2024 March 19
کیا رسول خدا (ص) اور حضرت علی (ع) شیعوں کی طرح وضو میں اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے ؟
مندرجات: ٤٩٦ تاریخ اشاعت: ٠٣ January ٢٠١٧ - ١٣:٢٠ مشاہدات: 8812
سوال و جواب » شیعہ عقائد
جدید
کیا رسول خدا (ص) اور حضرت علی (ع) شیعوں کی طرح وضو میں اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے ؟


توضيح سؤال
:

 

شیعیان اور اہل سنت کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ وضو کرنے کی کیفیت کے بارے میں ہے، جیسے پیروں پر مسح کرنا یا انکو دھونے کے بارے میں ہے ؟ رسول خدا (ص) اور علی (ع) شیعوں کی طرح وضو کیا کرتے تھے یا اہل سنت کی طرح ؟ اس بارے میں اہل سنت کی صحیح روایات کے بارے میں بحث کر کے جواب کو واضح کریں۔

اجمالی جواب:

 

قرآن میں وضو کی آیت نے بہت واضح طور پر وضو کے اعمال کو بیان کیا ہے کہ آیت کے مطابق چہرے اور ہاتھ دھویں جائیں گے اور سر اور پیروں کا مسح کیا جائے گا۔

اہل سنت کے بعض علماء جیسے ابن حزم نے واضح کہا ہے کہ، قرآن نے مسح کرنے کا حکم دیا ہے اور وضو والی آیت کے ذیل میں بزرگ صحابہ جیسے علی (ع) اور ابن عباس وغیرہ کے وضو کے طریقے کو نقل کیا ہے کہ وہ وضو میں پیروں پر مسح کرنے کے قائل تھے۔

اہل سنت کی بعض کتب جیسے مسند احمد ابن حنبل، مصنف ابن بی شیبہ اور سنن ابن ماجہ وغیرہ کی صحیح روایات کی روشنی میں نقل ہوا ہے کہ رسول خدا اور علی وضو کرتے وقت سر اور پیروں پر مسح کیا کرتے تھے، لہذا شیعیان کا وضو رسول خدا اور علی کی سنت و سیرت کے مطابق ہے۔

اور وہ روایات کہ جو اس موضوع سے تعارض رکھتی ہیں، یا وہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، یا قرآن و صحیح روایات کے ساتھ تعارض رکھتی ہیں کہ اس صورت میں، یہ معارض روایات، صحیح روایات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتیں۔ اسکے علاوہ خود صحابہ کی عملی سیرت بھی ان معارض روایات کو باطل قرار دیتی ہے۔

تفصيلی جواب:

 

مقدمہ:

 

وضو ایک اتنا مہم واجب عمل ہے کہ نماز جیسا واجب عمل بھی اس کے بغیر صحیح اور قابل قبول خداوند نہیں ہوتا۔

خداوند نے قرآن میں وضو اور غسل کا طریقہ اس طرح بیان کیا ہے کہ:

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَ إِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا وَ إِنْ كُنْتُمْ مَرْضى‏ أَوْ عَلى‏ سَفَرٍ أَوْ جاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّساءَ فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْديكُمْ مِنْهُ ما يُريدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَ لكِنْ يُريدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَ لِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔

اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو ! اور اپنے سر اور پیروں کا اٹھی ہوئی جگہ تک مسح کرو ! اور جب تم جنابت کی حالت میں ہو تو اپنے آپ کو دھو لو (غسل کرو) ! اور اگر تم بیمار یا مسافر میں ہو یا بیت الخلاء سے آئے ہو یا اپنی عورتوں سے مس کیا ہو اور پانی نہ ہو تو، پاک مٹی سے تیمم  کر لو، اور مٹی کو اپنی صورت اور ہاتھوں پر ملو، خداوند تمہارے لیے کوئی پریشانی اور مشکل ایجاد نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ تو تم کو پاک کرنا چاہتا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر کامل کرنا چاہتا ہے کہ شاید تم شکر ادا کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔

سورہ مائده آیہ 6

 

وضو کرنے کے طریقے کے بارے میں مسلمانوں کا آپس میں اختلاف ہے، کہ ایک اختلافی مسئلہ پیروں پر مسح کرنے یا ان کو دھونے کے بارے میں ہے۔

شیعوں کا عقیدہ اس آیت اور رسول خدا (ص) و اہل بیت (ع) کی صحیح روایات کی روشنی میں، وضو میں پیروں پر مسح کرنا ہے، کیونکہ لفظ ارجلکم کا عامل فاغسلوا ہے اور لفظ و ارجلکم، لفظ رؤسکم کے محل و مقام کہ منصوب ہے، عطف ہوا ہے، کہ اس صورت میں آیت کا معنی اسطرح ہو گا کہ:

اپنے سر اور پیروں کو مسح کرو اور نتیجے میں سر اور پیروں کا حکم، مسح کرنا ہو گا، نہ دھونا۔

اس کے علاوہ رسول خدا اور انکے اہل بیت سے نقل ہونے والی صحیح روایات کہ شیعہ نے نقل کیں ہیں، وہ بھی شیعہ کے عقیدے کی ہی تائید کرتی ہیں اور وہ روایات یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ رسول خدا اور اہل بیت بھی اسی طریقے سے وضو کیا کرتے تھے۔

لہذا شیعوں کا وضو قرآن اور رسول خدا اور اہل بیت کی سنت کے مطابق ہے۔

کیا شیعہ روایات کے مطابق وضو کرتے وقت پیروں کو دھویا جاتا ہے یا ان پر مسح کیا جائے گا ؟

لیکن بعض اہل سنت کا یہ اعتقاد ہے کہ پیروں کو وضو میں دھویا جاتا ہے۔

انکی اس بارے میں اصلی دلیل یہ ہے کہ وضو والی آیت میں لفظ و ارجلکم یہ لفظ فاغسلوا کا مفعول ہے کہ جو پہلے والے جملے میں آیا ہے، یعنی وہ ارجلکم کے عامل کو فاغسلوا کہتے ہیں، نہ و امسحوا کہ جو اسی جملے میں آیا ہے۔

ابن حزم اہل سنت کا مشہور عالم، وضو والی آیت سے غلط مطلب سمجھنے والوں کو جواب دیتا ہے کہ:

مَسْأَلَةٌ و أما قَوْلُنَا فی الرِّجْلَيْنِ فإن الْقُرْآنَ نَزَلَ بِالْمَسْحِ:

(وَ امْسَحُوا برؤوسكم ((برءوسكم)) وَأَرْجُلَكُمْ) وَ سَوَاءٌ قرىء (قرئ) بِخَفْضِ اللاَّمِ أو بِفَتْحِهَا هِيَ على كل حَالٍ عَطْفٌ على الرؤوس (الرءوس) إمَّا على اللَّفْظِ و إما على الْمَوْضِعِ لاَ يَجُوزُ غَيْرُ ذلك لأنه لاَ يَجُوزُ أَنْ يُحَالَ بين الْمَعْطُوفِ وَ الْمَعْطُوفِ عليه بِقَضِيَّةٍ مُبْتَدَأَةٍ وَ هَكَذَا جاء عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِالْمَسْحِ يَعْنِی فی الرِّجْلَيْنِ فی الْوُضُوءِ۔

و قد قال بِالْمَسْحِ على الرِّجْلَيْنِ جَمَاعَةٌ من السَّلَفِ منهم عَلِيُّ بن أبي طَالِبٍ و ابن عَبَّاسٍ وَ الْحَسَنُ وَ عِكْرِمَةُ وَ الشَّعْبِيُّ وَ جَمَاعَةٌ و غيرهم (غيرهم) و هو قَوْلُ الطَّبَرِيِّ .

ہمارا کلام پیروں کے بارے میں یہ ہے کہ قرآن میں پیروں کا مسح کرنا نازل ہوا ہے، یعنی قرآن کے مطابق وضو میں پیروں کو مسح کرنا چاہیے۔ لفظ ارجلکم کی لام چاہے اس کے نیچے زیر ہو (ارجلِکم) اور چاہے اس پر زبر ہو (ارجلَکم)، ہر دو صورتوں میں اس کا عطف لفظ رؤوس پر ہوا ہے، اور یہ عطف یا خود ظاہری لفظ پر ہوا ہے یا لفظ کے محل و مقام پر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا فرض درست نہیں ہو گا،  کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان ایک نئی و اضافی چیز کا فاصلہ ہونا جائز نہیں ہے۔ اور ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ قرآن میں پیروں پر مسح کرنے کا حکم بیان ہوا ہے۔

الظاهری، علی بن أحمد بن سعيد بن حزم أبو محمد (متوفی456هـ)، المحلى، ج 2، ص 56، تحقيق: لجنة إحياء التراث العربی، دار النشر: دار الآفاق الجديدة  بيروت، الجامع الكبير کی سی ڈی کے مطابق،

احمد ابن حنبل نے اس بارے میں اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ:

رسول خدا (ص) کے وضو کرنے کا طریقہ:

عبد خیر نے حضرت علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ: کہ ان حضرت نے فرمایا کہ:

کنت أرى أن باطن القدمین أحق بالمسح من ظاهر هما حتى رأیت رسول الله ص یمسح ظاهرهما۔

 میں خیال کرتا تھا کہ پیروں کے نیچے والے حصے پر مسح کرنا، یہ پیروں کے اوپر مسح کرنے سے زیادہ مناسب ہے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ رسول خدا ہر دو پیروں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔

مسند أحمد بن حنبل، ج 1 ص 95

بزرگان کا ایک گروہ جیسے علی بن ابی طالب (ع)، ابن عباس، حسن بصری، عکرمہ اور شعبی وغیرہ بھی وضو میں پیروں پر مسح کرنے کے قائل تھے اور یہ طبری کا قول ہے۔

الظاهری، علی بن أحمد بن سعيد بن حزم أبو محمد (متوفی456هـ)، المحلى، ج 2، ص 56، تحقيق: لجنة إحياء التراث العربی، دار النشر: دار الآفاق الجديدة – بيروت، الجامع الكبير کی سی ڈی کے مطابق،

 کتب اہل سنت کی صحیح روایات کے مطابق، رسول خدا، علی اور بعض دوسرے صحابہ شیعوں کی طرح وضو کیا کرتے تھے۔

الف: رسول خدا (ص) کے وضو کے بارے میں بحث:

رسول خدا کے وضو کرنے کا طریقہ چند صحابہ کے ذریعے سے نقل ہوا ہے، ہم اختصار کی وجہ سے چند صحابہ کے اقوال کو نقل کرتے ہیں:

1- روايت امير المؤمنین علی (ع) : (سند صحيح)

احمد بن حنبل نے اپنی كتاب مسند میں علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) وضو میں اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا وَكِيعٌ ثنا الأَعْمَشُ عن أبی إِسْحَاقَ عن عبد خَيْرٍ عن عَلِىٍّ رضی الله عنه قال كنت أَرَى ان بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ من ظَاهِرِهِمَا حتى رأيت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم يَمْسَحُ ظَاهِرَهُمَا.

عبد خیر نے علی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: میں خیال کرتا تھا کہ پیروں کے نیچے والے حصے پر مسح کرنا یہ پیروں کے اوپر مسح کرنے سے زیادہ مناسب ہے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ رسول خدا وضو میں ہر دو پیروں پر مسح کیا کرتے تھے۔

 الامام احمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 95، تحقيق: شعيب الارنوط- عادل مرشد، مؤسسة الرسالة.

کتاب مسند احمد کے محققین کا روایت کو صحیح قرار دینا:

کتاب مسند احمد کے محقق شعيب الارنؤط اور عادل مرشد نے کتاب کے حاشیے میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور انکی عبارت اسطرح ہے:

 حديث صحيح بمجموع طرقه.

یہ روایت اپنی تمام اسناد کے ساتھ صحیح ہے۔

كتاب مصنف ابن ابی ‌شيبہ میں یہ روايت اس طرح نقل ہوئی ہے کہ:

حدثنا وَكِيعٌ عَنِ الأَعْمَش عن أبی إِسْحَاقَ عن عبد خَيْرٍ عن عَلِيٍّ قال لو كان الدِّينُ بِرَأْيٍ كان بَاطِنُ الْقَدَمَيْنِ أَحَقَّ بِالْمَسْحِ على ظَاهِرِهِمَا وَ لَكِنْ رَأَيْت رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه و سلم مَسَحَ ظَاهِرَهُمَا.

علی (ع) نے فرمایا ہے کہ: اگر دین رائے اور مرضی کے ساتھ صحیح ہوتا تو پیروں کے نیچے والے حصے پر مسح کرنا، یہ پیروں کے اوپر والے حصے پر مسح کرنے سے زیادہ مناسب تھا، لیکن میں نے خود رسول خدا کو دیکھا تھا کہ وہ اپنے پیروں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔

ابن أبی شيبة، عبد الله بن محمد،‌ مصنف ابن أبی شيبة، ج 1، ص 25، تحقيق : حمد بن عبد الله الجمعه، محمد ابراهيم الحيدان، مكتبة الرشد.

2- روايت ابن عباس: (سند صحيح)

كتاب الفوائد کے مصنف نے ابن عباس سے رسول خدا (ص) کے وضو کو ایسے نقل کیا ہے کہ:

حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: ثنا وَرْقَاءُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِوُضُوءِ النَّبِيِّ قَالَ: فَمَضْمَضَ مَرَّةً مَرَّةً، وَ اسْتَنْشَقَ مَرَّةً مَرَّةً، وَ غَسَلَ وَجْهَهُ مَرَّةً، وَ يَدَيْهِ مَرَّةً، وَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ رِجْلَيْهِ.

عطاء بن يسار نے نقل کیا ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ:  کیا میں تمہارے لیے رسول خدا کے وضو کرنے کے طریقے کو بیان نہ کروں ؟ ابن عباس نے کہا: رسول خدا دو مرتبہ پانی سے کلی کرتے تھے، دو مرتبہ پانی سے ناک کو دھوتے تھے، ایک مرتبہ چہرے اور ایک مرتبہ ہاتھوں کو دھوتے تھے، پھر سر اور پیروں کا مسح کیا کرتے تھے۔

الشافعی، محمد بن عبد الله بن إبراهيم (متوفی354هـ)، كتاب الفوائد (الغيلانيات)، ج 4 ، ص 364، تحقيق: حلمی كامل أسعد عبد الهادی، دار النشر: دار ابن الجوزی – السعودية، الرياض،‌ الطبعة: الأولى 1417هـ - 1997م

محققین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

کتاب کے محقق نے حاشیے میں اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

3- روايت رفاعہ بن رافع: (سند صحيح):

ابن ماجہ کی نقل کے مطابق، رفاعہ ابن رافع نے بھی رسول خدا (ص) کے وضو کرنے کے طریقے کو نقل کیا ہے:

حدثنا محمد بن يحيى ثنا حَجَّاجٌ ثنا هَمَّامٌ ثنا إسحاق بن عبد اللَّهِ بن أبی طَلْحَةَ حدثنی عَلِيُّ بن يحيى بن خَلَّادٍ عن أبيه عن عَمِّهِ رِفَاعَةَ بن رَافِعٍ أَنَّهُ كان جَالِسًا عِنْدَ النبی صلى الله عليه و سلم فقال إِنَّهَا لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ حتى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كما أَمَرَهُ الله تَعَالَى يَغْسِلُ وَجْهَهُ وَ يَدَيْهِ إلى الْمِرْفَقَيْنِ وَ يَمْسَحُ بِرَأْسِهِ وَ رِجْلَيْهِ إلى الْكَعْبَيْنِ.

يحيی ابن خلاد نے اپنے چچا رفاعہ سے نقل کیا ہے کہ وہ رسول خدا کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ (ص) نے فرمایا: کسی بندے کی بھی نماز اسوقت تک مکمل اور صحیح نہیں ہے کہ جب تک خداوند کے حکم کے مطابق اعمال وضو کو انجام نہ دے، اپنے چہرے کو دھوئے اور اپنے ہاتھوں کو بھی کہنیوں تک دھوئے اور پھر اپنے سر اور پیروں کا اٹھی ہوئی جگہ تک مسح کرے۔

القزوينی، محمد بن يزيد أبو عبدالله (الوفاة: 275ق) سنن ابن ماجه، ج 1، ص 291،‌ تحقيق: شعيب الارنؤط، عادل مرشد، محمد كامل، مؤسسة الرساله.

روايت کو صحیح قرار دینا:

 اس کتاب کے محقق شعيب الارنؤط نے حاشیے میں، اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے:

  اسناده صحيح.

البانی نے بھی کتاب سنن ابن ماجہ پر لگائے ہوئے اپنے حاشیے میں، اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔

ابو داود نے بھی اپنی کتاب سنن میں اس روایت کو نقل کیا ہے، اور اسی کتاب کے محقق نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

اور البانی نے بھی کتاب سنن ابن داود پر لگائے ہوئے اپنے حاشیے میں، اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

دارمی نے بھی اپنی کتاب میں اس روایت کو ذکر کیا ہے اور کتاب کے محقق نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔    

4- روايت عثمان : (با سند معتبر):

عثمان نے بھی رسول خدا (ص) کے وضو کرنے کے طریقے کو نقل کیا ہے اور اس نے بھی وضاحت کی ہے کہ وہ وضو میں اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے۔ یہ روایت چند اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

سند اول:

یہ روایت مسند احمد ابن حنبل میں معتبر سند کے ساتھ، اسطرح آئی ہے کہ:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا بن الأشجعی ثنا أبی عن سُفْيَانَ عن سَالِمٍ أبی النَّضْرِ عن بُسْرِ بن سَعِيدٍ قال أتى عُثْمَانُ الْمَقَاعِدَ فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَتَمَضْمَضَ وَ اسْتَنْشَقَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثاً وَ يَدَيْهِ ثَلاَثاً ثَلاَثاً ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ رِجْلَيْهِ ثَلاَثاً ثَلاَثاً ثُمَّ قال رأيت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم هَكَذَا يَتَوَضَّأُ يا هَؤُلاَءِ أَكَذَاكَ قالوا نعم لِنَفَرٍ من أَصْحَابِ رسول اللَّهِ صلى الله عليه و سلم عِنْدَهُ۔

بسر بن سعيد نے کہا ہے کہ: عثمان وضو کرنے کی جگہ پر بیٹھا اور کہا کہ میرے لیے پانی لے کر آؤ تا کہ میں وضو کر سکوں۔ پھر اس نے کلی کی اور پھر ناک میں پانی ڈالا، اسکے بعد اس نے تین مرتبہ چہرے اور ہاتھوں کو دھویا، پھر اس نے اپنے سر اور پیروں کا تین مرتبہ مسح کیا۔ اس کے بعد کہا: میں نے رسول خدا کو دیکھا تھا کہ وہ بھی اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔ اے لوگو، کیا رسول خدا کا وضو اسی طرح تھا ؟ سب نے کہا: ہاں، عثمان نے اس بات کو رسول خدا کے ان صحابہ سے کہا تھا کہ جو اس وقت اس کے پاس موجود تھے۔

الامام احمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 523، تحقيق: شعيب الارنوط- عادل مرشد، مؤسسة الرسالة.

اس کتاب کے محقق نے حاشیے میں اس روایت کی سند کو حسن کہا ہے:

اسناده حسن.

سند دوم:

حمران بن ابان سے سند معتبر کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ عثمان اپنے پیروں کا مسح کیا کرتا تھا اور خود بھی واضح طور پر کہتا تھا کہ رسول خدا (ص) بھی اسی طرح وضو کیا کرتے تھے:

حدثنا محمد بن بِشْرٍ قال حدثنا سَعِيدُ بن أبی عَرُوبَةَ عن قَتَادَةَ عن مُسْلِمِ بن يَسَارٍ عن حُمْرَانَ قال دَعَا عُثْمَانَ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ ضَحِكَ فقال ألا تَسْأَلُونِی مِمَّا أَضْحَكُ قالوا يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ما اضحكك قال رَأَيْت رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه و سلم تَوَضَّأَ كما تَوَضَّأْت فَمَضْمَضَ وَ اسْتَنْشَقَ وَ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا وَ يَدَيْهِ ثَلاَثًا وَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ ظَهْرِ قَدَمَيْهِ.

....... عثمان نے کہا کہ میں نے رسول خدا کو دیکھا تھا کہ وہ بھی وضو کرتے وقت اپنے سر اور پیروں کا مسح کیا کرتے تھے۔

مصنف ابن أبی شيبة، ج 1، ص 16

یہ روایت مسند احمد ابن حنبل اور مسند بزار میں بھی نقل ہوئی ہے:

الشيبانی، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفی241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 58، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

البزار، ابوبكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق (متوفی292 هـ)، البحر الزخار (مسند البزار) ج 2، ص 74، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر: مؤسسة علوم القرآن، مكتبة العلوم و الحكم - بيروت، المدينة الطبعة: الأولى، 1409 هـ،

ہيثمی اہل سنت کا علم رجال کا عالم ہے، اس نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

رواه البزار و رجاله رجال الصحيح و هو فی الصحيح باختصار۔

اس روایت کو بزار نے نقل کیا ہے اور اسکی سند کے سارے راوی، صحیح ہیں۔

مجمع الزوائد، ج 1، ص 229

سیوطی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

 حم، و البزار حل ، ع ، و صحَّح۔

اس روایت کو احمد ابن حنبل، بزار، ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء اور ابو یعلی نے نقل کیا ہے اور روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

السيوطی، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبی بكر (متوفی911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير و زوائده و الجامع الكبير)، ج 15، ص 197، الجامع الكبير کی سی ڈی کے مطابق،

سند سوم:

ابن خزیمہ نے بھی شقيق بن سلمہ سے عثمان کی روايت کو نقل کیا ہے کہ اس نے اپنے پیروں کا مسح کیا اور کہا کہ رسول خدا (ص) بھی اسی طرح وضو کیا کرتے تھے:

أخبرنا أبو طاهر نا أبو بكر نا يعقوب بن إبراهيم الدورقی حدثنا خلف بن الوليد حدثنا إسرائيل عن عامر بن شقيق عن شقيق بن سلمة عن عثمان بن عفان أنه توضأ فغسل وجهه ثلاثا و استنشق ثلاثا و مضمض ثلاثا و مسح برأسه و أذنيه ظاهرهما و باطنهما و رجليه ثلاثا و خلل لحيته و أصابع الرجلين و قال هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يتوضأ.

شقيق بن سلمہ نے نقل كیا ہے کہ عثمان بن عفان نے وضو کیا، اس نے تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ اپنے چہرے کو پانی سے دھویا، پھر سر، ہر دو کان کے اندر و باہر سے اور پیروں کا تین مرتبہ مسح کیا، پھر کہا کہ میں نے رسول خدا کو بھی اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

ابن خزيمة السلمی النيسابوری، أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة (متوفی311هـ) ، صحيح ابن خزيمة، ج 1، ص 78، تحقيق: د. محمد مصطفى الأعظمی ، ناشر : المكتب الإسلامی - بيروت – 1390هـ – 1970م

یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے اور ابن خزیمہ کی کتاب صحیح میں بھی نقل ہوئی ہے۔

صحيح ابن خزيمة، ج 1، ص 3۔

یہاں تک بعض صحابہ کی گواہی سے ثابت ہو گیا کہ رسول خدا وضو کرتے وقت اپنے پیروں کا مسح کیا کرتے تھے۔ اگرچے اس بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم فقط اتنی ہی روایات کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

ب: امیر المؤمنین علی (ع) کے وضو کے بارے میں بحث:

امیر المؤمنین ان اصحاب میں سے ہیں کہ جن کا عمل، سیرت اور سنت، شیعہ اور اہل سنت ہر دو کے لیے حجت ہے۔ علی بھی رسول خدا کی طرح وضو کرتے وقت اپنے پیروں کا مسح کیا کرتے تھے۔

1-  روايت نزال بن سبره: (روايت صحيح)

احمد بن حنبل نے اپنی كتاب مسند میں وہ روايت كہ جو علی (ع) کے وضو کو بیان کرتی ہے، کو ایسے ذکر کیا ہے کہ:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبو خَيْثَمَةَ وثنا إِسْحَاقُ بن إِسْمَاعِيلَ قَالاَ ثنا جَرِيرٌ عن مَنْصُورٍ عن عبد الْمَلِكِ بن مَيْسَرَةَ عَنِ النَّزَّالِ بن سَبْرَةَ قال صَلَّيْنَا مع علی رضی الله عنه الظُّهْرَ فَانْطَلَقَ إلى مَجْلِسٍ له يَجْلِسُهُ فی الرَّحَبَةِ فَقَعَدَ وَ قَعَدْنَا حَوْلَهُ ثم حَضَرَتِ الْعَصْرُ فَأُتِىَ بِإِنَاءٍ فَأَخَذَ منه كَفًّا فَتَمَضْمَضَ وَ اسْتَنْشَقَ وَ مَسَحَ بِوَجْهِهِ وَ ذِرَاعَيْهِ وَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ مَسَحَ بِرِجْلَيْهِ ...

نزال بن سبره نے کہا ہے کہ میں نے نماز ظہر علی کے ساتھ پڑھی، وہ حضرت میدان کوفہ میں اپنی جگہ پر گئے اور ہم بھی ان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گيا۔ ان کے لیے وضو کرنے کا پانی لایا گیا، انھوں نے تھوڑا پانی لے کر پہلے کلی کی، اور پھر اپنی ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا اور آخر میں سر اور پیروں کا بھی مسح کیا...،

مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 159

کتاب کے محقق نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے اور کتاب کے حاشیے میں واضح کہا ہے کہ:

  اسناده صحيح.

طيالسی نے بھی اسی روایت کو تھوڑے فرق کے ساتھ اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ:

حدثنا أبو داود قال حدثنا شعبة قال أخبرنی عبد الملك بن ميسرة قال سمعت النزال بن سبرة يقول صلى علی الظهر فی الرحبة ثم جلس فی حوائج الناس حتى حضرت العصر ثم أتى بكوز من ماء فصب منه كفا فغسل وجهه و يديه و مسح على رأسه و رجليه ...

نزال بن سبره نے کہا ہے کہ: علی نے کوفہ کے میدان میں نماز ظہر پڑھی اور پھر لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ادھر ہی بیٹھ گئے، یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گيا، پھر ایک کوزے میں وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ انھوں نے تھوڑے پانی سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا اور پھر سر اور پیروں کا مسح کیا۔

مسند الطيالسی، ج 1، ص 22

محقق كتاب محمد بن عبد المحسن تركی نے روايت کی سند کو صحیح کہا ہے اور لکھا ہے کہ:

 حديث صحيح، اخرجه احمد و...

2- روايت عبد خير :

طحاوی کی نقل کے مطابق، علی (ع) کے ایک صحابی عبد خیر نے کہا ہے کہ وہ وضو کرتے وقت اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے:

حدثنا أبو أُمَيَّةَ قال ثنا محمد بن الأَصْبَهَانِيِّ قال أنا شَرِيكٌ عن السُّدِّيِّ عن عبد خَيْرٍ عن عَلِيٍّ رضی الله عنه أَنَّهُ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ على ظَهْرِ الْقَدَمِ و قال لَوْلاَ أَنِّی رَأَيْت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم فَعَلَهُ لَكَانَ بَاطِنُ الْقَدَمِ أَحَقَّ من ظَاهِرِهِ.

عبد خير بن يزيد نے علی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے وضو میں پیروں پر مسح کیا اور فرمایا کہ: اگر میں رسول خدا کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھتا تو بے شک پیروں کے نیچے مسح کرنا، یہ پیروں کے اوپر مسح کرنے سے زیادہ مناسب تھا۔

الطحاوی الحنفی، ابو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة (متوفی321هـ) ، شرح معانی الآثار، ج 1، ص 35، تحقيق : محمد زهری النجار ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت ، الطبعة : الأولى، 1399م

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ اہل سنت کی صحیح روایات کے مطابق رسول خدا اور علی وضو کرتے وقت اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے، یعنی وہ اس حکم پر عمل کرتے تھے کہ جس کو اہل سنت کے بعض علماء نے وضو والی آيت سے استنباط کیا ہے۔ شیعیان بھی قرآن اور رسول خدا (ص) اور علی (ع) کی پیروی کرتے ہوئے، وضو میں اپنے پیروں پر مسح کرتے ہیں اور پیروں کے دھونے کو جائز قرار نہیں دیتے۔

اب ہم وضو میں پیروں کو دھونے والی روایات کے بارے میں بحث کرتے ہیں:

روایات معارض:

 

ج: وضو میں پیروں کو دھونے والی روایات کے بارے میں تحقیق و تنقید:

مذکورہ روایات کے مقابلے پر کتب اہل سنت بعض دوسری روایات بھی ہیں کہ جن میں آیا ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع)، ابن عباس اور عثمان وضو کرتے وقت اپنے پاؤں کو دھوتے تھے۔

1- حضرت علی (ع) کے پاؤں دھونے والی روایات:

روايت اول: ابو حيہ سے نقل ہوئی ہے کہ:

ابن ابی شيبہ کوفی نے لکھا ہے کہ:

حدثنا أبو الأَحْوَصِ عن أبی إِسْحَاقَ عن أبی حَيَّةَ قال رَأَيْت عَلِيًّا تَوَضَّأَ فَأَنْقَى كَفَّيْهِ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا وَ ذِرَاعَيْهِ ثَلاَثًا وَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَيْهِ إلَى الْكَعْبَيْنِ ثُمَّ قام فَشَرِبَ فَضْلَ وَضُوئِهِ ثُمَّ قال إنَّمَا أَرَدْت أَنْ أُرِيَكُمْ طُهُورَ رسول اللهِ صلى الله عليه و سلم۔

ابو حيہ نے کہا ہے کہ: میں نے علی کو دیکھا کہ وہ وضو کر رہے تھے، دونوں ہاتھوں کو دھویا، پھر تین مرتبہ چہرے اور بازوؤں کو دھویا اور پھر سر کا مسح کیا، پھر دونوں پیروں کو اٹھی ہوئی جگہ تک دھویا پھر کھڑے ہو گئے اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو پی لیا اور فرمایا کہ: میں چاہتا تھا کہ رسول خدا کے وضو کرنے کے طریقے کو تمہیں بتاؤں کو وہ ایسے ہی وضو کیا کرتے تھے۔

إبن أبی شيبة الكوفی، ابو بكر عبد الله بن محمد (متوفی235 هـ)، الكتاب المصنف فی الأحاديث و الآثار، ج 1، ص 16، تحقيق: كمال يوسف الحوت،ناشر:مكتبة الرشد، الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

روایت پر تنقید:

پہلی و ظاہری نگاہ میں یہ روایت مذکورہ بالا روایات سے تناقض اور تضاد رکھتی ہے، لیکن تناقض کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ ہر دو روایت معتبر ہوں، حالانکہ یہاں پر اسطرح نہیں ہے، کیونکہ پہلے ذکر شدہ روایات سند کے لحاظ سے معتبر اور صحیح تھیں، لیکن یہ روایات متناقض جو ہم نے ابھی ذکر کی ہیں، وہ قرآن کے ساتھ  مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہیں۔

اس روایت کی سند میں ایک راوی کو ضعیف کہا گیا ہے۔

ابو اسحاق سبيعی:

اہل سنت کے علماء علم رجال نے اس راوی کو مدلّس ( یعنی جو روایات میں تدلیس اور دھوکہ بازی کرتا ہو ،) کہا ہے۔ کیونکہ  علم رجال کی نگاہ ایک راوی کا تدلیس کرنا، یہ بہت بڑا عیب ہے، اسلیے اسکی روایت کو  قبول نہیں کیا جا سکتا۔

مباکفوری نے اسکے مدلس ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ:

و من التابعين الذين كانوا موصوفين بالتدليس معروفين به قتادة ... و عمرو بن عبد الله السبيعی،

تابعین میں سے وہ راوی جو جنکو مدلسین میں سے قرار دیا گیا ہے اور وہ تدلیس کرنے میں مشہور و معروف بھی تھے، وہ قتادہ... اور عمرو ابن عبد اللہ ابو اسحاق سبیعی تھے۔

المباركفوری، أبو العلا محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم (متوفی1353هـ) ، تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی، ج 1، ص 19، دار الكتب العلمية – بيروت.

ابن ملقن نے بھی لکھا ہے کہ:

و أبو إسحاق السبيعی كان مدلسًا.

ابو اسحاق سبيعی مدلس تھا۔

الأنصاری الشافعی، سراج الدين أبی حفص عمر بن علی بن أحمد المعروف بابن الملقن، (متوفی 804هـ) البدر المنير فی تخريج الأحاديث و الأثار الواقعة فی الشرح الكبير، ج 3، ص 634، تحقيق: مصطفی ابو الغيط و عبد الله بن سليمان و ياسر بن كمال، ناشر: دار الهجرة للنشر و التوزيع - الرياض- السعودية، الطبعة: الاولى، 1425هـ-2004م.

مبارکفوری نے متعدد جگہ پر اس سے روایت نقل کرنے کے بعد  کہا ہے کہ، وہ مدلس تھا:

قلت فی إسناده أبو إسحاق السبيعی و هو مدلس.

تحفة الأحوذی، ج 3، ص 70

ایک دوسری جگہ پر بھی اس کے مدلس ہونے کے بارے میں کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ، وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی عقل کھو بیٹھا تھا۔

قوله (حديث بن عباس حديث غريب) و فی إسناده أبو إسحاق السبيعی و هو مدلس و رواه عن عبد الله بن سعيد بالعنعنة و مع هذا فقد اختلط باخره.

تحفة الأحوذی، ج 3، ص 513

عبد الله بن محمد اصفہانی نے اس سے دو روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

وہ بہت زیادہ تدلیس کرتا تھا اور اسکی روایات ضعیف ہیں:

بعد دراسة إسناد هذا الحديث تبين أنه بهذا الإسناد ضعيف لأن فيه أبو إسحاق السبيعی مدلس مكثر من التدليس.

اس روایت کی سند کے بارے میں تحقیق کے بعد واضح ہوتا ہے کہ یہ روایت اس سند کے ساتھ ضعیف ہے، کیونکہ اس سند میں ابو اسحاق سبیعی ہے کہ جو مدلس تھا اور بہت زیادہ تدلیس کیا کرتا تھا۔

الأصبهانی، عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان (متوفی 369ق)، أخلاق النبی و آدابه، ج 1، ص 313 – 316، تحقيق : صالح بن محمد الونيان، دار النشر : دار المسلم للنشر و التوزيع، ، الطبعة: الأولى  1998

ایک دوسری جگہ اسکی یہ عبارت ہے کہ:

بعد دراسة إسناد هذا الحديث تبين أنه بهذا الإسناد ضعيف لأن فيه علی بن عابس ضعفه العلماء و كذا أبو إسحاق السبيعی مدلس و هو كثير التدليس و لم يصرح بالسماع.

اس روایت کی سند کے بارے میں تحقیق کے بعد واضح ہوتا ہے کہ یہ روایت اس سند کے ساتھ ضعیف ہے، کیونکہ اس روایت کی سند میں علی بن عابس ہے اور علماء نے اسکو ضعیف کہا ہے اور اسی طرح ابو اسحاق سبیعی ہے کہ جو مدلس تھا اور بہت زیادہ تدلیس کیا کرتا تھا۔

 أخلاق النبی و آدابه، ج 3، ص 72

البانی وہابی کہ جسکو آج کے وہابی اپنے زمانے کا بخاری کہتے تھے، اس نے ابو اسحاق سبیعی والی روایت کی سند کے بارے میں بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

     قلت : وهذا إسناد ضعيف... أما الإسناد ؛ فله علتان :

.... و الأخرى : عنعنة أبی إسحاق الهمدانی – و اسمه عمرو بن عبد الله السبيعی - ؛ فإنه مدلس أيضاً ، و قد كان اختلط،

میں کہتا ہوں کہ: اس روایت کی سند ضعیف ہے.... ضعف سند کے دو سبب ہیں:

.... دوسرا سبب یہ ہے کہ: ابو اسحاق سے یہ روایت معنعن ہے۔ ( معنعن یعنی روایت کے راوی نے اس روایت کو اپنے سے پہلے والے راوی سے، لفظ عن سے نقل کیا ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ خود اس راوی نے اس روایت کو سنا ہے یا نہیں ) اسکا نام عمرو ابن عبد اللہ سبیعی ہے، کیونکہ وہ مدلس ہے اور وہ اپنی عقل کو بھی کھو بیٹھا تھا۔ (یعنی وہ روایات کے بارے  میں بحث کرنے کے قابل نہیں رہا تھا)

الألبانی، محمد ناصر الدين ، سلسلة الأحاديث الضعيفة و الموضوعة و أثرها السيئ فی الأمة، 8/ 304، دار النشر : دار المعارف، الرياض - الممكلة العربية السعودية، الطبعة : الأولى، سنة الطبع : 1412 هـ / 1992 م

علمائے اہل سنت کے نزدیک بھی تدلیس کا حکم واضح ہے کہ:

خطيب بغدادی نے تدلیس کی مذمت میں علماء کے اقوال کو اس طرح ذکر کیا ہے کہ:

قال شعبة بن الحجاج التدليس أخو الكذب ... سمعت شعبة يقول التدليس فی الحديث أشد من الزنا و لأن أسقط من السماء أحب الي من ان ادلس... و قال ثنا جدی قال سمعت الحسن بن علی يقول سمعت أبا أسامة يقول خرب الله بيوت المدلسين ما هم عندی الا كذابون... حماد بن زيد يقول التدليس كذب...

شعبہ نے کہا ہے کہ: تدلیس جھوٹ کا بھائی ہے.... شعبہ سے یہ بھی نقل ہوا ہے کہ: روایات میں تدلیس کرنا، یہ زنا کرنے سے بدتر ہے۔ آسمان سے گرنا میرے لیے، تدلیس کرنے سے زیادہ آسان ہے۔

ابو اسامہ کہتا تھا کہ: خداوند تدلیس کرنے والوں کے گھروں کو ویران کرے، ان کے پاس جھوٹ بولنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

حماد بن زید کہتا تھا کہ: تدلیس، وہی جھوٹ ہی ہے۔

البغدادی، ابوبكر أحمد بن علی  بن ثابت الخطيب (متوفی463هـ)، الكفاية فی علم الرواية، ج 1، ص 355، تحقيق: ابو عبد الله السورقی، إبراهيم حمدی المدنی، ناشر: المكتبة العلمية، المدينة المنورة.

سند کے ضعیف ہونے کے علاوہ، حتی فرض بھی کریں کہ یہ روایت معتبر ہو تو پھر بھی یہ روایت، ان صحیح روایات کہ جو علی کے وضو میں پیروں کے مسح کرنے کو بیان کرتی ہیں، کے ساتھ تعارض رکھتی ہے۔

روايت دوم: عبد خیر سے نقل ہوئی ہے:

ابن ابی شيبہ نے ایک دوسری روایت کو علی (ع) کے وضو کے بارے میں، اس طرح ذکر کیا ہے کہ:

حدثنا شَرِيكٌ عن خَالِدِ بن عَلْقَمَةَ عن عبد خَيْرٍ عن عَلِيٍّ قال تَوَضَّأَ فَمَضْمَضَ ثَلاَثًا وَ اسْتَنْشَقَ ثَلاَثًا من كَفٍّ وَاحِدٍ وَ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فی الرَّكْوَةِ فَمَسَحَ رَأْسَهُ وَ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ قال هذا وضوء (وضوؤ) نَبِيِّكُمْ صلى الله عليه و سلم.

عبد خير بن يزيد نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ: انھوں نے وضو کیا اور تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھویا اور پھر اپنے ہاتھ کو پانی کے برتن میں ڈال کر، اس سے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے پیروں کو دھویا اور پھر فرمایا: تمہارے پیغمبر بھی ایسے ہی وضو کیا کرتے تھے۔

مصنف ابن أبی شيبة، ج 1، ص 16

روايت پر تنقید:

جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ اہل سنت کے علماء جیسے ابن حزم آندلسی نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن میں خداوند کا حکم پیروں پر مسح کرنا ہے۔

لہذا یہ روایت اولا: قرآن کے حکم کے مخالف ہے، ثانیا: یہ روایت، عبد خیر کی صحیح روایت کے ساتھ بھی تعارض رکھتی ہے، کیونکہ اس روایت میں واضح بیان ہوا تھا کہ علی (ع) وضو میں اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے اور دوسری صحیح روایات کہ جو نقل ہوئی، وہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہیں۔

روايت سوم: امام حسين (ع) سے نقل ہوئی ہے:

عبد الرزاق صنعانی نے ایک دوسری روایت اہل بیت سے نقل کی ہے کہ علی وضو میں اپنے پیروں کو دھوتے تھے:

عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی مَنْ أُصَدِّقُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَخْبَرَهُ قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَعَا عَلِيٌّ بِوَضُوءٍ فَقُرِّبَ لَهُ " فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا فِی وَضُوئِهِ، ثُمَّ مَضْمَضَ ثَلاثًا، وَ اسْتَنْشَقَ ثَلاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى إِلَى الْمِرْفَقِ ثَلاثًا، ثُمَّ الْيُسْرَى كَذَلِكَ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَسْحَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثَلاثًا، ثُمَّ الْيُسْرَى كَذَلِكَ، ثُمَّ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ لِی: نَاوِلْنِی، فَنَاوَلْتُهُ الإِنَاءَ الَّذِی فِيهِ فَضْلُ وَضُوئِهِ فَشَرِبَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ قَائِمَا فَعَجِبْتُ، فَلَمَّا رَآنِی عَجِبْتُ، قَالَ: لا تَعْجَبْ، فَإِنِّی رَأَيْتُ أَبَاكَ النَّبِيَّ يَصْنَعُ مِثْلَ مَا رَأَيْتَنی أَصْنَعُ، ...

امام حسین (ع) سے نقل ہوا ہے کہ علی (ع) کے وضو کرنے کے لیے پانی لایا گیا۔ انھوں نے وضو کرنے سے پہلے تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھویا۔ پھر تین مرتبہ کلی کی، اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، پھر اسکے بعد تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھویا اور اپنے دائیں ہاتھ کو تین مرتبہ کہنی تک دھویا اور بائیں ہاتھ کو بھی اسی طرح دھویا، اور ایک مرتبہ سر کا مسح کیا اور اسکے بعد تین مرتبہ دائیں پاؤں کو اٹھی ہوئی جگہ تک دھویا اور بائیں پاؤں کو بھی اسی طرح دھویا اور پھر کھڑے ہو کر فرمایا: پانی کے برتن کو مجھے دو، میں نے برتن کو انکو دیا تو انھوں نے برتن میں باقی بچا ہو پانی پی لیا۔ میں نے تعجب کیا تو انھوں نے مجھے فرمایا کہ تعجب نہ کرو، کیونکہ میں نے تمہارے بابا رسول خدا (ص) کو دیکھا تھا کہ انھوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

الصنعانی، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفی211هـ)، المصنف، ج 1، ص 40، تحقيق : حبيب الرحمن الأعظمی، دار النشر: المكتب الإسلامی – بيروت، الطبعة : الثانية 1403

 روايت پر تنقید:

یہ روایت بھی پہلی روایت کی طرح:

 اولا: قرآن کے مخالف ہے اور ثانیا: یہ روایت دوسری صحیح روایات کہ جو علی (ع) سے رسول خدا (ص) کے وضو کے بارے میں نقل ہوئیں ہیں،تعارض رکھتی ہے۔

2- ابن عباس کا وضو میں پاؤں کا دھونا:

ابن عباس سے بھی روایت کو نقل کیا گیا ہے کہ وہ بھی وضو میں اپنے پاؤں کو دھوتا تھا:

حدثنا محمد بن عبد الرَّحِيمِ قال أخبرنا أبو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ مَنْصُورُ بن سَلَمَةَ قال أخبرنا بن بِلَالٍ يَعْنِی سُلَيْمَانَ عن زَيْدِ بن أَسْلَمَ عن عَطَاءِ بن يَسَارٍ عن بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثم أَخَذَ غَرْفَةً من مَاءٍ فَمَضْمَضَ بها وَ اسْتَنْشَقَ ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً من مَاءٍ فَجَعَلَ بها هَكَذَا أَضَافَهَا إلى يَدِهِ الْأُخْرَى فَغَسَلَ بِهِمَا وَجْهَهُ ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً من مَاءٍ فَغَسَلَ بها يَدَهُ الْيُمْنَى ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً من مَاءٍ فَغَسَلَ بها يَدَهُ الْيُسْرَى ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً من مَاءٍ فَرَشَّ على رِجْلِهِ الْيُمْنَى حتى غَسَلَهَا ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً أُخْرَى فَغَسَلَ بها رِجْلَهُ يَعْنِی الْيُسْرَى ثُمَّ قال هَكَذَا رأيت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم يَتَوَضَّأُ.

عطاء بن يسار نے کہا ہے کہ: ابن عباس نے وضو کیا، اس نے اپنے چہرے کو دھویا، پھر تھوڑا سا پانی لے کر کلی کی اور پھر ناک میں پانی ڈالا، پھر ایک ہاتھ میں تھوڑا پانی لے کر، اسکو دوسرے بازو پر ڈالا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو دھویا، پھر اس سے تھوڑا پانی لیا اور دائیں بازو کو دھویا اور پھر تھوڑا پانی لے بائیں بازو کو دھویا۔ اسکے بعد اپنے سر کا مسح کیا اور پھر تھوڑے پانی سے دائیں پاؤں کو دھویا اور پھر تھوڑے پانی سے بائیں پاؤں کو دھویا۔ وضو کرنے کے بعد فرمایا: میں نے رسول خدا کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

البخاری الجعفی، ابو عبد الله محمد بن إسماعيل (متوفى256هـ)، صحيح البخاری، ج 1، ص 65، تحقيق: د. مصطفی ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

پہلا جواب:

یہ روایت ابن عباس کی مسح کرنے والی روایات سے تعارض رکھتی ہے۔

ابن ابی شيبہ اور ابن ماجہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس نے پاؤں کے دھونے کا انکار کیا ہے اور مسح کرنے کو قرآن کے مطابق کہا ہے:

حدثنا بن عُلَيَّةَ عن رَوْحِ بن الْقَاسِمِ عن عبد اللهِ بن مُحَمَّدِ بن عَقِيلٍ عن الرُّبَيِّعِ ابْنَةِ مُعَوِّذِ بن عَفْرَاءَ قالت أَتَانِی بن عَبَّاسٍ فَسَأَلَنِی عن هذا الحديث تَعْنِی حَدِيثَهَا الذی ذَكَرَتْ أنها رَأَتْ النبی صلى الله عليه و سلم تَوَضَّأَ وَ أَنَّهُ غَسَلَ رِجْلَيْهِ قالت فقال بن عَبَّاسٍ أَبَى الناس إِلاَّ الْغَسْلَ وَ لاَ أَجِدُ فی كِتَابِ اللهِ إِلاَّ الْمَسْحَ.

معوذ بن عفرا کی بیٹی ربیع نے کہا ہے کہ: ابن عباس میرے پاس آیا اور اس روایت کے بارے میں مجھ سے سوال کیا۔ ربیع کا مقصد وہ روایت تھی کہ رسول خدا کو اس نے مشاہدہ کیا کہ انھوں نے پاؤں کو وضو میں دھویا ہے۔ ربیع نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ لوگ فقط پاؤں کو دھوتے ہیں، حالانکہ میں نے قرآن میں فقط مسح کرنے کو دیکھا ہے۔

إبن أبی شيبة الكوفی، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفى235 هـ)، الكتاب المصنف فی الأحاديث و الآثار، ج 1، ص 27، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

القزوينی، ابو عبد الله محمد بن يزيد (متوفى275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 156، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقی، ناشر: دار الفكر - بيروت.

اس روایت کی سند بھی معتبر ہے۔ احمد بن ابوبکر کنانی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

هذا إسناد حسن رواه ابن أبی شيبة فی مصنفه.

اس روایت کی سند حسن ہے کہ اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب مصنف میں نقل کیا ہے۔

الكنانی، أحمد بن أبی بكر بن إسماعيل (متوفي840هـ)، مصباح الزجاجة فی زوائد ابن ماجه، ج 1، ص 66، تحقيق: محمد المنتقى الكشناوی، دار النشر: دار العربية – بيروت، الطبعة: الثانية 1403

ابن عباس سے دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں کہ وہ وضو میں مسح کرنے کے قائل تھے نہ کہ پاؤں کو دھونے کے۔

عبد الرزاق صنعانی نے ایک دوسری روايت کو ایسے نقل کیا ہے کہ:

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ أَوْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " افْتَرَضَ اللَّهُ غَسْلَتَيْنِ وَ مَسْحَتَيْنِ، أَلا تَرَى أَنَّهُ ذَكَرَ التَّيَمُّمَ؟ فَجَعَلَ مَكَانَ الْغَسْلَتَيْنِ مَسْحَتَيْنِ، وَ تَرَكَ الْمَسْحَتَيْنِ ". قَالَ مَعْمَرٌ: وَ قَالَ رَجُلٌ لِمَطَرٍ الْوَرَّاقِ، مَنْ كَانَ يَقُولُ الْمَسْحُ عَلَى الرِّجْلَيْنِ؟ قَالَ: فُقَهَاءُ كَثِيرٌ.

جابر يا عکرمہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:

خداوند نے وضو میں دو دھونے اور دو مسح کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ خداوند نے تیمم کو ذکر کیا ہے ؟ یہ تیمم دو دھونے اور دو مسح کرنے کی جگہ قرار دیا گیا ہے اور دو مسح کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

معمر نے کہا ہے کہ: ایک شخص نے مطر وراق سے کہا کہ: کون پاؤں پر مسح کرنے کا قائل ہے ؟ اس نے جواب دیا: بہت سے فقہاء اس مطلب کے قائل ہیں۔

مصنف عبد الرزاق، ج 1، ص 19

ایک دوسری روایت میں ابن عباس نے کہا ہے کہ:

عبد الرزاق عن بن جريج قال أخبرنی عمرو بن دينار أنه سمع عكرمة يقول قال بن عباس الوضوء مسحتان و غسلتان.

عکرمہ نے نقل کیا ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ: وضو میں دو چیزوں کا مسح کیا جاتا ہے اور دو کو دھویا جاتا ہے۔

مصنف عبد الرزاق، ج 1، ص 19

دوسرا جواب:

اس روایت کا اوپر والی صحیح روایت کے ساتھ تعارض ہونا:

رسول خدا (ص) کے وضو کی شرح کے بارے میں عطاء بن یسار نے ابن عباس سے نقل کیا کہ وہ حضرت وضو میں پاؤں کا مسح کیا کرتے تھے، لیکن یہ تعارض والی روایت کہتی ہے کہ وہ پاؤں کو دھوتے تھے۔ پس یہ دونوں روایات آپس میں معارض ہیں، اور ہم نے ثابت کیا کہ کتاب کے محقق نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

ابن عباس کی تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) وضو میں اپنے پاؤں کا مسح کیا کرتے تھے۔

3- عثمان کا وضو میں پاؤں کو دھونا:

عثمان سے بھی روایت کو نقل کیا گیا ہے کہ وہ وضو میں اپنے پاؤں کو دھوتا تھا:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا يَعْقُوبُ ثنا أبی عَنِ بن إِسْحَاقَ حدثني محمد بن إبراهيم بن الحرث التيمی عن مُعَاذِ بن عبد الرحمن التيمی عن حُمْرَانَ بن أَبَانَ مولى عُثْمَانَ بن عَفَّانَ قال رأيت عُثْمَانَ بن عَفاَّنَ دَعَا بِوَضُوءٍ و هو على بَابِ الْمَسْجِدِ فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثُمَّ مَضْمَضَ وَ اسْتَنْشَقَ وَ اسْتَنْثَرَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ إلى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ أَمَرَّ بِيَدَيْهِ على ظَاهِرِ أُذُنَيْهِ ثُمَّ مَرَّ بِهِمَا على لِحْيَتِهِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ إلى الْكَعْبَيْنِ.

حمران بن ابان کہ جو عثمان بن عفان کا غلام تھا، اس نے کہا ہے کہ: میں نے عثمان کو دیکھا کہ اس نے وضو کے لیے پانی طلب کیا در حالیکہ وہ مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا۔ پہلے اس نے ہاتھوں کو دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اس نے اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا اور پھر دونوں بازو کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا اور پھر اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے ہاتھ کو اپنے کانوں پر پھیرا اور پھر ہاتھوں کو اپنی داڑھی پر پھیرا اور پھر اپنے دونوں پاؤں کو اٹھی ہوئی جگہ تک دھویا۔

مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 68

ہيثمی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد، اسکی سند کے راویوں کو موثق کہا ہے:

قلت رواه أحمد و هو فی الصحيح باختصار و رجاله موثقون.

الهيثمی، ابو الحسن علی بن أبی بكر (متوفى807 هـ)، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج 1، ص 229، ناشر: دار الريان للتراث،‏ دار الكتاب العربی - القاهرة، بيروت – 1407هـ.

روایت پر تنقید:

 یہ روایت دوسری روایات کے ساتھ تعارض رکھتی ہے:

یہ روایت، قرآن کے مخالف ہونے کے علاوہ، وہ روایات کہ جن کو ہم نے رسول خدا (ص) کے وضو کے بارے میں بحث کرتے ہوئے بیان کیا تھا، ان کے ساتھ بھی تعارض رکھتی ہے۔

نتيجہ کلی:

 

کتب اہل سنت کی صحیح روایات کے مطابق، واضح اور ثابت ہو گیا کہ رسول خدا (ص) اور امیر المؤمنین علی (ع) وضو کرتے وقت اپنے پاؤں کا مسح کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ روایات کہ جو اس مطلب کے مخالف تھیں، وہ:

اولا: ان میں سے اکثر روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔

ثانیا: اگر ان روایات کو صحیح بھی فرض کر لیں تو پھر بھی وہ قرآن اور دوسری صحیح روایات کے ساتھ تعارض رکھتی ہیں اور ان روایات میں صحیح روایات کا مقابلہ کرنے  کی بھی طاقت اور قدرت بھی نہیں ہے۔

جالب یہ ہے کہ ان معارض روایات میں سے بعض کو فقط ایک راوی نے ہی نقل کیا تھا، جیسے حمران بن ابان کی روایات کہ جس میں اس نے عثمان کے وضو کو بیان کیا تھا۔

ثالثا: جیسا کہ بیان ہوا کہ رسول خدا (ص) کے بعض صحابہ جیسے علی (ع)، ابن عباس، تابعین اور اہل سنت کے بہت سے فقہاء وضو میں پاؤں پر مسح کرنے کے قائل تھے۔

اس بناء پر ہر مسلمان کا دینی اور شرعی فریضہ ہے کہ وہ قرآن اور رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) کی سنت و سیرت پر عمل پیرا ہو۔

 التماس دعا

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی