2024 April 24
صحیح بخاری میں اصحاب کو بدعت گزار کہا ہے ؟ :
مندرجات: ٢١٥٢ تاریخ اشاعت: ٢١ January ٢٠٢٣ - ٠٩:١٠ مشاہدات: 3843
وھابی فتنہ » پبلک
صحیح بخاری میں اصحاب کو بدعت گزار کہا ہے ؟ :

صحیح بخاری  میں اصحاب کو بدعت گزار کہا ہے ؟ :

 ہم ذیل میں اس سلسلے کی بعض آحادیث کو صحیح بخاری سے نقل کریں گے اور یہ ثابت  کریں گے کہ ان روایات میں موجود بہت سے شواہد کی بنیاد پر ان احادیث کا موضوع آپ کے اصحاب ہی ہے اور ان احادیث کی بنیاد پر بعض اصحاب آپ کے بعد بدعت ایجاد کرنے کی وجہ سے جہنم کی مستحق ٹھیرے ہیں۔۔

 

 حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس سلسلے میں متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں ہم اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب صحیح بخاری سے اس سلسلے میں کچھ احادیث نمونے کے طور پر نقل کرتے ہیں ۔

 آنحضرت کا ارشاد :

«أَلاَ وَإِنَّهُ یجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِی فَیؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ»

میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔

 «فَأَقُولُ یا رَبِّ أُصَیحَابِی»

میں عرض کروں گا، میرے رب! یہ تو میرے صحابی ہیں؟

«فَیقَالُ إِنَّک لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَک»

مجھ سے کہا جائے گا، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں۔

 ،صحيح البخاري --- كتاب الرقاق --- باب كيف الحشر:  ۔حدیث نمبر: 6526

 

کیا یہاں آپ کے اصحاب ہی مراد ہیں  ؟

دوسری روایات کو سامنے رکھے تو بلکل واضح ہے کہ یہاں آپ کے اصحاب ہی کا ایک گروہ مراد ہے ۔۔۔۔۔۔

 ان احادیث میں اصحاب مراد ہونے پر متعدد شواہد

پہلا شاہد : 

 عَلَيَّ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِي۔۔ میرے کچھ صحابی ۔۔۔

دوسرا شاہد : 

  حَتَّى عَرَفْتُهُمْ  ۔۔۔ میں انہیں پہچان لوں گا ۔۔۔

۔۔ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيَرِدَنَّ عَلَيَّ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِي الحَوْضَ، حَتَّى عَرَفْتُهُمْ اخْتُلِجُوا دُونِي، فَأَقُولُ: أَصْحَابِي، فَيَقُولُ: لاَ تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ

جناب انس نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میرے کچھ صحابی کو  حوض پر میرے سامنے لائے جائیں گے اور میں انہیں پہچان لوں گا لیکن پھر وہ میرے سامنے سے ہٹا دئیے جائیں گے۔ میں اس پر کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔۔

 : صحيح البخاري  كتاب الرقاق » باب في الحوض، 6582 ، 

 

تیسرا شاہد :

   رِجَالٌ مِنْكُمْ  :   تم میں سے کچھ لوگ

  ۔۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الحَوْضِ، وَلَيُرْفَعَنَّ مَعِي رِجَالٌ مِنْكُمْ ثُمَّ لَيُخْتَلَجُنَّ دُونِي، فَأَقُولُيَا رَبِّ أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لاَ تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ۔۔

عبداللہ بن مسعود نے نقل کیا ہے :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے اصحاب ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔۔

صحيح البخاري كتاب الرقاق » باب في الحوض، حدیث نمبر. 6576

 چوتھا  شاہد :

 رهط من اصحابي۔۔۔ میرے صحابہ  کی ایک جماعت

 ابو هريرة، انه كان يحدث ان رسول الله صلى الله  وآلہ عليه وسلم، قال:" يرد علي يوم القيامة رهط من اصحابي، فيحلئون عن الحوض، فاقول: يا رب، اصحابي، فيقول:" إنك لا علم لك بما احدثوا بعدك، إنهم ارتدوا على ادبارهم القهقرى"

 ابوہریرہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے  قیامت کے دن میرے صحابہ میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی۔ پھر وہ حوض سے دور کر دئیے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں گھڑ لی تھیں؟ یہ لوگ (دین سےالٹے قدموں واپس لوٹ گئے تھے۔

صحيح البخاري --- كتاب الرقاق --- باب فى الحوض: رقم الحديث: 6585 

پانچواں  شاہد :

 إِنَّهُمْ مِنِّي ۔۔  یہ لوگ مجھ میں سے ہیں۔ ۔۔۔

۔۔ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الحَوْضِ، ۔۔۔لَيَرِدُ عَلَيَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُهُمْ وَيَعْرِفُونِي، ۔۔۔

 أَبِو سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، ۔۔۔ إِنَّهُمْ مِنِّي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لاَ تَدْرِي مَا بَدَّلُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ:  لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي "

 بخاری ، کتاب الفتن - باب مَا جَاءَ فِى قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ( وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ) . وَمَا كَانَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - يُحَذِّرُ مِنَ الْفِتَنِ . 7050

۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حوض کوثر پر تم سے پہلے رہوں گا ۔۔۔۔۔میرے پاس ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے ۔

 ابوسعید کے نقل کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:  یہ لوگ مجھ میں سے ہیں۔ اس وقت آپ کو کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا تبدیلیاں کر دی تھیں؟ میں کہوں گا کہ دوری ہو دوری ہو ان کے لیے جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کر دی تھیں۔

چھٹا  شاہد 

 يا رب، اصحابي، اے میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔۔

جیساکہ ان میں سے بہت سی روایات میں آنحضرت  کا یہ جملہ نقل ہوا ہے ۔۔۔

اے میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔۔

لہذا جس کو آنحضرت میرے صحابہ کہیں کسی اور کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہیں : نعوذ باللہ آپ نے غلطی سے ایسا کہا ہے ،یہ حقیقت میں آپ کے اصحاب نہیں تھے ۔۔۔۔

ساتھوں شاہد :

إِنَّكَ لاَ تَدْرِي مَا  احدثوا  و بَدَّلُوا بَعْدَكَ

جیساکہ یہ جملہ خود اس بات پر شاہد ہے کہ یہ لوگ آپ کے زمانے میں بسنے والے تھے اور آپ کے دنیا سے جانے کے بعد ان لوگوں نے دینی دستوارت میں من مانی سے کام لیا ہے ،اپنی مرضی کے مطابق ان میں تبدیلی کی ہے ۔۔۔۔۔۔

جیساکہ مسند احمد حنبل میں اسی سلسلے کی روایت میں واضح طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ یہاں اصحاب سے مراد آپ کے اصحاب ہی مراد ہے ۔۔۔۔۔۔

۲۰۴۹۴ – حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكَرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيَرِدَنَّ عَلَيَّ الْحَوْضَ رِجَالٌ مِمَّنْ صَحِبَنِي وَرَآنِي، حَتَّى إِذَا رُفِعُوا إِلَيَّ وَرَأَيْتُهُمْ اخْتُلِجُوا دُونِي، فَلَأَقُولَنَّ رَبِّ أَصْحَابِي أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ “

 مسند الإمام أحمد بن حنبل؛ج۳۴-ص۱۳۳- المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: ۲۴۱هـ)،المحقق: شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون،إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي،الناشر: مؤسسة الرسالة،الطبعة: الأولى، ۱۴۲۱ هـ – ۲۰۰۱ م

وَلِأَحْمَدَ وَالطَّبَرَانِيِّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرَةَ رَفَعَهُ لَيَرِدَنَّ عَلَى الْحَوْضِ رِجَالٌ مِمَّنْ صَحِبَنِي وَرَآنِي وَسَنَدُهُ حَسَنٌ. فتح الباري شرح صحيح البخاري،ج۱۱- ص۳۸۵،

اس سلسلے کی ایک اہم روایت وہ مشہور روایت ہے کہ جو آپ نے آپ کے بزرگ اصحاب خاص کر جناب ابوبکر سے خطاب میں فرمایا اور ان پر واضح کیا کہ مجھے معلوم نہیں میرے بعد تم لوگ کیا کرو گے اور کیا کیا تبدیلیاں اور بدعتیں ایجاد کریں گے ۔۔۔

- وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَسُولَ [ص:462] اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِشُهَدَاءِ أُحُدٍ «هَؤُلَاءِ أَشْهَدُ عَلَيْهِمْ» ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: أَلَسْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ بِإِخْوَانِهِمْ؟ أَسْلَمْنَا كَمَا أَسْلَمُوا. وَجَاهَدْنَا كَمَا جَاهَدُوا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلَى وَلَكِنْ لَا أَدْرِي مَا تُحْدِثُونَ بَعْدِي؟» فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ. ثُمَّ بَكَى. ثُمَّ قَالَ: أَئِنَّا لَكَائِنُونَ بَعْدَكَ۔۔

 موطأ مالك ت (2/ 461):۔۔۔

وَإِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ أُجُورِكُمْ، فَإِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ مَضَوْا، وَقَدْ شَهِدْتُ لَهُمْ وَإِنِّي لَا أَدْرِي مَا تُحْدِثُونَ بَعْدِي»

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 575):

  احدثوا  سے مراد کیا ہے :

خود ان احادیث کے مضمون سے ہی واضح ہے کہ یہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے ۔ یہ دین میں بدعت گزاری اور دین کے قوانین اور دستورات میں تبدیلی لانا  ،  دینی امور میں اپنی مرضی چلانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستورات کی رعایت نہ کرنے ، سب کو شامل ہے،

ممکن ہے انہیں میں سے ایک جانشینی کے مسئلے میں دین کے حکم کی رعایت نہ کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین کو نظر انداز کرنا ہو۔۔۔۔۔۔

لہذا ان احادیث کا معنی صرف دین اسلام سے پلٹ جانا ، دوبارہ بت پرستی اور شرک کی طرف جانا اور توحید اور نبوت کا انکار کرنا نہیں۔۔۔۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہر قسم خود اصحاب کے ہاتھوں انجام پانے والے فتنے اور انحرافات سب کو یہ شامل ہے ۔ 

جیساکہ بخاری کا  ایک مشہور شارح مصطفی عطا نے بخاری کے حاشیے میں لکھا ہے  (:ما أحدثوا): من بدعة وفتنة ومعصية»یعنی بدعت، فتنے اور گناہ انجام دئے ۔۔۔۔

الكتاب:صحيح البخاري،ج۸- ۱۱۹- المؤلف: محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي،المحقق: محمد زهير بن ناصر الناصر،الناشر: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)،الطبعةالأولى، ۱۴۲۲هـ،عدد الأجزاء:

 

بخاری کے ایک اور شارخ عبد الكريم الخضير نے لفظ احدثوا کے معنی کو عام لیا ہے اور احداث سے مراد بدعت ، جرائم ،منکرات کو جانا ہے ۔

 فأقول: أي رب أصحابي، يقول: لا تدري ما أحدثوا بعدك)) من ردة أو بدعة أو منكرات وجرائم كلها محدثات.

شرح كتاب الفتن من صحيح البخاري - عبد الكريم الخضير (1/ 13،  

 

امام النووی نے اس حدیث کے مصداق میں علما کے تین اقوال نقل کیے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے مراد گناہ کبیرہ انجام دینے والے اور ایسی بدعتیں انجام دینے  کہ جن کی وجہ سے یہ لوگ اسلام سے تو خارج نہیں ہوں گے ۔۔۔۔

قال النووي هذا مما أختلف العلماء في المراد على أقوال

   والثالث أن المراد أصحاب المعاصي الكبائر الذين ماتوا على التوحيد وأصحاب البدع الذين لم يخرجوا ببدعتهم عن الاسلام

  تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي (7/ 93):

 اہل سنت کے ایک عالم شنقيطي نے بھی لکھا ہے :

لاتدري ما أحدثوا بعدك)) الحدث والبدعة الزيادة في الدين لاتجوز ، وعلى هذا ينبغي للمسلم أن يبقى على ماأثر والخير كل الخير في الاتباع والشر كل الشر في الابتداع.

شرح الترمذي للشنقيطي (7/ 26):

 جیساکہ بدر الدین العینی نے بھی نقل کیا ہے :

رواية الكشميهني فيقال قوله ما أحدثوا بعدك أي من المعاصي الموجبة الحرمان الشرب من الحوض۔

عمدة القاري - بدر الدين العيني (23/ 140 :

 

 

بعض اصحاب کی گواہی :

اصحاب نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بدعتیں ایجاد کی ہیں  ۔۔۔۔۔

صحیح بخاری میں بیعت رضوان میں شریک صحابی جناب براء بن عازب کا ایک عجیب اعتراف نقل ہوا ہے 

راوی کہتا ہے کہ میں براء بن عازب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :

«طُوبَی لَک صَحِبْتَ النَّبِی وَبَایعْتَهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ»

 مبارک ہو! آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت نصیب ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ نے شجر (درختکے نیچے بیعت کی۔

«فَقَالَ یا ابْنَ أَخِی إِنَّک لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثْنَا بَعْدَهُ»

 ‘انہوں نے کہا بیٹے! تمہیں معلوم نہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کیا کیا کام کئے [بدعتیں انجام دئے  ] ہیں۔

   صحيح البخاري --- كتاب المغازي --- باب غزوة الحديبية: رقم الحديث: 4170 

اہم نکتہ :      اس حدیث اور اعتراف کا معنی یہ ہے

  بزرگ صحابی جناب عازب واضح طور پر کہہ رہے ہیں :  ہم اصحاب نے آپ کے بعد بدعتیں ایجاد کی اور آپ کی صحبت کی فضیلت کی پاسداری نہیں کی ۔ لہذا ہمیں صحابی ہونے کی مبارک بادی نہ دینا ۔۔ ہم اس کے مستحق نہیں ۔۔۔۔

 یہاں جناب عازب صرف اپنی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ بدعت انجام دینے اور آنحضرت کی صحبت کی تقدس کا خیال نہ رکھنے کو اصحاب کے عمل کے طور پر پیش کیا ہے ۔

 : جناب عايشه کا اعتراف  :

ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے:

عن قيس، قال: قالت عائشة... إني أحدثت بعد رسول الله صلي الله عليه وسلم حدثا، ادفنوني مع أزواجه. فدفنت بالبقيع رضي الله عنها.

قيس نے جناب عايشه سے نقل کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم  کے بعد بہت سی بدعتیں ایجاد کی ہیں ۔محھے ان  کی ازواج کے ساتھ دفن کرئے ۔ اسی لئے انہیں بقیع میں دفن کیا گیا ۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص 193، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

یہ روایت طبقات ابن سعد میں بھی نقل ہے

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبري، ج 8، ص 74، ناشر: دار صادر - بيروت.

حاکم نیشاپوری نے بھی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق صحیح سند ہے لیکن ان دونوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔

النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 4، ص 7، تحقيق مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م

ابن أبي شيبه كوفي نے اپنی كتاب المصنف میں لکھا ہے :

حدثنا أبو أُسَامَةَ حدثنا إسْمَاعِيلُ بن أبي خَالِدٍ عن قَيْسٍ قال قالت عَائِشَةُ لَمَّا حَضَرَتْهَا (متوفاي ادْفِنُونِي مع أَزْوَاجِ النبي صلي الله عليه وسلم فَإِنِّي كُنْت أُحْدِثُ بَعْدَهُ

موت کا وقت جب نذدیک ہوا تو انہوں نے کہا :مجھے رسول اللہ (ص) کی ازواج کے ساتھ دفن کرئے۔ میں نے رسول اللہ (ص)  کے بعد بہت سی بدعتیں انجام دی ہے۔

إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج3، ص34، ح 11857، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409ه

 

  نتیجہ :

ان احادیث میں اصحابی سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت ہی مراد ہیں۔

ان لوگوں کا جرم دین میں تبدیلی لانا ،بدعتیں ایجاد کرنا جیسے معاصی ہے  ۔۔۔۔۔۔

لہذا سارے اصحاب کو عادل ،جنتی سمجھنا اور سب سے دائمی طور پر اللہ کی رضایت ،جیسے اہل سنت کے نظریات خود اہل سنت کی معتبر کتابوں کی معتبر روایات کے مضمون کے خلاف ہیں ۔۔

قابل توجہ  نکتہ :

جن کی اپنی معتبر کتابوں میں اصحاب کے بارے میں ایسی باتیں نقل ہوئی ہیں وہ دوسروں پر اصحاب سے دشمنی کا الزام نہیں لگاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات