2024 March 19
کیا حضرت زہرا (س) شیخین (ابوبکر و عمر) سے راضی ہو گئیں تھیں؟
مندرجات: ٥٩٧ تاریخ اشاعت: ١٠ October ٢٠٢١ - ١٠:٠٠ مشاہدات: 12634
سوال و جواب » شیعہ عقائد
کیا حضرت زہرا (س) شیخین (ابوبکر و عمر) سے راضی ہو گئیں تھیں؟

توضیح سوال:

اگر فرض بھی کریں کہ بی بی زہرا کچھ عرصے کے لیے شیخین سے ناراض بھی ہوئیں تھیں، لیکن یہ مطلب بھی اپنی جگہ پر ثابت ہوا ہے کہ بی بی زہرا کی زندگی کے آخری ایام میں شیخین بی بی کے پاس آئے اور ان سے معذرت کر کے انکو راضی کر لیا تھا، جیسا کہ بیہقی اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ:

عن الشعبي قال لما مرضت فاطمة أتاها أبو بكر الصديق فأستئذن عليها فقال علي يا فاطمة هذا أبوبكر يستئذن عليك فقالت أتحب أن أأذن؟ قال نعم فأذنت له فدخل عليها يترضاها و قال و الله ما تركت الدار و المال و الأهل و العشيرة إلا لإبتغاء مرضاة الله و مرضاة رسوله و مرضاتكم أهل البيت ثم ترضاها حتي رضيت.

جب حضرت فاطمہ بیمار ہوئیں تو ابوبکر انکو راضی کرنے کے لیے انکے پاس آیا اور ان سے ملاقات کرنے کے لیے اجازت مانگی، علی (ع) نے فاطمہ (س) سے فرمایا کہ: ابوبکر آپ سے ملاقات کرنے کی اجازت مانگ رہا ہے، بی بی نے فرمایا کہ: کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ اس گھر میں داخل ہو ؟ علی (ع) نے فرمایا کہ: ہاں، پس فاطمہ (س) نے یہ سن کر ابوبکر کو اجازت دے گی، ابوبکر گھر میں داخل ہوا اور فاطمہ سے راضی ہونے کے لیے معافی مانگنا چاہتا تھا، ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم میں نے اپنے گھر، اپنے مال اور اپنے رشتے داروں وغیرہ کو، خداوند، رسول خدا اور انکے اہل بیت کو راضی کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے، یہ سن کر فاطمہ ان سے راضی ہو گئیں۔

البيهقي، احمد بن الحسين (متوفی 458هـ) دلائل النبوة، ج 7، ص 281؛

البيهقي، احمد بن الحسين (متوفي 458هـ) الاعتقاد والهداية إلي سبيل الرشاد علي مذهب السلف وأصحاب الحديث، ج 1، ص 354، تحقيق: أحمد عصام الكاتب، ناشر: دار الآفاق الجديدة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1401هـ.

تنقید اور تحقیق:

صدیقہ شہیدہ حضرت زہرا (س) کا شیخین سے راضی نہ ہونا یہ ان دونوں کی خلافت کو جڑ سے ہی غیر شرعی اور ناجائز قرار دے دیتا ہے، کیونکہ یہ ناراضگی ثابت کرتی ہے کہ رسول خدا (ص) کی بیٹی، سیدہ نساء عالمین اور جنت کی عورتوں کی سردار، ابوبکر اور عمر کی خلافت کی مخالف تھیں اور ان دونوں سے ناراض بھی تھیں اور صحیح سند والی روایات کہ جو اہل سنت کی صحیح ترین کتب میں ذکر ہوئی ہیں، کی بنا پر فاطمہ(س) کا راضی ہونا، رسول خدا (ص) کا راضی ہونا ہے اور فاطمہ (س) کا ناراض ہونا، رسول خدا (ص) کا ناراض ہونا ہے

اسی وجہ سے اہل سنت کے علماء نے اپنے خلفاء ابوبکر اور عمر کی خلافت کو بچانے کے لیے جعلی اور جھوٹی روایت کو گھڑا ہے تا کہ ثابت کریں کہ شیخین نے رسول خدا کی بیٹی کو انکی زندگی کے آخری ایام میں ناراض کرنے کے بعد، جب انکے گھر انکی عیادت کرنے کے لیے گئے تھے تو انکو راضی کر لیا تھا اور بی بی نے بھی ان دونوں کو معاف کر دیا تھا!

ہم انکے جواب میں کہتے ہیں کہ:

اولاً: اس روایت کی سند مرسل ہے، کیونکہ شعبی تابعین میں سے ہونے کی وجہ سے اس واقعے کا عینی شاہد نہیں تھا اور اس روایت میں وہی اشکال ہے کہ جو اہل سنت بلاذری اور طبری کی روایت پر کرتے ہیں۔

ثانياً: فرض کریں کہ تابعی کی مرسل روایت قابل قبول ہے، پھر بھی شعبی کی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ شعبی امیر المؤمنین علی (ع) کے دشمنوں میں سے اور ناصبی تھا، جسطرح کہ بلاذری اور ابو حامد غزالی نے خود شعبی سے نقل کیا ہے کہ:

عن مجالد عن الشعبي قال: قدمنا علي الحجاج البصرة، وقدم عليه قراء من المدينة من أبناء المهاجرين و الأنصار، فيهم أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه... و جعل الحجاج يذاكرهم و يسألهم إذ ذكر علي بن أبي طالب فنال منه و نلنا مقاربة له و فرقاً منه و من شره....

ہم شہر بصرہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ حجاج کے پاس گئے، وہاں پر مہاجرین اور انصار کی اولاد میں سے قرآن کے قاریوں کا ایک گروہ موجود تھا کہ جو مدینہ سے آیا تھا کہ ابو سلمہ ابن عبد الرحمن ابن عوف بھی ان میں سے تھے۔ حجاج ان سے بات چیت کرنے میں مصروف ہو گیا۔ باتوں باتوں میں علی ابن ابی طالب کا بھی ذکر ہوا تو حجاج نے علی کو برے الفاظ سے یاد کیا۔ ہم نے بھی حجاج کو راضی کرنے اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے، علی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا....،

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفي279هـ) أنساب الأشراف، ج 4، ص 315؛

الغزالي، محمد بن محمد أبو حامد (متوفي505هـ)، إحياء علوم الدين، ج 2، ص 346، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

کیا ہمارے لیے ایک ناصبی کی روایت حجت ہو سکتی ہے ؟؟؟

اہل سنت کی صحیح ترین کتب میں حضرت زہرا (س) کے ابوبکر سے ناراض ہونے کا ذکر:

اولا:

حضرت زہرا (س) کا ابوبکر اور عمر پر غضبناک ہونا، یہ سب کے لیے اسطرح روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کسی کے لیے بھی قابل انکار نہیں ہے۔ صحیح بخاری کہ جو اہل سنت کی قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب ہے، اس میں آیا ہے کہ حضرت زہرا کا ابوبکر پر غضب اور ناراضگی یہ مرتے دم تک جاری رہی تھی۔

بخاری نے خمس کے ابواب میں لکھا ہے کہ:

فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ صلي الله عليه و سلم فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فلم تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حتي تُوُفِّيَتْ.

رسول خدا کی بیٹی فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اس سے بات کرنا تک چھوڑ دیا تھا اور اس سے مرتے دم تک بات نہیں کی تھی۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبد الله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2926، باب فَرْضِ الْخُمُسِ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة،

كتاب المغازي کے باب غزوة خيبر کی حديث نمبر 3998 میں بخاری نے کہا ہے کہ:

فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ علي أبي بَكْرٍ في ذلك فَهَجَرَتْهُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي تُوُفِّيَتْ،

فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور مرتے دم تک اس سے بات نہیں کی تھی۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبد الله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة،

بخاری نے كتاب الفرائض کے بَاب قَوْلِ النبي (ص) لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ کی حديث نمبر 6346 میں لکھا ہے کہ:

فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي مَاتَتْ.

پس فاطمہ نے اپنا تعلق ابوبکر سے ختم کر دیا اور مرتے دم تک اس سے بات نہیں کی تھی۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبد الله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 6، ص 2474، ح6346، كتاب الفرائض، بَاب قَوْلِ النبي (ص) لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة،

ابن قتیبہ کی روایت میں آیا ہے کہ جب ابوبکر اور عمر عیادت کے لیے گھر آئے تو حضرت زہرا (س) نے انکو گھر میں آنے کی اجازت نہ دی، تو انھوں نے ناچار ہو کر علی (ع) سے بات کی۔ علی (ع) نے حضرت زہرا سے بات کی تو بی بی نے امیر المؤمنین (ع) کو جواب دیا کہ:

البيت بيتك.

یہ گھر آپ کا گھر ہے،

 آپ کو اختیار ہے کہ جس کو مرضی ہے گھر لائیں۔ امیر المؤمنین نے اتمام حجت کرنے کے لیے ان دونوں کو گھر میں آنے کی اجازت دے دی تا کہ بعد میں وہ نہ کہیں کہ ہم تو رسول خدا کی بیٹی کو راضی کرنے کے لیے گئے تھے، لیکن علی نے ہی ہمیں اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی،

جب ان دونوں نے معذرت کی تو حضرت زہرا (س) نے قبول نہیں کیا، بلکہ ان سے یہ اعتراف لیا کہ:

نشدتكما الله ألم تسمعا رسول الله يقول: رضا فاطمة من رضاي و سخط فاطمة من سخطي فمن أحب فاطمة ابنتي فقد أحبني و من أ رضي فاطمة فقد أرضاني و من أسخط فاطمة فقد أسخطني،

میں تم دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم دونوں نے رسول خدا سے نہیں سنا کہ انھوں نے فرمایا کہ: فاطمہ کا راضی ہونا، میرا راضی ہونا ہے اور اسکا ناراض ہونا، میرا ناراض ہونا ہے۔ جو بھی میری بیٹی فاطمہ سے محبت کرے اور اسکا احترام کرے، تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے اور میرا احترام کیا ہے اور جو فاطمہ کو راضی کرے تو اس نے مجھے راضی کیا ہے اور جو فاطمہ کو ناراض کرے تو اس نے مجھے ناراض کیا ہے، ؟؟؟

ابوبکر اور عمر دونوں نے اعتراف کیا کہ: ہاں ہم نے اس بات کو رسول خدا سے سنا ہے،

نعم سمعناه من رسول الله صلي الله عليه و سلم.

یہ اعتراف لے کر صدیقہ طاہرہ نے فرمایا کہ:

فإني أشهد الله و ملائكته أنكما أسخطتماني و ما أرضيتماني و لئن لقيت النبي لأشكونكما إليه.

پس میں خداوند اور اسکے فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے اذیت کی اور ناراض کیا ہے اور میں اپنے والد رسول خدا سے ملاقات میں تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

اور مزید فرمایا کہ:

و الله لأدعون الله عليك في كل صلاة أصليها.

خدا کی قسم میں ہر نماز کے بعد تم دونوں پر نفرین کرتی ہوں۔

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة و السياسة، ج 1، ص 17، باب كيف كانت بيعة علي رضي الله عنه، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م.

اس کے باوجود کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ صدیقہ شہیدہ ان دونوں سے راضی ہو گئیں تھیں ؟ کیا بخاری کی روایت مقدم کی جائے گی یا بیہقی کی روایت ؟ اور بیہقی کی روایت بھی ایسی روایت ہے کہ جسکو امیر المؤمنین کے ناصبی دشمن نے نقل کیا ہے اور وہ اس واقعے کا عینی شاہد بھی نہیں تھا ؟

ثانیا:

اگر حضرت زہرا (س) ان دونوں سے راضی ہو گئیں تھیں، تو پھر انھوں نے کیوں حضرت علی کو وصیت کی کہ مجھے رات کو دفن کرنا اور فرمایا کہ جہنوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے، انکو میرے جنازے میں نہ آنے دینا اور مجھ پر نماز بھی نہ پڑھنے دینا ؟؟؟

محمد بن اسماعيل بخاري نے لکھا ہے کہ:

وَ عَاشَتْ بَعْدَ النبي صلي الله عليه و سلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا و لم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَ صَلَّي عليها،

رسول خدا کے بعد فاطمہ چھے ماہ تک زندہ رہیں اور جب وہ دنیا سے چلی گئیں تو انکے شوہر علی نے انکو رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو اس واقعے کی بالکل خبر نہ دی اور خود ہی ان پر نماز پڑھی۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبد الله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

ابن قتيبہ دينوری نے اپنی کتاب تأويل مختلف الحديث میں لکھا ہے کہ:

و قد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلي الله عليه و سلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا و أوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا۔

فاطمہ نے اپنے والد رسول خدا کی میراث کو ابوبکر سے مانگا، پس جب ابوبکر نے میراث دینے سے انکار کر کیا تو انھوں نے قسم کھائی کہ اب وہ اس سے بات نہیں نہیں کریں گئیں اور وصیت کی کہ مجھے رات کو دفن کرنا تا کہ ابوبکر میرے جنازے میں شریک نہ ہو سکے۔

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفي276هـ)، تأويل مختلف الحديث، ج 1، ص 300، تحقيق: محمد زهري النجار، ناشر: دار الجيل، بيروت، 1393، 1972.

اور عبد الرزاق صنعانی نے لکھا ہے کہ:

عن بن جريج و عمرو بن دينار أن حسن بن محمد أخبره أن فاطمة بنت النبي صلي الله عليه و سلم دفنت بالليل قال فر بها علي من أبي بكر أن يصلي عليها كان بينهما شيء۔

حسن ابن محمد سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: رسول خدا کی بیٹی کو رات کو دفن کیا گیا تا کہ ابوبکر ان کے بدن پر نماز نہ پڑھ سکے، کیونکہ ان دونوں کے درمیان ناراضگی تھی۔( اسلیے خود فاطمہ زہرا نے اس بات کی وصیت کی تھی )

اور مزید لکھا ہے کہ:

عن بن عيينة عن عمرو بن دينار عن حسن بن محمد مثله الا أنه قال اوصته بذلك.

حسن بن محمد سے پہلی والی روایت کی طرح کی ایک دوسری روایت نقل ہوئی ہے، لیکن اس روایت میں اس نے کہا ہے کہ: فاطمہ نے خود ہی رات کو دفن کرنے کے بارے میں وصیت کی تھی۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفي211هـ)، المصنف، ج 3، ص 521، ح 6554 و ح 6555، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية،

البتہ ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ : ابوبکر بعد میں پشمان ہو گیا تھا اور اس نے اس کام پر توبہ کر لی تھی۔

تو اس کے جواب میں کہنا چاہیے کہ: توبہ اس وقت فائدے مند ہوتی ہے جب انسان توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کیے پر شرمندہ بھی ہو اور اس کے علاوہ ماضی میں کیے گئے غلط کام کی تلافی اور جبران بھی کرے، یعنی توبہ کرنے والا شخص کسی کے بھی ضائع کردہ حقوق کا جبران کرے، چاہے وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق الناس ہوں۔

اب ہمارا یہ سوال ہے کہ کیا جب ابوبکر نے پشمان ہو کر توبہ کی تھی، تو حضرت زہرا (س) کو انکا حق فدک واپس کر دیا تھا، تا کہ اسکی توبہ حقیقی طور پر توبہ ہو اور یہ توبہ خداوند کی بارگاہ میں بھی قبول ہو سکے ؟؟؟

نتيجہ:

حضرت زہرا (س) کا ابوبکر اور عمر سے مرتے دم تک ناراض رہنا اور اس سے بات تک نہ کرنا یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو خود اہل سنت کی صحیح ترین کتب میں ذکر ہوئی ہے۔ ابوبکر اور عمر کا معافی مانگنے کے باوجود رسول خدا (ص) کی بیٹی کا معاف نہ کرنا اور ان سے راضی نہ ہونا، اس سے حضرت زہرا (س) کی ناراضگی کی شدت کو سمجھا جا سکتا ہے، اور یہ ناراضگی دنیا اور مال دینا کے لیے نہیں تھی کہ جس طرح بعض متعصّب اور جاہل وہابی گمان کرتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ ناراضگی خدا کی راہ اور خدا کے لیے تھی۔ اسی مطلب کو رسول خدا کی حدیث سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

ابوبکر کی شرمندگی اور توبہ والی بات بھی جعلی اور جھوٹی ہے اور بیہقی کی روایت کہ جس میں ذکر ہوا تھا کہ حضرت زہرا ابوبکر سے راضی ہو گئیں تھیں، یہ روایت اولا: کتاب صحیح بخاری کی روایت کے ساتھ تعارض رکھتی ہے، ثانیا: اس روایت کی سند میں ایک ناصبی شخص کے موجود ہونے کی وجہ سے یہ روایت صحیح اور معتبر نہیں ہے۔

التماس دعا.....





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی