے کها : تم نے کتنا اس کھیت پر خرچ کیا ؟ اس نے کہا سو درہم ۔ امام نے فرمایا: کتنے فائدے کی امید ہے ؟ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں ۔ امام نے فرمایا : تم سے سوال کیا ہے کتنے کی امید ہے ۔ اس نے کہا دو سو درهم ۔ امام نے تین سو درہم اس کو دئے ۔ امام کی خوش اخلاقی دیکھ کر وہ اٹھا اور امام کے سر کا بھوسا لیا ۔ اس کے بعد جب بھی وہ امام کو دیکھتا ,ان پر سلام کرتا اور کہتا: الله اعلم حیث جعل رسالته۔(اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔)اس کے بعد امام موسیٰ کاظم ؑ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تمہارا کام بہتر تھا یا میرا کام ؟ [35].
آپؑ حلم و بردباری سے کام لینے کے لئے اپنے فرزندوں کو یوں نصیحت کرتے تھے: اے میرے بیٹے!میں ایک ایسی وصیت کرتا ہوں کہ جو بھی اس پر عمل کرئے اسے فائدہ ہوگا ۔ جب کوئی آئے اور تمہارے دائیں کان میں کوئی بری بات سنا دے اور پھر بائیں کان کی طرف آکر معذرت کردے اور کہے میں نے ایسا نہیں کہا تھا، تو تم اس کے عذر کو قبول کرو[36]۔
لہذا خاص کر جاہل خطا کار کی خطاؤں سے در گذر اور انتقام سے دوری کو ائمہ اہل بیت ؑ کی سیرت میں نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔امام موسی کاظمؑ نہ صرف آپ کو اذیت و آزار دینے والے کو معاف کرتے بلکہ اس پر کوئی نہ کوئی احسان بھی کرتے ۔ یوں امام اس کام کے ذریعے دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرتے اور یہی ائمہ اہل بیت ؑ کا شیوہ تھا ۔
کسب حلال:
ائمہ اہل بیت ؑ بیکار رہنے والوں اور اپنی زندگی کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے والوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ خود بھی کسب حلال کے لئے کوشش کرتے دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے ۔
راوی کہتا ہے کہ میں ایک دن امام موسی کاظمؑ سے ملاقات کے لئے گیا ،آپ کھیت میں کام کر رہے تھے آپؑ کی حالت یہ تھی کہ آپ کا بدن کام کی وجہ سے پسینہ پسینہ تھا ۔مجھے تعجب ہوئی اور میں نے کہا : فرزند رسول !آپ پر قربان ہوجاؤں ، لوگ کہاں ہیں تاکہ یہ دیکھ لیں کہ آپ اس گرمی میں اس حد تک کام کاج میں مصروف ہیں ۔
امام ؑ نے فرمایا:اے علی ، جو مجھ سے بہتر اور برتر تھے وہ لوگ ہمیشہ کسی کام میں مشغول رہتے تھے .راوی نے کہا آپ کی مراد کون لوگ ہیں؟ فرمایا : میری مراد رسول اللہﷺ,اميرالمؤمنين اور میرے آبا و اجداد صلوات اللّه عليهم اجمعين ، پھر امام ؑ نے فرمایا: یہ کام جسے تم دیکھ رہے ہو، یہ اللہ کے نمائندے اس قسم کے کام کرتے اور اسی کے ذریعے اپنے زندگی کے اخراجات کو پورا کرتے تھے ، اللہ کے دوسرے نیک اور صالح بندے اسی طرح تلاش و کوشش کرتے تھے ۔[37]
لہذا عزت کی روٹی کھانے اور اپنے اہل و عیال کے لئے آرام و آسائش کا سامان فراہم کرنے کے لئے کوشش کرنا، ائمہ اہل بیت ؑ کی سیرت تھی ۔
امام کا علمی مقام :
آل رسولؑ کے امتیاز وں میں ایک اہم امتیاز، ان کی علمی برتری اور سب سے زیادہ دین شناس ہونا ہے ۔ رسول پاکﷺ کے بعد دینی تعلیمات کی معرفت اور ان کی حفاظت میں کوئی اہل بیت ؑکے مثل نہیں.امام موسی کاظمؑ بھی ائمہ اہل بیتؑ میں سے وہ عظیم ہستی ہیں ،جو رسول اللہﷺ کے علوم کے حقیقی وارث اور محافظ تھے ،اپنے دور میں کوئی بھی دین شناسی میں آپ کے مثل نہ تھا ۔ہم ذیل میں اس سلسلے کے چند واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
:1امام ابوحنیفہ[38]کا تعجب:
ایک دفعہ امام ابوحنیفہ امام جعفرصادقؑ سے ملنے کے لئے دروازے پر انتظار کررہے تھے اتنے میں امام موسی کاظمؑ گھر سے نکلے، اس وقت آپ کی عمر پانچ برس تھی ۔ امام ابوحنیفہ نے ان سے کہا : بچے! یہ بتاو! اگر کسی مسافر کو تمہارے شہر میں رفع حاجت کرنا ہو تو وہ کہاں جائے ؟ امام نے دیوار سے ٹیک لگا کر فرمایا: اسے چاہے کہ نہروں کے کناروں اور پھلوں کے گرنے کی جگہوں اورمسافروں کی رہائش گاہوں، لوگوں کی آمد و رفت کے راستوں اور مساجد کے صحنوں سے پرہیز کرے، قبلہ کی طرف نہ رخ کرے نہ پشت کرے اور کسی بھی جگہ جاکر اپنی شرم گاہ چھپاکر رفع حاجت بجالائے ، امام ابوحنیفہ نے تعجب کیا اور ان کا نام پوچھا تو آپ نے فرمایا میں موسیٰؑ بن جعفر ؑبن محمدؑ بن علیؑ بن حسینؑ بن علی ابن طالب ؑ ہوں[39]۔
امام ابوحنیفہ نے کہا: گناہ کس کا کام ہے اور کون انجام دیتا ہے (اللہ یا اللہ کا بندہ )؟ امام نے فرمایا : اس کی چند صورتیں ممکن ہے ؛ یا اللہ کی طرف سے ہے، اس صورت میں مناسب نہیں ہے کہ اللہ بندے کے گناہ کا سبب ہواور پھر اس کو سزا بھی دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ اور بندہ دونوں کی طرف سے ہوں یہ بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ اچھی بات نہیں ہے کہ اللہ گناہ میں تو بندے کے ساتھ شریک ہو اور بعد میں اپنے ضعیف شریک کو سزا دئے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ گناہ بندے سے ہی سرزد ہوتا ہے اور یہی صحیح ہے۔ لہذا اگر خدا اسے عذاب دئے تو یہ اس کا حق ہے اور اگر عفو کرئے تو یہ اللہ کا فضل و بخشش اور بندے کی نسبت سے اس کی محبت اور کرم کا نتیجہ ہے[40]۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ جبر و اختیار کا مسئلہ اعتقادی مسائل میں ایک اہم مسئلہ ہے بہت سے بڑے بڑے دانشور اس کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے لیکن امام موسیٰ کاظمؑ نے کم سنی کی عالم میں انتہائی خوبصورت اندار میں اسے بیان فرمایا اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ کو تعجب ہوا ۔
: 2میرے فرزند سے قرٓن مجید کے متعلق سوال کرو.
عیسیٰ بن شلقان کا بیان ہے کہ میں امام جعفر صادق ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں آپ سے ابوالخطاب(امام صادقؑ کے دور کا ایک گمراہ آدمی ) کے خود ساختہ نظریات کے بارے میں پوچھنا چاہا . آپ نے میرے سوال سے پہلے ہی مجھ سے فرمایا: عیسیٰ! تم میرے فرزند موسیٰ سے مل کر اس سے یہ مسائل کیوں نہیں پوچھتے ؟ عیسیٰ کہتا ہے کہ امام موسیٰ کاظمؑ اس وقت مکتب میں بیٹھے ہوئے تھے ، انہوں نے مجھے دیکھ کر ہی فرمایا :عیسیٰ! اللہ نے انبیاءسے نبوت کا عهد لیا ، انہوں نے اپنے عهد سے انحراف نہیں کیا اور اللہ نے اوصیاء سے وصیت کا میثاق لیا ۔وہ بھی اپنے میثاق پر قائم رہے ۔ کچھ لوگوں کو اللہ نے کچھ عرصہ کے لئے ایمان عاریتا دیا ، پھر ان سے ایمان کو سلب کر لیا اور ابوالخطاب کا تعلق بھی ایسے ہی گروہ سے ہے۔ امام کا یہ جواب سن کر میں نے انہیں گلے سے لگایا اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ ؑ پر قربان، آپؑ ذُرِّيَّةًبَعْضُهامِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ[آلعمران34] یہ ایک نسل ہےجس میں ایک کا سلسلہ ایک سےہے..’’کے مصداق ہیں . بعد ازاں میں امام جعفر صادق ؑ کے پاس گیا اور کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ، میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے سوال سنے بغیر ہی مجھے جواب دیا جس سے معلوم ہوگیا کہ وہ مستقبل کے امام ہیں۔ امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:عیسی! اگر تو میرے فرزند سے قرآن مجید کے متعلق سوال کرتا تو وہ تجھے اس کا مکمل جواب دیتا[41]۔
:3امام موسیٰ کاظمؑ کا علمی مقام، امام جعفر صادقؑ کی زبانی:
یزید بن سلیط زیدی راوی ہیں ۔ کہ ہم امام صادق ؑ کی رفاقت میں مکہ کی طرف جارہے تھے ، راستے میں میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ مولی آپ طاہر اور مطہر امام ہیں لیکن موت سے کوئی بھی ذی روح انکار نہیں کرسکتا ،آپ فرمائیں آپ کا جانشین کون ہے ؟
آپؑ نے فرمایا : ویسے تو سب میرے فرزند ہیں لیکن یہ سب کا سردار ہیں یہ کہہ کر امام موسیٰ کاظم ؑ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:اس کے پاس حکمت و فراست ، سخاوت ، حسن اخلاق ، حسن معاشرت اور ہر اس چیز کا علم ہے جس کی انسانوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ یہ خدا کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے[42]۔
: 4امام کے ہاتھوں نصاریٰ کے ایک بڑے عالم کا اسلام لانا۔
راوی کہتا ہے کہ امام موسیٰ کاظم ؑ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک نصرانی آیا اور کہا : میں دور دراز شہر سے بڑی تکلیف اٹھا کر آیا ہوں ۔میں تیس سال سے اپنے رب سے دعا کر رہا ہوں کہ بہترین دین اور بہترین بندہ اور سب سے زیادہ عالم کی طرف میری ہدایت کریں. ایک شخص نے خواب میں مجھے ایک شخص کے باره میں بتایا جو دمشق کے بالائی حصے میں رہتا ہے، میں اس کے پاس پہنچا اور اس سے گفتگو کی، اس نے کہا: اگرچہ میں اپنے دین [عیسائیت] کا بڑا عالم ہوں لیکن اگر تم ہر اس چیز کا علم جاننا چاہتےہو جو انبیا ؑ٫ کے پاس ہے تو ایسی کتاب میں ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے اور مومنین کے لئے شفا ہے ، روحانی مسرت اور بصیرت کا باعث ہے ، تو میں تیری راہنمائی ایسے شخص کی طرف کرتا ہوں ۔تم اس کے پاس جانا اگر اپنے پیروں سے نہ چل سکے تو گھٹنوں کے بل جانا ۔۔ تو مدینہ جاو جہاں عرب میں ایک بنی ہاشم مبعوث ہوئے تھے وہاں موسیٰ کاظم ؑ کے متعلق پوچھنا ۔ پھر ان کو بتانا کہ مطران علیا نے دمشق سے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور بہت بہت سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ میری اکثر خدا سے یہ دعا رہتی ہے کہ میرے اسلام کا اظہار آپ کے ہاتھوں پر ہو ۔ یہ نصرانی اس کی ہدایت کے مطابق مدینہ گیا اور امام سے کچھ سوالات کیے اور آپ سے اسلامی تعلیمات سنی ، آپ کے ہاتھوں اسلام لایا اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان بنا[43].
امام کا علمی امتحان ۔:5
شیعہ امام موسی کاظمؑ کو رسول اللهﷺ کا ساتواں جانشین مانتے هیں۔ امام صادقؑ کی وفات کے بعد مختلف وجوهات کی وجه سے اس دور کے شیعه جانشین کے مسئله میں اختلاف کا شکار هوئے، اسی اختلاف کی وجه سے هی اسماعیلی فرقه وجود میں آیا اور بعض عبد الله ابطح کو امام ماننے لگے ۔ بعض شیعه اس مسئله میں تشویش کا شکار هوئے اور سب سے پهلے عبد الله بن ابطح کے پاس جاکر اس سے حلال و حرام اور نماز و روزه کے کچھ سوالات پوچھے جب وہ صحیح جواب نه دے سکا تو وه لوگ باهر نکلے، اتنے میں کسی بوڑھے نے امام موسی کاظم ؑ کے گھر کی طرف ان کی راهنمائی کی اور امام سے ملاقات کے دوران جب ان کو اپنےسوالوں کا اطمنان بخش جواب ملا تو انهیں ان کی امامت کا یقین هوا . کیونکه شیعہ اسی کو هی رسول الله ﷺ کا حقیقی جانشین مانتے هیں جو سارے دینی مسائل کو جانتا هو۔
کرامات:
قرآن مجید میں انبیاء کرامؑ اور اللہ کے مقرب بندوں کے کرامات اور معجزات کا تذکرہ موجود ہے [44]۔ لہذا اللہ کے کسی ولی سے کرامات کے صادر ہونے کا عقیدہ رکھنا غلو اور قرآن و سنت کے خلاف عقیدہ نہیں ہے ۔ لیکن جس طرح ہر غیر عادی کام{عجیب و غریب کام} کرامت نہیں ہے۔ اسی طرح ہر غیر عادی کام انجام دینے والا اللہ کا ولی بھی نہیں ہے[45] ، جو قرآن اور شریعت پر عمل پیرا نہ ہو ایسا اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا اور جو کام قرآن و سنت اور عقل کے خلاف ہو ایسا کام کرامت بھی نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح نبوت کے جھوٹے دعوے دار گذرے ہیں، اسی طرح ولی اللہ ہونے کے جھوٹے دعوے دار بھی بہت گذرے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ گذشتہ اور موجودہ دور میں ایسی داستانیں کچھ کم نہیں کہ بعض اولیاء ایسے بھی ہیں ،جنہیں بعد میں ان کے مریدوں اور وارثوں نے اس طرح مشہور کر دیا کہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ معاشرے کے اکثر لوگ دین سے لگاؤ تو رکھتے ہیں لیکن دینی بصیرت اور معرفت کی کمی کی وجہ سے جلد ہی ولی اللہ جیسے القابات اور بنائی ہوئی داستانوں سے دھوکه کھا کر دوسروں کی دوکان چمکانے کا باعث بنتے ہیں۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے آگاہی دی جائے اور اللہ کے حقیقی اولیاء کی کرامات اور ان کی تعلیمات اور سیرت کے مختلف پہلوؤں سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں اولیاء اللہ سے تعلق صرف ان کے کرامات کی داستانیں سننے،سننا اور ان کی زیارت کرنے کو ہی سمجھتے ہیں۔ لیکن ولی اللہ کی تعلیمات اور سیرت کے ایسے پہلو وں کو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کرتے جو لوگوں کے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کام آئے اور لوگ اللہ کے ولی کے ذریعے اللہ کے دین پر زیادہ سے زیادہ عمل پیرا ہو سکیں ۔حقیقت میں ولی اللہ و ہی ہے جو سب سے زیادہ اللہ اور اللہ کے دین کی شناخت رکھتا ہو ،دین کا پابند ہو اور ہر جہت سے لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہو ۔
ائمہ اہل بیت ؑ، اللہ کے حقیقی ولی تھے ، ان کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ سے عشق و محبت اور اللہ کی اطاعت و عبادت میں گذرا، اولیاء اللہ کا حقیقی اور کامل ترین مصداق انہیں کی ذات گرامی ہیں ۔لہذا اللہ کے اذن اور مدد سے ان سے بہت سی کرامات صادر ہوئیں ، ہم ذیل میں امام موسیٰ کاظم ؑ کی بعض کرامات کا تذکرہ کرتے ہیں .
:1عالم آل محمدؑ :
شفیق بلخی سے روایت ہے کہ میں 149 ھ میں حج کے لئے روانہ ہوا اور ہم نے مقام قادسیہ پر قیام کیا ۔ وہاں میری نظر ایک نوجوان پر جا پڑی، اسے دیکھ کر میں نے دل میں کہا : شاید یہ کوئی صوفی ہے جو لوگوں پر بوجھ بننا چاہتا ہے۔یہ سوچ کر اس کی سرزنش کرنے کے لئے اس کے قریب گیا ۔ اس نے مجھے آتے دیکھ کر میرا نام لیا اور کہا : شفیق!{يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوااجْتَنِبُواكَثِيرًامِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ} [الحجرات: 12]بدگمانی سے بچو کیونکہ کچھ بدگمانی گناہ ہے]۔ قرآن مجید کی آیت کے اس حصے کو پڑھ کر جوان چلا گیا ۔میں نے دل میں کہا: اس جوان نے میری دلی کیفیت کو بھانپ لیا یہ تو اللہ کا ولی ہے ، یہاں سے چل کر ہم مقام ’’واقعہ ‘‘پہنچے تو وہ جوان مجھے نظر آیا۔میں بدگمانی کی معذرت طلب کرنے کے لئے اس کے پاس گیاتو اس نے نماز سے فارغ ہوکر فرمایا: اے شفیق !وَإِنىِ لَغَفَّارٌلِّمَن تَابَوَامَنَوَعَمِلَ صَالِحًاثم اهْتَدَى(82,طه)[ میں یقینا اسے بخش دیتا ہوں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور عمل صالح بجالائے پھر ہدایت پر قائم رہے ]۔ یہ کہہ کر وہ میری نظروں سے غائب ہوگئے اور میں نے سوچا :ہو یا نہ ہو یہ جوان ’’ابدال ‘‘ ہے کیونکہ وہ میرے دل کی باتوں سے باخبر ہے۔ پھر ہم منزل ’’زبالہ‘‘ پر پہنچے تو میں نے اس جوان کو دیکھا وہ ایک کنوئیں پر کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک ڈول تھا وہ پانی بھرنا چاہتا تھا کہ وہ ڈول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر رسی سمیت کنوئیں میں جاگرا ۔اس نے آسمان کی طرف نظر کی اور دعا مانگی ۔ خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ کنوئیں میں جوش پیدا ہوا اور پانی اُبل کر اوپر آگیا اور جوان نے ہاتھ بڑھا کر اپنا ڈول نکال لیا ، اس کے پانی سے وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی ، پھر ریت کی کچھ مٹھیاں اٹھا کر اپنے ڈول میں ڈال دیا اور کھانا کھانا شروع کیا ۔یہ دیکھ کر میں آگے بڑھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے مجھے جواب دیا ۔میں نے ان سے کہا : اللہ کی اس نعمت میں مجھے بھی شامل فرمائیں ۔انہوں نے ڈول میری طرف بڑھا دیا اور میں نے دیکھا اس میں تو ستو اور شکر کا شربت ہے ، سیر ہوکر پیا اور ایسا مزے دار مشروب زندگی میں نہیں پیا تھا۔(یہاں تک کی اس کے بعد کئی دن مجھے کھانے پینے کی خواہش نہ ہوئی۔) جب میں نے ڈول ان کے حوالے کیا پھر وہ میری نگاہوں سے غائب ہوئے اور پورے راستے میں دکھائی نہیں دیے اور جب میں مکہ پہنچا تو اس جوان کو خشوع اور خضوع سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا وہ نماز میں زار و قطار رو رہا تھا، پوری رات وہ عبادت میں مصروف رہا، صبح ہوئی تو اس نے بیٹھ کر تسبیح پڑھی اور صبح کی نماز ادا کی۔ پھر بیت اللہ کا سات بار طواف کیا اور حرم سے باہر نکلا ،میں نے دیکھا کہ اس کے پاس سواری کے جانور اور نوکر چاکر بھی ہیں ۔ انہوں نے ایک خوبصورت لباس پہنا اور لوگ مسائل دریافت کرنےکے لئے وہاں جمع ہوئے۔میں نے ان کے ایک غلام سے پوچھا کہ یہ بزرگوار کون ہیں ؟ اس نے مجھے بتایا یہ عالم آل محمد ابو ابراہیم ہیں ۔ میں نے مزید وضاحت طلب کی تو اس نے بتایا۔ یہ موسیٰؑ بن جعفرؑ بن محمدؑ بن علیؑ بن حسینؑ بن علی بن ابی طالب ؑ ہیں ۔ میں نے کہا کہ حقیقتا ایسے معجزات ایسے ہی افراد کو زیب دیتے ہیں اور اسی خاندان کے لئے مخصوص ہیں۔[46]
: 2اپنے زمانے کے امام کی معرفت مبارک ہو:
ابوخالد کہتا ہے خلیفه مہدی عباسی کے زمانے میں جب محمد بن عبداللہ گرفتار ہوا تھا تو اسی دوران امام موسیٰ کاظمؑ بغداد جاتے ہوئے ہماری آبادی میں اترے اور ان دنوں میں مذہب زیدیہ[47] کا پیرو تھا آپ کے خیمے نصب ہونے کے بعد سخت سردی کی وجہ سے لکڑی کی ضرورت پڑی لیکن لکڑیاں میسر نہ تھیں ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ابوخالد !آگ جلانے کے لئے لکڑیاں لے آؤ ۔ میں نے عرض کیا: آج کل پورے علاقے میں لکڑیاں کہیں پر دستیاب نہیں ہیں ۔ آپ نے فرمایا :ابوخالد ایسا نہ کہو تم ان دو پہاڑیوں کے درمیان چلے جاؤ ۔تم دیکھو گے کہ ایک اعرابی کے پاس لکڑیوں کے دو بڑے گھٹے ہوں گے ۔ تم وہ خرید لینا ۔ ابوخالد کہتا ہے کہ میں دو پہاڑوں کے درمیان گیا اور میں نے امام کے کہے کے مطابق اعرابی کو پایا، اس سے لکڑیاں خرید لی اور جب تک امام وہاں رہے اپنی حیثیت کے مطابق آپ ؑکو کھانا کھلایا۔پھر امام نے فرمایا ہم فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو یہاں آئیں گے اور بعد میں اسی تاریخ کو امام وہیں پہنچ بھی گئے ، ابو خالد نے کہا مولا میں پہلے زیدی العقیدہ تھا اور جب آپ کے دونوں فرمان درست ثابت ہوئے تو مجھے یقین ہوگیا .کہ زمانے کے امام آپ ہی ہیں اور اللہ نے ہم پر آپ کی اطاعت فرض کی ہے۔ امام نے فرمایا ابوخالد آپ کو حق کا یہ عقیدہ مبارک ہو اور فرمایا : یاد رکھو جو شخص اپنے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے تو وہ جہالت کی موت مرے گا[48] اور اسلام میں رہ کر جو اس نے کیا ہے اس کا حساب کیا جائے گا[49]۔
:3اپنی وفات سے آگاہی :
علی بن سوید السائی کا بیان ہے کہ امام موسیٰ کاظمؑ نے مجھے ایک خط لکھا جس میں آپؑ نے تحریر فرمایا : سب سے پہلے تو میں تجھے اپنی وفات کی اطلاع دیتا ہوں جو کہ چند ہی راتوں میں واقع ہونے والی ہے اور میں موت سے نہ تو خوف زدہ ہوں اور نہ ہی کسی طرح کی ندامت محسوس کرتا ہوں اور نہ ہی خدا کے حتمی فیصلہ کے متعلق کسی شک وشبہہ میں مبتلا ہوں ۔ تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ آل محمد ؑ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا اور وصی کے بعد والے وصی کی اطاعت کرتے رہنا اور یہی دین کی مضبوط رسی ہے [50]۔
: 4شیر قالین کا مجسم ہونا :
علی بن یقطین کہتا ہے کہ ہارون الرشید کو ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی بات کی کاٹ کرے اور ان کی امامت کو جھوٹا ثابت کر دے اور پھر ان کو پوری مجلس میں شرمندہ و خوار کرے ۔ لہذا اس کام کے لئے کسی عامل کو بلایا گیا ۔ حضرت امام ؑ کو بھی اس دسترخوان پر دعوت دی گئی ۔ چنانچہ جب دسترخوان بچھایا گیا اور اس پر کھانا لگا دیا گیا تو اس عامل نے تمام روٹیوں پر جو امام کے سامنے رکھی تھیں اپنا موکل مقرر کر دیا ۔ امام جب بھی روٹی کی طرف ہاتھ بڑھاتے روٹی آپ کے سامنے سے اڑ جاتی ، اس پر ہارون بہت خوش ہوا اور ہنسا ۔ یہ دیکھ کر امام ؑ نے سر اٹھایا اور پردے پر ایک شیر کی تصویر بنی ہوئی تھی آپ نے اسے آواز دے کر فرمایا: اے خدا کے شیر ! اس دشمن خدا کو چیر پھاڑ کر اپنی خوراک بنا لو۔ آپ کے حکم سے وہ تصویر مجسم زندہ شیر کی شکل میں تبدیل ہوگئی اور اس عامل کو چیز پھاڑ کر جٹ کر گئی۔ یہ دیکھ کر سب حواس باختہ ہوگئے اور کچھ دیر بعد ہارون نے امام سے عرض کی:آپ اس تصویر کو حکم دیں کہ وہ اس شخص کو واپس کر دے ۔آپ نے فرمایا: اگر موسیٰ ؑ کے عصا نے جادوگروں کی ان رسیوں کو جو سانپ کی شکل میں تھیں نگل کر پھر اگل دیا ہوتا تو تصویر بھی تیرے اس نگلے ہوئے شخص کو واپس اگل دیتی۔ [51]
:5رب کعبہ کی قسم یہ عیسیٰ بن مریم ہیں :
راوی کہتا ہے: امام موسیٰ کاظمؑ نے منی ٰ میں دیکھا کہ ایک عورت اور اس کے بچے رو رہے ہیں کیونکہ ان کی گائے مرگئی تھی ،امام پاس آئے اور رونے کی وجہ پوچھی ، عورت کہنے لگی اے بندئے خدا، میرے یتیم بچے ہیں اور صرف یہی گائے میری اور ان کی معاش کا ذریعہ تھی ۔ امام ؑنے فرمایا: کیا تو چاہتی ہے کہ میں اسے زندہ کردوں ؟ اس نے کہا بے شک میں چاہتی ہوں ۔ امام ایک گوشہ میں گئے اور دو رکعت نماز پڑھ کر اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کی اور گائے کوا ٓواز دی اور ٹھوکر ماری اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔ جب عورت نے گائے کو دیکھا تو چیخ پڑی رب کعبہ کی قسم یہ عیسیٰ بن مریم ہیں ۔امام وہی سے چلے گئے[52]۔
:6 موتوں کا علم:
اسحاق بن عمار کہتا ہے : میں نے سنا کہ امام موسیٰ کاظمؑ نے ایک شخص کے مرنے کی خبر دی ، میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کو یہ بھی علم ہے کہ ان کا شیعہ کب مرے گا ۔ حضرت غصے کی حالت میں میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے اسحاق! رشید ہجری موتوں اور بلاؤں کا علم رکھتے تھے اور امام تو اس سے بہتر ہے ۔پھر فرمایا : اے اسحاق تم نے جو کرنا ہے کرلو تم دو برس کے اندر مرجاؤگے اور تمہارے بھائی اور خاندان والے تمہارے مرنے کے چند روز بعد ہی علٰحیدہ ہوجائیں گے..... یہ بات تمہارے دل میں رہے ، میں نے کہا : اللہ سے استغفار کرتا ہوں اس بات سے جو میرے دل میں آئی ، کچھ مدت ہی گزری تھی کہ اسحاق مرگیا اور اس کے خاندان کا وہی حشر ہوا جو امام نے فرمایا تھا ۔[53]
:7درخت امام کے حکم سے حرکت میں آگیا۔
امام موسی کاظمؑ کے دور میں مدینے میں ایک انتہائی زاہد و پرہیزگار شخص ، حسن بن عبداللہ رہتا تھا۔ اس کی عبادت اور دینداری کی وجہ سے حکّام بھی اس سے خوفزدہ رہتے تھے اور وه امام علیؑ کو چوتھا خلیفہ مانتا تھا ۔ ایک دن امام موسی کاظمؑ نے اس کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا ؛ مجھے تمہاری عبادت ، زہد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا طریقہ پسند ہے ۔ لیکن تمہارے پاس معرفت نہیں ہے جاو معرفت حاصل کرو ۔
حسن بن عبداللہ نے کہا : معرفت کیا ہے ؟ امام نے فرمایا : جاؤ مسائل اور مطالب کو دقت سے سمجھیں اور احادیث کو سیکھیں ۔ اس نے کہا: کن سے احادیث سیکھوں ؟ امام نے فرمایا : مدینہ کے عالموں سے سیکھ کر آئیں اور مجھے سنائیں ۔ انهوں نے ایسا ہی کیا، احادیث سیکھ کر امام کے پاس آکر انہیں سنانے لگے۔
امام نے فرمایا : یہ سب بے بنیاد ہے جاؤ اور معرفت حاصل کرو ۔ وہ اپنے عقیدے کے مطابق احادیث سیکھ کر آتا ۔لیکن امام انہیں رد کرتے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں ہمیشہ امام سے معرفت حاصل کرنے کی فکر میں رہتا یہاں تک کہ ایک دن امام اپنے کھیت کی طرف جارہے تھے میں نے موقع غنیمت جانا اور امام کے پیچھے ہولیا اور کہا کہ میں اللہ کے حضور آپ کی شکایت کروں گا ، مجھے خود ہی معرفت اور ہدایت دلا ئیں ۔ امام نے جب اس کو معرفت حاصل کرنے کے لئے تیار دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کے واقعات کاتذکرہ کر کے یہ ثابت کیا کہ حق امام علی ؑ کے ساتھ تھا اور آپ کی ہی رسول اللہ ﷺ کے حقیقی جانشین تھے۔ حسن بن عبداللہ نے امام ؑ کی دلیلوں کو قبول کیااور رسول اللہ ﷺکے بعد امام علی ؑ کی امامت کا معتقد ہوئے اور کہا : اب امام کون ہے ؟ امام نے فرمایا: اگر میں خبر دوں تو کیا قبول کروگے ۔ اس نے کہا ہاں ، آپ نے فرمایا : اب میں امام ہوں ۔
اس نے کہا : آپ کوئی معجزہ دکھائیں ، تاکہ میں اس کے ذریعے مخالفوں پر احتجاج کرسکوں ۔ امام نے وہیں ایک درخت کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا اس درخت کے پاس جاؤ اور کہو موسیٰ بن جعفر تمہیں بلا رہے ہیں۔ اس نے ایسا هی کیا اور درخت حرکت میں آیا اور امام کے پاس کھڑا ہوگیا۔ امام نے دوبارہ اشارہ کیا درخت واپس چلا گیا۔ حسن بن عبد اللہ یہ دیکھ کر امام کی امامت کے معتقد ہوئے اور اسی معرفت کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہوئے اور دنیا سے چلے گئے[54] ۔
:8اپنی لڑکی کا نام بدل دو :
روای کہتا ہے: میں امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ موسیٰ کاظمؑ کے گہوارے کے پاس کھڑے ان سے سرگوشی کر رہے تھے اور جب سرگوشی سے فارغ ہوئے تو میں حضرت کے پاس گیا۔ آپؑ نے فرمایا: اپنے مولا کے پاس جاؤ اور سلام کرو ۔میں نے سلام کیا ، انہوں نے نہایت فصیح زبان میں جواب دیا پھر فرمایا تم جاؤ اپنی لڑکی کا نام بدل دو جو تم نے کل رکھا ہے وہ ایسا نام ہے جس سے اللہ بغض رکھتا ہے ۔ روای کہتا ہے: میری ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام میں نے حمیراء رکھا تھا۔امام جعفرصادقؑ نے فرمایا: ان کے حکم کو بجالاؤ ، یہ باعث فلاح ہوگا۔ میں نے اس کا نام بدل دیا ۔[55]
: 8باب الحوائج کا لقب :
امام موسی کاظمؑ کی قبر بغداد کے قریب شہر کاظمین میں ہے جہاں دنیا بھر سے آل رسول ؑ کے عقیدت مند آپ کی زیارت کے لئے آتے ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے اہل سنت اور شیعہ علما اور عوام میں رائج ہے اور بہت سے لوگ آپ کو واسطہ بنا کر اللہ سے دعا کرتے ہیں اور اپنی حاجات اللہ سے طلب کرتے ہیں ۔
امام شافعی کہتے ہیں : قبر موسیٰ کاظمؑ ایسی جگہ ہے جس نے امتحان پاس کیا ہے [56] (یعنی امام کی قبر کے پاس اور ان سے متوسل ہوکر مانگی جانے والی دعائیں قبول ہوجاتی ہے ۔)
ابو علی خلال، شیخ حنبلی، تیسری صدی کے اہل سنت کے علماء میں سے ہیں: کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ، میں توسل کے لئے موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جاتا تھا۔ اللہ ان کے توسل سے میری مشکل آسان کرتا ہے [57]۔
شيخ سيد شبلنجي نقل کرتے ہیں: امام موسی کاظمؑ عظیم منزلت والے امام تھے ,آپ عراق والوں کے ہاں’’ باب الحوائج الی اللہ ‘‘کے نام سے مشہور تھے اور یہ شہرت ان کے توسل سے لوگوں کی حاجت پوری ہونے کی وجہ سے ہے[58].
اس قسم کا ایک واقعہ یہ ہے ، ابو علی کہتا ہے : چائے کا ایک پیالہ ٹوٹنے سے میری بارہ سالہ بیٹی کی آنکھوں میں شیشے کا ٹکڑا پڑھ گیا اور ہم نے فورا بغداد میں آئی ہاسپٹل میں انہیں منتقل کیا۔ ڈاکٹروں نے شیشے کا ٹکڑا ان کی آنکھ سے نکالا، پھر مجھ سے کہا :ہم صرف ان کی آنکھ کی ظاہری خوبصورتی کی حفاظت کے لئے آپریشن کرسکتے ہیں لیکن ان کی بینائی کو واپس نہیں لاسکتے۔ جب بچی کو آپریشن کے لئے لے گئے ،تو میرے ذہن میں آیا کہ ہم تو لوگوں سے کہتے ہیں کہ آل محمد(صلى الله عليه وآله)صاحب کرامت ہے اور اللہ کے نزدیک ان کا بڑا مقام ہے ،پھر میں کیوں نہ موسیٰ بن جعفر ؑکی قبر پر جاؤں اور یہ دیکھوں کہ ہم کس حد تک اپنے عقیده میں سچے ہیں ۔یہ سوچ کر میں نے وضو کیا اور ان کی قبر کی طرف چل نکلا ۔ سیدھا امام ؑکے ضریح کی طرف گیا ۔ دو رکعت نماز ادا کی اور سرھانے کی طرف بیٹھ گیا اور کہا : یہ چھوٹی بچی ہے اور میں آپ کا خادم اور آپ کا پیروکار ہوں اور کیا آپ ویسے ہی ہیں جو ہم کہتے ہیں [تو بچی کو شفا دیں] آپ سے متوسل ہونے کے بعد میں وہاں سے واپس آیا تو بچی کو آپریشن روم سے نکال کر مجھ سے سات دن تک اس کی دیکھ بھال کرنے کا کہا ۔ ساتویں دن ڈاکٹر پٹی بدلنے اور چیک کرنے کے لئے آیا ۔ جب اس نے پٹی کھولی اور چیک کیا تو اس نے کہا: تم نے کیا کیا ؟ میں پریشان ہوا کہ میں نے کیا کیا تھا ۔ اس نے کہا اس کی آنکھوں کی روشنی واپس آئی ہے اور وہ پہلے کی طرح دیکھ سکے گی ۔ جب یہ سنا تو میں روپڑا اور کہا : میں نے اللہ کے دروازوں میں سے ایک دروازے کو کھٹکھٹایا تھا، اللہ نے مجھ پر کرم کیا، یہ سن کر ڈاکٹر نے کہا : آمنت باللہ[59]۔{ڈاکٹر مذهبا عیسائی تھا جناب امام ؑ کے اس معجزه سے متاثر هو کر مسلمان هوگیا }
دوسری فصل : امام کی شخصیت کے اجتماعی پہلو :
ہم اس مرحلے میں امام ؑ کی شخصیت کے ایسے پہلوؤں پر بحث کریں گے جو امام کے اجتماعی زندگی اور اپنے ارد گرد کے سیاسی فقہی اور کلامی ماحول سے مربوط ہے ۔
کلامی اور اعتقادی موقف:
اسلامی دنیا میں حضور ﷺ کے بعد فقہی اور اعتقادی مسائل میں رونما ہونے والے تنازعات اور بعض سیاسی چالوں کی وجہ سے اسلامی دینا میں مختلف فقہی اور کلامی (اعتقادی)مکاتب وجود میں آئے اور خاص کر اعتقادی مسائل میں ,اهلحدیث ، معتزله ، اشاعره ,ماتریدیه جیسے مکاتب نے جنم لیا[60].
امام موسیٰ کاظم ؑ کے دور میں خاص کر اہل حدیث اور معتزلہ والے بعض مسائل میں ایک دوسرے کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے ، انہیں میں سے اللہ کی ذات اور صفات کا مسئلہ اور جبر و اختیار کا مسئلہ تھا ۔
اہل حدیث کا موقف یہ تھا کہ قرآن و حدیث کی ظاہر کو ہی لیا جائےاور ان میں تعقل اور تاویل سے دوری اختیار کی جائے۔ لہذا اہل حدیث اپنی اس روش کی وجہ سے خدا اور اس کی بعض صفات میں تشبیہ کے مرتکب ہوتے تھے، اللہ کو ایک انسان کی شکل دیتے اور اللہ کے لئے ہاتھ ، پیر اور آنکھ وغیرہ ثابت کرتے تھے۔ اسی طرح ظاہری آیات اور روایات سےیہ نتیجہ نکالتے کہ انسان اپنے کاموں میں مجبور ہے، انسان بااختیار مخلوق نہیں ہے ۔
مثلا الله اور الله کی صفات کے باب میں اہل حدیث جس روایت کا زیادہ سہارا لیتے تھے وہ یہ مشہور حدیث ہے۔’’ينزل ربناتبارك وتعالى كل ليلةإلى السماءالدنيا..[61].ترجمه:حضورﷺ نے فرمایا : اللہ ہر رات کی آخری حصے میں دنیا والے آسمان پر اترتا ہے اور پکارتا ہے : کون ہے جو دعا کرے ، تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے ، تاکہ میں اسے عطا کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے استغفا ر کرے ، تاکہ میں اس کی مغفرت کروں ؟۔
ایسے ہی بہت سی رسول اللہ ﷺ سے منسوب احادیث اهل سنت کی معتبر ترین کتابوں میں موجود ہیں، جو اللہ کے لئے ہاتھ ، پیر ، چہرہ وغیرہ ہونے کو ثابت کرتی ہیں ۔ مثلاًقیامت کے دن اللہ جہنم میں اپنا پیر ڈالے گا پھر جہنم کہے گا ۔ بس بس[62]، اللہ نے حضرت آدم کے چہرے کو اپنے چہرہ جیسا خلق کیا ہے[63]۔ اللہ کو اس طرح دیکھ سکتے ہیں جس طرح چودہ ویں کے چاند کو دیکھا جا سکتا ہے[64]۔
لیکن ائمہ اہل بیت ؑ خود کو ہی رسول اللہ ﷺ کا حقیقی جانشین اور وحیانی تعلیمات کا حقیقی وارث اور محافظ سمجھتے تھے لہذا امام موسیٰ کاظم ؑ نے بھی دوسرے ائمہ اہل بیت ؑ کی طرح قرآن و سنت کے حقیقی وارث اور محافظ ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ خالص اسلامی عقیدے اور نظریے کی ترویج کی کوشش کی اور انحرافات کا مقابلہ کیا ۔
اللہ اور اللہ کی صفات میں تشبیہ کے مسئلے پر ائمہ اہل بیت ؑ سخت تنقید کرتے تھے اور اس کو اسلامی تعلیمات میں دوسرے ادیان کے خرافاتی اور بے بنیاد افکار کا رواج قرار دیتے تھے ۔ امام موسیٰ کاظم ؑ نے بھی بقیہ ائمہ اہل بیت ؑ کی طرح ایسے افکار کا مقابلہ کیا اور خالص اسلامی تعلیمات کی ترویج کی عظیم ذمہ داری کو انجام دے کر دین کے محافظ ہونے کے عملی ثبوت دیے ۔امام موسیٰ کاظم ؑ نے واضح طور پر ایسے عقیدے کو رد کرتے ہوئے فرمایا:
خدا نیچے نہیں اترتا ۔ اسے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، اس کی نظر میں دوری اور نزدیکی برابر ہے ..... اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں بلکہ ہر شے اس کی محتاج ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ قادر اور حکیم ہے ۔ جو اس طرح خدا کی توصیف کرتے ہیں کہ اللہ نیچے اتر آتا ہے ، یہ وہ لوگ کہتے ہیں جنہوں نے خدا کو کمی اور زیادتی سے متصف کیا ہے ۔ ہر متحرک محرک کا محتاج ہے تاکہ اسے حرکت دے سکے ۔ ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو ایسی صفات سے متصف مت کرو جو کمی اور زیادتی ، تحریک و تحرک اور منتقل ہونے جیسی صفات میں محدود کر دے ۔ اللہ تعالی اس قسم کی وصف بیان کرنے والوں کی وصف اور گمان سے بالاتر ہے[65]۔
امام موسی کاظم ؑ کے فرزند گرامی امام رضاؑ آپؑ سے اور اپنے اجداد کے توسط سے نقل کرتے ہیں:لعن الله المحرفين للكلم عن مواضعه والله ماقال رسول الله (صلى الله عليه وآله) ذلك انماقال انالله تبارك وتعالى ينزل ملكاإلى سماءالدنياكل ليلة.....حدثنى بذلك ابى عن جدى عن آبائه عن رسول الله صلى الله عليه وعليهم.[66]
یعنی خدا لعنت کرے ان لوگوں پر جو بات کو اس کے اصل معنی سے منحرف کر کے اس میں تحریف کے مرتکب ہوئے ، خدا کی قسم رسول اللہﷺ نے یہ[ آسمان دنیا پر اللہ کا نازل ہونا ] نہیں فرمایا، بلکہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر رات کی آخری تہائی میں اور شب جمعہ کے ابتدائی حصے میں ایک فرشتے کو آسمان سےدنیا پر اتار تا ہے اور اسے حکم دیتا ہے کہ وہ ندا دے کہ کیا کوئی سائل ہے … یہ حدیث میرے بابا نے میرے دادا سے اور انہوں نے اپنے جد کے ذریعے رسول اللہ ﷺ سے نقل کی ہے[67].
اسی قسم کی ایک اور روایت امام رضاؑسے یوں نقل هوئی هے که مخالفین .”فان الله خلق آدم علی صورته [68]“والی روایت سے استدلال کرتے هوئے خدا کے لئے شکل و صورت کے قائل هوئے هیں،امام ؑ نے اس حدیث کو ارشاد فرمانے کی اصلی وجہ بیان کرتے هوئے فرمایا: خدا انهیں غارت کرے انهوں نے روایت کے ابتدائی حصے کو حذف کردیا: مکمل روایت یه هے که حضورﷺ نے دو افراد کو دیکھا جو ایک دوسرے کو گالیاں دے رهے تھے.ان میں سے ایک کهه رها تھا : خدا تیری صورت بگاڑ دے اور اس کی بھی صورت بگا ڑدے جو تیری شبیه هے. رسول الله ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کو اس طرح نه کهو که خدا نےحضرت آدم ؑکو اس کی شبیه خلق کیا هے[69].
امام موسی کاظمؑ نے اللہ کے لئے عرش و کرسی والی باتوں کی صحیح تفسیر میں فرمایا : یہ آیت تمام چھوٹے اور بڑے امور پر اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کنایہ هے.
اس قسم کی روایات بتاتی هیں که اهل بیتؑ کے هاں احادیث اور سنت رسول الله ﷺ کس طرح صحیح و سالم رهی اور دوسرو ں کے هاں ان میں کس طرح رد و بدل اور تحریف هوئی.
مثلا اللہ کی صفات کی طرح عقیدہ جبر کے سلسلے میں آئمہ اہل بیت ؑ نے انحرافات سے مقابلہ کرنے کی بہت زیادہ کوشش کی ۔ عقیدہ جبر کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے، انسان اپنے کاموں میں مجبور ہے اور یہ عقیدہ حکمرانوں کے اقتدار کی بنیادوں کو مضبوط اور ان کی غلطیوں کی توجیہ کرنے کا ایک اہم وسیلہ تھا ،اہل حدیث اپنے اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے بعض آیات اور روایات کا سہارا لیتے تھے ۔ اس سلسلے کی ایک مشہور حدیث رسول اللہﷺ سے یوں نقل ہوئی ہے :عَن أَبِي هُرَيرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الشَّقِيُّ مِنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ،وَالسَّعِيدُ مِنْ سَعِدَفِي بَطْنِ أُمِّهِ۔[70]
ترجمه: بدبخت ماں کی پیٹ سے هی بدبخت پیدا هوتا ہے اور سعادت مند ماں کی پیٹ سے هی سعادت مند پیدا هوتا ہے.
امام موسی کاظمؑ سے مذکورہ حدیث کے بارے میں سوال ہوا : آپ نے فرمایا : شقی وہ انسان ہے کہ جب وہ شکم مادر میں تھا ، اسی وقت سے خدا جانتا تھا کہ وہ اشقیا کے اعمال انجام دے گا اور سعادت مند انسان وہ ہے کہ جب وہ رحم مادر میں تھا ، اسی وقت خدا جانتا تھا کہ وہ باسعادت لوگوں کا کردار اپنائے گا ۔[یعنی کسی کا شقی ہونا اسکے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے اور سعادت مند ہونا بھی اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے ،نہ کسی جبری قانون کا نتیجہ ۔]
امام سے اس حدیث کے بارے میں سوال ہوا : ’’ ہر چیز کو اسی راہ پر لے جایا جائے گا جس کے لئے اسے خلق کیا گیا ہے ‘‘ آپ نے اس کے صحیح معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نے جن و انس کو خلق کیا ہے تاکہ وہ اس کی عبادت کریں ، اس لئے خلق نہیں کیا ہے کہ اس کی نافرمانی کریں ۔لہذا ہر ایک کے لئے اس پر چلنے کا امکان فراہم کردیا ہے جس کے لئے اسے خلق کیا گیا ہے، وائے ہو اس پر جو گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دئے[71][یعنی انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ ہدایت کی راہ پر چلے یا گمراہی کے راستے پر چلے، انسان اپنے کاموں میں مجبور نہیں ہے ۔]
لہذا ائمہ اہل بیت ؑ نے جبر جیسے نظریات کے خلاف علمی جہاد کے ذریعے خالص اسلامی افکار کو معاشرے میں ترویج کرنے کی کوشش کی اور اپنے شاگردوں کے ذریعے انحرافی اور خرافاتی افکار کا مقابلہ کیا۔
امام کا سیاسی طرز عمل :
قرآن و سنت کی تعلیمات اور خلافت کے حقیقی معنی[72] کی بنا پر ائمہ اہل بیت ؑ اپنے زمانے کی حکومتوں کو شرعی حیثیت سے نہیں مانتے تھے ،حکومتوں سے ناخوشی کا اظہار کرتے، اپنے کو ہی امت کا دینی پیشوا اور اسلام و مسلمین کی قیادت کا حقدار سمجھتے تھے۔لیکن وقت کی نزاکتوں کا لحاظ کرتے ہوئے ان حالات میں فکری اور علمی سرگرمیوں ، شاگردوں کی تربیت اور اسلامی تعلیمات کی ترویج کے عمل کو ایسے سیاسی سرگرمیوں پر ترجیح دیتے جن کا نتیجہ خون خرابہ کے بعد کچل جانے کے علاوہ کچھ نہیں نکل سکتا تھا .
دوسرے اماموں کی طرح امام موسی کاظمؑ کی روش بھی یهی تھی ،آپ خود کو هی امام برحق اور رسول اللهﷺ کے حقیقی جانشین سمجھتے ۔لیکن ساتھ هی حاکم نطام کے خلاف مسلحانه قیام کے حق میں نهیں تھے اور اپنے شاگردوں کو اس چیز کی تعلیم دیتے که جو کوئی ان {حاکموں کے زنده رهنے کو پسند کرے، اس کا شمار بھی انهی میں هوگا اور جو ان میں شمار هوگا ، وه جهنم میں جاۓ گا.[73]
جس دور میں امام موسی کاظمؑ زندگی بسر کر رہے تھے وہ عباسی حکمرانوں کے ظلم و استبداد کا ابتدائی دور تھا ، انہوں نے آل رسول ؑ پر بنی امیہ کی ظلم و ستم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت پر قبضہ کیا ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اپنا اقتدار بچانے کے لئے آل رسولؑ کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو اس سے پہلے والے حکمرانوں کی روش تھی۔ظلم و ستم اور مخالفین پر شدید دباؤ کی سیاست پر عمل کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کی ذریت پر عرصہ حیات تنگ کرنے لگے اور خاص کر منصور عباسی کے دور میں بہت سے علوی [جن کا تعلق جناب فاطمہ ؑکی اولاد سے تھا] شہید ہوئے[74]۔
عباسیوں کے سیاسی دباو کا آغاز اس وقت شروع ہوا جس وقت امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق ؑ اپنے بہت سے شاگردوں کی تربیت کر کے مکتب اہل بیت کی علمی اور فکری بنیادوں کو مستحکم کرچکے تھے ، لوگ ائمہ اور ان کے شاگردوں کی طرف متوجہ ہورہے تھے۔لیکن بنی عباس کے حکّام ائمہ اہل بیت ؑکے دینی اور علمی مقام اور لوگوں کی توجہ کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ سمجھتے تھے ۔لہذا مختلف حیلوں کے ذریعے امام ؑکی علمی اور فکری سرگرمیوں کو روکنے اور لوگوں کی توجہ ان سے ہٹا نے کی کوشش کرتے رہے .
جیساکہ مختلف فقہی اور اعتقادی مکاتب مختلف ادوار میں عروج و زوال کا شکار رہے،خاص کر اہل بیتؑ کے مقابلے میں دوسرے مکاتب فکر کی حمایت کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہامثلاً فقه حنفی کو مهدی، هادی اور هارونالرشید کے دور حکومت میں حکومتی حمایت حاصل رہی اور دینی امور کی بھاگ دوڑ حنفی علما کے ہاتھ میں رہی ، جبکہ امام موسی کاظمؑ حکومت کے غیض و غضب کا شکار ہو کر زندان کی سلاخوں میں اپنے عزیزوں کے دیدار کو ترستے رہے اور شہید ہوئے ۔ اسی طرح ان کے والد گرامی امام جعفر صادق ؑ اور ان کے والد گرامی امام محمد باقرؑ حکمرانوں کی طرف سے سیاسی دباؤ اور بے توجہی کا شکار رہے۔ لیکن امام مالک کو حکومتی مفتی کے طور پر تسلیم کیا گیا ، یہاں تک کہ ائمہ اہل بیتؑ کی تعلیمات سے توجہ ہٹانے کے لئے امام مالک سے کہا گیا کہ وہ حدیث کی کتاب کوئی تحریر کرے اور اسی کے نتیجے میں امام مالک نے موطا نامی کتاب لکھی۔
حکمرانوں کا ائمہ اہل بیت ؑ کے ساتھ یہ رویہ حقیقت میں ائمہ اہل بیت ؑ کے علمی ، فکری اور دینی خدمات کے خلاف جنگ تھی جس کے نتیجه میں هی بهت سے لوگ خاندان نبوت کی تعلیمات سے محروم هوگئےکیونکه حکمرانوں کی اهل بیتؑ مخالف سیاست کی وجه سے مسلمانوں کی اهم ترین کتابوں میں آل رسولؑ کی تعلیمات کو اهمیت نهیں دی گئی اور بعد میں یهی کتابیں مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک قرآن مجید کے بعد اسلامی تعلیمات کے معتبر ترین سرچشمه کی حیثیت اختیار کر گئی،جبکه یه کتابیں اهل بیتؑ کی تعلیمات اور ان کے توسط سے نقل شده احادیث سے خالی هیں اور یه عجیب المیه ہے کیونکه ایک طرف سے امیر المئومنینؑ اور باقی ائمهؑ دین شناسی میں اپنےدور میں سب سے ماهر تھے، دوسری طرف رسول اللهﷺ نے انهیں اسلامی تعلیمات کے محافظ اور عظیم سرچشمه کے طور پر متعارف کرا کے ان کی اطاعت کی صورت میں گمراهی سے نجات کی ضمانت دی تھی۔ لیکن حضور پاک ﷺ کے بعد ان کی آلؑ کے سلسلے میں غلط سیاست کے نتیجه میں اسلامی تعلیمات کے اصلی سرچشمه سے امت دور هوتی گئ اور یه سلسله اب بھی جاری هے.
امام موسیٰ کاظمؑ اپنے والد کی شہادت کے بعد سخت ترین سیاسی دباؤ کا سامنا کرتے رہے ۔تاریخ میں امام موسیٰ کاظمؑ اور عباسی حاکموں کے درمیان کش مکش کے بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں،جس کی واضح دلیل آپ کو مدینے سے بغداد منتقل کرنا اور کئی مرتبہ زندان میں ڈالنا اور آپ کے بابرکت زندگی کے چراغ کا انہیں حاکموں کے زندانوں میں خاتمہ ہونا ہے ۔جو حقیقت میں آپ کا اپنے دور کے حاکموں کے بارے میں موقف اور حاکموں کا اہل بیت ؑ کے بارے میں رویہ کو سامنے لانے کے لئے کافی ہے .
عظمت سادات کے دفاع میں امام موسی کاظمؑ کا کردار :
رسول اللہﷺ نے اهل بیتؑ کےحقوق ، ان کی شان و مقام اور ان کی نسبت سے امت کی ذمه داریاں بیان فرمایا اور اپنی ذریت کاپاس رکھنے، ان سے محبت اور ان کی پیروی کا حکم دیا ۔لیکن حضور ﷺ کے بعد آپ کی آل کے ساتھ وہ رویہ نہیں اپنایا گیا جسکا آپ نے امت سے تقاضا کیا تھا. تاریخ کا مطالعہ رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں کہ خاص کر بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں اس پاکیزہ خاندان سے محبت اور ان کی پیروی جرم قرار پایا.ان سے اظہار عقیدت کرنے والے بهت سے لوگوں کو قتل کیے گئے .
هم ذیل میں قرآن و سنت میں موجود اهل بیتؑ کے چندمسلم حقوق اور ان کی نسبت سے امت کی دینی ذمه داریوں کی طرف اشاره اور ان حقوق اور ذمه داریوں سے دفاع کے سلسلے میں امام موسی کاظمؑ کی کوششوں کے چند نمونوں کی طرف یهاں اشاره کرتے هیں.
الف : فرزند رسولﷺ ہونے کی حیثیت کا انکار: خاص کر امام حسنؑ و امام حسینؑ کو ذریت اور فرزند رسولﷺ سے قرار دینا خود قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق هے.جیساکه حضورﷺ نے بارها اس کو بیان فرمایا: یه میرے اور میری بیٹی کے بیٹے هیں[75]. الله نے هر نبی کی ذریت اس کی پشت سے پیدا کی اور میری ذریت کو علی ابن ابی طالب ؑ کی پشت سے پیدا فرمایا[76].جب آیت مباهله نازل هوئی تو آنحضرت ﷺ حسنین ؑ کو بیٹے کے طور پر میدان مباهله لے گئے.
لیکن بعض کو یه نسبت پسند نه آئی.اہل بیتؑ کے مقام کو گرانے کی خاطر خاص کر امام حسن ؑو امام حسینؑ کو فرزند رسول کی حیثیت سے قبول کرنے کی سختی سے مخالفت کی گئی[77] بنی امیہ کے دور میں یہ کوشش پوری شدت کےساتھ جاری رہی . یهاں تک کی امام حسین ؑ کو ایک باغی اور خلیفه کے دشمن کا عنوان دے کر انهیں شهید اور حضور ﷺ کی نواسیوں کو اسیر بنا کر بازاروں اور درباروں میں پھرایا گیااور یه کام در حقیقت قرآن و سنت کے واضح دستور سے سر پیچی اورحضورﷺکے علوم کے ان وارثوں اور دینی پیشوادں کے خلاف بنی امیه کی محاذ آرائی کانتیجه تھا.یهی وجه هے که امام حسین ؑ اور ان کے یار و انصار کی شهادت اور اسیران کربلا کی عظیم قربانی نے بنی امیه کی اس شیطانی سیاست کو خاک میں ملائی اور خاص کر اسیران کربلا بنی امیه کے حکمرانوں کے چهرے سے نقاب هٹا کر دشمنان اهل بیت ؑ کے مرکز شام میں اهل بیت ؑ کے فضائل بیان کر کے لوگوں کو یه بتانے میں کامیاب هوئے که جن هستیوں کے خلاف بنی امیه والے اسلام دشمنی کی نسبت دے رهے تھے وه حقیقت میں دین کے محافظ اور رسو ل اللهﷺ کے فرزند اور نواسے اور نواسیاں هیں اور جو لوگ اهل بیت رسولؑ سے دشمنی کی سیاست پر عمل پیرا هیں وهی حقیقت میں دین کے دشمن هیں.
اهل بیت ؑ کے مقام و منزلت سے مقابله کا سلسله بنی امیه کے بعد بھی جاری رها. لوگ کیونکہ علویوں[78]کو اولاد رسول اللہؑ کی حیثیت سے دیکھتے تھے اور محبان اهل بیت کے دلوں میں جو محبت علویوں کو حاصل تھی بنی عباس اس سے محروم تھے ، حیساکه بیان هوا اس کی بنیادی وجه خود نبی کریمﷺ کا اولاد جناب فاطمهؑ کے ساتھ برتاؤ تھا . لوگ صرف آل علیؑ کو هی باقی بچ جانے والی نسل پیغمبر سمجھتے تھے اور واقعه کربلا کے بعد اهل بیتؑ کی مظلومیت نے لوگوں کے درمیان ان کی سماجی حیثیت کو حیرت انگیز طور پر بلند کیا تھا. آل رسول ؑ کو حاصل اس غیر معمولی اهمیت، احترام اور اثر و رسوخ سے حکمران وحشت زده تھے۔ لہذا بنی عباس نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی بنی امیہ کی طرح علویوں کو اپنا سیاسی رقیب قرار دے کر ان کی اس حیثیت کا انکار کرنے کی کوششوں کو تیز کر دیا ۔ خاص کر امام حسنؑ اور امام حسین ؑکو فرزند رسولﷺ کهنا بنی عباس پر اس لئے بھی گراں گزرتی کیونکه وه لوگ رسول اللهﷺ کے چچا کی اولاد تھے اور اسی کو اپنی خلافت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے ۔ اسی لئے کوشش کرتے که حسنین ؑ اور ان کی اولاد {علویوں } کو حضور پاکﷺ کی اولاد کهنے کے بجائے حضرت علیؑ کی اولاد کها جائے.جیساکہ ہارون الرشید کا اہل بیت ؑ کے ساتھ رویہ اس بات پر شاہد ہے ۔ ہارون الرشید حج کے لئے گیا اور مدینہ میں امام موسی کاظمؑ کی موجود گی میں اپنے ارد گرد لوگوں پر فخر کرنے کی خاطر رسول اللہﷺ کے قبر اطہر کی طرف رخ کر کے یوں سلام کیا :السلام عليك يارسول الله ياابن عم،سلام ہو آپ پر اے رسول اللہ ﷺ، اے چچا کے بیٹے ۔ امام موسیٰ کاظم ؑ اس کے مقصد کو سمجھ گئے۔ آپ آگے بڑھے اور رسول اللہﷺ کے روضہ کی طرف رخ کر کے فرمایا :السلام عليك ياأبت۔ سلام ہو آپ پر اے بابا۔ یہ سن کر ہارون کا چہرہ فق ہوگیا اور امام سے مخاطب ہو کر کہا ۔ اے ابوالحسن یہ واقعاً باعث افتخار ہے۔[79] امام کا یہ عمل ہارون کے خلاف ایک سیاسی اقدام تھا ،اس کے بعد ہی اس نے آپ کے گرفتاری کا حکم دیا[80] ۔
ایک دفعہ ہارون نے امام سے سوال کیا : آپ کیسے کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ذریت میں سے ہیں حالانکہ نبی کا کوئی بیٹا نہیں تھا اور آپ لوگ ان کی بیٹی کی اولاد ہیں ؟ امام نے اس کے سامنے دو دلیلیں پیش کیں ، پہلی سورہ انعام کی آیت 85 ،جو حضرت عیسیؑ کو حضرت ابراہیم ؑ کا بیٹا قرار دیتی ہے[کیونکہ حضرت عیسیؑ کا باپ نہیں ہے آپ کی ماں جناب مریمؑ کی وجہ سے آپ کو جناب ابراہیمؑ کے اولاد میں سے قرار دیا گیا اور دوسری آیت مباہلہ ہے کہ جس میں حسنینؑ کو {أَبْنَاءَنَا}[آلعمران: 61]’’ہمارے بیٹے‘‘کا مصداق قرار دیا[81].اس میں حضور ﷺ نے نصاریٰ سے مباہلہ کرنے کے لئے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو میدان میں لے گیا۔ لہذا خود قرآن اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنا بیٹا کہا ہے ۔
اسی سلسلے میں امام موسی کاظمؑ نے ایک دفعہ ہارون الرشید کو یوں جواب دیا : رسول اللہﷺ زندہ ہو جائیں اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگیں تو کیا تم انہیں رشتہ دو گے ؟هارون الرشيد نے کہا: اس رشتہ پر تو میں عرب و عجم میں سب پر فخر کروں گا ۔امام نے فرمایا : ہم ایسا نہیں کر سکتے ،نہ آپ ﷺ ہم سے ایسا رشتہ مانگیں گے نہ میں اپنی بیٹی کا انہیں رشتہ دوں گا ، کیونکہ ہم ان کی نسل سے ہیں اور تم ان کی نسل سے نہیں[82]۔
ب : فدک کا مسئله : فدک اهل بیتؑ کےان اهم حقوق میں سےهے جو رسول اللهﷺ کی رحلت کے بعد خاندان نبوت اور خلفا کے درمیان سخت مورد نزاع رہا ۔ جیساکه آل رسول ؑ کے مقام اور حقوق سے دفاع کے سلسلے میں امام موسی کاظمؑ اور اپنے زمانے کے حکّام کے درمیان کشمکش کے بہت سے واقعات تاریخ نے نقل کیا ہے ۔اس سلسلے کا ایک اہم واقعہ مسئله فدک کے سلسلے میں امام اور خلیفه مہدی عباسی کے درمیان یوں پیش آیا کہ ایک دفعہ امام نے دیکھا کہ وہ رد مظالم[ ظلم کر کے لیے گئے مال کو واپس کرنا ] کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا: ہم سے لیا گیا مال کیوں ہمیں واپس نہیں کرتے ؟ اس نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ امام نے اس کے سامنے فدک کے قصے کو دہرایا کہ یہ بغیر کسی جنگ کے ملا تھا لہذا خالصتا رسول اللہ ﷺ کی ملکیت تھی[83]، جسے آپ نے اپنی بیٹی کو عطا کردیا تھا[84] اور جناب فاطمہ ؑ بھی فدک کے بارے میں یہی کہہ رہی تھی کہ اسے رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں ہی مجھے دیا ہے[85] اور امام علیؑ ، امام حسنؑ ، امام حسینؑ اور جناب ام ایمن نے اس کی گواہی دی[86]۔جناب ابوبکر فدک ،حضرت فاطمہ ؑ کو واپس لوٹانے پر تیار ہوگئے تھے لیکن خلیفہ دوم نے ایسا ہونے نہیں دیا[87]۔مہدی عباسی نے امام کی باتیں سن کر امام سے اس کے حدود واضح کر نے کے لئے کہا ۔ امام نے فدک کے حدود بیان فرمایا ،تو خلیفہ بولا : یہ تو بہت زیادہ ہے ، میں اس بارے میں سوچوں گا[88]۔ جیساکہ بعض نقلوں کے مطابق ہارون رشید نے بھی ایک دفعہ امام سے کہا کہ آپ مجھ سے فدک لے لیں تو امام نے فرمایا کہ میں اگر لوں تو اس کو اپنی تمام حدوں کے ساتھ لوں گا، ہارون الرشید نے کہا : اس کی کیا حد ہے تو اس وقت بھی آپ نےجب فدک کی حد بیان کیا تو اس سے ہارون کے چہرے کا رنگ بدل گیا کیونکہ آپ نے اس کی حکومت کے تمام سرحدوں کو فدک کے حدود کے طور پر معین فرمایا تھا[89] ۔ امام در واقع یہ بتانا چاہتے تھے کہ حکومت ہمارا حق ہے اور یہ ہم سے غصب کیا ہوا ہے اور فدک کا ہم سے چھن جانا سیاسی مسئلہ تھا ۔ جیساکہ امیر المومنین ؑ نے بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ فرمایا [90]۔
ج: خمس کا مسئله :رسول اللہ ﷺ کی ذریت کے ساتھ روا ر کھنے والے کاموں میں سے ایک انہیں خمس سے محروم کرنا ہے ،جبکہ اللہ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں اس کو آل رسول ؑ کے لئے قرار دیا ہے[91] اور سنت سے بھی یہی ثابت ہے [92]۔جیساکہ جناب فاطمہ زہرا ؑ نے جن چیزوں کا رسول اللہﷺ کے بعد خلیفہ اول سے مطالبہ کیا ان میں سے ایک یہی حق تھا اور جب خلیفہ نے دینے سے انکار کیا تو آپ ناراض ہوئیں اور مرنے تک خلیفہ سے بات نہیں کی[93] ۔
جیساکہ مکتب اہل بیت ؑ کے پیروکار خمس ائمہ اہل بیت ؑ میں سے اپنے وقت کے امام یا ان کے وکیلوں تک پہنچانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور یہ آج بھی ان میں یہ رائج ہے مثلاًخمس کے موارد میں سے ایک سالانہ اخراجات سے بچ جانے کی صورت میں مال کےپانچویں حصے کو خمس کے نام سے جدا کرنا ہے اور اس کا ایک حصہ سہم سادات اور ایک حصہ سہم امام کے نام سے ہوتا ہے ،سہم امام غیر سادات غریب و غربا وغیرہ کے لئے ہے اور سہم سادات آل رسولؑ سے تعلق رکھنے والے غریب اور محتاج لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ لیکن اہل تشیع کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی اور گروہ سادات کے اس قرآن و سنت میں ثابت حق کو ادا نہیں کرتے اور یہ حقیقت میں اسی سیاست کا نتیجہ ہے جو شروع میں اہل بیت ؑ کی مخالفت میں رائج تھی اور اس سے آج بھی مسلمانوں کی اکثریت متائثر ہے۔
ائمہ اہل بیت ؑ اپنے دوسرے حقوق کی طرح اس حق کے بھی دفاع کرتے رہے۔.ایک دفعہ ہارون نے امام کاظمؑ سے کہا تم لوگ یہ کہتے ہو کہ خمس تمہارا حق ہے؟ آپ نے فرمایا : یہ ہمارا حق ہے ، ہارون نے کہا : یہ تو آپ لوگوں کے لئے زیادہ ہے تو آپ نے جواب دیا : یہ تو وہ جانتا تھا جس نے یہ ہمارے لئے قرار دیا ہے [94]۔جیساکہ امام موسی کاظمؑ سے نقل ہوا ہے :اللہ نے ان کے لئے ہی خمس کو قرار دیا ہے اور یہ صدقات کے مقابلے میں ہے [ جو سادات پر حرام ہے ]... تاکہ آلرسولؑ اس کے ذریعے بے نیاز ہو اور ذلیل و رسوا ہونے سے بچ سکے[95].
لہذا امام موسیٰ کاظم ؑ نے بھی دوسرے ائمہ اہل بیت ؑ کی طرح جتنا ممکن تھا ، اہل بیت مخالف سیاست کا مقابلہ کیا اور قرآن و سنت کی روشنی میں آل رسولؑ کی عظمت اور حقوق سے دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
د: خلافت اور امامت اهل بیت سے دفاع :
اس میں شک نهیں که کسی اہم پوسٹ کا مالک چلا جائے تو اس کا جانشین کہلانے کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو اس کی ذمہ داریوں کو نبھانے کا اہل ہو اور یہ تب ممکن هے کہ جب جانشین اپنے سے پہلے والے شخص جیسی خصوصات کا مالک ہو یا کم از کم دوسروں کی نسبت سے ان خصوصیات میں اس کے ساتھ زیادہ نزدیک ہو جس کا یہ جانشین بن رہا ہے ۔ رسول اللہ ؐ ہر چیز سے پہلے دین کے ہادی اور پیشوا تھے۔دین کی حفاظت اور نشر و اشاعت ، سب سے زیادہ دین کی معرفت رکھنا ،آنحضرتؐ کی بنیادی خصوصیات اور ذمہ داریوں میں سے تھا .لہذا پیغمبر کا جانشین وہی ہوسکتا ہے جو آنحضرتؐ کے بعد اسلامی معاشرے کی ہدایت اور رہبری، معارف دین کی تفسیر اور تبیین کا ذمہ دار اور اس عہدے کی اہلیت رکھتا ہو ، خواہ حکومت اس کے ہاتھ میں ہو یا نہ ہو وہ رسول پاکؑ کا حقیقی جانشین کہلائے گا . اسی منطق اور اصول کے مطابق ائمه اهل بیتؑ هی رسول اللهﷺ کے حقیقی جانشین هیں اور آنحضرتﷺ نے بھی انہیں اپنا جانشین قرار دے کر ان کی اطاعت اور پیروی کا حکم دیا ۔ جیساکہ آپ نے فرمایا : إني قد تركت فيكم الخليفتين كتاب الله وعترتي وإنهما لن يتفرقا[96]فانظرواكيف تخلفوني فیهما[97]۔ترجمہ : میں تمہارے درمیان دو جانشین چھوڑے جارہا ہوں ، اللہ کی کتاب اور میری عترت اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ۔ دیکھنا تم لوگ ان کے بارے میں میری وصیت کی کس طرح پاسداری کروگے ۔
لیکن حضورﷺ کی وفات کے بعد جو واقعات پیش ائے که جنکی وجه سے نه صرف انهیں دینی پیشوا تسلیم کر کے دینی تعلیمات کو ان سے حاصل کرنے کی کوشش نهیں کی گئی بلکه برعکس انهیں اپنا تابع بنانے کی کوشش کی گئی .
امام موسی کاظمؑ نےبھی دوسرے اماموں کی طرح اهل بیتؑ کے اس مقام سے دفاع کیا اور مناسب طریقے سے لوگوں کو یه بتاتے رهے که الله اور الله کے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق لوگوں کو چاهے که وه هماری اطاعت کریں. اس سلسلے میں امامؑ کے بعض فرامین یه هیں: إنَّ الاْ رْضَ لا تَخُلُو مِنْ حُجَّةٍ، وَ انَا وَاللّهِ ذلِكَ الْحُجَّةُ..[98] ترجمه، زمین کسی وقت اللہ کی حجت سے خالی نہیں ہے اور میں اللہ کی قسم، اللہ کی حجت ہوں ۔
إ نَّما امِرْتُمْ انْ تَسْئَلُوا، وَلَيْسَ عَلَيْنَاالْجَوابُ، إنَّما ذلِكَ إلَيْنا.[99] ترجمه، تم لوگوں کو یہ حکم ہے کہ ہم سے پوچھے، لیکن ہم پر جواب دینا ضروری نہیں ہے یہ ہماری مرضی کے مطابق ہے( اگر مصلحت ہو تو جواب دیتے ہیں ورنہ خاموش رہتے ہیں.)
یونس نے عرض کیا:مولا لوگ ہمیں [ آپ لوگوں کی پیروی اور دوسروں سے دوری کی وجہ سے ] بے دین اور زندیق کہتے ہیں، آپ نے فرمایا : لوگوں کی باتوں پر توجہ نہ دو تمہارے ہاتھ میں جواہرات [سونا وغیرہ ] ہو اور لوگ کہیں یہ کنکریاں ہیں یا تمہارے ہاتھ میں کنکریاں ہو اور لوگ کہے یہ جواہرات ہیں تو اس طرح کہنے سے تمہیں کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوگا[100]۔
امام کے اس نورانی کلام کا معنی یہ ہے کہ جب قرآن و سنت کے مطابق ہماری پیروی حق اور ہم سے دور رہنا حق سے دوری ہے تو جہالت یا تعصب کی وجہ سے لوگ تمہیں کافر اور مشرک کہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ اس قسم کی سوچ رکھنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیسے اہل بیتؑ کے پیروکار اور ان کے علوم کے وارثوں کو گمراہ اور کافر اور خود کو ہی ہدایت یافتہ کہتے ہیں ؟ کیوں رسول اللہﷺ کے علوم تک پہنچنے کے اصلی اور قابل اعتماد ترین دروازے سے دینی تعلیمات حاصل کر کے آل رسولؑ کے مذہب و مرام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بجائے ان کی تعلیمات کے محافظ اور وارثوں کو ہی گمراہ اور جاہل کہنے پر کمر بستہ ہے ؟
اپنے پیرو اور چاهنے والوں کی حفاظت کا بندو بست:
اپنے طرفداروں کی حفاظت کے لئے سارے ائمه اهل بیتؑ زمانے کی نزاکتوں کے ساتھ اس سلسلے میں مناسب انتظام کرتے رهے .ائمه اهل بیتؑ کو رسول الله ﷺ کے حقیقی جانشین سمجھ کر ان کی تعلیمات کو نشر کرنے والوں کو بد خواهوں کی گزند سے محفوظ رکھنے کے لئے ائمه اهل بیتؑ مختلف طریقے اپناتے.کیونکه اهل بیت ؑ کی اطاعت واجب هونے کا عقیده هر دور میں حاکموں کے لئے خوف و حراس کا باعث بنا رها.اسی وجه سے ائمه اهل بیتؑ کے مخالف حکمرانوں نے همیشه هر ممکن طریقے سے اس قسم کے عقیده رکھنے والوں کو دبانے کی هر ممکن کوشش کی. ائمه ؑ کی طرف سے اپنے چاهنے والوں کی حفاظت کےسلسلے کا ایک اهم طریقه خاص کر اهل بیت ؑ کے بارے اپنے عقیدے کو مخالفین سے چھپانے کا دستور تھا تاکه اهل بیتؑ کی دینی پیشوائی اور ان کی اطاعت واجب هونے کی فکر کو جرم قرار دینے والے حاکموں کے خون آشام درندوں سے اهل بیتؑ کے پیروکاوں کی جانیں محفوظ ره سکے. اور اسی عمل کو مکتب اهل بیتؑ میں تقیه سے تعبیر کی جاتی هے[101] اور جب اس عمل کی وجه سے مخالفین اهل بیت ؑ کے چاهنے والوں پر کاری ضرب لگانے سے عاجز هوئے تو اس تقیه کے عمل کو منافقت سے تعبیر کر کے ان کے خلاف الزام تراشی کا سلسله شروع کیا اور یه اب بھی جاری هے.
امام موسی کاظم ؑ کے دور میں بھی آل رسولؑ کی اطاعت کو واجب سمجھنے والوں اور ان کے شاگردوں کے ساتھ حاکموں کا رویه انتهائی سخت تھا۔ امام موسی کاظمؑ کا ایک پیرو اور محب علی بن یقطین هارون الرشید کے دربار میں کافی اثر و رسوخ کا مالک تھا اور امام ؑ نے اس تاکید کے ساتھ انهیں دربار میں رهنے کی اجازت دی تھی که وه حاکموں کے ظلم سے اهل بیتؑ کے چاهنے والوں کی حفاظت کرے اور ان مظلوموں کی هر ممکن مدد کرے.یهاں تک که ایک دفعه اس نے امام سے دربار چھوڑنے کی اجازت مانکی تو امام نے فرمایا: ایسا نه کرنا کیونکه هم تمهارے وهاں هونے سے مطمئن هیں تم اپنے بھائیوں کے لئے باعث عزت هو اور شاید تمهارے وسیلے سے اپنے دوستوں میں سے کسی کی شکست کی تلافی کرے اور ان کے خلاف مخالفین کی سازشوں کو نقش برآب کردے. اےعلی !اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرنا تمهارے گناهوں کا کفاره هے[102].
دوسری جگه آپؑ نے فرمایا: اے علی! ظالموں کے دوستوں کی صفوں میں الله کے بھی ایسے دوست هیں جن کے ذریعے سے وه اپنے دوستوں کو شر سے محفوظ رکھتا هے اور اے علی! تم ان میں سے هو[103].لهذا ایک طرف امامؑ اپنے چاهنے والوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کوشش کرتے رهے. دوسری طرف آپؑ انهیں انتهائی راز داری سے کام لینے کی سفارش بھی کرتے تھے یهی وجه هے که جب دربار میں بعض نے علی بن یقطین کے خلاف هارون کا کان بھرااور خلیفه سے کها گیا که وه همارے طریقے کے خلاف هے اور علی بن موسیؑ کی اتباع کرتا هے. تو اس سے پهلے که خلیفه کو پته چلے امام ؑ نے انهیں تقیہ سے کام لے کر دوسروں کی طرح وضو کرنے کا حکم دیا۔ جب خطره ٹل گیا تو امام نے انهیں دوباره اهل بیتؑ کے طریقے کے مطابق وضو کرنے کا حکم دیا[104].
امام کا یه طرز عمل حقیقت میں اهل بیتؑ کی پیروی کرنے والوں، اپنے شاگردوں اور خاص اصحاب کی حفاظت کے ذریعےخالص اسلامی تعلیمات نشر کرنے کی کوششوں کا وه تسلسل تھا که جس کی خاطر ائمه اهل بیتؑ نے بے پناه قربانیاں پیش کی اور دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ کے اس عظیم الهی فریضے پر عمل پیرا هو ئے جو رسول اللهﷺ کے حقیقی جانشین اور ان کے بعد لوگوں کے دینی پیشوا هونے کی وجه سے آپ حضراتؑ کی ذمے تھے .لیکن حکومت اور اقتدار کے حریص حکمرانوں کو یه بھی ناگوار گزری اور ذریت رسولؑ کے ان روشن چراغوں کو خاموش کرنے کی غیر انسانی طرز عمل کے ذریعے قافله انسانیت کے قافله سالاروں سے انسانوں کو محروم کرتے رهے.
آل رسول کا یہ روشن ستارا کیسے غروب ہوا :
ائمہ اہل بیتؑ میں امام موسی کاظمؑ وہ مظلوم امام ہیں جنہوں نے زندگی کی ایک طویل مدت{بعض کے مطابق ۱۷ سال} زندانوں میں بسر کی اور عباسی حکمران مختلف بہانوں سے آپ کو زندان میں ڈالتے تھے اور کئ بار آپ معجزانہ طور پر ان کے زندان سے رہا ہوئے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل واقعات قابل ذکر ہیں .
جب آپؑ کو ہادی عباسی کے عزائم کا پتہ چلا اور آپؑ کی جان کا خطرہ لاحق ہوا تو آپؑ نے اس کے حق میں نفرین فرمائی اور ایک مفصل دعا، دعای جوشن صغیر امام نے پڑھی اور آپ نے اس کی خبر بھی دی کہ وہ مجھے کوئی گزند پہنچانے سے پہلے ہی مرجائے گا اور ایسا ہی ہوا کہ ہادی اپنے مقصد میں کامیاب ہونے سے پہلے ہی مر گیا اور یوں امام اس کے گزند سے محفوظ رہے[105]۔
مہدی عباسی کے دور میں امام پر الزام لگا کر آپ کو زندان میں ڈال دیا کیونکہ آپ کی علمی سرگرمیوں اور بخششوں نے اسے وحشت زدہ کر دیا تھا اس نے امام کو گرفتار کر کے بغداد میں زندانی بنا دیا ،لیکن ایک رات اس نے امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرمارہے تھے:{ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کروگے اور قرابتداروں سے قطع تعلق کر لو گے ۔ سورہ محمد ۔آیت 22} اس وقت وہ نیند سے سے اٹھا اور امام سے اپنے خلاف قیام نہ کرنے کا وعدہ لے کر انہیں آزاد کردیا[106] ۔
ایسا ہی واقعہ ہارون کے دور میں بھی پیش آیا، عبد اللہ بن مالک کہتا ہے کہ ہارون الرشید نے رات پریشانی کے عالم میں مجھے بلایا اور کہا : میں نے نیند میں ایک حبشی کو دیکھا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر موسیٰ کاظمؑ کو آزاد نہ کیا گیا تو تمہیں نہیں چھوڑوں گا[107] اسی وجہ سے اس نے امام کو آزاد کردیا .امام اس رہائی کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کہ میں نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرمارہے تھے اے موسیٰ : آپ کو مظلومی کی حالت میں زندان میں رکھا ہوا ہے اس کے بعد ایک دعا تعلیم دی اور فرمایا اگر اسے پڑھے تو آج رات ہی آزاد ہوجاوگے اور وہ دعا یہ ہے :يا سامع كل صوت، ويا سابق الفوْت، ويا كاسي العظام لحماً ومنشرها بعد الموت أسألك بأسمائك الحسنى وبإسمك الأعظم الأكبر المخزون المكنون الذي لم يطلع عليه أحد من المخلوقين، يا حليماً ذا أناة لا يُقْوي على أناته ياذا المعروف الذي لا ينقطع أبداً، ولا يُحْصَى عمداً، فرج عني، فكان ما ترى۔۔۔۔[108]
آخری دفعہ ہارون الرشید 179 ھ میں حجاز گیا اور مدینہ جاکر امام کاظمؑ پر امت میں خون خرابے کا الزام لگایا اور رسول اللہﷺ کے روضے مبارک سے مخاطب ہو کر کہا : یا رسول اللہﷺ جو کام میں کرنا چاہتا ہوں اس پر میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں،میں موسیٰ بن جعفر کو گرفتار کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وہ امت میں اختلاف اور خون خرابہ کرنا چاہتا ہے.ہارون نے بعض نقلوں کے مطابق مسجد نبوی میں ہی امام ؑ کی گرفتاری کا حکم جاری کیااور دو قافلے تیار کروا کر ایک کو کوفہ اور ایک کو بصرہ کی طرف روانہ کیا تاکہ لوگوں کو امام کے قید خانے کی خبر نہ ہو ۔ بغیر کسی دلیل کے آپ پر تہمت لگا کر آپ کو قیدی بنا نا جہاں امام کے لوگوں میں مقبولیت کی دلیل ہے وہاں عباسی حکمرانوں کی تمام تر قدرت کے باوجود امام کے مقابلے میں فکری اور سیاسی میدان میں کمزوری کی دلیل بھی ہے۔اسی لئے تہمت اور بے جرم قیدی بنانے کے عمل کے ذریعے استبداد اور شدت پسندی کی سیاست کو اخلاقی اور دینی اصولوں پر مقدم رکھی گئ ۔
امام ؑ کو ہارون کے حکم سے بصرہ میں عیسی بن جعفر کے پاس زندانی بنایا ,جب وہ امام کے خلاف کسی قسم کی شاہد تلاش کرنے سے عاجز ہوا اور امام کی عبادت اور اللہ سے راز ونیاز کی کیفت دیکھ کر یہ احساس کرنے لگا کہ کہیں ان کی بدعا کی زد میں نہ آئے ، اس نے ایک سال کے بعد ہارون رشید کو خط لکھا کہ اگر انہیں کسی اور کے حوالےنہ کیا جائے تو میں انہیں آزاد کردونگا.اس کے بعد امام کوبغداد میں فضل بن ربيع کے پاس ایک طویل مدت زندان میں رکھا لیکن وہ بھی امام کو شہید کرنے کے ہارون کی خواہش کو عملی جامعہ پہنانے کی جرات نہ کرسکا۔ پھر امام کو فضل بن یحیٰ کے پاس زندان میں رکھااور جب ہارون الرشید نے سنا کہ فضل بھی امام سے متائثر ہو کر ان کا احترام کرنے لگا ہے تو اس نے علی الاعلان اس پر لعنت کی اور اس کو سو کوڑے لگوائے[109]۔
امام کو آخر کار سندي بن شاهك کے حوالے کیا اور آپ اسی شقی کے زندان میں شہید ہوئے.کیونکہ آپ کی شہادت مخفی طور پر ہوئی ۔ لہذا اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ کو کس طرف شہید کیا گیا ۔بعض اس کو زہر کا اثر قرار دیتے ہیں بعض قالین میں لپیٹ کر دبانے اور بعض پگھلا ہوا سیسہ آپ کے حلق میں ڈالنے کا اثر کہتے ہیں[110]اور یوں سُلالہ زہرا ؑ کا یہ چراغ بھی انہیں حاکموں کے زندانوں میں گل ہوا[111]۔فاطمہ زہرا ؑ کے لال اپنے عزیزوں سے دور غربت کے عالم میں ظالموں کے زندان میں شہید ہوئے۔آپ کے بچے اور عقیدت مند آپ سے ملاقات کے لئے ترستے رہے اور آپ بھی اپنے بچوں کے دیدار کی آرزو میں آہیں بھرتے رہے اور یوں ان ظالموں نے انسانیت کے قافلے کو ایک ایسے الہٰی رہبر کے وجود سے محروم کر دیا کہ جن کی اطاعت اور پیروی کو رسول اللہﷺ نے باعث نجات قرار دیا تھا ۔
جرم چھپانے کی ناکام کوشش :
ہارون رشید کے زندان میں ہی آپ کی بابرکت زندگی کا خاتمہ ہوا لیکن خاندان نبوت کے ساتھ کیے اس ظلم کو چھپانے اور یہ بتانے کے لئے کہ امام طبی موت دنیا سے گئے ہیں، بعض اپنے ہم خیال علماء اور دوسرے لوگوں کو بلایا اور ان سے یہ گواہی لی کہ امام کے جسم پر کسی قسم کے شکنجے کی نشانی وغیرہ نہیں ہے اور آپ کے جسد مبارک کو بغداد کے پل پر رکھ کر یہ کہا گیا کہ یہ رافضوں[ شیعوں ] کے امام ہیں جو دنیا سے طبی موت مرے ہیں اور بعد میں یہ شور مچایا کہ شیعہ کیونکہ آپ کے مہدویت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کی موت کو نہیں مانتے، اس لئے ان کے جنازے کو بغداد کے پل پر رکھا گیا ، جبکہ یہ ان پر تہمت کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ شیعہ بارہ امامی کبھی ایسا عقیدہ نہیں رکھ سکتے ،کیونکہ وہ رسول اللہﷺ کی احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اس چیز کے قائل ہیں کہ رسول اللہﷺ کے جانشیوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے امام کاظم ؑساتویں ہیں[112]۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام بغیر کسی جرم کے ایک طویل مدت عباسی حکمرانوں کے زندانوں میں مصائب جھیلتے رہے ۔خود امام موسی کاظمؑ نے زندان میں ہونے والے مصائب کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے یوں خط لکھا : اے ہارون مجھ پر مصیبت کے جتنے دن گذرتے ہیں اتنے ہی تم پر خوشی کے دن گذر رہے ہیں۔ لیکن ایک نہ گذرنے والا دن بھی ہوگا اس دن باطل والے نقصان میں ہونگے[113][یعنی میرا اور تیرا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا، دیکھنا وہاں پر کون خوش ہوگا اور کون مصیبت میں گرفتار ہوگا]۔
تیسری فصل : اہل علم حضرات سے چند علمی باتیں :
ہم تحریر کے اس حصے میں اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کا مطالعہ رکھنے اور تحقیق کے شوقین حضرات کے سامنے ائمہ اہل بیت ؑ کے ساتھ کیے طرز عمل کے سلسلے میں چند مطالب کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔
امت میں فتنہ اندازی کا الزام کن پر لگنا چاہے ؟
حکمران ائمہ اہل بیت ؑ کو اپنا سیاسی رقیب سمجھتے تھے، اسی لئے ان پر دباو ڈالنے اور عوام میں ان کی مقبولیت اور احترام کو کم کرنے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کرتے۔امام موسی کاظمؑ کے والد گرامی اوران کے اجداد کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھا گیا، کبھی امت میں اختلاف اور تفرقہ کا الزام لگایا تو کبھی امت میں خون خرابہ اور حکومت کے خلاف لوگوں کو قیام پر آمادہ کرنے کا الزام ۔خود امام موسی کاظمؑ بھی حکمرانوں کے انہیں سیاسی حربوں سے نہ بچ سکے، ان پر ہارون الرشید نے امت میں اختلاف اور خون خرابے کا الزام لگایا اور بغیر شاہد کے زندان میں ڈال کر آپ کے وجود سے امت کو محروم کر دیا ۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعا ائمہ اہل بیتؑ فتنے کا باعث تھے یا خود ان کی حکومتیں امت کی تباہی کا باعث تھی؟اگر ہم ائمہ اہل بیت ؑ کی موقف میں دقت کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات ایسی حکومتوں کو ہی امت کے لئے فتنہ اور امت کی تباہی کا سبب سمجھتے تھے ۔جیساکہ جب امیر معاویہ نے امام حسین ؑ پر ایسا ہی الزام لگا یا تو امام حسینؑ نے ایک خط میں امیر معاویہ کے دور میں خاصکر اصحاب پیامبر کی بے جرم شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : اے معاویہ تمہارا یہ کہنا کہ میں اپنےرفتار و دین اور امت محمد کا خیال رکھوں اوراس امت میں اختلاف اور فتنہ پیدا نہ کروں ۔میں نہیں جانتا کہ امت کیلئے تمہاری حکومت سے بڑا اور کوئی فتنہ ہوگا ۔جب میں اپنے فریضے کے بارےسوچتا ہوں اور اپنے دین اور امت محمد پر نظر ڈالتا ہوں تو اس وقت اپنا عظیم فریضہ یہ سمجھتا ہوں کہ تم سے جنگ کروں.... تمہارے جرائم میں سے ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ تم نے اپنے شراب خوار اور کتوں سے کھیلنے والے بیٹے کے لئے لوگوں سے بیعت لی ہے۔[114]امام حسین ؑ نے بنی امیہ کے خلاف اپنے قیام کی علت کے بیان میں فرمایا : اے لوگو: بنو امیہ کے حکمرانوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کیا ہے خداے رحمن کی اطاعت ترک کردی ہے فساد پھیلا رکھا ہے، قوانین الہی کو معطل کر رکھا ہے، بیت المال کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال سمجھا ہے[115].
لہذا ائمہ اہل بیت ؑ کی نظر میں یہ حکومتیں امت کے لئے فتنہ اور امت کی تباہی کا باعث تھی، نہ ائمہ اہل بیت ؑ کی پاکیزہ اور دینی خدمات سے لبریز طرز زندگی، اصلی فتنہ تو دین کے حقیقی محافظوں اوروحیانی علوم کے وارثوں کو زندان کی سلاخوں میں قیدی بنا کر رکھنا تھا ۔کیونکہ اس فتنے کے نتیجے میں امت ان دینی پیشواؤوں کی تعلیمات سے دور رہی ۔
اس سلسلے کی عجیب بات یه هے که ائمه اهل بیتؑ جن حکومتوں اور حاکموں کو امت اور دین کے لئے فتنه قرار دیتے تھے، بهت سے اسلامی فرقوں کے مذهبی پیشوا اور پیرو انهیں حاکموں کی اطاعت کو واجب سمجھتےتھے ۔جیساکہ مختلف زمانوں میں ان فرقوں کی ترویج و تبلیغ میں انهیں حاکموں کی حمایت ناقابل انکار تاریخی حقیقت هے.جبکه ائمه اهل بیت ؑ اور ان کے پیرو ہمیشہ ان حکومتوں کے غیظ و غضب اور شکنجوں کی چکی میں پستے رهے۔ بعنوان مثال،امام ابو حنیفہ کے سب سے ممتاز شاگرد ابویوسف ,مهدی، هادی اور هارونالرشید کے دور حکومت میں قاضیالقضات تھا اور ائمہ جمعہ و جماعات انہیں کی مشورے سے تعین ہوتا تھا اور فقہ حنفی کو انہیں حاکموں کی حمایت رہی اور ان حاکموں کو حنفی علما کی بیعت اور حمایت حاصل رہی اور اس کے بعد اہل حدیث کابھی یہی حال تھا ۔جبکہ ان کے برخلاف رسول اللہﷺ کی ذریت انہی حاکموں کے غیض و غضب کا شکار رہی. اسی قسم کی اهل بیتؑ مخالف سیاست کے نتیجے میں مسلمانوں کی اکثریت کے نذدیک معتبر کتابوں میں آٹے میں نمک کے برابر بھی آل رسولؑ کی تعلیمات کو اهمیت نهیں دی گئی اور یوں ان سب نے مل کر امت کو ان غظیم هستیوں کی هدایت کے سایے میں چلنے سےمحروم کیا گیا ،جبکہ حضور پاکﷺ نے ان کی اطاعت اور پیروی کی صورت میں گمراهی اور ضلالت سے دور رهنے کی ضمانت اور گارنٹی دی تھی[116].
کچھ لوگ آج بھی اهل بیتؑ اور ان کے مخالف خلفاء اور ان سے متاثر مذهبی پیشواو ں کے بارے عجیب الجھن اور تناقض کا شکار هے، نه تو سابقه مذهبی تاریخ سے جان چھڑا سکتے هیں اور نه هی ائمه اهل بیت ؑ سے دوری اور بے رخی کا داغ اور الزام سهه سکتے هیں. لهذا عام لوگوں سے اس قسم کی مذهبی اور تاریخی تناقضات چھپانےکے لئے دعوا کرتے هیں که همارا مذهب و مرام اور عقیده ائمه اهل بیتؑ کے مطابق هے اور هم هی ان سے محبت اور ان کی اطاعت کرنے والے هیں.
ستم ظریفی یه هے که جن لوگوں نے قرٓان و سنت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے آل رسولؑ سے اظہار عقیدت اور ان کی پیروی کی اور اس راہ میں قربانی دیے انهیں یهی لوگ گمراه اور حتی کافر کهنے سے بھی نهیں کتراتے اور ساتھ هی اس بات پر اصرار کرتے هیں که هم اور همارے سلف هی آل رسول ؑسے اظهار عقیدت اور پیروی کرنے والے هیں جبکه اس قسم کے دعوے نه ان کی مذهبی تاریخ سے قابل اثبات هیں نه موجوده ان کا علمی ورثه اس کی دلیل بن سکتا هے.
اگرچه اس میں شک نهیں که آج اهل بیتؑ سے اظهار عقیدت کرنے والے کثیر تعداد میں موجو هیں اور یه سب خاندان رسالت سے اظهار عقیدت پر فخر کرتے هیں.لیکن یه بھی ناقابل انکار حقیقت هے که ان کی اکثریت آج بھی اهل بیت ؑ کی تعلیمات سے محروم هیں اور اس کی بنیادی وجه ان کی معتبر کتابوں کا اهل بیتؑ کی تعلیمات سے خالی هونا ہے اور خاص کر موجوده دور میں اس محرومی کی ایک اہم وجه اهل بیت ؑ کی اطاعت اور ان سے محبت کے بےبنیاد دعوے اور اهل بیتؑ کی تعلیمات کے محافظوں کے خلاف غلط بیانی اور ان پر لگائی جانے والی تهمتیں بھی هیں. الله امت مسلمه کو اس قسم کی غیر ذمه دارانه اور منفی پروپگنڈوں سے بچا کر رکھیں اور اهل بیتؑ کی نسبت سےاپنی شرعی فریضے پر عمل پیرا هونے کی توفیق عنایت فرمائے۔ { آمین یا رب العالمین.}
کیا اولاد رسولؑ کے قاتلوں کو آپ کا جانشین کہا جاسکتا ہے ؟
قرآ ن و سنت کی رو سے آل پیامبرؑ سے محبت[117] اور ان پر درود و سلام مسلمانوں پر فرض ہے[118] امام شافعی نے شعری زبان میں اس کو یوں بیان کیا ہے : یا اهلَ بیت رسول الله حبّکُم فرض من الله فی القرآن اَنزَلَه.کفاکُم من عظیم الفضل اَنّکمَن لم یُصَلّ علیکم لا صلاة[119].یعنی اے اہل بیتؑ رسول اللهﷺ :آپ کی محبت کو خدا نے قرآن میں واجب قرار دیا ہے۔ آپ لوگوں کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر کوئی نماز میں آپ لوگوں پر درود نہ بھیجے تو اس کی نماز نماز نہیں۔
لهذا قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں حضورﷺ کی آلؑ سے محبت سب پر واجب ہے ۔ ان کا احترام اور ان کی تکریم خود رسول اللہﷺ کے احترام اور تکریم ، ان سے جنگ اور دشمنی خود رسول اللہﷺ سے دشمنی اور جنگ کی مانند ہے[120] ۔
یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا آل رسولؑ کا کوئی عقیدت مند،قرآن و سنت کی مخالفت کرتے هوئے حضورﷺ کی ذریت اور ان کی عظیم نسل پر ظلم و ستم کرنے والوں کو حضورﷺ کا خلیفہ مان سکتا ہے ؟
اگر کوئی اس سوال کا جواب ہا ں میں دے تو یہ قرآن و سنت کے مخالف عمل کی حمایت کرنا ہے اور اگر ہاں میں جواب نہ دے تو یہ بہت سے لوگوں کی مذہبی تاریخ اور مذہبی پیشواؤں کے طرز عمل کی مخالفت کرنا هے ۔
امام موسی کاظمؑ اور اہل بیتؑ کے علمی وارث کو ن ؟
اس میں شک نہیں کہ علی بن ابی طالبؑ حضورﷺ کے سب سے ممتاز شاگرد تھے ،رسول اللہ ﷺ سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی سعادت سب سے زیادہ انہیں نصیب ہوئی۔اسی لئے حضورﷺ نے آپ کو اپنے علوم کا دروازہ قرار دیا’’ انا مدینہ العلم و علی بابہا‘‘حضور ﷺ کی اس لطیف اور خوبصورت تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اور اسلامی تعلیمات کا وارث اور محافظ ہو یا نہ ہو امام علی ؑ ضرور آپ کے علوم کے وارث ہیں، اسی طرح کسی اور نے حضور ﷺ کے علوم کے حقیقی وارث امام علی ؑ سے علوم حاصل کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن ان کے فرزند امام حسن ؑ اور امام حسینؑ نے ضرور ان سے علوم حاصل کیے ہیں اور یہی بات امام سجادؑ اور باقی ائمہؑ کے بارے میں صحیح ہے کہ دوسرے دینی تعلیمات اور وحیانی علوم میں حضور ﷺ کےحقیقی وارث ہو یا نہ ہو ائمہ اہل بیت ؑ ضرور دینی علوم کا وارث اور محافظ ہیں ۔اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے قرآن اور ائمہ اہل بیت کے بارے میں خصوصی وصیت کرتے ہوئے جہاں ان کی پیروی کی صورت میں نجات کی ضمانت دی وہاں آپ نے اس بات کی تصریح فرمائی کہ اہل بیت ؑتم لوگوں سے زیادہ جاننے والے ہیں: أيهاالناس إني تارك فيكم ماإن أخذتم به لن تضلوابعدي..كِتَابُ لله و عِتْرَتِي....فلا تتقدموهما فتهلكواولاتقصرواعنهما فتهلكواولاتعلموهم فإن هم أعلم منكم[121].
ترجمه: میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر کوئی انہیں تھامے رہے [ ان کی پیروی کرے ] تو وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگا ، پس ان سے آگے نہیں بڑھنا اور ان سے پیچھے نہیں رہنا ورنہ ہلاک ہو جاو گے ۔ اور انہیں سیکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ تم لوگوں سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔
اس حدیث میں آپ نے قرآن اور عترت اہل بیت کو ایک ساتھ ذکر کرنے کے ذریعے ہمیں یہ سمجھایا کہ امت میں کوئی بھی اہل بیت کا ہمتااورمثل نہیں ہے۔ اہل بیتؑ کے اسی عظیم مقام کی وجہ سے امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالبؑ فرماتے ہیں: اہل بیت پیغمبر پر نگاہ رکھو اور ان کے راستے کو اختیار کرو ، ان کے نقش قدم پر چلتے رہو کہ وہ نہ تمہیں ہدایت سے باہر لے جائیں گے اور نہ ہی ہلاکت کی طرف پلٹ کر جانے دیں گے۔ وہ ٹھہر جائے تو ٹھہر جاؤ اور وہ اٹھ کھڑے ہوں تو تم بھی کھڑے ہو جاؤ, ان سے آگے نہ نکل جانا ورنہ تم گمراہ ہوجاؤ گے اور پیچھے بھی نہ رہ جانا ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے[122]۔
ائمہ اہل بیت ؑ خود کو ہی سنت کے منتقلی کا سب سے محفوظ ترین دروازه سمجھتے تھے اور فخر سے کہتے تھے : آل محمد علوم الٰہی کے دروازے ہیں[123] ۔مشرق و مغرب میں جاکر کھنگال ڈالو ، تمہیں صحیح علم ہمارے سوا کہیں اور نہیں ملے گا ۔[124]اے لوگو! کہاں جارہے ہو اور کہاں لے جائے جارہے ہو؟[125] خوش بخت وہ ہے جو ہماری پیروی کرے اور بدبخت وہ ہے جو ہماری مخالفت کرے اور ہم سے دشمنی کرے[126] ۔
ائمہ اہل بیت ؑ میں سے امام موسی کاظمؑ کی ذات گرامی بھی انہیں دین کے محافظ اور علوم و معارف دین کے حقیقی وارثوں میں سے تھے۔جیساکہ امام ؑ کا علمی آثار خود اس بات پر گواہ ہے کہ آپ دوسرے ائمہ اہل بیت کی مانند دینی تعلیمات کا وہ صاف شفاف سرچشمہ ہیں کہ جن کی اطاعت اور پیروی نجات کا باعث ہے۔
آج کے دور میں سارے اسلامی فرقے اہل بیت کی پیروی اور ان سے دفاع کا دعوا تو کرتے ہیں۔ لیکن کسی کی پیروی اور کسی کو اپنا امام اور ہادی ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تعلیمات اور سیرت کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد بھی کریں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ وہ ان کی تعلیمات اور سیرت سے آشنائی بھی رکھتا ہو اور یہ چیزیں اس کی دسترس میں بھی ہو۔لہذا جو بھی یہ دعوا کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے فرامین کی رو سے ائمہ اہل بیت ؑ کی پیروی کرتے ہیں ، انھیں صرف دعوؤں کے بجائے اپنی مذہبی تاریخ اور اپنی کتابوں سے اس کا ثبوت دینا ہوگا ۔
یہاں یہ دیکھنے کے لئے کہ ائمہ اہل بیت ؑ کی تعلیمات اور سیرت کو زیادہ اہمیت دے کر ان کی حفاظت کرنے میں کون لوگ زیادہ کوشاں رہے ہیں اور اس وقت کن کے پاس ان کی تعلیمات کا ذخیرہ موجود ہے ، ہم ان فرقوں کی اہم ترین کتابوں میں ائمہ اہل بیتؑ کے توسط سے نقل شدہ اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جیساکه صحاح ستہ [چھے اہم کتابیں ] میں سے دو اہم کتاب صحیحین [ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ]مسلمانوں کی اکثریت کے نذدیک قرآن مجید کے بعد اسلامی تعلیمات کا سب سے اہم ترین مجموعہ ہے ہم ذیل میں ان کتابوں میں اہل بیت ؑ سے منقول روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔
صحیح بخاری:۔اس میں موجود روایات کی کل تعداد 7275 و با حذف مکررات 2602 ہیں ۔اس میں پیغمبر ؐکے سب سے اہم شاگرد اور تربیت یافتہ شخصیت یعنی حضرت علیؑ سے رسول پاکﷺ کی صرف ’’۲۹‘‘ احادیث [127]نقل ہوئی ہیں۔ مکتب وحی کے پرورش یافتہ جناب فاطمہ ؑ سے چار ، امام حسن مجتبیؑ سے کوئی ایک روایت بھی نقل نہیں ہوئی ہے۔ امام حسین ؑسے صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے[128]. انھیں چند احادیث کے علاوہ بخاری نے خود ان اہم اسلامی شخصیات کی سیرت اور تعلیمات کا ایک نمونہ بھی نقل نہیں کیا ہے۔ اسی طرح امام سجاد ؑسے تین اور امام باقر ؑ سے چار روایات اس میں نقل ہوئی ہیں۔ لیکن امام صادقؑ امام موسی کاظمؑ سمیت باقی ائمہ اہل بیت ؑ سے کوئی حدیث صحیح بخاری میں نہیں ہے [129] ۔
صحیح مسلم:–اس میں موجود روایات کی کل تعداد 7275 و با حذف مکررات 3033ہیں ۔ ابن جوزی کے بقول اس میں امام علی ؑ سے 35 روایات نقل ہوئی ہیں[130]۔جناب فاطمہ زهراء ؑ سے تین روایات ، امام حسنؑ سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے ۔امام حسینؑ سے ایک روایت، امام سجادؑ سے چار ، امام باقر ؑ سے 13 ، امام صادق ؑ سے 8 لیکن امام کاظمؑ سمیت باقی ائمہ اہل بیت ؑ سے ایک روایت بھی نقل نہیں ہوئی ہے [131]۔
مسلمانوں کی اس اکثریت کے مقابلے میں اہل تشیع خود کو ہی اہل بیت ؑ کا حقیقی پیرو کار کہتے ہیں، ان کے پاس نهجالبلاغه جوکہ امام علیؑ کے کلمات کا مجموعہ ہےاس میں 239 خطبے، 79 خطوط اور 480 مختصر کلمات موجود ہیں۔ اسی طرح ان کی چار معتبر کتابوں میں سے صرف اصول کافی میں 16000احادیث ائمہ اہل بیت ؐسے نقل ہوئی ہیں، کتب اربعہ [اہل تشیع کے چار اہم کتابوں ] میں موجود ہزاروں روایات کے علاوہ ، صحيفه سجاديه‘‘[ امام سجاد ؑ سے منقول دعاؤوں کا مجموعہ] ’’ عيون اخبار الرضاء‘‘ [خاص کر امام رضاؑ کی تعلیمات کا مجموعہ]’’ تحف العقول ‘‘[ رسول اللہ ﷺ اور ائمہ اہل بیت ؑ کی تعلیمات کا مجموعہ ]جیسی اہم ترین کتابیں ان کے پاس موجود ہیں۔
ایک تبصرہ : جیساکہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا تھا : انا مدينة العلم وعلى بابها فمن أراد البيت فليات الباب [132]۔میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے، جو علم [علوم وحیانی اور سنت نبوی] کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہے کہ وہ دروازے سے آئے[علی ابن ابی طالب ؑ اور ان کے علوم کے وارثوں کے پاس جائے۔
جیساکه حق یہی ہے کہ دین کو ان عظیم ہستیوں سے لے کیونکہ یہی رسول اللہﷺ کے سب سے ممتاز شاگرد اور ان کے علوم تک پہنچنے کے اصلی اور قابل اعتماد ترین دروازے ہیں اور آل رسولؑ کو ہی اسلامی تعلیمات کا اصلی ترین منبع اور سرچشمہ سمجھ کر ان کے مذہب و مرام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرئے ۔ اس بنا پر آٹے میں نمک کے برابر بھی ان سے روایت نقل نہ کرنا جہاں ان عظیم ہستیوں کی شان کے خلاف ہے وہاں حضور پاکﷺ کے فرامین کو پس پشٹ ڈالنا بھی ہے اور یه وه ناقابل انکار حقیقت هے که اهل بیتؑ کے بار ے واضح قرآن و سنت کے دستورات سے بے توجهی کے نتیجے میں زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر امت کو آل رسولؑ کی دینی پیشوائی اور ان کی تعلیمات اور سیرت سےدور کیا گیا که حتی آل رسولؑ اور ان کی ذریت کو بھی ائمه اهل بیت ؑکی تعلیمات اور مذہب سے دور رکھا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی آنجانے میں بہت سے سادات ائمہ اہل بیت ؑکے بجائے دوسروں کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں اور دین کو ان لوگوں سے لیتے ہیں جنہوں نے ائمہ اہل بیت ؑ کی تعلیمات کواہمیت نہیں دی ۔
لہذا اگر کوئی ان عظیم ہستیوں کی تعلیمات سے خالی کتابوں کو ہی قرآن مجید کے بعد اسلامی تعلیمات کا اصلی سرچشمہ قرار دے اور ساتھ یہ دعوی بھی کرے کہ ہم ہی ائمہ اہل بیت ؑ کے پیروکار ہیں ، تو ایسے لوگوں سے یہ کها جاسکتا ہے کہ کسی کی پیروی، اس کی تعلیمات اور سیرت پر عمل کرنے کا نام ہے اور معتبر ترین کتابیں آل رسول ؑ کی تعلیمات اور سیرت سے خالی ہو تو کیسے ان کتابوں کے ماننے والے خود کو ہی آل رسولؑ کا اطاعت گذار اور پیرو کار کہہ سکتے ہیں ؟ اور کیسے ایسے گروہ کو گمراہ اور جاہل کہہ سکتے ہیں کہ جن کی معتبر ترین کتابیں آل رسول ؑ کی تعلیمات سے لبریز ہیں ؟
امام کے بعض نورانی فرامین :
ہم ذیل میں امام موسی کاظمؑ کے بعض نورانی کلمات کو نقل کرتے ہیں تاکہ یه نورانی کلمات ان کے عقیدت مندوں کی زندگی کے مختلف امور میں مشعل راہ بنیں اور ساتھ ہی امام موسی کاظمؑ کے علمی کمالات کی ایک جھلک بھی دیکھ سکیں۔
1: ما قُسِّمَ بَيْنَ الْعِبادِ افْضَلُ مِنَ الْعَقْلِ، نَوْمُ الْعاقِلِ افْضَلُ مِنْ سَهَرِالْجاهِلِ[133].
عقل سے زیادہ فضیلت والی چیز لوگوں میں تقسیم نہیں کی ، عاقل کا سونا ،جاہل کی رات بھر عبادت سے بہتر ہے۔
2 : لِكُلِّ شَيْي ءٍ دَليلٌ وَ دَليلُ الْعاقِلِ التَّفَكُّر وَ دَلِيلُ التَّفَكُّرِ الصَّمْتُ[134].
ہر چیز کی ایک دلیل ہے عقلمندی کی دلیل، غور و فکر سے کام لینا ہے اور غور و فکر سے کام لینے کی نشانی خاموش رہنا ہے ۔
3: لَا دِينَ لِمَنْ لَا مُرُوَّةَ لَهُ وَ لَا مُرُوَّةَ لِمَنْ لَا عَقْلَ لَهُ[135]۔
جس کے پاس مروت نہ ہو اس کے پاس دین نہیں ہے اور جس کے پاس عقل نہ ہو اس کے پاس مروت نہیں ہوگا۔
4: مَنْ أَرَادَ الْغِنَى بِلَا مَالٍ وَ رَاحَةَ الْقَلْبِ مِنَ الْحَسَدِ وَ السَّلَامَةَ فِي الدِّينِ فَلْيَتَضَرَّعْ إِلَى اللَّهِ فِي مَسْأَلَتِهِ بِأَنْ يُكَمِّلَ عَقْلَهُ [136]
جو مال کے بغیر غنی ہونا چاہتا ہے، جو حسد سے چھٹکارا حاصل کر کے دلی سکون چاہتا ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اللہ سے اپنی عقل کو کامل کر دینے کی دعا کرئے ۔
5: وَجَدْتُ عِلْمَ النّاسِ فى ارْبَعٍ: اوَّلُها انْ تَعْرِفَ رَبَّكَ، وَالثّانِيَةُ انْ تَعْرِفَ ما صَنَعَ بِكَ، وَالثّالِثَةُ انْ تَعْرِفَ ما ارادَ مِنْكَ، وَالرّبِعَةُ انْ تَعْرِفَ ما يُخْرِجُكَ عَنْ دينِكَ.[137]
میں نے لوگوں کے لئے مفید علم چار چیزوں میں پایا ، پہلا : اللہ اور اپنے رب کی پہچان [خدا شناسی] ۔ دوسرا :کیسے اس کی تخلیق ہوئی ہے ۔[خود شناسی ] تیسرا: یہ دیکھنا کہ اسے کیوں پیدا کیا ہے۔[شناخت ہدف خلقت انسان ] چوتھا : ان چیزوں کا جاننا کہ جو دین اور اعتقادات سے انسان کو منحرف کرتی ہیں۔
6: تَفَقَّهُوا فى دين اللّهِ، فَاِنَّ الْفِقْهَ مِفْتاحُ الْبَصيرَةِ، وَ تَمامُ الْعِبادَةِ، وَ السَّبَبُ اِلَى الْمَنازِلِ الرَفيعَةِ وَالرُّتَبِ الْجَليلَةِ فِى الدّينِ وَالدّنيا[138].
دین خدا میں غور وفکر سے کام لو کیونکہ یہ بصیرت کی کنجی اور مکمل عبادت ہے۔ اور یہ دنیا اور آخرت میں بلند اور عظیم مقام کے حصول کا سبب ہے۔[دین انسان کی نجات اور سعادت کا ضامن ہےلہذا دینی احکام اور مسائل کو سیکھنا, ان کی سوچھ بوجھ رکھنا نجات کا باعث ہے ]
7: فَضْلُ الْفَقيهِ عَلَى العابِدِ كَفَضْلِ الشَّمْسِ عَلَى الْكَواكِبِ، وَ مَنْ لَمْ يَتَفَقَّهْ فى دينِهِ لَمْ يَرْضَ اللّهُ لَهُ عَمَلاً[139].
دین کی سوچ وبوجھ رکھنے والےکی فضیلت عابد پر ، سورج کا ستاروں پر فضیلت کی مانند ہے اور اگر کوئی دین میں سوچھ بوچھ نہ رکھتا ہو ، اللہ اس کے اعمال پر راضی نہیں ہوتا۔[ اعمال کو اسی طرح انجام دینا چاہیں جس طرح انجام دینے کا حکم دیا ہے اور یہ دینی امور کو اہمیت دینے اور ان کی شناخت حاصل کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔]
8: تَعَلَّمْ مِنَ الْعِلْمِ مَا جَهِلْتَ وَ عَلِّمِ الْجَاهِلَ مِمَّا عُلِّمْتَ عَظِّمِ الْعَالِمَ لِعِلْمِهِ وَ دَعْ مُنَازَعَتَهُ وَ صَغِّرِ الْجَاهِلَ لِجَهْلِهِ وَ لَا تَطْرُدْهُ وَ لَكِنْ قَرِّبْهُ وَ عَلِّمْه[140]۔
جس چیز سے جاہل ہو اس کا علم حاصل کرو اور جاہلوں کو اس کی تعلیم دو ۔عالم کا اس کے علم کی وجہ سے تعظیم اور احترام کرو اور اس سے جھگڑا نہ کرو۔ جاہل کو اس کی جہالت کی وجہ سے اس کے غلط کاموں کو اہمیت نہ دو اس کو اپنے سے دور نہ کرو، اسے اپنی طرف لےآو اور اس کو تعلیم دو ۔
9 : مَنْ نَظَرَ بِرَاءيْهِ هَلَكَ، وَ مَنْ تَرَكَ اءهْلَ بَيْتِ نَبيِّهِ ضَلَّ، وَمَنْ تَرَكَ كِتابَ اللّهِ وَ قَوْلَ نَبيِّهِ كَفَرَ[141].
جو اپنے گمان اور سلیقے سے کام لے [دینی دستورات کو توجہ نہ دئے اور اپنی رای اورخواہش کےمطابق عمل کرئے]وہ ہلاک ہوگا، جو نبی کے اہل بیتؑ کو چھوڑ دے وہ گمراہ ہے اور جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی باتوں کو چھوڑ دے وہ کافر ہے۔
10: مَثَلُ الدّنيا مَثَلُ الْحَيَّةِ، مَسُّها لَيِّنٌ وَ فى جَوْفِهَا السَّمُّ الْقاتِلِ، يَحْذَرُهَاالرِّجالُذَوِى الْعُقُولِ وَ يَهْوى اِلَيْهَاالصِّبْيانُ بِايْديهِمْ[142]۔
دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے کہ اس کی ظاہری جلد نرم ولطیف ہے لیکن اس کے اندر ماردینے والا زہر ہے ، عاقل لوگ اس سے دور رہنا چاہتے ہیں اور بچے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں ۔
11: ماذِئْبانِ ضارِبانِ فى غَنَمٍ قَدْ غابَ عَنْهُ رُعاؤُها، بِاضَرَّ فى دينِ مُسْلِمٍ مِنْ حُبِّ الرِّياسَةِ.[143]
مقام اور حکومت کی لالچ ,مومن کے دین کو نقصان پہنچانے کے لئے دو بھوکے بھیڑیوں کا ایک ایسے گلے پر حملہ سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے جسکا چرواہا غائب ہو۔
12: مَثَلُ الدُّنيا مَثَلُ ماءِالْبَحْرِ كُلَّما شَرِبَ مِنْهُ الْعطْشانُ اِزْدادَ عَطَشا حَتّى يَقْتُلُهُ.[144]
دنیا کی مثال دریا کے پانی کی طرح ہے کہ پیاسا انسان جتنا اس سے پیے ،ٍ اس کی پیاس بڑتھی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ مر جاتاہے۔[لہذا انسان قناعت سے کام نہ لئے اور دنیا کو ہی ہدف قرار دئے اور اس کا سارا ہم و غم دنیا کا حصول ہی ہو، تو ایسا شخص کبھی دنیا سے سیر نہیں ہوگا ،لالچ اور حرص کی بیماری میں مبتلا ہوکر سکون اور آرام کی تلاش میں دنیا کے پیچھے چلتا رہے گا لیکن اسے یہ نصیب نہیں ہوگا۔ ]
13: مَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا ذَهَبَ خَوْفُ الْآخِرَةِ مِنْ قَلْبِهِ وَ مَا أُوتِيَ عَبْدٌ عِلْماً فَازْدَادَ لِلدُّنْيَا حُبّاً إِلَّا ازْدَادَ مِنَ اللَّهِ بُعْداً وَ ازْدَادَ اللَّهُ عَلَيْهِ غَضَبا[145]۔
جو دنیا سے محبت کرئے آخرت کا خوف اس کے دل سے نکل جاتا ہے ۔کسی بندے کو علم دیا جائے لیکن وہ دینا کی محبت میں گرفتار ہوتا جائے تو وہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا اور اس کے بارے میں اللہ کا غضب بڑھتا جائے گا ۔
14: اجْعَلُوا لِأَنْفُسِكُمْ حَظّاً مِنَ الدُّنْيَا بِإِعْطَائِهَا مَا تَشْتَهِي مِنَ الْحَلَالِ وَ مَا لَا يَثْلِمُ الْمُرُوَّةَ وَ مَا لَا سَرَفَ فِيهِ وَ اسْتَعِينُوا بِذَلِكَ عَلَى أُمُورِ الدِّينِ فَإِنَّهُ رُوِيَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَرَكَ دُنْيَاهُ لِدِينِهِ أَوْ تَرَكَ دِينَهُ لِدُنْيَاهُ[146].
اپنے لئےبھی دنیا میں سے ایک حصہ اس طرح قرار دئے کہ جس سے حلال طریقے سے خواہشات بھی پوری ہو ، عزت بھی باقی رہے ، اسراف بھی نہ ہو اور اس طریقے سے دینی امور میں مدد بھی حاصل کرئے ۔ کیونکہ روایت ہوئی ہے کہ جو دنیا کی وجہ سے دین کو چھوڑ دئے اور دین کی وجہ سے دنیا کو چھوڑ دئے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
15: إِنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ لَمَرْحُومُونَ مَا تَحَابُّوا وَ أَدَّوُا الْأَمَانَةَ وَ عَمِلُوا بِالْحَقِّ[147].
زمین والے اس وقت تک رحمت الٰہی کے مستحق ہیں جب تک ایک دوسرے محبت کرتے رہے ، امانت داری سے کام لے اور حق کے مطابق عمل کرئے۔
16 : مَنْ صَدَقَ لِسانُهُ زَكى عَمَلُهُ، وَ مَنْ حَسُنَتْ نيَّتُهُ زيدَ فى رِزْقِهِ، وَ مَنْ حَسُنَ بِرُّهُ بِإ خْوانِهِ وَ اهْلِهِ مُدَّ فى عُمْرِهِ[148].
جو سچ بولتا ہو اس کا کام پاک اور صاف ہوتا ہے جس کی نیت اچھی ہو اس کا رزق زیادہ ہوتا ہے، جو اپنے دوستوں ، رشتہ داروں اور گھر والوں کے ساتھ نیکی کرتا ہے اس کی عمر طولانی ہوجاتی ہے۔
17: اداء الاْمانَةِ وَالصِّدقُ يَجْلِبانِ الرِّزْقَ، وَالْخِيانَةُ وَالْكِذْبُ يَجْلِبانِ الْفَقْرَ وَالنِّفاقَ[149].
امانتداری اور سچائی، رزق میں برکت اور زیادتی کا سبب بنتی ہے ۔ امانت میں خیانت اور جھوٹ، تنگدستی اور نفاق کا سبب ہے۔
18: اَفْضَلُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ الْعَبْدُ إِلَى اللَّهِ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ بِهِ الصَّلَاةُ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَ تَرْكُ الْحَسَدِ وَ الْعُجْبِ وَ الْفَخْر[150]۔
معرفت کے بعد جو چیز بندے کو اللہ سے قریب کرنے میں زیادہ کارساز ہے وہ نماز ، والدین کے ساتھ نیکی ، حسد کرنے کو ترک کرنا اور خود خواہی اور تکبر سے اجتناب کرنا ہے ۔
19: وَ مَنِ اقْتَصَدَ وَ قَنِعَ بَقِيَتْ عَلَيْهِ النِّعْمَةُ وَ مَنْ بَذَّرَ وَ أَسْرَفَ زَالَتْ عَنْهُ النِّعْمَةُ
جو میانہ روی اور قناعت سے کام لے [کنجوسی اور اسراف کو چھوڑدئے] تو نعمتیں اس کے پاس باقی رہتی ہے، جو فضول خرچی اور خرچ میں زیادہ روی سےکام لے، نعمتیں اس سے چھین جاتی ہے[151] ۔
20: إِيَّاكَ أَنْ تَمْنَعَ فِي طَاعَةِ اللَّهِ فَتُنْفِقُ مِثْلَيْهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ.
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ مت کرو،ورنہ اسی کے کئی برابر اللہ کی نافرمانی میں خرچ ہوگا[152]۔
21: يَنْبَغى لِلرَّجُلِ انْ يُوَسِّعَ عَلى عَيالِهِ لِئَلاّ يَتَمَنَّوْا مَوْتَهَ[153].
مرد اپنے گھر والوں کی نسبت سے کھلے دل کا مالک ہو اور جتنا ہوسکتا ہے گھر کی ضروریات کو پورا کرے ، ایسا نہ ہو کہ گھر والے اس کی موت کی تمنا کرے ۔
22: اَلْمَغْبُونُ مَنْ غَبِنَ عُمْرَهُ ساعَةً[154].
خسارہ پانے والا وہ ہے جو اپنی عمر کے لمحات کو بیہودہ اور فضول کاموں میں گزارے ۔[لہذا زندگی کے قیمتی لمحات کو ایسے کاموں میں صرف کرنا چاہے جو انسان کی دنیوی اور اخروی امور میں معاون ثابت ہو۔ اگران قیمتی لمحات کو عیش و عشرت اور فضول کاموں میں ضائع کرے تو یہ خسارہ پانے والوں اور دھوکہ کھانے والوں میں سے ہے ]۔
23: اجْتَهِدُوا فِي أَنْ يَكُونَ زَمَانُكُمْ أَرْبَعَ سَاعَاتٍ سَاعَةً لِمُنَاجَاةِ اللَّهِ وَ سَاعَةً لِأَمْرِ الْمَعَاشِ وَ سَاعَةً لِمُعَاشَرَةِ الْإِخْوَانِ وَ الثِّقَاتِ الَّذِينَ يُعَرِّفُونَكُمْ عُيُوبَكُمْ وَ يُخْلِصُونَ لَكُمْ فِي الْبَاطِنِ وَ سَاعَةً تَخْلُونَ فِيهَا لِلَذَّاتِكُمْ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ وَ بِهَذِهِ السَّاعَةِ.[155]
اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کرو ، ایک حصہ اللہ کی عبادت اور اللہ سے مناجات کرنے کے لئے ، ایک حصہ زندگی کے معاشی امور چلانے کے لئے ، ایک حصہ قابل اعتماد دوست و احباب سے ملاقات کے لئے ۔۔۔ ایک حصہ حلال لذتوں کے حصول کے لئے ، اور اس کے ذریعے سے دوسرے تین حصوں کو انجام دینے میں طاقتور ہوگا۔
24: بِئْسَ الْعَبْدُ يَكُونُ ذاوَجْهَيْنِ وَ ذالِسانَيْنِ[156].
وہ شخص بُرا ہے جس کے دو چہرے اور دو زبانیں ہو۔(چابلوسی اور منافقت سے کام لیتا ہو)
25: مَنْ كَفَّ نَفْسَهُ عَنْ أَعْرَاضِ النَّاسِ أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ مَنْ كَفَّ غَضَبَهُ عَنِ النَّاسِ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ[157]
جو لوگوں کی عزت اور آبرو کا خیال رکھے گا اللہ قیامت کے دن اس کی غلطیوں سے در گزر کرئے گا اور جو لوگوں کو غصہ دکھانے سے باز رہے گا وہ قیامت کے دن اللہ کے غضب سے محفوظ رہے گا۔
26: مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ واعِظٌ تَمَكَّنَ مِنْهُ عَدُوُّهُ يعني الشّيطان[158].
اگر کسی کو اندر سے نصیحت کرنے والا کوئی نہ ہو [ وہ اپنے عقل اور فکر سے کام نہ لے ، اپنی ضمیر کی آواز پر کان نہ دہرائے] اس کا دشمن یعنی شیطان اس پر مسلط ہوجائے گا۔
27 : مَنْ اَرادَ انْ يَكُونَ اقْوىَ النّاسِ فَلْيَتَوَكَّلْ علَى اللّهِ.[159]
جو کوئی لوگوں میں سب سے زیادہ قوی اور طاقتور ہونا چاہتا ہے اسے اللہ پر توکل کرنا چاہے ۔
28: اِيّاكَ وَالْمِزاحَ، فَاِنَّهُ يَذْهَبُ بِنُورِ ايمانِكَ، وَيَسْتَخِفُّ مُرُوَّتَكَ[160]
بے ہودہ مزاح سے پرہیز کرئے ۔کیونکہ یہ ایمان کے نور کو ختم کرتا ہے اور جوانمردی اور مروت کو بے اہمیت بنا دیتا ہے۔
29: إنَّاللّهَ لَيُبْغِضُ الْعَبْدَ النَّوّامَ، إنَّاللّهَ لَيُبْغِضُ الْعَبْدَالْفارِغَ[161].
اللہ اس بندے پر ناراض اور غضبناک ہے جو زیادہ سوتا ہے اور بیکار رہتاہے ۔
30: إِيَّاكَ وَالْكَسَلَ وَ الضَّجَرَ فَإِنَّهُمَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ مَنْ كَسِلَ لَمْ يُؤَدِّ حَقّاً وَ مَنْ ضَجِرَ لَمْ يَصْبِرْ عَلَى حَقٍّ.
سستی اور کاہلی سے بچو کیونکه یہ تمہیں دنیا اور آخرت میں فائدہ اٹھانے سے روک کر رکھے گی۔[162]
31: ابْلِغْ خَيْرا وَ قُلْ خَيْرا وَلاتَكُنْ إمَّعَة [163].
اچھی بات پہنچاؤ ، اچھی بات کرو اور غیر ذمہ دار کام کرنے والوں میں سے نہ ہو.
32: :إِنَّ أَبْدَانَكُمْ لَيْسَ لَهَا ثَمَنٌ إِلَّا الْجَنَّةُ فَلَا تَبِيعُوهَا بِغَيْرِهَا[164]۔
بے شک تمہاری جان کی قیمت صرف جنت ہے ،اپنی جان کو جنت کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے نہ بھیجنا۔{ عمر کو دنیاوی پست چیزوں اور ہوا و ہوس کی راہ میں بسر کرنا اور انہیں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لئے حلال وحرام کا خیال نہ کرنا اپنی جان کو جنت سے کم چیز کے بدلے میں فروخت کرنا ہے }
33: لَيْسَ حُسْنُ الْجِوَارِ كَفَّ الْأَذَى وَ لَكِنَّ حُسْنَ الْجِوَارِ الصَّبْرُ عَلَى الْأَذَى.
نیک ہمسائگی یہ نہیں ہے کہ انہیں اذیت و آزار پہنچانے سے باز رہے بلکہ نیک ہمسایگی یہ ہے کہ ہمساے کی اذیت و آزار پر صبر کرے[165]۔
34: لَيْسَ مِنّا مَنْ لَمْ يُحاسِبْ نَفْسَهُ فى كُلِّ يَوْمٍ، فَإِنْ عَمِلَ حَسَنا إ سْتَزادَ اللّهَ، وَ إن ْ عَمِلَ سَيِّئا إ سْتَغْفَرَاللّهَ وَ تابَ اِلَيْهِ[166].
وہ ہم میں سے نہیں جو ہر روز اپنا محاسبہ نہ کرے [یہ دیکھنا کہ اس نے دن، اللہ کی فرمانبرداری میں گزارا ہے یا نافرمانی میں] اور اگر اس کے اعمال ٹھیک ہوں تو اس کو اور زیادہ کرنے کی کوشش کرے اور اگر برا کام انجام دیا ہو تو اللہ سے معافی مانگے اور توبہ کرے ۔
35: كُلَّمَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنَ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَعْمَلُونَ أَحْدَثَ اللَّهُ لَهُمْ مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَعُدُّونَ[167]۔
جب بھی لوگ نئے نئے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو اللہ انہیں ایسی بلاؤوں میں مبتلا کرتا ہے جس کا لوگ تصور نہیں کرتے ۔
36: وَشَعْرُالْجَسَدِ إذا طالَ قَطَعَ ماءَ الصُّلْبِ، وَارْخىَ الْمَفاصِلَ، وَ وَرِثَ الضَّعْفَ وَالسِلَّ،[168]
بغل اور شرمگاہ کے اطراف کے بال زیادہ لمبے ہوں تو کمر میں پانی کی کمی ، جوڑوں میں سستی ، سینہ میں ضعف کا سبب بنتا ہے۔
37: لاتَدْخُلُواالْحَمّامَ عَلَى الرّيقِ، وَلاتَدْخُلُوهُ حَتّى تُطْعِمُوا شَيْئا[169].
ناشتے کے فورا بعد حمام نہ جائے اسی طرح بلکل پیٹ خالی بھی حمام نہ جائے.
38: اتَّقِ اللَّهَ وَ قُلِ الْحَقَّ وَ إِنْ كَانَ فِيهِ هَلَاكُكَ فَإِنَّ فِيهِ نَجَاتَكَ....لَا تَقُلْ أَنَا مَعَ النَّاسِ وَ أَنَا كَوَاحِدٍ مِنَ النَّاسِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا هُمَا نَجْدَانِ نَجْدُ خَيْرٍ وَ نَجْدُ شَرٍّ فَلَا يَكُنْ نَجْدُ الشَّرِّ أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنْ نَجْدِ الْخَيْرِ[170]۔
تقویٰ اور پرہیز گاری سے کام لو اور سچ بولو، گرچہ اس میں ظاہری تمہیں نقصان ہی کیوں نہ ہو ،کیونکہ سچ بولنے میں ہی تمہاری نجات ہے۔ایسا نہ کہو میں بھی دوسروں کی طرح هوں اور دوسروں کے ساتھ ہوں [ یعنی بھیڑ چال مت چلو ] رسول اللہﷺ نے فرمایا : لوگوں کے دو گروہ ہیں ،اچھا گروہ اور بُرا گروہ پس بُرا گروہ تمہاری نگاہ میں اچھے سے زیادہ محبوب نہیں ہونا چاہے ۔[لہذا اچھے اور برے کی تمیز کے بعد اچھے گروہ کے ساتھ ہونا چاہے ، چاہے وہ گروہ تعداد کے اعتبار سے اقلیت میں ہی کیوں نہ ہو ۔]
39: إِذَا مَرَّ بِكَ أَمْرَانِ لَا تَدْرِي أَيُّهُمَا خَيْرٌ وَ أَصْوَبُ فَانْظُرْ أَيُّهُمَا أَقْرَبُ إِلَى هَوَاكَ فَخَالِفْهُ فَإِنَّ كَثِيرَ الصَّوَابِ فِي مُخَالَفَةِ هَوَاك[171]۔
جب بھی دو کاموں میں سے ایک کے انجام دہی پر مجبور ہو اور سمجھ نہیں آرہا ہو کہ ان میں سے کس کام کو انجام دیا جائے تو اس وقت دیکھنا کہ ان میں سے کونسا کام تمہاری خواہش کے مطابق ہے،پس اس کی مخالفت کرو ،کیونکہ نفس کی مخالفت میں زیادہ بہتری ہے ۔
40: إِنَّ كُلَّ النَّاسِ يُبْصِرُ النُّجُومَ وَ لَكِنْ لَا يَهْتَدِي بِهَا إِلَّا مَنْ يَعْرِفُ مَجَارِيَهَا وَ مَنَازِلَهَا وَ كَذَلِكَ أَنْتُمْ تَدْرُسُونَ الْحِكْمَةَ وَ لَكِنْ لَا يَهْتَدِي بِهَا مِنْكُمْ إِلَّا مَنْ عَمِلَ بِهَا[172]۔
سب ستاروں کو دیکھتے ہیں لیکن ستاروں سے ستارہ شناس راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں،اسی طرح تم لوگ حکمت کی باتیں سیکھتے ہیں لیکن تم میں سے وہی ان کے ذریعے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں جو ان پر عمل کرتے ہیں ۔
فہرست منابع :
1. ابن ابى جمهور احسائى، محمد بن على،(م۹١۰) عوالي اللآلي، سيد الشهداء، قم، 1405 ھ
2. ابن ابي الحديد، عز الدين بن هبة الله(م٦۵٦)،شرح نهج البلاغة، دار الكتب العلمية، بيروت ،1998م
3. ابن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (م235 ھ)، مصنف ابن أبي شيبة،مكتبة الرشد،الرياض، 1409 ھ
4. ابن الجوزي، عبد الرحمن بن علي (م597هـ )،تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير، شركة دار الأرقم ، بيروت 1997م
5. ابن الجوزي، عبد الرحمن بن علي،المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، دار صادر ، بيروت، 1358ھ
6. ابن حجر العسقلاني أحمد بن علي( 852هـ)، تهذيب التهذيب، دائرة المعارف النظامية، الهند1326هـ
7. ابن حجر العسقلاني، احمد بن علي، المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، داري العاصمة، ،رياض، 1419ھ
8. ابن حجر العسقلاني، أحمد بن علي، لسان الميزان،مؤسسة الأعلمي ، بيروت، 1986
9. إبن حجر الهيثمي، أحمد بن محمد، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال ، مؤسسة الرسالة، بيروت ،
10. ابن حنبل، احمد بن حنبل،مسند أحمد بن حنبل (م 241هـ)، عالم الكتب، بيروت، 1998 م
11. ابن زنجويه حميد بن مخلد لأموال لابن زنجويه(المتوفى: 251هـ...بي
12. ابن شعبه حرانى، حسن بن على، تحف العقول - قم، چاپ: دوم، 1404 / 1363ق.
13. ابن قتيبة الدينوري، عبد الله بن مسلم {م276هـ}- الإمامة والسياسة- دار الكتب العلمية- بيروت 418هـ -
14. ابن كثير، إسماعيل بن عمر ، البداية والنهاية ،مكتبة المعارف، بيروت ، بی تا
15. أبو السعادات المبارك بن محمد (م 606هـ) جامع الأصول في أحاديث الرسول، مكتبة الحلواني، 1972 م
16. أبو العباس أحمد بن محمد: وفيات الأعيان - دار صادر – بيروت-الجزء : 1 - الطبعة : 0 ، 1900
17. أبو عيسى ترمذي،محمد بن عيسى(م 279هـ)،سنن الترمذي ، دار إحياء التراث ، بيروت، بی تا
18. أبي عاصم۔ عمرو الضحاك الشيباني {م 287} السنة -المكتب الإسلامي – بيروت-1400
19. الإشبيلي، أبو محمد عبد الحق(م581هـ) ،الأحكام الشرعية الكبرى، مكتبةالرشد، الرياض،2001م
20. الألباني، محمد ناصر الدين، السلسلة الصحيحة، مكتبة المعارف،الرياض ،بی تا
21. البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل (م 256هـ) ،صحيح البخاري ، دار ابن كثير ، اليمامة ،بيروت 1987
22. البَلَاذُري أحمد بن يحيى (المتوفى: 279هـ) فتوح البلدان دار ومكتبة الهلال- بيروت1988 م
23. البلاذی، احمد بن یحی ،انساب الاشراف ، دار الفکر ،بیروت ،١۹۹٦م
24. البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين(م 458 هـ ) ،سنن البيهقي الكبرى، مكتبة دار الباز، مكة المكرمة ، 1994م
25. حاكم نيشاپوري، محمد بن عبدالله(م405هـ )،مستدرك علي الصحيحين، دار الكتب العلمية، بيروت، 1990 م
26. الحلبي ،علي بن برهان الدين، (م1044)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، دار المعرفة، بيروت،1400ھ
27. حلوانى، حسين بن محمد بن حسن بن نصر، نزهة الناظر و تنبيه الخاطر - قم، چاپ: اول، 1408 ق.
28. الحموي ياقوت بن عبد الله معجم البلدان دار الفكر - بيروت
29. الخطيب البغدادي، أحمد بن علي، تاريخ بغداد، بی جا، بی تا
30. ديلمى، حسن بن محمد، إرشاد القلوب / ترجمه طباطبايى - قم، چاپ: پنجم، 1376ش.
31. الذهبى، محمد بن أحمد، (748هـ) تذكرة الحفاظ، دار الكتب العلمية ،بيروت،الطبعة الأولى ،1998م
32. الذهبي، محمد بن أحمد ،تاريخ الإسلام، دار الكتاب العربي، بيروت.، 1987م.
33. الذَهَبي، محمد بن أحمد ،سير أعلام النبلاء، مؤسسة الرسالة، بيروت،1993 م
34. الرازي، فخر الدين محمد بن عمر(م 604)،التفسير الكبير ، دار الكتب العلمية، بيروت،2000م
35. الزمخشري جار الله توفي 583 هـ ربيع الأبرار ونصوص الأخيار الناشر: مؤسسة الأعلمي، بيروت الطبعة: الأولى، 1412 هـ
36. السيوطي ، عبد الرحمن بن أبي بكر (م 911هـ) ، الفتح الكبير في ضم الزيادة دار الفكر، بيروت، 2003م
37. السيوطي عبد الرحمن بن أبي بكر ،الدر المنثور، دار الفكر ، بيروت ، 1993م
38. الشاكري حسين سيرة الامام موسى الكاظم (عليه السلام) نشر الهادي قم : 1417 ه. ق.
39. شريف الرضي، محمد بن حسين، نهج البلاغة (للصبحي صالح) - قم، چاپ: اول، 1414 ق.
40. شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات - بيروت، چاپ: اول، 1425 ق.
41. شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، وسائل الشيعة - قم، چاپ: اول، 1409 ق.
42. الطبراني، سليمان بن أحمد ، المعجم الكبير، مكتبة العلوم والحكم ، الموصل،الطبعة الثانية ، 1983م
43. طبرسى فضل بن الحسن ،(م548 ق) إعلام الورى بأعلام الهدى،اسلاميه، تهران، 1390 ش
44. طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسي) - مشهد، چاپ: اول، 1403 ق.
45. الطبري، محمد بن جرير ،تاريخ الطبري، دار الكتب العلمية ، بيروت ،الطبعة الأولى ، 1407ا
46. عياشى،محمد بن مسعود ،(م۳۲۰) تفسير العياشي، چاپخانه علميه تهران، 1380 ھ
47. فصلنامه علمي علوم حديث، شماره 3، انتشارات دارالحديث، قم 1376.ش
48. فصلنامه علمی، علوم حدیث ،شماره۴۷ ، انتشارات دارالحديث، ، قم ١۳۸۷
قرآن مجید:
49. القشيري ، مسلم بن الحجاج (م 261هـ) ،صحيح مسلم، دار إحياء التراث العربي ، بيروت ،بی تا
50. قمى، عباس، سفينة البحار - قم، چاپ: اول، 1414 ق.
51. كشى، محمد بن عمر، رجال الكشي - اختيار معرفة الرجال (مع تعليقات مير داماد )قم، چاپ: اول، 1363 ش.
52. كلينى، محمد بن يعقوب، كافي (ط - دار الحديث) - قم، چاپ: اول، ق1429.
53. متقي الهندي، علي بن حسام الدين (م 975ھ) كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، مؤسسة الرسالةبی جا 1981م
54. مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
55. مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، زاد المعاد - مفتاح الجنان - بيروت، چاپ: اول، 1423 ق.
56. المزي يوسف بن الزكي عبدالرحمن [654 - 742] تهذيب الكمال الناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت الطبعة : الأولى ، 1400 - 1980
57. الموصلي، أحمد بن علي أبو يعلى (م307ه) ـ،مسند أبي يعلى،دار المأمون للتراث – دمشق،1984
58. نجمی، محمد صادق ، سیری در صحیحین ، دفتر انتشارات ،١۳۸۳ش
59. النسائي،أحمد بن شعيب، سنن النسائي الكبرى،دار الكتب العلمية ، بيروت،1991
[1]. سبھی ان کی عظمت اور فضیلت کا اعتراف کرتے هیں: اهل سنت کا ایک مشهور عالم ابوزهره امام صادق ؑکے بارے میں لکھتے ہیں : اپنے تمام تر گروهی اختلافات کے باوجود علمائے اسلام کے درمیان امام صادقؑ کے علم و فضل کے بارے اتفاق پایا جاتا هے. الامام الصادق .ص 66.
امام ابو حنیفه امام صادق ؑکے بارے کها کرتے تھے: کسی کو بھی جعفر بن محمد سے زیاده فقیه نهیں پایا . تذكرة الحفاظ، ج1 ص166
[2]۔ اصول کافی ، ج ۲ ص ۶۔
[3]۔ اصول كافى : ج 1، ص 316،
[4]۔ امام رضا ؑ آپ کے جانشین تھے اور شیعہ انہیں رسول اللہﷺ کا اٹھواں حقیقی جانشین مانتے ہیں ۔ عباسی خلیفہ مامون نے انہیں مدینہ سے خراسان لے آیا اور وہی آپ کو زہر دلا کر شہید کردیا گیا اور آپ ایران کے ایک مشہور شہر مشہد میں دفن ہیں ۔ امام رضاؑ کا مزار آج بھی لاکھوں عاشقان اہل بیت ؑ کی زیارت گاہ ہے۔ دنیا کے مختلف کونوں سے آل رسول ؑ کے عقیدت مند عقیدت کے پھول نچاور کرنے وہاں جاتے ہیں ۔
[5]۔ امام موسیٰ کاظم ؑ کی بیٹیوں میں سے سب سے زیادہ شہرت جناب معصومہ قم ؑ کو حاصل ہے ۔ آپ نے اپنے والد کی مظلومانہ شہادت اور بھائی امام رضاؑ کی خراسان منتقلی کے بعد ان کی دیدار کے شوق میں اپنے بہت سے بھائیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ایران کا سفر کیا لیکن راستے میں اہل بیتؑ کے دشمنوں نے ان کے قافلے پر حملہ کیا اور بہت سے سادات کو شہید کر دیا ، اس درد ناک حادثے کے بعد جناب معصومہ نے وہاں سے قم کا رخ کیا کیونکہ قم شروع سے ہی اہل بیت ؑ کے دوستوں کا مرکز سمجھا تھا ۔ قم کے لوگوں نے آپ کا استقبال کیا لیکن اپنے بھائیوں کی شہادت کے غم میں آپ تاب نہ لاسکی اور قم میں ہی آپ کی وفات ہوئی ۔
[6]۔ لايزال الدين قائما حتى يكون اثناعشرخليفة/ مسند أحمد - ج5 ص 89- المعجم الكبير - ج2 ص208- ۔ اس سلسلے میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء میں ان بارہ کے مصداق کے بارے میں شدید اختلاف ہے ۔ دیکھیں بخاری کی مشہور شرح فتح الباری ’’ کتاب الفتن‘‘بَابُ الِاسْتِخْلَافِ ‘‘ ۔لیکن اہل تشیع والے اس چیز پر متفق ہیں کہ حضور پاکﷺ کے بارہ جانشین سے مراد سب سے پہلے امام علیؑ ،پھر امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور باقی نو امام حسین ؑ کی نسل سے ہیں جن میں پہلا امام زین العابدینؑ اور آخری امام مہدی ؑ ہیں۔
[7]۔ اصول کافی ، کتاب حجت، ص 241
[8]اصول کافی ، کتاب حجت، ص 243
[9] . لو قرأت هذا الإسناد على مجنون لبرىء من جنته / الصواعق المحرقة - ج2 ص 595.
[10] . عمدہ الطالب ۔ ص 196 الصواعق المحرقة ۔ ص 203
[11]۔ الصواعق المحرقة (2/ 590)
[12]. شرح نهج البلاغة ۔ ج 15 ص 273
[13]. شذرات الذهب ۔ ج 1 ص 304
[14]۔ مرآت الجنان ، ج 10 ص 394
[15]۔ تهذیب التهذیب ۔ ج 1 ص 399
[16]۔ میزان الاعتدال ۔ ج4 ص201 ـ 202 رقم 8855:
[17]. میزان الاعتدال ۔ ج 4 ص 204
[18]۔.نور الأبصار في مناقب آل البيت المختار ، ص148 ـ 152
[19]۔ النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة، ج2 ص112:
[20]۔ تهذیب التهذیب ۔ ج 1 ص 399 . تاريخ الإسلام (ص: 1418)تاريخ بغداد5/ 463
[21]. تهذيب الكمال (29/ 50)
[22]۔ مناقب ابن شهر آشوب ، ج 4 ص 297۔ 298
[23]۔ بحارالانوار، ج 2، ص 108 - 107
[24]. بحارالانوار، ج 2، ص 152.
[25]۔ سيرأعلام النبلاء (6/ 271)
[26]. مفاتيح الجنان (7/ 2)
[27]۔ وكان مثل صررموسى بن جعفر۔۔ / تاريخ بغداد (5/ 463،.
[28]۔ عمدہ الطالب ، ص 196
[29]۔وكان سخياكريما..... ۔سيرأعلامالنبلاء (6/ 271)
[30]. تاریخ بغداد ج 13 ص 27 و فیات الاعیان ۔ ج 5 ص 308
[31]۔ تاريخ بغداد (5/ 463
[32]۔هذا يدل على كثرة إعطاءالخلفاء العباسي ينله. .. تاريخ الإسلام للذهبي (3/ 416،
[33]۔اسی لئے بعض حکومتی کارندے امام کو ان کے پیروکاروں کی طرف سے ملنے والے مالی حقوق کو حکومت کے لئے خطرہ سمجھتے تھے اور حکومت کی طرف سے آپ پر لگائے جانے والے الزامات میں سے ایک یہی مسئلہ تھا ۔ إن الأموال تحمل إليه من المشرق والمغرب ۔مقاتل الطالبيين (ص: 132)
[34]۔ وكان يلقب الكاظم لأنه كان يحسن إلى من يسيء إليه...الكامل في التاريخ (5/ 320)
[35] . ولد عمر بن الخطاب كان بالمدينة يؤذيه ويشتم عليا / سير أعلام النبلاء 6 / 271 تاريخ بغداد (5/ 463،
[36]۔ سيرة الامام موسى الكاظم (عليه السلام) (ص: 33)
[37]۔ عوالى اللئالى : ج 3، ص 200، ح 22.
[38]۔ اہل سنت کے چار فقہی مکاتب میں سے فقہ حنفی امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہے ۔آپ مددت تک امام کاظم ؑ کے والد گرامی امام صادقؑ کے شاگرد بھی رہے۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے مقابلے میں اٹھنے والی تحریکوں میں خاندان نبوت کی حمایت کی اور اسی جرم میں بنی عباس کے زندان میں چل بسے ۔
[39]۔ دلائل الامامة ص 162 نقل از معجزات آل محمد ،بحرانی ، ج 3 ص 246۔247
[40]۔ ،إعلام الورى : ج 2،ص 29، ،مناقب ابن شهرآشوب : ج 4،ص 314.
[41]۔ دلائل الامامة ص 164 نقل از معجزات آل محمد ،بحرانی ، ج 3 ص 251۔250۔
[42]۔ إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات / ج4 / 220
[43] ۔ خلاصة شدہ از کتاب اصول الكافي ؛ ج1 ؛ ص476,بَابُ مَوْلِدِ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَر.
[44]۔ آل عمران/49.
[45] ۔ ورنہ ہندوستان کے مرتاضوں کا بھی اللہ کا ولی ہونا لازم آئے گا کیونکہ وہ لوگ بھی عجیب و غریب کام انجام دیتے ہیں ۔
[46]. الصواعق المحرقة ۔ ج۱ ص 204 صفةالصفوة (2/ 186)
[47] . ایک فرقه جو امام زین العابدین کے فرزند جناب زید کو امام مانتا ہے.اس فرقہ کے پیرو کار آج بھی یمن اور سعودی عرب میں میں آباد هیں.
[48]۔ من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية / طبقات الحنفية ص:457 اللمعات في العقائد لإمام الحرمين الجويني (ص: 12) شرح المقاصد (2/ 275)
[49]۔ دلائل الامامة ص 168۔169
[50]۔، قرب الاسناد ص ۱۴۲ معجزات آل محمد۔ج ۳ ۔ ص ۲۷۵
[51]۔ معجزات آل محمد۔ج ۳ ص ۳۰۰
[52]۔ اصول کافی کتاب حجت 1 ص 484
[53]۔ اصول کافی کتاب حجت ج 1 ۷ ص 484
[54]۔ اصول کافی ، ج ۱ ص 153
[55]۔ ۔ اصول کافی کتاب حجت، ج ۱ ص 242
[56]۔ الدر السنیة فی رد الوھابیة ۔ ج ۴ ص ۶
[57]۔ تاریخ بغداد ج ۱ ص ۱۲۰ / المنتظم ، ج 9 ص 89
[58]. نور الأبصار في مناقب آل البيت المختار ، ص148 ـ 152
[59]۔ سيرة الامام موسى الكاظم (ص: 23)
[60]- اہل سنت کے چار اعتقادی اور کلامی مکاتب :
اهلحدیث = وہ گروہ جو ظواهر کتاب کو لیتے ہیں اور ان میں تعقل اور ان کی تأویل کی مخالفت کرتے ہیں ۔
معتزله= بنی امیہ کا حکمران ، عبدالمالک مروان کے دور میں 60-86 قدریه یا معتزله وجود میں آیا اور اس گروہ نے جبریه [ اہل حدیث ] کے نظریات کا مقابلہ کیا ، واصل بن عطاء 80-131 نے اس عقیدے کا دفاع – واصل امام صادقؑ اور امام موسی کاظم ؑ کے دور میں تھا۔
اشاعره = یہ مکتب کلامي ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری 260-324 سے منسوب ہے اور یہ ائمہ اہل بیت ؑ میں سے امام عسکري(232-260) کا ہمعصر تھا.۔
ماترویدیه = یہ مکتب کلامي ،محمد بن محمد محمود ماترویدی متوفی333 سے منسوب ہے ۔
[61]۔ صحيح البخاري أبواب التهجد ، باب الدعاء والصلاة من آخر الليل
[62]۔ لَا تَزَالُ جَهَنَّمُ {تَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ} حَتَّى يَضَعَ رَبُّ الْعِزَّةِ فِيهَا قَدَمَهُ فَتَقُولُ قَطْ قَطْ/ صحيح البخاري كِتَاب الْعِلْمِ, بَاب قَوْلِهِ {وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ}/ صحيح مسلم ,كتاب الجنة وصفة نعيمها .. باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء .
[63]۔ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ/ صحيح البخاري . كِتَاب الْعِلْمِ, بَاب بَدْءِ السَّلَامِ
[64]۔ ما تضارون في رؤية الله تبارك وتعالى يوم القيامة إلا كما تضارون في رؤية أحدهما/صحيح مسلم , كتاب الإيمان, باب معرفة طريق الرؤية.
[65]۔ اصول کافی ، کتاب توحید ، بَابُ الْحَرَكَةِ وَ الِانْتِقَال ، ج ۱ ص 183
[66]. عيون أخبارالرضا (ع) –الشيخ الصدوق (1/ 126)
[67]۔ عیون اخبار الرضاؑ ،ج ۱ ص ۱۰۴۔/ مسند امام کاظم ؑ ، ج ۱ ص ۲۶۲
[68] . طبقات الحنابله.ج 2 ص 131. {ظاهری ترجمه}الله نے آدم کو اپنی شبیه خلق کیا هے.
[69] . عیون اخبار الرضا.ج 1 ص 120
[70]۔شرح أصول اعتقادأهل السنةوالجماعة (4/ 658)
[71]۔ مسند امام کاظم ؑ ، ج ۱ ص ۲۷۳
[72]۔جانشین وہ ہوتا ہے جو جس کا جانشین بن رہا ہے اس جیسی بنیادی خصوصیات کا مالک بھی ہو اور اس کی ذمہ داریوں کو ادا بھی کرسکتا ہو ،رسول اللہﷺ کی بنیادی ترین خصوصیات، دین کا ہادی اور پیشوا ہونا ، دینی تعلیمات میں سب سے زیادہ ماہر ہونا ہے ۔لہذا ائمہ اہل بیت ؑ، خلافت کے اس معنی کے مطابق رسول اللہﷺ کا حقیقی جانشین ہیں ۔
[73] . رجال کشی. ص 144
[74]۔[تاریخ فخری۔ ص 221۔ 222]
[75]. سنن ترمذی ح.3769
[76]. المعجم الکبیر . ج 3 ص 43. ح. 2630
[77]۔ استاد جعفر مرتضی کی کتاب الحیاۃ السیاسیہ للامام الحسنؑ ۔ص 34۔35 ملاحظہ کریں ۔
[78]۔ اس دور میں جناب فاطمہ ؑ کے اولاد کو علوی ہی کہا جاتا تھا ،چاہے نقوی سادات ہو یا کاظمی اور گیلانی وغیرہ۔
[79]۔سير أعلام النبلاء (11/ 338) تاريخ بغداد (13/ 31) تهذيب الكمال (29/ 49) وفيات الأعيان (5/ 309)
[80]. فتغير وجه الرشيد وقال: هذا الفخر يا أبا الحسن جداً؛ ثم أخذه معه إلى العراق، فحبسه ۔۔۔ الكامل في التاريخ (3/ 101
[81]۔الصواعق المحرقة ۔ص203 ۔ نور الأبصار في مناقب آل البيت المختار، ص148 ـ 152: مسند الامام الکاظم ج ۱۔ص 50۔
[82]۔ الاحتجاج، ج2، ص ص:۳۹۱
[83]۔وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ ۔۔ [الحشر: 6] فهي[ای فدک]ممالم يوجف عليه بخيلول اركاب فكانت خالصةلرسول الله،صلى الله عليه وسلم /معجم البلدان (4/ 238) البداية والنهاية (5/ 287)
[84]۔ لما نزلت هذه الآية وآت ذي القربى حقه دعا رسول الله صلىالله عليه وسلم فاطمة فأعطاها فدك / تفسير ابن كثير (5/ 68) الدر المنثور (5/ 273)/ فتح القدير (3/ 224) المطالب العالية (3/ 488) المقصد العلي في زوائد (3/ 19) مسند أبي يعلى (2/ 534)
[85]۔ ادعت رضي الله تعالى عنهاأن النبيصلى الله عليه وسلم أعطاهافدكا / السيرةالحلبية (3/ 487)
إن رسول الله صلى ا لله علي هوسلم جعل لي فدكف أعطني إياها/ معجم البلدان (4/ 239)فتوح البلدان (1/ 35)
لہذا جناب فاطمہ ؑ کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ فدک کو ان سے چھین لیا گیا ہے اسی لئے آپ نے جب خلیفہ سے اس کا مطالبہ کیا اور جب ان کا مطالبہ منظور نہیں ہوا تو آپ نے ان سے قطع تعلق کیا اور آخری عمر تک خلیفہ بات نہیں کی ، جنازے میں دوسروں کو شرکت کی اجازت نہیں دی اور نمازجنازہ خلیفہ کو اطلاع دئے بغیر علی ابن ابی طالب ؑ نے ادا کی ، ملاحظہ کریں ۔صحيح البخارى کتاب ، المغازى باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ , / صحیح مسلم ،كتاب الجهاد والسير ,باب قول النبي صلى الله عليه و سلم ( لا نورث ما تركنا فهو صدقة.
[86]۔وشهد لها علي بن أبي طالب، رضي الله عنه، فسألها شاهدا آخر فشهدت لها أمّ أيمن مولاة النبي، صلّى الله عليه وسلّم: ۔
معجم البلدان (4/ 239)السيرة الحلبية (3/ 487)فتوح البلدان (1/ 35)
[87]۔ كتب لها بفدك ودخل عليه عمررضى الله تعالى عنه فقال ما هذا فقال كتاب كتبته فاطمه بميراثها من ابيها فقال مماذا تنفق على المسلمين وقد حار بتك العرب كما ترى ثم احذ عمر الكتاب فشقه ۔ السيرة الحلبية (3/ 488)
[88]۔سيرة الامام موسى الكاظم (عليه السلام) (ص: 33)
[89] .ربيع الأبرار ونصوص الأخبار،ج1 ص315 ـ 316
[90] بَلَى كَانَتْ فِي ايْدِينَا فَدَكٌ مِنْ كُلِّ مَا اظَلَّتْهُ السَّمَاءُ، فَشَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِينَ، ۔۔۔ نهج البلاغه (خط 45/
جیساکہ خلیفہ دوم سے اس کام کی توجیہ میں نقل ہوا ہے ۔فقال مماذا تنفق على المسلمين وقد حار بتك العرب كما ترى ثم احذ عمر الكتاب فشقه / السيرة الحلبية (3/ 488)
اہل سنت کا ایک عالم ابن ابی الحدید معتزلی کہتا ہے : میں نے اپنے استاد سے سوال کیا : کیا فاطمہ اپنے اس دعوے میں سچی تھی ؟ جواب دیا: ہاں، تو میں نے کہا پھر کیوں انہیں واپس نہیں کی گئی۔ تو انہوں نے ہنس کر کہا : اگر ایسا کرتا تو دوسرے دن وہ خلافت کا مطالبہ کرنے آٓتی۔ شرح نهج البلاغة - ابن ابي الحديد (ص: 4686)
[91]۔وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى۔۔۔۔۔ [الأنفال: 41]
واعلم أنهم أجمعوا على أن المراد من قوله : { وَلِذِي القربى } بنو هاشم وبنو المطلب۔ تفسير الرازي (15/ 298، )
وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَى، قَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ/ الأموال لابن زنجويه (1/ 99) تاريخ المدينة (2/ 651) سنن البيهقى (2/ 278) سنن النسائي (13/ 23)
[92]۔ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيهِمْ...مسند أحمد (4/ 83)
أَنَّ حَسَنًا وَحُسَيْنًا وَابْنَ عَبَّاسٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْ سَأَلُوا عَلِيًّا رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ نَصِيبَهُمْ مِنَ الْخُمُسِ فَقَالَ : هُوَ لَكُمْ حَقٌّ وَلَكِنِّى مُحَارِبٌ مُعَاوِيَةَ فَإِنْ شِئْتُمْ تَرَكْتُمْ حَقَّكُمْ مِنْهُ/ سنن البيهقى (2/ 65)
[93]۔وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ۔۔ صحيح البخارى کتاب ، المغازى باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ۔/ صحیح مسلم ،كتاب الجهاد والسير ,باب قول النبي لا نورث ما ..
[94]. قَالَ لِي هَارُونُ أَ تَقُولُونَ إِنَ الْخُمُسَ لَكُمْ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ إِنَّهُ لِكَثِيرٌ قَالَ قُلْتُ إِنَّ الَّذِي أَعْطَانَاهُ عَلِمَ أَنَّهُ لَنَا غَيْرُ كَثِيرٍ/ بحار الأنوار ؛ ج93 ؛ ص188
[95]. وَ إِنَّمَا جَعَلَ اللَّهُ هَذَا الْخُمُسَ خَاصَّةً لَهُمْ .. عِوَضاً لَهُمْ مِنْ صَدَقَاتِ النَّاسِ ..... فَجَعَلَ لَهُمْ خَاصَّةً مِنْ عِنْدِهِ مَا يُغْنِيهِمْ بِهِ عَنْ أَنْ يُصَيِّرَهُمْ فِي مَوْضِعِ الذُّلِّ وَ الْمَسْكَنَة / اصول الكافي ج1 ؛ ص540 .
[96]- المعجم الكبير - ج 5 ص 154- مسند أحمد - ج44 ص 134- مصنف ابن أبي شيبة - ج11 ص452۔
[97]- سنن الترمذي - ج5 ص663- ا اللالكائي ،هبة لله بن الحسن الفتح الكبير - ج1 ص 418 -
- الإشبيلي ، ، الأحكام الشرعية الكبرى- ج4 ص460- الصواعق المحرقة - ج2 ص 438-
تفسير ابن كثير - ج12 ص 273- الدر المنثور ج7 ص 349
[98] .اصول كافى ج 1 ص 179 ح 9.
[99] . مستدرك الوسائل : ج 17، ص 278، ح 35.
[100]۔ بحارالا نوار: ج 2، ص 66، ح 6.
[101] ۔ خاص موقعوں پر دشمن کے شر سے جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنے باطنی عقیدے کو چھپا نے کو تقیہ کہا جاتا ہے اور یہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے {مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ اِیمَانِہِ ِالاَّ مَنْ ُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنّ بِالْایمَانِ۔۔۔(سورہ نحل آیت:106) مفسرین نے اس آیت کی شان نزول میں لکھا ہے :ایک دن کفار نے جناب عمار ابن یاسر کو ان کے ماں باپ کے ہمراہ گرفتار کرلیا۔۔ اس وقت جناب عمار نے اپنے باطنی عقیدے کے برخلاف تقیہ اختیار کرکے ظاہری طور پر کفر کے کلمات اپنی زبان پر جاری کیا تو کفار نے انہیں چھوڑ دیا پھر جناب عمار انتہائی پریشانی کے عالم میں رسول خدا کی خدمت میں پہنچے تو آنحضرت نے انہیں تسلی دی اور پھر اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی . اس آیت اور اس کی تفسیر سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرخدا کے زمانے میں اصحاب بھی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنے باطنی عقیدے کو چھپا کر تقیہ کرتے تھے. ) خلاصہ : دشمن کے شر سے بچنے کے لئے ظاہری طور پر کفر یا باطل کا اظہار + ایمان باطنی = تقیہ ۔[سورہ آل عمران آیت: ٢8]
تقیہ اور منافقت میں فرق ؛ منافقت میں کفر اور باطل کو چھپایا جاتا ہے ۔ برخلاف تقیہ کے جس میں ایمان اور حق کو چھپایا جاتا ہے ۔ کفر باطنی+ ایمان ظاہری = نفاق [سورہ بقرہ آیہ 14]
[102] بحار الانوار . ج 48. ص 136 .
[103] . رجال کشی. ص .433.
[104] . ارشاد.ص 274/275
[105]۔ عیون الاخبارالرضا۔ج 1 ص 79
[106]۔ البدايةوالنهاية (10/ 197) المنتظم (8/ 257)تاريخ ابن الوردي (1/ 198)تاريخ بغداد (5/ 464،
[107]۔وفيات الأعيان (5/ 309)
[108]۔ وفيات الأعيان (5/ 309) مرآة الجنان (1/ 180۔ شذرات الذهب (2/ 378)مروج الذهب (2/ 2،
[109]۔ فأمر بالفضل فجرد ثم ضربه مائة سوط./ مقاتل الطالبيين (ص: 132،
[110] .دیکھیں رسول جعفریان کی کتاب ، ائمہ اہل بیت کی فکری اور سیاسی زندگی۔ص 398۔399
[111]۔ شذرات الذهب (1/ 304)تاريخ بغداد (13/ 31) سير أعلام النبلاء .11/ 338)
[112]۔ جیساکہ اہل تشیع کی معتبر حدیثی اور عقائدی کتابیں اس پر شاہد ہے ۔
[113]۔[إِنَّهُ لَنْ يَنْقَضِيَ عَنِّي يَوْمٌ مِنَ البَلاَءِ، إِلاَّ انْقَضَى عَنْكَ مَعَهُ يَوْمٌ مِنَ الرَّخَاءِ، حَتَّى نُفضِيَ جَمِيْعاً إِلَى يَوْمٍ لَيْسَ لَهُ انْقِضَاءٌ، يَخسَرُ فِيْهِ المُبْطِلُوْنَ/ الكامل في التاريخ (5/ 320)المنتظم (3/ 147 ) تاريخ الإسلام للإمام الذهبي (12/ 418)تاريخ بغداد (5/ 465۔
[114]- أنساب الأشراف [2 /119] الامامة والسياسة - ابن قتيبة الدينوري، [1 /281]
[115]- قال:من رأى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم الله ناكثاً لعهد الله مخالفاً لسنة. الكامل في التاريخ [2 /165] تاريخ الطبري [3 /307]أنساب الأشراف [1 /414]
[116] -.. أيهاالناس إني تارك فيكم ماإن أخذتم به لن تضلوا بعدي.. سنن الترمذي - ج5 ص663- مسند أحمد بن حنبل [3 /59] السلسلة الصحيحة [4 /260]
[117].’ آپ کہہ دیجئےکہ میں تم سےاس تبلیغ رسالت کاکوئی اجرنہیں چاہتاعلاوہ اسکےکہ میرےاقرباءسےمحبت کرو {شوری،23}: وَأَحِبُّوا أهل بيتى بحبى.ترجمه: مجھ سے محبت کی وجه سے میری اهل بیت ؑ سے محبت کرو سنن الترمذى [12 /260]. المعجم الكبير [3 /46] جامع الأصول في أحاديث الرسول [9 /154]
[118] -. فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ... قَالَ . قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ .... صحيح مسلم [2 /373] المعجم الكبير [5 /218]
[119]-الصواعق المحرقة [2 /435]
[120]۔حرمت الجنة على من ظلم أهل وآذاني في عترتي ۔ الجامع لأحكام القرآن [16 /22]الكشاف [6 /191]
و الذي نفس بيده لا يبغضنا أهل البيت أحد إلاأدخله الله النار / المستدرك على الصحيحين [3 /162] 2488 صحيح -السلسلة الصحيحة - البانی۔ [5 /643]
- نظر النبي صلى الله عليه و اله و سلم إلى علي و فاطمة و الحسن و الحسين فقال : أنا حرب لمن حاربكم و سلم لمن سالمكم ۔مسند أحمد [15 /436] المعجم الكبير [5 /184]
[121]-المعجم الكبير -ج 3 ص۶۶ -65- الصواعق المحرقة - ج2 ص 653-
[122]۔- نہج البلاغہ خطبه،۹۷
[124]۔اصول کافی ج ۱ ص ۳۹۹
[125]۔اصول کافی ۔ ج ۱ ص ۴۷۸
[126]. دلائل الامامہ، ص ۱۰۴
[127]- ابنجوزی، تلقیح فهوم اهلالاثر، ص287
[128] مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸.
[129]- سیری در صحیحین، ص133 مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸.
[130]- ابنجوزی، تلقیح فهوم اهلالاثر، ص287
[131]- مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸
[132]- المستدرك على الصحيحين - ج3 ص 137- المعجم الكبير - ج11 ص65 - تاريخ بغداد - ج2 ص 377-الرياض النضرة –ج 1 ص265
[133] . تحف العقول : ص 397 بحارالا نوار: ج 1، ص 154، ضمن وصیت برای ہشام ۔
[134] . تحف العقول : ص 386، بحارالا نوار: ج 1، ص 136، ضمن ح 30.
[135] ۔ تحف العقول ؛ ص389
[136] . . تحف العقول ؛ ص388
[137] . كافى : ج 1، ص 50، ح 11
[138] . تحف العقول : ص 304
[139] . - تحف العقول : ص 302،
[140] . تحف العقول ؛ النص ؛ ص394
[141] . اصول كافى : ج 1 ص 72 ح 10.
[142] . تحف العقول : ص 396، بحارالا نوار: ج 1، ص 152، ضمن ح 30.
[143] . سفینہ البحار ، ج 3 ص 239
[144] . بحارالا نوار: ج 1، ص 152، ضمن ح 30
[145] : تحف العقول ؛ النص ؛ ص399
[146] . تحف العقول ، ص 410
[148] . - تحف العقول : ص 388، س 17، بحارالا نوار: ج 75، ص 303، ضمن حديث 25.
[149] . ، بحارالا نوار: ج 75، ص 327، ضمن ح 4.
[150] . تحف العقول ؛ ص391
[151]۔ تحف العقول ، ص 403
[152]۔ تحٖف العقول ص 408
[153] . وسائل الشّيعة : ج 21، ص 479، ح 27805
[154] . نزهة الناظر و تنبيه الخاطر حلوانى : ص 123، ح 6.
[155]. تحف العقول ؛ النص ؛ ص409
[156] . بحارالا نوار: ج 1، ص 150، ضمن ح 30.
[157] ۔ تحف العقول ، ص : 383
[158] . نزهة الناظر و تنبيه الخاطر: ص 124، ح 15.
[159] . بحارالا نوار: ج 75، ص 327، ضمن ح 4
[160] . وسائل الشّيعة : ج 12، ص 118، ح 15812
[161] . وسائل ج 17 ص 58 ح 4.
[162]۔ تحٖف العقول ص ۲۹۲
[163] . تحف العقول : ص 297، بحارالا نوار: ج 75، ص 327، ضمن ح 4.
[164] ۔ تحف العقول ؛ النص ؛ ص389
[165]۔ تحٖف العقول۔۔ 409
[166] . وسائل الشّيعة : ج 16، ص 95، ح 21074.
[167]تحف العقول ؛ ص410
[168] . وسائل الشّيعة : ج 2، ص 65، ح 1499.
[169] . وسائل الشّيعة : ج 2، ص 52، ح 1454.
[170]۔ تحف العقول ص413
[171] ۔ تحف العقول ؛ النص ؛ ص398