2024 March 28
كرامات امام رضا (ع) اہل سنت کی روایات کی روشنی میں
مندرجات: ٩٠٧ تاریخ اشاعت: ٠٥ August ٢٠١٧ - ١١:٤٢ مشاہدات: 5695
یاداشتیں » پبلک
كرامات امام رضا (ع) اہل سنت کی روایات کی روشنی میں

امام رضا (ع) کی پر برکت زندگی میں مدینہ سے مرو تک اور امامت کی مدت میں رونما ہونے والی کرامات و واقعات، سب کے سب انکی نا قابل وصف عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ اس بارے میں اہل سنت کے علماء کی روایات حیرت انگیز اور قابل تعریف ہیں۔ اس تحریر میں اہل سنت کے معتبر علماء کی معتبر کتب سے امام رضا (ع) کی کرامات کو ذکر کریں گے، تا کہ واضح ہو سکے کہ آئمہ اہل بیت (ع) کی شفاعت، ان سے توسل، انکی قبور کی زیارت وغیرہ کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کے عقائد کتنے آپس میں نزدیک ہیں۔

اہل سنت کے بزرگان نے امام رضا (ع) کے بلند و روحانی مقام و منزلت کے بارے میں بہت اعلی قسم کے اعترافات کیے ہیں کہ ان میں سے بعض کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔

1- مجد الدين ابن اثير جَزَری ( متوفی606 ہجری):

ابو الحسن علی ابن موسی ... معروف بہ رضا، کا مقام و منزلت انکے والد موسی ابن جعفر کی طرح تھی۔ علی ابن موسی اپنے زمانے میں شیعوں کی امامت کے منصب پر فائز تھے، انکے بے شمار فضائل تھے۔ خداوندا اپنی رحمت اور رضوان کو ان پر نازل فرما۔

تتمي جامع الاصول، ابن اثير جزري، مكتبي النجاريي، مكه، عربستان، چاپ دوم، ج2، ص715،1403ق.

2- محمد بن طلحہ شافعی(متوفی 652 ہجری):

امير المؤمنين علی اور زين العابدين علی کے بارے میں بات ہو چکی اور علی الرضا ان میں سے تیسرے ہیں۔ جو بھی انکی شخصیت میں تھوڑا غور کرے تو جان لے گا کہ علی ابن موسی وارث امير المؤمنين علی اور زين العابدين علی ہیں، اور وہ بندہ خود کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ وہ تیسرے علی ہیں۔ انکا ایمان و مقام و منزلت اور انکے کثیر اصحاب ہونے کی وجہ سے مامون نے انکو اپنی حکومت کے معاملات میں شریک کیا اور اپنی ولیعہدی کے لیے بھی انہی کا انتخاب کیا۔۔۔۔۔۔

مطالب السؤول، محمد بن طلحه شافعي، مؤسسه البلاغ، بيروت، لبنان، چاپ اول، ص295، 1419ق.

3- عبد الله بن اسعد يافعی شافعی (متوفی 768 ہجری):

وہ (امام رضا) امام ، با جلالت ، بزرگان کی اولاد اور اہل خیر و کرم ابو الحسن علی بن موسی الكاظم ہیں۔ وہ شیعوں کے بارہ آئمہ میں سے ایک امام ہیں، اور شیعیان انہی کی امامت کے قائل ہیں۔ وہ صاحب فضائل و مناقب ہیں۔

مرآة الجنان، يافعي، دارالكتب العلميي، بيروت لبنان، چاپ اول، ج2، ص10، 1417ق.

4- ابن صبّاغ مالكی ( متوفی 855 ہجری):

علی ابن موسی الرضا اعلی ترین و بہت سے فضائل و کرامات و بہترین اخلاق اور معنوی صورت و سیرت سے مزیّن ہیں کہ ان تمام کمالات اور خصوصیات کو انھوں نے اپنے آباء و اجداد سے میراث میں لیا ہے۔

الفصول المهمي، ابن صباغ مالكي، اعلمي، تهران، يران، ص263.

5- عبد الله بن محمد عامر شبراوی شافعی (متوفی 1172 ہجری):

آٹھویں امام امام علی ابن موسی الرضا ہیں کہ انکے اعلی فضائل، اولیاء خدا جیسی صفات اور کرامات نبوی (ص) قابل شمار و وصف نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔

الاتحاف بحب الاشراف، شبراوي شافعي، دارالكتاب قم، يران، چاپ اول1423ق.

6- يوسف بن اسماعيل نبہانی (متوفی 1350 ہجری):

علی ابن موسی بزرگ آئمہ میں سے ہیں، امت کے روشن چراغ، رسول خدا کے اہل بیت، معدن علم و عرفان و کرم و مردانگی تھے۔ ان کا مقام بہت بلند اور نام بہت معروف ہے، انکی کرامات بہت زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔۔

جامع كرامات الاولياء، نبهاني، ص311، دارالفكر، بيروت، لبنان، چاپ اول، ص312و313،1414ق.

7- شيخ ياسين بن ابراہيم سنہوتی شافعی:

امام علی ابن موسی الرضا ( رضی الله عنہ ) بزرگان اور بہترین نسل میں سے ہیں، وہ خداوند کی خلقت کا شاہکار ہیں۔ کوئی انسان بھی انکی شخصیت کے مقام کو درک نہیں کر سکتا۔ ان کا مقام بہت بلند اور فضائل بہت معروف ہیں، اور انکی کرامات بہت زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔۔

الانوار القدسيه، سنهوتي شافعي، ص39، انتشارات السعادي، مصر.

8- ابو الفوز محمد بن امين بغدادی سُوِيدی:

وہ (امام رضا) مدینہ میں دنیا میں آئے، انکی کرامات بہت زیادہ اور فضائل اتنے مشہور ہیں کہ قلم ان تمام کو بیان کرنے سے عاجز ہے۔

سبائك الذهب في معرفي قبائل العرب، ابوالفوز سؤيدي، المكتبه، بيروت، لبنان، چاپ دوم، ص334.

9- عباس ابن علی ابن نور الدين مكّی:

علی ابن موسی کے فضائل کی کوئی حد و شمار نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔

نزهة الجليس، عباس بن نور الدين مكّي، قاهره، مصر، ج2، ص105.

امام رضا (ع) کی بعض کرامات:

رسول خدا (ص) کا حمیدہ کو خوشخبری دینا:

امام رضا رسول خدا (ص) کی دعا و برکت سے دنیا میں آئے تھے۔ اہل سنت کی روایات کے مطابق:

جب امام کاظم کی والدہ حمیدہ نے نجمہ نامی ایک کنیز کو بازار سے خریدا تو ، اسی رات انھوں نے رات کو خواب میں رسول خدا کو دیکھا کہ جو فرما رہے تھے کہ: اس کنیز کو اپنے بیٹے (امام کاظم) کو ہدیہ کے طور پر دے دو، بے شک اس سے ایک ایسا بیٹا دنیا میں آئے گا کہ جو تمام اہل زمین سے افضل ہو گا۔ حمیدہ نے بھی اس خواب پر عمل کیا اور امام نے نجمہ کا نام بدل کر طاہرہ رکھ دیا۔

روضة الاحباب، عطاء الله بن فضل الله شيرازي، ص43، استامبول، تركيه؛

مفتاح النجاة في مناقب آل العبا، محمد خان بن رستم بدخشي، مخطوط، ص176، به نقل از احقاق الحق، ج12، ص364؛

تاريخ الاسلام و الرجال، شيخ عثمان سراج الدين حنفي، ص369، مخطوط، به نقل از احقاق الحق، ج12، ص348.

حمل کے دوران معجزے کا ظاہر ہونا:

امام رضا کی والدہ محترمہ نے فرمایا ہے کہ: جب میں حاملہ تھی تو اس مدت میں میں بالکل حمل کے وزنی ہونے کا احساس نہیں کرتی تھی اور رات کو سوتے وقت میں اپنے پیٹ سے تسبيح و تہليل و تقديس کی آوازوں کو سنا کرتی تھی۔

روضة الاحباب، ج4، ص43؛ مفتاح المعارف، مولوي عبد الفتاح حنفي هندي، مخطوط، ص79، بنقل از احقاق الحق، ج12،ص553.

امام رضا  (ع) کا دنیا میں آتے ہی مناجات کرنا:

امام رضا کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ: 

جب وہ دنیا میں آئے تو انھوں نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر سر کو آسمان کی طرف بلند کیا تو اس وقت انکے لب حرکت کر رہے تھے، گویا وہ اپنے خدا سے مناجات کر رہے تھے۔ اسی حالت میں انکے والد محترم آئے اور مجھ سے فرمایا کہ:

«هنيئا لك كرامة ربَّكِ عزّوجل،

خداوند کی طرف سے تم پر یہ عزت و احترام تم کو مبارک ہو۔

اسی وقت میں نے بیٹے کو انکے والد کو دیا تو انھوں نے بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور نہر فرات کے پانی کو گھٹی میں پلایا۔

احقاق الحق، شهايد قاضي نور الله شوشتري، ج12، ص343، به نقل از محمد خواجه پارسي بخاري، فصل الخطاب.

ہارون مجھ پر غالب نہیں آ سکتا:

صفوان ابن يحيی نے کہا ہے کہ:

امام کاظم کی شہادت اور علی ابن موسی الرضا کی امامت کے بعد، ہم ہارون کی طرف سے امام رضا کے خلاف دوبارہ ڈر رہے تھے۔ اس بات کو ہم نے امام رضا کو بتایا تو امام نے فرمایا کہ:

ہارون اپنی کوششیں جاری رکھے گا لیکن اسکو کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔

صفوان کہتا ہے کہ میرے لیے ایک قابل اعتماد بندے نے نقل کیا ہے کہ: يحيی بن خالد برمكی نے ہارون الرشید سے کہا کہ: علی ابن موسی نے امامت کا دعوی کر دیا ہے ( وہ اس بات سے ہارون کو غصہ دلانا چاہتا تھا ) ہارون نے جواب دیا کہ: جو کچھ ہم نے اسکے والد کے ساتھ کیا ہے، وہ کافی ہے، کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ان سب کو قتل کر دیں ؟!

الفصول المهمي، ص245؛ نور الابصار، دارالكتب العلميه، بيروت، لبنان، چاپ اول1418ق، ص243؛ جامع كرامات الاولياء، ج2، ص311؛ الاتحاف بحب الاشراف، ص314.

میری اور ہارون کے دفن ہونے کی جگہ ایک ہی ہو گی:

موسی بن عمران نے کہا ہے کہ: ایک دن میں نے علی بن موسی الرضا کو مسجد نبوی میں دیکھا، وہاں پر میں نے دیکھا کہ ہارون لوگوں سے خطاب کرنے میں مصروف تھا، امام نے مجھ سے فرمایا کہ: تم اس دن کو دیکھو گے کہ میں اور ہارون ایک ہی جگہ دفن ہوں گے۔

الفصول المهمه، ص246؛ نور الابصار، ص244؛ جامع كرامات الاولياء، ج2، ص312.

امام نے مکہ میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ حمزه بن جعفر ارجانی نے کہا ہے کہ: ہارون الرشید ایک دروازے سے اور علی ابن موسی الرضا دوسرے دروازے سے مسجد الحرام سے باہر نکلے۔ اس وقت امام رضا نے ہارون کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ: ابھی ہم ایک دوسرے سے دور ہیں، لیکن ہم دونوں کی ملاقات نزدیک ہے، اے طوس ! بے شک تم مجھے اور اسکو ایک جگہ پر اکٹھا کر دو گے۔ ( یعنی میں اور ہارون ایک ہی جگہ دفن ہوں گے )

نورالابصار، ص244؛ جامع كرامات الاولياء، ج2، ص313؛ الاتحاف بحب الاشراف، ص315،316.

مأمون، امين کو قتل کرے گا:

حسين بن ياسر نے کہا ہے کہ: ایک دن علی ابن موسی الرضا نے مجھ سے فرمایا کہ: بے شک عبد اللہ (مامون) اپنے بھائی محمد (امین) کو قتل کرے گا۔ میں نے امام سے پوچھا کہ : یعنی عبد الله بن ہارون، محمد بن ہارون کو قتل کرے گا ؟ امام نے فرمایا: ہاں، عبد الله مأمون، محمد امين کو قتل کرے گا۔ امام کی پيشگوئی کے مطابق وہی واقع ہوا جو امام نے فرمایا تھا۔

الفصول المهمه، ص247؛ نورالابصار، ص243؛ الاتحاف بحب الاشراف، ص319.

تیری بیوی جڑواں بچوں کو جنم دے گی:

بكر بن صالح کہتا ہے کہ: میں امام رضا کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میری بیوی کہ جو محمد بن سنان کہ جو آپکا خاص شیعہ ہے، کی بہن ہے، وہ حاملہ ہے، مولا آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ خداوند مجھے بیٹا عطا کرے۔ امام نے فرمایا: خداوند تمہیں دو بچے عطا فرمائے گا۔ جب میں امام کے پاس اٹھ کر جا رہا تھا، تو میں نے سوچا کہ ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام علی رکھوں گا۔ اسی وقت امام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مجھ سے فرمایا کہ: ایک کا نام علی رکھنا اور دوسرے کا نام امّ عمرو رکھنا۔ وہ کہتا ہے کہ جب میں کوفہ اپنے گھر پنچا تو معلوم ہوا کہ میری بیوی نے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو جنم دیا ہے، ان دونوں کے نام کو جیسے امام رضا نے فرمایا تھا، ویسے ہی رکھا۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ امّ عمرو کا کیا معنی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ: تیری نانی کا نام بھی امّ عمرو تھا۔

الفصول المهمه، ص246، نورالابصار، ص243؛ اخبار الدول و آثار الاول، بغداد، عراق، بي تا، ص114؛ جامع كرامات الاولياء، ج2، ص313، الاتحاف، بحب الاشراف، ص316.

جعفر بہت جلد مالدار ہو جائے گا:

حسين بن موسی نے کہا ہے کہ: بنی ہاشم کے بعض جوانان امام رضا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ جعفر ابن عمر علوی فقیروں کی سی حالت میں ہمارے پاس سے گزرا۔ ہم میں سے بعض نے اسکو تمسخر آمیز حالت میں دیکھنا شروع کر دیا۔

امام رضا نے فرمایا: آپ لوگ بہت جلد دیکھو گے کہ اسکی زندگی کی حالت تبدیل ہو جائے گی، اسکا مال زیادہ، اسکے خدمت گذار بہت زیادہ اور اسکا ظاہری حلیہ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔

حسين بن موسی کہتا ہے کہ ایک مہینہ گزرنے کے بعد مدینہ کا حاکم تبدیل ہو گیا اور اس نے نئے حاکم کے نزدیک ایک خاص مقام و منزلت حاصل کر لی اور اسکی زندگی جیسا کہ امام رضا نے فرمایا تھا، تبدیل ہو گئی، پھر اسکے بعد ہم جعفر ابن عمر علوی کا احترام اور اسکے لیے دعا کیا کرتے تھے۔

نور الابصار، ص243؛ مفتاح النجاة، ص76؛ اخبار الدول و آثار الاول، ص114؛ الاتحاف، بحب الاشراف، ص318.

خود کو موت کے لیے تیار کرو:

حاكم نيشاپوری نے اپنی سند کے ساتھ سعید ابن سعد سے نقل کیا ہے کہ ایک دن امام رضا نے ایک بندے کو دیکھ کر اس سے فرمایا کہ:

يا عبد الله اوص بما تريد و استعد لما لابد منه فمات الرجل بعد ذلك بثلاثة ايّام ،

اے بندہ خدا ! اپنے گھر والوں کو وصیت کرو اور اپنے آپکو اس چیز کے لیے کہ جس سے رہائی ممکن نہیں ہے، تیار کرو۔ راوی کہتا ہے کہ وہ بندہ تین دن کے بعد دنیا سے چلا گیا۔

الصواعق المحرقه، ابن حجر هايثمي، دارالفكر، بيروت، لبنان، ص122،

الفصول المهمه، ص247؛

نورالابصار، ص243؛

اخبار الدول و آثار الاول، ص114؛

جامع كرامات الاولياء، ج2، ص311؛

نتيج الافكار القدسيه، سيد مصطفي بن محمد العروس مصري، دمشق، سوريه، بي تا، ج1، ص80؛

الاتحاف، بحب الاشراف، ص318؛ الانوار القدسيه، ص39.

ابو حبيب کی خواب:

حاكم نيشاپوری نے اپنی سند کے ساتھ ابو حبیب سے نقل کیا ہے کہ: ایک دن میں نے رسول خدا کو خواب میں حجاج کے گھر میں دیکھا۔ میں نے انکو سلام کیا۔ انکے سامنے ایک برتن میں مدینہ کی صیحانی نام کی کھجوریں پڑی تھیں۔ انھوں نے مجھے 18 کھجوریں ان میں سے دیں اور میں نے انکو کھا لیا، نیند سے بیدار ہونے کے بعد ان کھجوروں کا مزہ میرے منہ میں تھا اور میں ہمیشہ آرزو کرتا تھا کہ اے کاش ان کھجوروں کو دوبارہ کھانا مجھے نصیب ہو۔

20 دن کے بعد ابو الحسن علی ابن موسی الرضا مدينہ سے مكہ آئے اور اسی مکان میں قیام فرمایا۔ لوگ انکا دیدار کرنے کے گئے، میں بھی امام سے ملاقات کرنے کے لیے وہاں گیا، میں نے دیکھا کہ وہ اسی جگہ بیٹھے ہیں، جہاں رسول خدا خواب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اور ان کے سامنے بھی ایک برتن میں مدینہ کی صیحانی نام کی کھجوریں پڑی تھیں۔ میں نے امام کو سلام کیا اور انھوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اپنے ہاتھ سے اس برتن سے مجھے کچھ کھجوریں دیں، میں نے انکو گنا تو وہ بھی 18 کجھوریں تھیں۔ میں نے امام سے عرض کیا، تھوڑی اور زیادہ کھجوریں مجھے دیں۔ امام نے فرمایا: اگر رسول خدا نے اس سے زیادہ دی ہوتیں تو میں بھی تم اس سے زیادہ دیتا۔

الصواعق المحرقه، ص122؛الفصول المهمه، ص246؛ اخبار الدول و آثار الاول، ص114؛

مفتاح النجاة، ص376؛ وسيلة المال، ابن كثير حضرمي، مكتبه الظاهريه، دمشق، سوريه، بي تا، ص212؛  نورالابصار، ص243؛جامع كرامات الاوليا، ج2، ص311؛

نتيج الافكار القدسيه، ج1، ص80؛ الاتحاف بحب الاشراف، ص316؛ وسيلة النجاة، محمد مبين هندي، الكهنو، هند، بي تا.

برمکیوں کی حکومت کا تختہ الٹنا:

مسافر کہتا ہے کہ: میں مکہ میں سرزمین منی میں امام رضا کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک يحيی ابن خالد برمكی چہرے پر نقاب لگائے اور غبار آلود چہرے کے ساتھ اس مجلس میں داخل ہوا۔ امام نے ہم سے فرمایا: یہ ایسے بیچارے ہیں کہ انکو پتا ہی نہیں ہے کہ اس سال انکے ساتھ کیا ہو گا۔ مسافر کہتا ہے کہ:

اسی برمکیوں کی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور امام کی پیشنگوئی سچ ثابت ہو گئی۔ مسافر نے مزید کہا کہ: امام نے فرمایا کہ: اور اس سے بھی عجیب تر میں اور ہارون ہیں کہ ہم دونوں میرے ہاتھ کی ان انگلیوں کی مانند ہیں۔ مسافر نے کہا کہ: مجھے امام کی اس بات کی سمجھ نہ آئی، یہاں تک کہ امام دنیا سے چلے گے اور انکو ہارون کے ساتھ دفن کیا گیا۔

الفصول المهمه، ص245؛نورالابصار، ص243؛

جامع كرامات الاولياء، ج2، ص312؛

الاتحاف بحب الاشراف، ص314.

میری ولیعہدی زیادہ طولانی نہیں ہو گی:

مدينی کہتا ہے کہ: جب امام رضا ولیعہدی کے لیے بیعت کرنے کی محفل میں خاص لباس پہنے بیٹھے ہوئے تھے اور خطاب کرنے والے خطاب کر رہے تھے۔ امام نے دیکھا کہ ان کے اصحاب میں سے ایک صحابی امام کی ولیعہدی پر بہت ہی زیادہ خوش تھا۔ امام نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور اسکے کان میں فرمایا کہ: اپنا دل میری اس ولیعہدی کے ساتھ نہ لگاؤ، کیونکہ میری ولیہعدی کی مدت زیادہ نہیں ہو گی۔

الفصول المهمه، ص256؛ مفتاح النجاة، ص178.

سازشیں کرنے والے رسوا  اور ناکام  ہوں گے:

جب مامون نے امام رضا کو اپنا ولیہعد اور اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیا تو، مامون کے نزدیکی دوست اسکے اس کام سے ناراض تھے اور وہ ڈرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خلافت بنی عباس سے بنی فاطمہ تک منتقل ہو جائے۔ لہذا وہ امام رضا کی نسبت اپنے دل میں کینہ و نفرت رکھتے تھے اور ہر وقت فرصت کی تلاش میں رہتے تھے کہ اپنے اس باطنی کینے کو ظاہر کریں۔ اسی وجہ سے انھوں نے آپس میں طے کیا کہ جب بھی امام رضا خلیفہ کے پاس آئیں گےاور جب خادمان پردے کو اٹھائیں گے کہ امام اس محفل میں داخل ہوں تو، اس وقت کوئی بھی امام کو سلام نہ کرے، کوئی انکا احترام نہ کرے اور کوئی بھی پردے کو اوپر نہ اٹھائے، اس ارادے و نیت کے بعد امام روزانہ کی عادت کے مطابق اس برآمدے میں داخل ہوئے تو انھوں نے اپنے طے شدہ ارادے کے بر خلاف اچانک پردے کو اوپر اٹھایا اور امام آرام سے اس محفل میں داخل ہو گئے۔

اسکے بعد وہ آپس میں ایک دوسرے پر ملامت کرنے لگے کہ پردے کو کیوں اوپر اٹھایا ہے۔ اسکے بعد انھوں نے پھر طے کیا کل کوئی بھی ایسا نہ کرے۔ دوسرے دن جب امام رضا آئے تو انھوں نے سلام تو کیا لیکن کسی نے بھی پردے کو اوپر نہ اٹھایا۔ اسی وقت ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا تو اس نے پردے کو اوپر اٹھایا اور امام رضا آرام سے محفل میں داخل ہو گئے اور واپسی پر بھی ایسا ہی ہوا اور امام آرام سے وہاں سے نکل کر واپس چلے گئے۔ اس ماجرا کے بعد وہ جان گئے کہ امام خداوند کے نزدیک ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے انھوں نے ارادہ کیا کہ آج کے بعد ہم سب امام کی ہمیشہ خدمت کیا کریں گے۔

نور الابصار، ص244؛ جامع كرامات الاولياء، ج2، ص312؛

مطالب السؤول، ص297؛ الفصول المهمه، ص244 ـ 245؛

اخبار الدول و آثار الاول، ص114؛ الاتحاف، بحب الاشراف، ص313.

امام رضا (ع) کے سامنے درندہ حیوانات کا رام ہو جانا:

زینب کذّاب کے واقعے کو شیعہ اور سنی علماء نے نقل کیا ہے اور یہ واقعہ امام رضا کی عظمت اور امام کے ولایت تکوینی رکھنے پر دلالت کرتا ہے۔ اس واقعے کو مختلف انداز سے نقل کیا گیا ہے لیکن اس سے اصل واقعے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اختلاف فقط اس میں ہے کہ کیا یہ واقعہ امام رضا کے زمانے میں رونما ہوا تھا یا امام علی نقی الہادی کے زمانے میں ؟

شہر خراسان میں زینب نامی ایک عورت تھی، اس نے دعوی کیا کہ وہ علوی ہے اور حضرت فاطمہ زہرا کی نسل سے ہے۔ یہ خبر امام رضا تک پہنچی۔ امام نے اس عورت کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ امام کے پاس لائی گئی تو امام نے اسکو دیکھ کر فرمایا کہ وہ علوی نہیں ہے۔ اس عورت نے امام کا مذاق اڑاتے ہوئے تمسخر آمیز لہجے میں کہا کہ تم میرے نسب کے بارے میں شک کرتے ہو تو میں بھی تمہارے نسب کے بارے شک کرتی ہوں۔ اس دور میں حاکم وقت کے محل میں ایک ایسی جگہ ہوتی تھی کہ جہاں پر درندہ حیوانات کو رکھا جاتا تھا، کیونکہ ان حیوانات کے ذریعے سے ظالموں اور مجرموں سے انتقام لیا جاتا تھا۔ امام رضا نے اس عورت کو حیوانات کے نگہبان کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ: یہ ایک جھوٹی عورت ہے اور اس نے علی اور فاطمہ پر جھوٹی تہمت لگائی ہے اور یہ نسل علی سے نہیں ہے۔ اگر یہ عورت سچ بول رہی ہے اور علی و فاطمہ کے بدن کا ٹکڑا ہے تو، پھر اسکا بدن اور گوشت درندوں پر حرام ہے، پس اسکو درندہ حیوانات کے درمیان لے جاؤ، اگر یہ سچی ہوئی تو حیوانات اسکے نزدیک نہیں جائیں گے اور اگر جھوٹی ہوئی تو حیوانات اسکو چیر پھاڑ کر کھا جائیں گے۔

جب اس زینب کذاب نے امام کی اس بات کو سنا تو فوری امام سے بے ادبی کے انداز میں کہا کہ اگر آپ سچے علوی اور امام ہیں تو پہلے آپ حیوانات کے پاس جائیں۔ امام فورا حیوانات کے پنجرے میں داخل ہو گئے۔ سب لوگ اس خوفناک منظر کو دیکھ رہے تھے۔ جب امام رضا حیوانات کے نزدیک گئے تو تمام درندے رام ہو گئے اور ایک ایک کر کے امام کے سامنے آ کر اپنی دم کو اطاعت و تسلیم ہونے کی نیت سے زمین پر رکھ دیا اور امام ہاتھوں اور پیروں کو چومنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد امام پنجرے سے باہر آ گئے اور نگہبان کو حکم دیا کہ اب اس عورت کو پنجرے میں ڈالو۔ اس عورت نے صاف انکار کر دیا۔ اس واقعے کے بعد شہر خراسان میں وہ عورت زینب کذّاب کے نام سے مشہور ہو گئی۔

الفرج بعد الشدۃ، قاضي ابو علي تنوخي، دارالصباعي المحمديي قاهره، مصر، چاپ اول 1375ق، ج4، 172ـ173؛ مطالب السؤول، ص297.

مسعودی قائل ہے کہ یہ واقعہ امام علی نقی الہادی کے ساتھ پیش آیا تھا۔

مروج الذهب، علي بن حسين مسعودي، دارالكتب العلميه، بيروت، لبنان، چاپ اول، ج4، ص86.

بہرحال یہ واقعہ اہل سنت کے علماء کے مطابق، شیعہ علماء کے نزدیک ایک مشہور خبر کے طور پر نقل ہوئی ہے۔

الفرج بعد الشدۃ، ج4، ص172.

اہل سنت کے بعض بزرگان جیسے ابن حجر ہیثمی نے اس واقعے کو اہل سنت کے بعض حفاظ سے نقل کیا ہے۔

الصواعق المحرقه، ص205.

اور ابو علی عمر بن يحيی علوی نے بھی اس واقعے کو قطعی قرار دیا ہے اور اہل سنت کے واسطے سے اس واقعے کے نقل ہونے کی تائید کی ہے۔

الفرج بعد الشدۃ، ج4، ص173.

 امام رضا (ع) کی اپنی شہادت کے بارے میں پیشنگوئی:

جب مامون بیمار ہونے کی وجہ سے عید فطر کی نماز نہ پڑھا سکا تو، اس نے امام رضا سے کہا کہ اس سال آپ عید کی نماز پڑھائیں۔ امام سفید لباس اور سفید عمامہ پہنے، ہاتھ میں عصا پکڑے اپنے گھر سے باہر نکلے اور راستے میں بلند آواز سے یہ کہہ رہے تھے:

السلام علي ابوي آدم و نوح، السلام علي ابوي ابراهيم و اسماعيل، السلام علي ابوي محمد و علي، السلام علي عباد الله الصالحين.

لوگ جوق در جوق امام کے پاس آ رہے تھے اور انکے مبارک ہاتھوں کو بوسے دے رہے تھے۔اسی وقت مامون کو خبر دی گئی کہ اگر امام رضا اسی حالت میں عید کی نماز پڑھانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر حتمی طور پر خلافت تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ مامون نے جیسے بھی ممکن ہوا، خود کو امام کے پاس پہنچایا اور انکو عید کی نماز پڑھانے سے منع کر دیا۔

اس وقت امام نے مامون کے خادم ہرثمہ ابن اعین، کہ جو اہل بیت کا محب تھا اور امام رضا کا خدمتگذار بھی تھا، کے لیے اہم مطالب کو بیان فرمایا۔ ہرثمہ کہتا ہے کہ: ایک دن میرے آقا ابو الحسن رضا نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ: اے ہرثمہ میں تم کو بعض باتیں بتانا چاہتا ہوں اور جب تک میں زندہ ہوں تم وہ باتیں کسی دوسرے کو نہ بتانا اور اگر ان باتوں کو تم نے کسی کو بتایا تو قیامت کے دن خداوند کی بارگاہ میں، میں تمہارا دشمن ہوں گا۔

ہرثمہ نے کہا کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب تک آپ زندہ ہیں، میں یہ باتیں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ امام نے فرمایا کہ:

اے ہرثمہ میرا سفر آخرت اور اپنے آباء و اجداد سے ملنے کا سفر بہت نزدیک ہے۔ بے شک میں زہر آلود انگور اور انار کھانے کی وجہ سے دنیا سے جاؤں گا۔ خلیفہ مامون میری قبر اپنے باپ ہارون الرشید کی قبر کے پیچھے بنانا چاہتا ہے، لیکن خداوند ایسا نہیں ہونے دے گا اور زمین بھی اس کام کی اجازت نہیں دے گی اور وہ اس کام کے لیے زمین کو کھودنے کی جتنی بھی کوشش کریں گے، بالکل اس کام میں کامیاب نہیں ہوں گے، اس کام کو تم بعد میں اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لو گے۔

اے ہرثمہ ! بے شک میرے دفن ہونے کی جگہ کسی اور طرف ہو گی۔ پس میری وفات اور غسل و کفن کے بعد مامون کو ان باتوں سے آگاہ کرنا، تا کہ وہ مزید اچھے طریقے سے پہچان لے اور مامون سے کہنا کہ جب بھی مجھے تابوت میں رکھیں اور نماز پڑھنے کے لیے تیار ہوں تو، کوئی بھی مجھ پر نماز نہ پڑھے، یہاں تک کہ ایک اجنبی عرب تیزی سے صحرا کی طرف سے میرے جنازے کی طرف آئے گا، اس حالت میں کہ اس عرب کا چہرہ غبار آلود ہو گا اور اسکی سواری گریہ کر رہہ ہو گی۔ وہ عرب میرے جنازے پر نماز پڑھائے گا۔ تم بھی اسکے ساتھ نماز کے لیے کھڑے ہو جانا اور نماز کے بعد مجھے اپنی معیّن جگہ پر دفن کر دینا۔  اے ہرثمہ ! تمہارے لیے ہلاکت ہو اگر تم ان مطالب کو میری وفات سے پہلے کسی کو بتاؤ تو۔

ہرثمہ کہتا ہے کہ: ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ امام رضا کی کہی ہوئی تمام باتیں اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ سچ ثابت ہو گئيں۔ اور امام نے مامون کے دربار میں زہر آلود انگور اور انار کھانے کی وجہ سے وفات پائی۔ ہرثمہ کہتا ہے کہ: امام رضا کی ہدایت کے مطابق انکی وفات کے بعد میں مامون کے پاس گیا، میں نے دیکھا کہ وہ امام رضا کی وفات کے غم میں ہاتھ میں رومال لیے رو رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا: اے خلیفہ ! اگر تم اجازت دو تو میں نے کچھ باتیں آپکو بتانی ہیں ؟ مامون نے اجازت دے دی۔ ہرثمہ نے کہا کہ امام رضا نے اپنی زندگی میں مجھے کچھ باتیں بتائیں تھیں اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، کسی کو نہ بتاؤں۔ اسکے بعد ہرثمہ نے تمام باتیں مامون کو بتا دیں۔

جب مامون نے ان تمام باتوں کو سنا تو حیران ہو گیا اور پھر حکم دیا کہ امام کے جنازے کو غسل و کفن دے کر نماز کے لیے تیار کرو۔ ہرثمہ کہتا ہے کہ میں مامون کے ساتھ امام پر نماز پڑھنے کے تیار ہو گیا۔ اسی وقت ایک اجنبی شخص ان علامات کے ساتھ کہ جنکا ذکر امام رضا نے کیا تھا، صحرا سے جنازے کی طرف آیا ، اس نے کسی سے بھی کوئی بات نہ کی اور امام پر نماز پڑھا دی۔ مامون نے حکم دیا کہ پتا کیا جائے کہ وہ کون ہے اور اسکو میرے پاس لایا جائے، لیکن وہ شخص اور اسکا اونٹ ایک دم سے غائب ہو گئے۔

پھر خلیفہ نے حکم دیا کہ ہارون الرشید کی قبر کے پیچھے ایک قبر کھودی جائے۔ ہرثمہ نے مامون سے کہا کہ: کیا میں تم کو امام رضا کی ساری باتوں سے آگاہ نہیں کیا ؟ مامون نے کہا: ہاں، لیکن میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا اسکی ساری باتیں ٹھیک بھی ہیں یا نہیں ؟

امام رضا کے بتانے کے مطابق وہ وہاں قبر نہ کھود سکے، گویا وہاں زمین سخت چٹانوں سے بھی زیادہ سخت ہو گئی تھی، اس حد تک کہ وہاں پر موجود سب لوگ حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ اس طرح سے مامون کو امام رضا کی کہی ہوئی بات کے سچ ہونے کا یقین ہو گیا اور پھر اس نے مجھ (ہرثمہ) سے کہا کہ علی ابن موسی الرضا نے جس جگہ کا تمہیں بتایا ہے، وہ مجھے دکھاؤ۔ ہرثمہ نے اس جگہ کو مامون کو دکھایا اور جونہی ہم نے وہاں سے مٹی کو کھودا تو ایک پہلے سے تیار شدہ قبر ظاہر ہوئی، یہ قبر ان صفات کے ساتھ تھی کہ جن کا خود امام رضا نے پہلے مجھے بتایا تھا۔

جب مامون نے ان تمام حالات کو دیکھا تو حیرت زدہ ہوا۔ اچانک اس قبر میں کھڑا پانی زمین کی گہرائی میں چلا گیا اور وہ جگہ خشک ہو گئی، پھر امام کی میت کو قبر میں رکھا اور اس پر مٹی ڈال دی۔ اس واقعے کے بعد مامون نے جن چیزوں کو دیکھا تھا اور جو کچھ مجھ سے سنا تھا، ہمیشہ تعجب کے ساتھ اسکا ذکر کیا کرتا تھا، اور ساتھ ساتھ افسوس کا بھی اظہار کیا کرتا تھا اور جب بھی میرے ساتھ تنہائی میں بیٹھتا تھا تو ہمیشہ مجھ سے کہتا تھا کہ ان تمام باتوں کو دوبارہ اسکے لیے بیان کروں، مامون باتیں سنتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا تھا:

انا لله و انا اليه راجعون،

الفصول المهمه، ص261؛نورالابصار، ص244؛مطالب السؤول، ص300؛

الكواكب الدريه، شيخ عبد الرؤوف مناوي، الازهريي، مصر، بي تا، ج1، ص256؛

مفتاح النجاة، ص82؛الانوار القدسيه، ص39.

علماء اہل سنت کے کلام میں مشہد الرضا:

ذہبی نے اپنی بہت سی تالیفات میں مشہد الرضا کے بارے میں ایسے اظہار نظر کیا ہے کہ:و لعلي بن موسي مشهدٌ بطوس يقصدونه بالزياره،

علی ابن موسی کے لیے طوس میں بارگاہ ہے، جسکی زیارت کی جاتی ہے۔

سير اعلام النبلاء، موسسه الرساله ، بيروت، لبنان، چاپ يازدهم 1417ق، ج9، 393.

 «و له مشهدٌ كبير بطوس يزار»

اسکے لیے طوس میں بہت بڑی بارگاہ ہے، جسکی زیارت کی جاتی ہے۔

العبر، دارالكتب العلميه، بيروت، لبنان، ج1، ص266.

«و مشهد مقصودٌ بالزياره»

اسکی بارگاہ میں مشہد میں ہے، جسکی زیارت کی جاتی ہے۔

تاريخ الاسلام، حوادث، 201 تا210، دارالكتاب العربي، بيروت، لبنان، چاپ اول 1420ق، ص272.

ابن عماد حنبلی دمشقی نے بھی کہا ہے کہ:

و له مشهدٌ كبير بطوس يزار.

اسکا ترجمہ واضح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شذارت الذهب، دار بن كثير، دمشق، بيروت، چاپ اول 1406ق، ج3، ص14.

اہل سنت کے علماء کا امام رضا کی بارگاہ سے برتاؤ بھی واقعا حیرت انگیز ہے۔ ان علماء میں سے بعض نے امام رضا کے حرم کی زیارت بھی کی تھی، جیسے ابن حبان بستی (متوفی 354 ہجری) و ابو علی ثقفی (متوفی 328 ہجری) اور بہت اہل سنت کے علماء امام رضا کے نورانی حرم میں ایسے عاجزی اور اشک بہاتے تھے کہ حتی انکے شاگرد بھی تعجب کیا کرتے تھے۔ جیسے ابوبكر بن خُزيمہ (متوفی311 ہجری)،

ابوبكر بن خزيمہ (متوفی311 ہجری) و ابو علی ثقفی (متوفی 328 ہجری) کے بارے میں حاكم نيشاپوری نے کہا ہے کہ:

سَمِعتُ محمد بن المؤمل بن حسين بن عيسي يقول خرجنا مع امام اهل الحديث ابي بكر بن خزيمه و عديله ابو علي الثقفي مع جماعة من مشيخنا و هم اذ ذلك متوافرون الي زيارة قبر علي بن موسي الرضا بطوس، قال: فريت من تعظيمه (ابن خُزَيمه) لتلك البقعه و تواضعه لها و تضرعه عندها ماتحيرنا،

حاکم کہتا ہے کہ: میں نے محمد ابن مؤمل سے سنا ہے کہ: ایک دن ہم اہل حدیث کے امام ابو بكر بن خزيمہ و ابو علی ثقفی اور دوسرے مشایخ کے ساتھ علی ابن موسی الرضا کی قبر کی زیارت کے لیے طوس گئے۔ ابو بکر خزیمہ اور ابو علی ثقفی دونوں علی ابن موسی الرضا کی طوس میں بہت زیادہ زیارت کے لیے جایا کرتے تھے، محمد ابن مؤمل کہتا ہے کہ: ہم نے ابن خزیمہ کو اس بارگاہ کی ایسے تعظیم اور تواضع کرتا دیکھا کہ ہم سب کو اس نے حیرت زدہ کر دیا تھا۔

تهذيب التهذيب، ابن حجر عسقلاني، دارالفكر، بيروت، لبنان، چاپ اول، 1404ق، ج7، 339.

اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز راوی کا یہ جملہ ہے کہ جو مذکورہ روایت کا تسلسل ہے لیکن افسوس کہ بہت سے مؤرخین و محدثین نے اس کو نقل نہیں کیا ، راوی کا بیان ہے : ' 'ذاک بمشھدٍ من عدَّةٍ من آلِ السلطانِ و آل شاذان ابنِ نعیم و آل الشنقشین وبحضرةِ جماعةٍ من العلویّةِ من اَھلِ نیسابور و ھراة و طوس و سرخس ، فدوَّنوا شمائلَ اَبی بکر محمّد بن اسحاق عند الزیارةِ و فرِحوا و تصدَّقوا شکراً للّہِ علی ما ظھرَ من اِمامِ العلمائِ عندَ ذالک الِامام و المشھدِ وقالواباَجمعِھم: لو لم یعلَم ھذا الِامامُ اَنَّہ سنة و فضیلة لما فعلَ ھذا ۔ ' '

راوی کہتا ہے کہ حضرت امام علی رضا  کے مرقد مطہرپر ابن خزیمہ کا یہ گریہ و زاری اور احترام و تواضع اور تعظیم، سلطان کے خاندان کے حضور اور خاندان شاذان و خاندان شنقشین نیز نیشاپور ، ہرات و سرخس کے شیعوں و علویوں کے سامنے انجام پایا اور سب نے ابن خزیمہ کی یہ حرکات و سکنات کو جو انہوں نے حضرت امام رضا کے روضہ مبارکہ پر انجام دیں ، دیکھا اور ثبت و ضبط کیا ۔ ابن خزیمہ کی اس روش اور آنحضرت  کی قبرمطہرکی زیارت سے تمام افراد بہت خوش ہوئے نیز امام العلماء کی اس روش پر خوشی اور شکر خدا میں صدقات دیئے اور سب نے بیک زبان یہ کہا کہ اگر یہ کام (اہل بیت  کی قبروں کے سامنے گریہ و زاری، احترام و تواضع اور تعظیم) سنت نہ ہوتا اور فضیلت نہ رکھتا تو کبھی بھی ابن خزیمہ اس طرح انجام نہ دیتے۔

جوینی شافعی : فرائد السمطین فی فضائل المرتضیٰ والبتول والسبطین والآئمة من ذریتھم، ج2، ص 198، ح 477 بنقل از تاریخ نیشاپور ،حاکم نیشاپوری شافعی

ابن خزيمہ اہل سنت کے نزدیک بہت زیادہ علم و احترام رکھنے والا عالم ہے، حتی اسکو « شيخ الاسلام، امام الائمہ، حافظ، حجت، فقيہ، بے نظير، رسول خدا کی سنت کو زندہ کرنے والا، جیسے القابات سے اسکا ذکر کیا ہے۔ وہ علم حدیث اور علم فقہ میں اتنا ماہر تھا کہ علماء اسکی مثالیں دیا کرتے تھے۔

سير اعلام النبلاء، شمس الدين ذهبي، ج14، ص365و377.

ابو علی ثقفی کے بارے میں بھی تعابیر جیسے « امام، محدث، فقيہ، علامہ، شيخ خراسان، مدرس فقہ شافعی در خراسان، امام در اكثر علوم شرعی، حجت خدا بر خلق، کو استعمال کیا گیا ہے۔

سير اعلام النبلاء، ج15، ص280ـ282.

ابوبکر اور ابو علی کے بارے میں اہل سنت کے علماء کی طرف سے ان دونوں کے لیے ایسے الفاظ اور القابات کا ذکر ہونا، یہ ان دونوں کے بلند علمی مرتبے پر دلالت کرتے ہیں۔

ابن حبّان بُستی (متوفی 354 ہجری): نے لکھا ہے کہ: « علی بن موسی الرضا اہل بیت اور بنی ہاشم کے عقلاء اور بزرگان میں سے ہیں۔ اگر ان سے کوئی حدیث نقل ہو تو، واجب ہے کہ وہ حدیث معتبر ہوتی ہے۔۔۔۔۔

' 'علیّ بن موسی الرضا اَبو الحسن من سادات اَھلِ البیتِ و عقلائِھم و جُلَّةِ الھاشمیینَ و نُبلائِھم ، یجبُ اَن یُعتبرَ حدیثُہ اذا رُوِیَ عنہ ۔ ۔ ۔قد زرتُہ (قبرہ) مراراً کثیرة وما حَلَّت بی شدَّة فی وقتِ مَقامی بطوسَ فزرتُ قبرَ علیّ بن موسی الرضا ،صلوات اللّہ علی جدِّہ و علیہ ، و دعوتُ اللّہ اِزالتَھا عنِّی اِلّا استُجِیبَ لی ، زالَت عنِّی تلکَ الشدَّةُ و ھذا شی جرَّبتُہ مراراً فوجدتُہ کذالک ، اَماتَنا اللہُ علی محبَّةِ المصطفی و اَھلِ بیتِہ ' '۔

جب میں طوس میں تھا، تو میں نے کئی مرتبہ انکی قبر کی زیارت کی ہے، جب بھی مجھے کسی قسم کی مشکل و پریشانی ہوتی تھی، تو میں علی ابن موسی الرضا کی قبر کی زیارت کیا کرتا تھا، اور اپنی مشکل کے حل ہونے کی دعا کیا کرتا تھا، تو اسی وقت میری دعا مستجاب اور میری مشکل حل ہو جایا کرتی تھی اور میں نے کئی مرتبہ اس بات کا تجربہ کیا ہے اور اپنی مشکل کو حل بھی کیا ہے۔ خداوند ہمیں رسول خدا اور انکے اہل بیت کی محبت پر موت عطا فرمائے۔

كتاب الثقات، ابن حبان بستي، دارالفكر، بيروت، لبنان، چاپ اول، 1393ق، ج8، ص475.

ابن حبان بستی کا مقام بھی اہل سنت کے نزدیک بہت بلند ہے، اس طرح کہ اسے ، امام، علامہ، حافظ، شيخ خراسان، عالم بزرگ در علم فقہ و لغت اور حدیث، جیسے الفاظ اور القابات سے یاد کیا ہے۔

سير اعلام النبلاء، ج16، ص92؛

النجوم الزاهره، ابن تغري، دار الكتب العلميه، بيروت، لبنان، چاپ اول، 1413ق، ج3، ص342؛

الوافي بالوفيات، صفدي، جمعي از مستشرقين، بي تا، 1411ق، ج2، ص317؛

الطبقات الشافعيه، سبكي، دار احياء الكتب العربية، بيروت، لبنان، بي تا، ج3، ص131؛

الانساب، سمعاني، دار الكتب العلميه، بيروت، لبنان، چاپ اول،1408ق، ج2، ص209.

یہ جملات امام رضا (ع) کی دلوں پر معنوی تاثیر پر دلالت کرتے ہیں اور 1200 سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود انکی نورانی و ملکوتی بارگاہ عام و خاص کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے اور بعض ابن خزیمہ اور ابن حبان کی طرح کے لوگ امام رضا کی قبر کی زیارت کے علاوہ ان سے اپنی مشکلات کے حل ہونے کے لیے توسل بھی کرتے تھے اور ان امام ہمام کی برکت کی وجہ سے انکی حاجات پوری بھی ہو جاتیں تھیں۔

مولا امام علی رضا علیہ السلام کا ایک معجزہ:

حرم امام رضا علیہ السلام ایک عالم دین نمازِ فجر کے بعد ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اور کہتے ہیں کہ آج سے کچھ دن پہلے یہاں ایک انجینئر آیا تھا فرانس سے اور اس دروازے سے داخل ہوا جہاں پر بیماروں کو لا کر باندھا جاتا ہے ، اس مقام سے مولا امام رضا علیہ السلام کے حرم کا گنبد صاف نظر آتا ہے ، کہنے لگا کہ یہ اتنا خوبصورت گنبد کس کا ہے تو ساتھ میں جو ایرانی کھڑا تھا وہ ان کی زبان سمجھتا تھا ،اس نے بتایا کہ یہ وہ ہیں جن کی خداوند کے ہاں بہت عزت و آبرو ہے ،یہ سن کر وہ فرانسسی آگے بڑھا اور دیکھا کہ کسی کے ہاتھ میں ڈوری ہے ، کسی کے گلے میں ، کسی کے پاوں میں ، ۔۔۔ تو کہنے لگا یہ سب کیا ہے ؟ تو ایرانی کہنے لگا کہ جسے ہر جگہ ڈاکٹر سے جواب مل جائے تو اسے یہاں قید کیا جاتا تو اسے شفاء مل جاتی ہے ۔۔۔ یہ سننا تھا کہ انجینئر نے ایک لٹکی ہوئی ڈوری کو اپنے گلے میں باندھ لیا ۔۔ اب وہ ایرانی کہتا ہے کہ آپ کو کیا کوئی لا علاج بیماری ہے ؟ تو کہنے لگا کہ نہیں مجھے نہیں ہے ، میرا ایک بیٹا ہے جو کہ بیمار ہوا تھا ، اس کے بعد اس کو فالج ہو گیا ، ہم نے اس کے علاج کے لیے دنیا کے بڑے سے بڑے ڈاکٹر کو دیکھایا ہے لیکن سب نے لا علاج کہہ دیا ۔۔۔۔ انجینئر ایرانی سے کہنے لگا کہ جب وہ خداوند کے ہاں عزت و آبرو رکھتے ہیں تو ضروری تو نہیں کہ میرا بیٹا ہی آئے ، اس کی جگہ میں یہاں بیٹھ جاتا ہوں اور علاج اس کا ہو جائے گا ۔۔۔ ایرانی کہنے لگا کہ جناب یہاں کا طریقہ ہے کہ بیمار کا لانا ضروری ہے ، اب وہ آگے بڑھا ، مناجات کیے اور کہنے لگا کہ اب کل آئیں گے ، اب انجینئر ہوٹل میں اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا ، اس کو ایک روشن امید لگ گئی تھی تو اس نے سوچا کہ اپنی بیوی کو بتاتا ہوں ، اس نے کال کی تو بیوی نے کہا کہ میں کافی دیر سے کوشش کر رہی ہوں لیکن جواب نہیں تھا مل رہا ۔۔۔۔ انجینئر نے بتایا کہ میں مشہد آیا ہوا ہوں اور یہاں وہ بندہ دفن ہے جو اللہ کے ہاں عزت و آبرو رکھتا ہے ، ان کے در سے لاعلاج لوگ شفا یاب ہو جاتے ہیں ، اب اس انجینئر کی بیوی بار بار بات کو کاٹنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس نے بات جاری رکھی ، اب اس کی بیوی نے کہا کہ میری بھی بات سنیں ۔۔۔۔ انجینئر نے کہا سناؤ ، وہ کہنے لگی کہ ابھی کچھ دیر پہلے گھر میں ایک کرشمہ ہو گیا ہے ، دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے دیکھا تو ایک مرد ہیں ، لیکن میں نہ پہچان سکی کہ کون ہیں تو وہ کہنے لگے کہ اے اہلِ خانہ ہمیں اندر آنے کی اجازت دیں ، ان کا رعب و جلال اتنا تھا کہ میں نے آنے دیا ،پھر وہ ہمارے بیٹے کے کمرے کی جانب بڑھنے لگے میں ،فوراَ پیچھے گئی تو دیکھا کہ انھوں نے ہمارے بیمار بیٹے کو دونوں بازوں سے پکڑ کر کھڑا دیا اور وہ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ یہ دیکھ کر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا اور دیکھا کہ وہ جانے لگے ہیں ، تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے ، آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں ؟ تو انھوں نے اتنا ہی بتایا کہ کہ میرا نام رضا ہے اور مشہد سے آیا ہوں ۔۔۔ اور یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔

آخری بات:

تمام مذکورہ مطالب سے واضح ہوتا ہے کہ تعمیر قبور اولیاء خدا، انکی نورانی بارگاہ کی زیارت کرنا اور ان سے توسل کرنا، نہ فقط جائز اور رائج کام ہے، بلکہ اہل سنت کے بزرگ علماء نے بھی عملی طور پر اس جائز کام کی تائید کی ہے، جیسے ابن خزيمہ، ابن حبان بستی، ابو علی ثقفی و ..... اصلا اولیاء خدا کی مقدس بارگاہ کی زیارت کرنا، ان سے توسل و تبرک اور انکی شفاعت یہ مسلمین میں ایک فرہنگ اور ثقافت کے طور پر موجود تھی، لیکن جب سے عقائد اسلامی کی غلط تفسیر وہابیوں کی طرف سے ہونے لگی ہے، انھوں نے تمام اسلامی احکام و عقائد کو خراب کر کے رکھ دیا ہے اور انھوں نے اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے کافر اور مشرک قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ وہابیت فقط اور فقط پیسے ، تہمت اور قتل کی سیاست سے پروان چڑھ رہی ہے۔ ان کا اصل ہدف بنی امیہ کی حکومت کو دوبارہ زندہ کرنا ہے اور وہ اپنے اس ہدف کے لیے ہر بڑی سے بڑی جنایت پوری دنیا میں انجام دے رہے ہیں۔

یا اَبَا الحَسَنِ یا عَلِیَّ بنَ موُسَی الرِضا یَابنَ رَسوُلِ اللّهِ یا حُجَّةَ اللّهِ عَلی خَلقِهِ یا سَیِدَنا وَ مَولانا اِنا تَوَجَّهنا وَ ستَشفَعنا وَ تَوَسَّلنا بِکَ اِلیَ اللّهِ وَ قَدَّمناکَ بَینَ یَدَی حاجاتِنا یا وَجیهاً عِندَ اللّهِ اِشفَع لَنا عِندَ اللّه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

التماس دعا.....

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی