2024 April 25
شفاعت، کربلا کا مقصد ہے یا اس کا نتیجہ/ ائمہ علیھم السلام کے “ایک نور سے ہونے” کے بارے میں شبہہ کا جواب
مندرجات: ٣١٥ تاریخ اشاعت: ١٥ August ٢٠١٦ - ١١:٠٣ مشاہدات: 3887
مضامین و مقالات » پبلک
شفاعت، کربلا کا مقصد ہے یا اس کا نتیجہ/ ائمہ علیھم السلام کے “ایک نور سے ہونے” کے بارے میں شبہہ کا جواب

واقعہ کربلا اس لئے رونما نہیں ہوا کہ ہمارے پاس اپنے گناہوں کے بخشش کے لئے کوئی شفاعت کرنے والا ہو۔ بلکہ اس واقعہ کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت سید الشہداء علیہم السلام شفاعت کے بالا ترین درجہ پر فائز ہوئے اور روز قیامت گناہگاروں کی بخشش کا ذریعہ بنیں گے۔

گناہگاروں کی شفاعت واقعہ کربلا کا مقصد ہے یا نتیجہ ؟

 صفوی دور، شعائر حسینی کی رونق افروزی یا درس آموزی کی فراموشی

سوال: ایران میں صفوی حکومت کی بنیاد پڑنے کے بعد، تاریخ شیعیت میں ایک نا خوشگوار واقعہ رونما ہوا اور قیام کربلا کےسبق آموز پہلو کافی حد تک بھلا دئے گئے یا بالفاظ دیگر ہم آج کربلا سے کچھ بھی درس نہیں لیتے بلکہ سبھی اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ واقعہ کی تفسیر کریں .

جواب : صفوی حکومت سے متعلق مذکورہ نظریہ بہت سادہ لوحانہ اور حقیقت سے دور ہے۔ صفوی دوران حکومت، واقعہ کربلا کے عبرت آموز پہلو کو غبار آلود نہیں کرتا ہے بلکہ وہ رسوم عزا کو پر رونق بنانے اور خاص اہتمام پخشنے کا زمانہ تھا۔ جیسا کہ پیٹر چلکوسکی نے اس سلسلہ میں کہا ہے: محرم کی رسومات کو صفوی دربار کی خاص حمایت حاصل ہوئی۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی، یاد وطن پرستی کی صورت اختیار کرگئی۔ مغربی ممالک کے سیاسی سفراء، مبلغین، تاجروں اور سیاحوں کے ذریعہ منقول متعدد سفر نامے ایسے جلسہ و جلوس کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں رنگ برنگی پوشاکوں میں ملبوس افراد ایک خاص طرز پر پیدل چلتے یا گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوکر ان واقعات کو مجسم کررہے تھے جو واقعہ کربلا کے غمناک مناظر پر ختم ہوتے تھے۔ ایک جیسے کپڑے پہنے ہوئے ، تیر و کمان اور دوسرے اسلحوں سے مسلح سینکڑوں عزادار، آہستہ آہستہ اپنے حرکات و سکنات کے ذریعہ ایک مصنوعی جنگ کا نقشہ پیش کرتے تھے۔ اس پوری نمائش میں ایک غمگین ماحول چھایا ہوا تھا اور تماشا بین لوگ جو راستے کے دونوں طرف صف بنائے کھڑے ہوتے تھے وہ سینہ زنی کرتے تھے اور جب کوئی ماتمی انجمن ان کے پاس سے گزرتی تو حسین حسین اور یا شاہ شہیداں حسین کے فریاد کرتے تھے۔

پتر چلکووسکی، داوود حاتمی(ترجمه)، تعزیه هنر بومی پیشرو ایران، ص 10 تا 11، انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، اول، 1367ه.ش

اگرچہ صفوی دوران حکومت، عزاداری میں خاص طور سے نئے طریقوں اور اسلوبوں کے نشو و نما کا دور تھا لیکن مجموعی طور پر عزاداری میں یہ ارتقاء، کربلا کے واقعہ اور خاص طور پر کربلا میں رونما ہوئے اصل واقعات پر خاص توجہ کا باعث بنا۔

صفوی دور حکومت میں نہ صرف یہ کہ کربلا کے سبق آموز پہلووں کو بھلایا نہیں گیا بلکہ صفوی بادشاہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ کربلا سے ملنے والی عبرت آموزی کو اپنے سیاسی مقاصد میں بھی استعمال کرسکیں، جیسا کہ ژان کالمارنین نے لکھا ہے: صفوی دور حکومت میں واقعہ کربلا کی یاد منانے کو ایک نئی رونق ملی اور یہ یاد ان کی مذہبی روایات کا تسلسل ہیں، جیسے شہدائے کربلا کی روضوں کی زیارت کرنا، عاشور کے دن سینہ زنی اور نوحہ خوانی کرنا، اور خاص طور سے روز عاشور اور محرم کے پہلے عشرے میں یہ کام ان مسلمانوں کے ذریعہ انجام پاتے تھے جو مختلف عقائد کے حامل تھے۔۔۔ ان کے اندر جذبہ انتقام خون امام حسین ع، اس واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے عظیم پروگرام  پر چھایا ہوا تھا اور بادشاہ اسماعیل جو کہ صفوی بادشاہت کی بنیاد رکھنے والا  ہے، اس بات کو اپنی تبلیغ اور اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتا تھا ۔

پتر چلکووسکی، داوود حاتمی(ترجمه)، تعزیه هنر بومی پیشرو ایران، ص 163تا 164، انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، اول، 1367ه.ش

اس بنا پر اگر چہ صفوی دور حکومت، عزاداری کی رونق کا سبب بنی اور یہ دور، نوحہ خوانی میں نئے طریقوں اور نئے اسلوبوں کے نشو و نما کا دور تھا لیکن عزاداری میں یہ ارتقاء، مجموعی طور سے کربلا کے واقعہ پر حتی معنوی پہلووں پر توجہات کا باعث بنا۔

امام خمینیؒ نے بھی فرمایا: کہ یہ محرم اور صفر ہی ہے جس نے اسلام کو بچا رکھا ہے۔اور ان کی روش اور طریقے کو مد نظر رکھنے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مراسم عزاداری سے آپ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ گریہ و زاری کو چھوڑ کر صرف کربلا کے آثار پر غور و فکر کرنے لگیں۔ البتہ ممکن ہے آپ امام خمینیؒ کو بھی صفویوں کے نظریات کا حامل جانیں اور ان کو بھی ایک ظاہر بین اور عوامانہ اقدام کرنے والوں میں شمار کریں۔

کس طرح کربلاکی سبق آموز باتوں کو بھلا دیا گیا، جبکہ اگر بچوں سے بھی پوچھا جائے کہ امام حسین ع کے قیام سے ہمکو کیا سبق ملتاہے؟ تو وہ جواب میں کہیں گے کہ ظالم سے مقابلہ کرنے کا، رنج و غم کے ساتھ مرثیہ اور قصیدہ پڑھنا گویا شہدا کے ساتھ ایک قسم کی ہمدردی ہے اور اس طرح ان کے نظریات کا تحفظ ہوتاہے، ایسا مکتب فکر جس کی بنیاد راہ خدا میں فداکاری اور خود کو ذلت و رسوائی میں پڑنے سے بچاتا ہے، اگر یہ مجلسیں بند ہوجائیں اور شہدائے کربلا کی یاد ہر سال نہ منائی جائے تو ایثارو شہادت کا نظریہ بھلا دیا جائے گا ۔ شیعہ حضرات محرم و صفر میں مجلس امام حسین ع کو برپا کرکے امام حسین ع کی منطق، جو تمام شہدا کی منطق اور نظریہ ہے، کو زندہ کرتے ہیں۔

آیت‌الله سبحانى، پاسدارى از مرقد پیامبران و امامان، 1جلد، نشر مشعر - تهران، 1387 ش

خود پیغمبراکرم ص نے اپنی حیات میں امام حسین ع کی عزاداری برپا کی اور بارہا ان پر اور ان کے لشکر پر ہونے والے مظالم کو یاد دلایا۔

3704 - حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ حَدَّثَنَا رَزِینٌ قَالَ حَدَّثَتْنِی سَلْمَى قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَهِیَ تَبْکِی فَقُلْتُ مَا یُبْکِیکِ؟ قَالَتْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِی فِی الْمَنَامِ وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْیَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ مَا لَکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَیْنِ آنِفًا

سلمی کہتاہے کہ میں ام سلمہ کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ گریہ فرمارہی ہیں،میں نے ان سے گریہ کا سبب پوچھا تو آٌپ نے فرمایا: میں نےخواب میں رسول خدا ص کو اس حال دیکھا کہ آپ کے سروداڑھی خاک آلود تھی،میں نے پیغمبر ص سے پوچھا: اے خدا کے رسول یہ آُپ کو کیا ہوگیا ہے ( یعنی آپ کی ایسی حالت کیوں ہے)؟ تو پیغمبر ص نے جواب دیا: میں نے ابھی ابھی حسین ع کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

سنن ترمذی،ج 12،ص 195،کتاب فضائل الصحابة باب مناقب الحسن و الحسین

امام حسین ع کی عزاداری ایک بہترین ذریعہ ہے عملی طور پر اسلام سے منسلک ہونے کا

سوال: کربلا کی ایک اور تفسیر خود دنیا سے مربوط ہے، اس تفسیر کی بنا پر اسلام سےمنسلک ہونے کا تنہا راستہ عزاداری ہے۔ لہذا ہماری عزاداری اس دنیا میں قابل توجیہ ہے۔ اس اعتبار سے گویا امام حسین ع نے ہم کو واقعہ کربلا کے ذریعہ عزاداری کرنے اور رونے کا ایک بہانہ عطا کردیا!

جواب: یہاں پر دو واضح اشتباہ دیکھے جاسکتے ہیں پہلا اشتباہ یہ کہ وہ لوگ کہتے ہیں اس تفسیر کی بنیاد ہر اسلام سے منسلک ہونے کا راستہ تنہا عزاداری ہے اور اسکے علاوہ کسی اور حکم اسلامی کو اہمیت نہیں دیتے جبکہ یہ کاملا اشتباہ ہے، کیونکہ عزاداری فروع دین میں سے صرف ایک فرع یعنی تولی اور تبرا کے ضمن میں آتا ہے جبکہ بقیہ اور فروع دین کا بجالانابھی مسلمان پر لازم اور ضروری ہے۔

دوسرا اشتباہ یہ ہے کہ ان کے مطابق خود امام حسین ع نے کربلا میں اپنے عمل سے ہم کو عزاداری کرنے اور رونے کے لئے ایک بہانہ عطا کیا ہے جبکہ یہ بات امام حسین ع مقصد قیام اور ان کی عقلی اور منطقی عمل سے مخالفت رکھتا ہے۔

گناہگاروں کی شفاعت واقعہ کربلا کا مقصد ہے یا نتیجہ؟!

واقعہ کربلا اس وجہ سے رونما ہوا تاکہ روز آخرت اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے ایک شفیع موجود رہے کہ جن کے توسط سے ہم دنیا میں انجام دئے ہوئے گناہوں سے نجات پاسکیں؟

جواب: امام حسین ع کا شفاعت کے بالاترین درجہ شفاعت پر فائز ہونا اور گناہگاروں کی بخشش کا ذریعہ بننا قیامت کے روز ہے۔

یہ بات مسیحیوں کی اس بات سے بالکل مطابق ہے جو انہوں نے جناب عیسیٰ ع کے سولی پر چڑھنے کے بارےمیں کہی ہے۔ ان کے اعتبار سے جناب عیسی کو سولی پر چڑھایا گیا، انہوں نے بشریت کے گناہوں کا کفارہ دیا اور اس کفارہ سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ اس بات کا اعتقاد رکھیں کہ جناب عیسی اس لئے سولی پر چڑھے تاکہ لوگوں کے گناہوں کا کفارہ قرار پائیں۔ یہ غلط نظریہ صفویوں کے دور حکومت سے وجود میں آیا ہے ۔

حالانکہ واقعہ کربلا اس لئے رونما نہیں ہوا کہ ہمارا کوئی شفاعت کرنے والا ہو بلکہ اس کا نتیجہ سید الشہدا کا شفاعت کے بالا ترین درجہ پر فائز ہونا اور روز قیامت گناہگاروں کی بخشش کا ذریعہ بننا ہے اور اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تب بھی امت کے گناہگار افراد خود امام حسین ع اور دوسرے ائمہ کے ذریعہ قابل شفاعت ہوتے۔ لہذا عیسائیوں کا نظریہ اور اس عقیدہ میں فرق ہے، کیونکہ عیسائیوں کے اعتبار سے جناب عیسی خدا ہیں جو انسانی صورت میں آئے اور لوگوں کے گناہوں کی بخشش کے لئے ان کے پاس صرف اورصرف یہی راستہ تھا کہ وہ سولی پر جائیں جبکہ خداوند عالم انسانوں کی بخشش کے مخلتف راہیں رکھتا ہے اور اور گناہوں کے بخشوانے کا حق کسی سےنہیں چھینا اور امام حسن ع کی شفاعت بندوں کے حق میں ایک حسین اور جلد بخشش کا ذریعہ ہے۔

 تاریخی واقعات کی شبیہ سازی یا

سوال: دوسری تفسیر جو کاملا مصلحت آمیزاور سیاسی ہے وہ یہ کہ امام حسین ع نے اس لئے قیام کیا تاکہ بعدمیں آنے والے افراد اپنا کردار کربلا والوں جیسا بنائیں۔ یہ تفسیر اس زمانہ میں بہت رائج ہے بطور مثال ہم نے بارہا سنا ہے کہ جب یہ سوال ہوتا ہے کہ آیت اللہ بروجردی نے کیوں بادشاہ کے مقابل میں قیام کیا؟ تو جواب دیا جاتاہے کہ آپ نے حسن بن علی کے طریقہ پر عمل کیا۔ اور جب پوچھا جاتا ہے کہ امام خمینی نے کیوں قیام کیا؟ تو جواب ملتا ہے کہ آپ نے حسین بن علی کے طریقہ پر عمل کیا۔لہذا دونوں کا ہی عمل اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ لیکن اس نظریہ کے ذریعہ صرف علمی،سیاسی اور تاریخی حقائق سے سبکدوش ہوا جاسکتا ہے۔

جواب: پہلا نکتہ: یہ کہ امام حسین ع نے اس لئے قیام کیا تاکہ آئندہ آنے والے افراد اپنے عمل و کردار کو کربلا والوں سے ملا سکیں! واقعا اگر کوئی انسان ایسا کرے اور اپنے عمل کو امام حسین ع کے عمل سے ملائے تو کیا وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ امام حسین ع نے کربلا گئے ہی اسی لئے تھے کہ لوگوں کے ایک نمونہ عمل فراہم کرسکیں۔

دوسرا نکتہ: کیا یہ اعتراض نہیں ہوا تھا کہ صفوی دور حکومت کے بعد واقعہ عاشورا سے ملنے والے درس کم اہمیت ہوگئے تھے؟ لہذا کیوں ان افراد کی مخالفت ہورہی ہے جو صفوی حکومت سے پہلے والے دور میں چلے گئے اور کربلا سے درس حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ البتہ یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ ان کا مقصد کیا ہے کربلا سے درس حاصل کرنےکا؟کیا ان کے درس حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی درسی کتابوں میں یہ لکھ سکیں کہ امام حسین ع بہت شجاع تھے اور اپنی حق باتوں کو جا ن کی پرواہ کئے بنا بیان کرتے تھے اور بس! کیا یہ درس نہیں ملتاکہ حسین ع کی طرح ایک آزاد انسان بنیں اور ظلم کے مقابل ڈٹے رہیں؟ اگر کوئی یہ کہتاہے کہ میں نے امام حسین ع سے درس لیتے ہوئے نا حق باتوں سے مقابلہ کرتا ہوں اور اس عظیم مقصد تک پہنچنے کے لئے میں اپنی جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کرتا تو ہمیں اس سے کہنا چاہئے کہ اس تفسیر کی بنیاد پر تم امام حسین ع کو کربلا تک لے گئے تاکہ اپنے کام کا ان سے موازنہ کر سکو۔

تیسرا نکتہ: بظاہر دو متضاد مثالیں بیان کیں، یہ کہ آیت اللہ بروجردی کے سکوت کو تشبیہ دینا صلح امام حسن ع سے اور امام خمینی کے قیام کو تشبیہ دینا امام حسین ع کے قیام سے، دو مخلتف اور الگ طرز عمل ہے، شبہہ وارد کرنے والے ذہن سے جو بات نکل گئی وہ یہ کہ یہ دو مثالیں دو الگ عمل نہیں ہیں، بلکہ زمانہ کے حالات کے پیش نظر ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں، یعنی صبر اور عمل کے اعتبار سے دو متضاد کام نہیں ہیں، بلکہ ان یہ دونوں ہی عمل قابل جمع ہیں، بلکہ اگر امام خمینی اور بروجردی ایک ہی انسان ہوتے تب بھی یہ امکان پائا جاتا تھا کہ وہی کبھی صبر اور خاموشی اختیار کرتے اور کبھی قیام اور مقابلہ کرتے، اتفاقا اسی بات کی ضرورت ہے ائمہ معصومین ع کو اپنا نمونہ عمل بنا نے کے لئے، امام حسین ع کہ جن کو آپ صرف یزید سے مقابلہ کرنے والے کے اعتبار سے جانتے ہیں، سالوں اپنے بھائی امام حسن ع کے زمانے میں اور ان کی شہادت کے بعد بھی معاویہ کے ساتھ مصالحت کی اور اس کے مقابل میں مسلح اقدام نہیں کیا، اگر چہ مختلف مقامات پر اپنی تقریروں اور خطوط کے ذریعہ بنی امیہ کے کو رسوا کیا ہے۔

بطور مثال امام حسین ع معاویہ کے اس خط کے جواب میں جس میں اس نے لکھا تھا : اپنے کو اور لوگوں کو فتنہ و فساد میں مت ڈالو اور کوئی اقدام نہ کرو ،فرماتے ہیں (جیسا کہ تم نے کہا: کہ اس امت کو فتنہ وفساد میں مبتلا نہ کریں، جبکہ میرے نزدیک اس امت کے لئے تمہاری بادشاہی سے بڑھ کر کوئی اور فتنہ نہیں ہے،اور تیرا یہ کہنا کہ اپنے کو، اپنے دین اور امت محمدی کی حفاظت کرو تو خدا کی قسم میں اس کام سےزیادہ تجھ سے جہاد کرنے کو فوقیت دیتاہوں، اگر میں نے یہ کام کردیا تو یہ میرے رب سے نزدیکی کا سبب ہوگا، اور اگر میں نے نہیں کیا تو میں خدا سے اپنے دین کے لئے استغفار کروں گا،اور میں خدا سے دعا کروں گا کہ مجھے وہ توفیق عطا فرمائے جو اس کی محبت اور رضایت کا سبب بنے۔

الامامة والسیاسة،ج1،ص155 - 157، الامامة والسیاسة تحقیق الشیری،ج1،ص201.

اور امام حسن ع جن کو آپ صرف ایک صلح پسند اور خاموش شخصیت کے عنوان سے پہچانتے ہیں وہ اپنی تمام تر قوت کے ساتھ معاویہ کے مقابل کھڑے اور آمادہ جنگ ہیں، لہذا جس طرح ہر امام کے زمانے کی شناخت و تحلیل اور دشمن کے مقابل ان کے طریقہ کار کی تعیین قابل غور ہے اسی طرح آج کےحادثات کو اس زمانے کے حادثات پر حمل کرنےاور ان سے موازنہ کرنے کے لئے بھی دقیق مطالعہ اور بہت زیادہ غور و خوض کی ضرورت ہے۔

امام حسن ع بھی معاویہ سے صلح کرنے کے اقدام کو ،مشرکین کے ساتھ ہونے والے پیغمبر ص کے اقدام سے موازنہ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے پیغمبر اکرم ص نے ایک نورانی حدیث میں ارشاد فرمایا:

«ابنای هذان(الحسن و الحسین) امامان قاما او قعدا»      

شیخ مفید، الارشاد، ج 2،ص30

میرے یہ دونوں بیٹے (امام حسن وامام حسین علیہما السلام) امام ہیں چاہے وہ کھڑے ہوں یا بیٹھے یعنی صلح کریں یا جنگ۔

قابل غور بات ہے کہ آپ کے نظریہ اور رویہ کے برخلاف، خودامام حسن ع اپنے صلح کے اقدام کو حدیبیہ میں ہونے والے پیغمبر ص کے اقدام سے موازنہ کرتے ہیں ، اور آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں امام نے جنگ نہیں کی اور اپنی جنگ کو جنگ احزاب سے مقایسہ نہیں کیا۔ امام حسن ع فرماتے ہیں:

«علة مصالحتی لمعاویة علة مصالحة رسول الله صلى الله علیه وآله لبنی ضمرة وبنی أشجع، ولأهل مکة حین انصرف من الحدیبیة»؛

علل الشرائع،ج1،ص200

 معاویہ سے میری صلح کرنے کی وجہ وہی ہےجو رسول اسلام ص کی صلح کی وجہ تھی بنی ضمرہ، بنی اشجع اور اہل مکہ کے ساتھ حدیبیہ سے واپسی کے وقت۔

علل الشرائع،ج1،ص200

 اتفاقاً واقعہ کی تاریخی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کوشش نہ کرنا اور صبر و سکوت کی راہ  و روش کے اسباب کو نہ پہچاننا یا قیام کے مقابلے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا علمی، سیاسی اور تاریخ کے دقیقی بیانات مین سے ہے، بلکہ کافی حد تک یہ بات عوامی یا عوام کو دھوکا ہے کہ جو امام خمینی ؒ اور آیت اللہ بروجردی، کی مثال دونوں کے درمیان اختلاف یا دوسرے لفظوں میں دونوں کے، درمیان ٹکرائو سے استفادہ کرتے ہیں۔

کربلا سے کس طرح درس حاصل کریں؟

سوال: ایک دوسرا شبہہ واقعہ کربلا کے مبہم ہونے اور تاریخی اعتبار سے کم معتبر ہونے کے بارے میں ہے، جیسا کہ بیان کیا جاتاہے: مورخین نے کہا ہے: کہ واقعہ کربلا بہت زیادہ مبہم ہے ان باتوں سے جو آج بیان کی جاتی ہیں، آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کربلا میں تمام واقع شدہ واقعات اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ موجود ہیں گویا ہزاروں فلم بنانے والوں کے ذریعہ ریکارڈ ہوچکی ہے؛ اس طرح کہ وداع ہونے کی کیفیات، چہروں کے اثرات، سروں کی حرکت اور اس طرح کی دوسری بہت سی جزئیات بھی موجود ہیں، لیکن اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ عمر کے زمانہ خلافت میں اس کے حکم سے بلکہ ایک قرن بعد تک کتابت حدیث ممنوع تھی۔ کیونکہ ان کا نظریہ تھا کہ ( خدا کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے)، اس کے علاوہ اس زمانے میں لکھنے پڑھنے والے افراد بھی بہت کم تھے۔

جواب: ابتدا میں یہ بات بتادیں کہ تاریخ کربلا بہت زیادہ مبہم ہے ان چیزوں سے جو آج بیان کی جاتی ہے اور وہ افراد اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کسی علمی دلیل کے بجائے ایک غلط عوامی مغالطہ سے استفادہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ چونکہ پیش خوانیوں(محافل) میں بہت سے جزئیات پیش ہوتے ہیں جو واقعیت نہیں رکھتے! یہ اس حال میں ہے کہ صدر اسلام کے بہت سے تاریخی واقعات خاص طور پر جنگوں کے سلسلہ میں بہت سی روایات موجود ہیں، بالخصوص یہ بات کہ واقعہ کربلا میں بہت سے اہل بیت ع بھی موجود تھے اور کربلا کے بارے میں روایات بھی نقل کی ہیں۔

واقعہ کربلا سے درس آموزی کے لئے ان سب مقدمات کی ضرورت نہیں ہے اور یہ سارے مشکلات ان سب کو سمجھنے پر مشتمل نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا وہ عمر کے زمانے میں اجادیث کے لکھنے پر پابندی تھی اور کہتے ہیں کہ یہ پابندی ایک قرن بعد تک رہی لیکن اس بات پر توجہ نہیں کی گئی کہ یہ پابندی نبی ص کی روایت سے متعلق تھی اور وہ بھی اس بہانہ کے ساتھ کہ قرآنی آیات سے مشتبہ نہ ہوجائے، جبکہ تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں اس طرح کی کوئی بات نہیں تھی، اور یہ بات بھی ہے کہ واقعہ کربلا سے متعلق تاریخی واقعات اپنی اہمیت، حادثات کی وسعت و مظالم اور مختلف مقامات سے لشکریوں کا اکٹھا ہونا، یہ سب باتیں ایک دوسرے سے زبانی پھیلی ہیں، البتہ یہ بات بھی یاد رہے کہ کربلا سے درس آموزی ان تمام مقدمات کی محتاج نہیں ہے اور یہ ساری مشکلات اس کو جاننے کے لئے ضروری نہیں ہے، اس لئے کہ آپ جس طالب علم سے بھی اس بارے میں سوال کریں گے تو وہ حقیقت میں یہی جواب دے گا کہ کربلا کے قیام کا نتیجہ اور درس ظالم سے مقابلہ کرنا اور ظلم کے خلاف ثابت قدم رہنا ہے۔ 

  صحیح کو نقل کرنے میں واقعی موانع یا خیالی موانع

سوال: کہتے ہیں مشکل یہ ہے کہ بہت سے افراد، اس واقعہ کی تصویروں کو اپنے فائدہ میں دیکھاتے ہیں۔ ان ہی میں سے بعض مورخین نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس واقعہ کو ایک معقول نظریہ سے دوبارہ پڑھا جائے، لیکن عام طور سے یہ افراد منحرف اور کج فکر کہہ کے متروک کردئے گئے، اسی طرح ہمارے علما غیر شیعہ راویوں کو قبول نہیں کرتے!

جواب: اتفاقا جتنے زیادہ راوی مختلف ہوں گے بات اتنی ہی معتبر ہوگی، در واقع تاریخ میں، راویوں کا مختلف ہونا مہم نہیں ہے۔ اس لئے کہ جتنا بھی تنوع زیادہ ہوگا اتنا ہی مشترک نفع اور غرض ہوگا یا یہ دعوا کرنا کہ غیر شیعہ راوی نقل روایات میں علمائے شیعہ کے ذریعہ الگ کردئے گئے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو روایات اور بہتر طریقے سے نقل ہوتیں! اس انسان کی علم رجال سے نا آشنائی کی دلیل ہے، اس لئے کہ بہت بار دیکھا گیا ہے کہ غیر شیعہ روای کی روایت بھی قبول کی گئی ہے اور اس پر عمل بھی ہوا ہے اور اتفاق سے کربلا کے سلسلہ میں تو بہت سی روایات مخالفین سے اسی طرح قبول کی گئی ہیں جس طرح شیعہوں کے ذریعہ سے قبول کی گئیں یا یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ چند افراد جنہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ واقعہ کربلا کوا معقول طریقہ سے مطالعہ کریں، ان کو افراد منحرف اور کج فکر کہہ کے نظر ابداز کردیا گیا ہے، لیکن یہ بات مشخص نہیں ہے کہ وہ کون لوگ ہیں اور یہ عظیم ظلم کن کے حق میں ہوا ہے؟!

 ائمہ ع نور واحد ہیں اوامر الہی انجام دینے میں یا شخصی مسائل میں

سوال: واقعہ کربلا کو مدلل بیان کرنے میں ایک مشکل یہ ہے کہ (ائمہ ع کے ایک نور سے ہونے ) کے نظریہ سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے افراد، اس سوال کے جواب میں کہ کیوں امام حسن ع نے جنگ نہیں کی، کہتے ہیں: اگر وہ امام حسین ع کے زمانے میں ہوتے تو جنگ کرتے یا اس کے برعکس۔ اس لئے کہ ائمہ ایک ہی نور سے ہیں؟! اگر یہ بات صحیح ہے تو اس معنی میں نہیں کہ اماموں کے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں تھا اور ان کا ذاتی رابطہ، ان کا ذوق و سلیقہ ان کا اچھائیوں کی شناخت کرنا اور ان کا سیاست کرنے کا طریقہ ایک جیسا تھا۔ ایک نور سے ہونا، انسانوں کے درمیان افتراق کی نفی نہیں کرتا۔ اور یہ تمام فرق ائمہ ع کی زندگی میں اور اپنے زمانے کے حاکموں کے ساتھ برخورد کرنے کے طریقوں سے بھی واضح اور معین ہے! 

  جواب: اولا، ائمہ ع کے ایک نور سے ہونے کو، ان کی تصمیم گیری کے حساب سے اپنے زمانے کے حاکموں سے جنگ یا صلح کو بہان کرتا ہے اس کے بعد اس مسئلہ میں تشکیک کرتے ہوئے کہتاہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے درمیان شخصی امور اور طبیعت میں کوئی فرق نہ ہو اور حاکموں کے ساتھ بہت ہی جالب اقدام، جس پر بخش اول میں انتقاد کیا گیا تھا، وہ ایک حصہ ہے جو ان کے درمیان امور شخصی اور طبیعتوں می اختلاف کو بیان کرتا ہے، اگر ان کے قول کے مطابق ائمہ ع کا ایک نور سے ہونا، انسانوں کے درمیان شخصی ذوق اور سلیقہ کو رد نہیں کرتا، تو خود کو کس طرح اس بات کی اجازت دیں گے کہ حاکموں سے ملاقات کو اس ذوق اور سلیقہ کا ایک حصہ جانیں، جبکہ مسئلہ بہت اہم اور اجتماعی ہے اور کسی بھی صورت میں اس کا تعلق ذوق اور سلیقہ سے نہیں ہے۔

حسن و قبح عقلی کی غلط تفسیر۔

سوال: معتزلہ اس بات کے معتقد ہیں کہ انسان خدا اور پیغمبروں کی مدد کے بغیر ، صرف اپنی عقل کے توسط سے اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز دے سکتا ہے۔ لیکن اشاعرہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر خدا اور پیغمبر نہ ہوتے، تو ہم اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز نہیں دے سکتے تھے۔ اس نظریہ کے ماننے والے توضیح دیتے ہیں کہ اگر خداوند عالم روز قیامت سلمان کو جہنم اور ابو جہل کو جنت بھیج دے، تو ہم سمجھ جائیں گے کہ یہ کام اچھا تھا، ہم اہل شیعہ اس مسئلہ میں اور اکثر دوسرے مسائل میں حق معتزلہ کو دیتے ہیں اور ہمارے اکثر کلام معتزلی ہیں نہ کہ اشعری۔ لیکن جیسا استاد مطہری نے فرمایا: ہم ظاہرا معتزلی ہیں، لیکن باطنا ایسا کام کرتے ہیں گویا عقل بشر خوب و بد کے درمیان تشخیص نہیں دیتی، ہماری بنسبت شہید مطہری کی یہ بات خدا کے کلام کے مانند ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس چیز کی نسبت ائمہ ع کی طرف بھی دیں۔ ہمارے اعتبار سے ہم شیعہ حضرات اپنے ائمہ ع کی بنسبت اشعری ہیں۔ اس لئے کہ ہم، بطور مثال، کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی امام حسین ع نے کیا، چونکہ انہوں نے انجام دیا ہے لہذا اچھا ہے؛ جبکہ ہم یہ نہیں کہتے چونکہ کام اچھا تھا اس لئے امام حسین ع نے انجام دیا۔ یہ اشعری فکر اس بات کا سبب بنی کہ جب بھی امام ع کی زندگی کی کسی بات کو سنتے ہیں، تو ہم یہ نہیں پوچھتے کہ انہوں نے یہ کام کیوں انجام دیا، کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے انجام دیا ہے لہذا بہتر ہی ہوگا۔ جبکہ درس آموزی کے لئے (کیوں) کا ہونا ضروری تھا۔

جواب: معتزلہ اور اشاعرہ دونوں کے نظریے حسن و قبح کے بارے میں اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ اصل بیان میں اور تطبیق اور نتیجہ گیری میں بھی اشتباہ کے شکار ہوئے ہیں، معتزلہ کے اعتقاد کی وضاحت میں کہتے ہیں: معتزلہ اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ بغیر خدا کی مدد کے صرف اپنی عقل کے سہارے خوبی اور بدی کو سمجھ سکتے ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں اشاعرہ کے نظریے کی اس طرح تفسیر کرتے ہیں کہ اشاعرہ اس بات کے معتقد ہیں: اگر خدا اور انبیا نہ ہوتے تو ہم خوبی اور بدی کو نہیں سمجھ سکتے تھے، حسن و قبح عقلی کی یہ تعریف کاملا اشتباہ ہے، اس لئے کہ حسن و قبح عقلی میں افعال تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں؛ 

1۔ مستقلات عقلیہ: یعنی وہ افعال جن کے حسن و قبح کو عقل براہ راست درک کرلیتی ہے، اگر چہ اس کے بارے میں کوئی شرعی حکم بھی نہ معلوم ہو، جیسے احسان کا اچھا ہونا اور ظلم کو برا ہونا۔

2۔ کچھ وہ امور ہیں جن کے حسن و قبح کو عقل شرع کے بیان کرنے کے بعد درک کرتی ہے، جیسے ربا کا قبیح ہونا۔

3۔ تیسرے وہ عبادی امور جن کے حسن و قبح کو عقل شارع کی طرف سے ملنے والے اوامر و نواہی کے بعد کشف کرتی ہے، جیسے آخر ماہ رمضان میں روزہ کا حسن ہونا اور اول ماہ شوال میں روزہ کا قبیح ہونا۔

لہذا ایسا نہیں ہے کہ اگر خدا وانبیا نہ ہوتے تو انسان تمام اچھائیوں اور برائیوں کو تشخیص دیدیتا، بلکہ صرف بعض کی طرف ہی متوجہ ہوپاتا، البتہ گفتگو کا دوسرا حصہ صحیح ہے، اس معنی میں، اشاعرہ کا نظریہ یہ ہے کہ اصلا کوئی بھی خوب و بد نہیں پایا جاتا اور خدا و انبیا نہ ہوتے تو ہم کسی بھی اچھائی کی طرف متوجہ نہ ہو پاتے لہذا اگر خدا روز قیامت سلمان کو جہنم میں اور ابو جہل کو جنت میں بھیج دے، تو یہ بات معین ہوجائے گی کہ یہ کام اچھا تھا۔

در حقیقت جو جھگڑا حسن و قبح عقلی اور حسن و قبح شرعی کے قائلوں کے درمیان ہے، وہ در اصل ایجاب جزئی اور سلب کلی کے درمیان اختلاف ہے، ایک گروہ معتقد ہے کہ کچھ افعال الہی اور افعال بشری کو،بغیر کسی خارجی منبع من جملہ شریعت سے ہٹ کر عقل ان کو بطور مستقل درک کرتی ہے جبکہ دوسرا گروہ اس بات کو غلط جانتا ہے اور عقل کو کلی طور پر اس طرح کے کاموں سے عاجز و ناتوان جانتا ہے، اس سلسلہ میں شہید مطہری کی بات، کہ ہم اشاعرہ کی طرح عمل کرتے ہیں، بھی اس کو بیان نہیں کرتی بلکہ شہید مطہری اس نکتہ کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ دین نے خود کو انسان پر منطبق کیا ہے اور دین انسانوں کی ضرورتوں اور حاجتوں کے اعتبار سے تشکیل ہوا ہے نہ یہ کہ انسان خود کو دین پر منطبق کرے؛ یعنی اگر ہم یہ کہنے کے بجائے، کہ دین یہی ہے اور بس اور آپ اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہیں، اگر اس کے بجائے اس طرح کہیں کہ جو کچھ خدا نے فرمایا ہے وہ ہماری ضرورت بھی تھی، یہ بات بہت معقول ہے، لہذا شہید مطری کے کلام سے یہ نتیجہ نکالنا اشتباہ ہے۔

 

 

 

 

 
 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی