2024 March 29
خلیفہ اول کے حکم سے خلیفہ دوم کے ہاتھوں حضرت فاطمہ زہراؑ کے گھر کو جلا ڈالنے کا واقعہ۔
مندرجات: ٢١٠٣ تاریخ اشاعت: ٠٨ December ٢٠٢٢ - ٠١:٣٧ مشاہدات: 3269
مضامین و مقالات » پبلک
خلیفہ اول کے حکم سے خلیفہ دوم کے ہاتھوں حضرت فاطمہ زہراؑ کے گھر کو جلا ڈالنے کا واقعہ۔

خلیفہ اول کے حکم سے خلیفہ دوم کے ہاتھوں حضرت فاطمہ زہراؑ کے گھر کو جلا ڈالنے کا واقعہ۔

ابن ابی شیبہ کی کتاب المصنف میں خلیفہ دوم کے ہاتھوں حضرت فاطمہ زہراؑ کے گھر کو جلا ڈالنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ مگر معاصر وہابی مصنّف عبد الرحمن دمشقیہ نے اس روایت کی سند پر اعتراض کیا ہے اور اس روایت کی شیعوں کے بیت فاطمہؑ کو نذر آتش کیے جانے کے عقیدے پر دلالت کو باطل قرار دیا ہے۔ اس مطلب کے اثبات یا نفی کیلئے اس روایت کی سند و دلالت کا جائزہ لیں گے تاکہ پتہ چلے کہ یہ دعویٰ قابل اثبات ہے یا نہیں؟!

فہرست مندرجات

۱ - شبہے کا بیان

۲ - نقد و تحقیق

       ۲.۱ - اصل روایت

       ۲.۲ - سندِ روایت کی صحت کا اثبات

              ۲.۲.۱ - راویوں پر تحقیق

                     ۲.۲.۱.۱ - محمد بن بشر

                     ۲.۲.۱.۲ - عبید اللہ بن عمر

                     ۲.۲.۱.۳ - زید بن اسلم قرشی

       ۲.۳ - روایت کی دلالت کے حوالے سے شبہات کا جائزہ

              ۲.۳.۱ - فاطمہؑ کا خلیفہ دوم کے نزدیک مقام

              ۲.۳.۲ - تفرقے سے دوری اور بیعت کی اہمیت

                     ۲.۳.۲.۱ - زبردستی بیعت کا اجماع کے دعوے سے تعارض

                     ۲.۳.۲.۲ - زبردستی بیعت مخالفِ قرآن

                     ۲.۳.۲.۳ - خلیفہ کا دوسرے مخالفین کو چھوڑ دینا

                     ۲.۳.۲.۴ - سعد بن عبادہ کی مخالفت

              ۲.۳.۳ - تیسرا شبہہ

       ۲.۴ - اس روایت کے نتائج

              ۲.۴.۱ - عمر کا بیتِ فاطمہؑ کو جلانے کا ارادہ

              ۲.۴.۲ - جمہوریت کی نمائش اور زبردستی دھمکا کر بیعت

              ۲.۴.۳ - امیر المومنینؑ اور اصحاب کی جانب سے خلافتِ ابوبکر کی مخالفت

              ۲.۴.۴ - اہل مدینہ کو ڈرانا

       ۲.۵ - روایت کی سند کا جائزہ

              ۲.۵.۱ - یزید بن عبد الله

              ۲.۵.۲ - ابو بکر بن منکدر

              ۲.۵.۳ - عطاء بن یسار

              ۲.۵.۴ - سائب بن خلاد

۳ - نتیجہ

۴ - حوالہ جات


 

شبہے کا بیان

معاصر وہابی مصنف عبدالرحمن دمشقیہ نے قصة حرق عمر لبیت فاطمة (رضی‌الله‌عنها)کے عنوان سے ایک مقالے میں ابن ابی شیبہ کی روایت کے بارے میں لکھا ہے: علی ان ابن ابی شیبة قد اورد روایة اخری من طریق محمد بن بشر نا عبید الله بن عمر حدثنا زید بن اسلم عن ابیه اسلم انه حین بویع لابی بکر....

قلت: وهذه روایة منقطعة لان زید بن اسلم کان یرسل و احادیثه عن عمر منقطعة کما صرح به الحافظ ابن حجر[۱] (کذلک الشیخ الالبانی)[۲][۳]

ولئن احتججتم بهذه الروایة ابطلتم اعتقادکم بحصول التحریق الی التهدید بالتحریق. وابطلتم اعتقادکم بان علیا لم یبایع لان هذه الروایة تقول: فلم یرجعوا الی فاطمة حتی بایعوا ابا بکر

ابن ابی شیبہ کی روایت منطقع ہے کیونکہ زید بن اسلم مرسل احادیث کو نقل کرتا ہے اور اس کی عمر سے روایات منقطع ہیں جس طرح ابن حجر اور البانی نے بھی اس نکتے کو اشارۃ و صراحۃ بیان کیا ہے۔

اگر شیعہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں تو بیت فاطمہؑ کو نذر آتش کیے جانے کے حوالے سے اپنے عقیدے کو باطل ثابت کریں گے۔ اسی طرح شیعوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت علیؑ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ہے؛ بھی زیر سوال چلا جائے گا۔

نقد و تحقیق

اس روایت کے صحت و سقم کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں:

اصل روایت

 

ابن ابی شیبہ المصنف میں لکھتے ہیں: حدثنا محمد بن بِشْرٍ نا عُبید الله بن عمر حدثنا زید بن اسلَم عن ابیه اسلم اَنَّهُ حِینَ بُویِعَ لاِبِی بَکْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) کَانَ عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ یَدْخُلان عَلی فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فََیُشَاوِرُونَهَا وَیَرْتَجِعُونَ فی اَمرِهِمْ، فَلَمَّا بَلَغَ ذالِکَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّی دَخَلَ عَلی فَاطِمَةَ، فَقَالَ: یَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) مَا مِنَ الْخَلْقِ اَحَدٌ اَحَبُّ اِلَینا مِنْ اَبِیکِ، وَمَا مِنْ اَحَدٍ اَحَبُّ اِلَیْنَا بَعْدَ اَبِیکِ مِنْکِ، وَایْمُ اللَّهِ مَا ذَاکَ بِمَانِعِیَّ اِنِ اجْتَمَعَ هؤُلاَءِ النَّفَرُ عِنْدَکِ اَنْ آمُرَ بِهِمْ اَنْ یُحْرَقَ عَلیْهِمُ الْبَیتُُ، قَالَ فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاؤُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ اَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِی وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَیَحْرِقَنَّ عَلَیکُمُ الْبَیْتَ، وَایْمُ اللَّهِ لَیُمْضِیَنَّ مَا حَلَفَ عَلَیْهِ فَانْصَرِفُوا رَاشِدِینَ، فِرُّوا رَاْیَکُمْ وَلاَ تَرْجِعُوا اِلَیَّ، فَانْصَرَفُوا عَنْهَا وَلَمْ یَرْجِعُوا اِلَیْهَا حَتَّی بَایَعُوا لاَبِی بَکْرٍ

جب لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی تو علی و زبیر بیت فاطمہؑ میں بات چیت اور مشاورت کیلئے جمع ہوئے، یہ خبر عمر بن خطاب تک پہنچی۔ وہ بیت فاطمہؑ پر آیا اور کہا: اے بنت رسول خداؐ! ہمارے نزدیک محبوب ترین فرد آپ کے والد ہیں اور ان کے بعد آپ!!! مگر خدا کی قسم! یہ محبت اس امر سے مانع نہیں ہے کہ اگر یہ افراد تیرے گھر میں جمع ہوں تو میں حکم دوں کہ گھر کو ان کے سمیت جلا ڈالیں۔

عمر یہ جملہ کہہ کر چلا گیا، جب علیؑ اور زبیر گھر واپس آئے تو پیغمبرؐ کی لخت جگر نے علیؑ و زبیر سے کہا: عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم اٹھائی ہے کہ اگر دوبارہ تم لوگ جمع ہوئے تو گھر کو تمہارے سمیت جلا ڈالے گا، خدا کی قسم! اس نے جو قسم کھائی ہے اسے انجام دے گا!» [۴] [۵] [۶]

سندِ روایت کی صحت کا اثبات

سند کے اعتبار سے اس روایت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر عبد الرحمن دمشقیہ نے جو یہ کہا ہے وهذه روایة منقطعة لان زید بن اسلم کانیرسلواحادیثه عنعمر منقطعةیہ ایک قسم کا فریب و تدلیس ہے؛ کیونکہ وہ خود ابتدا میں اس روایت کی سند کو اس طرح نقل کرتا ہے: محمد بن بشر نا عبید الله بن عمر حدثنا زید بن اسلم عن ابیه اسلم

پھر آگے چل کر دعویٰ کرتا ہے کہ زید بن اسلم عمر سے روایت نقل نہیں کر سکتا حالانکہ سند میں روایت کو زید بن اسلم نے اپنے والد سے اور اس نے عمر سے نقل کیا ہے نہ یہ کہ زید بن اسلم نے عمر سے روایت کو نقل کیا ہو۔ اس بنا پر انقطاعِ سند کا دعویٰ ایک بے بنیاد بات ہے۔

اس کے علاوہ بعض اہل سنت بزرگوں نے اعتراف کیا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ریاض کے ادارہ تعلیم و تربیت کے استاد و محقق ڈاکٹر حسن بن فرحان مالکی نے اس بارے میں لکھا ہے: ولکن حزب علی کان اقل عند بیعة عمر منه عند بیعة ابی بکر الصدیق نظراً لتفرقهم الاول عن علی بسبب مداهمة بیت فاطمة فی اول عهد ابی بکر، واکراه بعض الصحابة الذین کانوا مع علی علی بیعة ابی بکر، فکانت لهذه الخصومة والمداهمة، وهی ثابتة باسانید صحیحة وذکری مؤلمة لا یحبون تکرارها..

علیؑ کے حامی عمر کی بیعت کے وقت ابوبکر کی بیعت کے زمانے سے کم تھے؛ کیونکہ ابوبکر کی خلافت کے آغاز میں بیت فاطمہؑ پر حملہ کیا گیا اور اسی وجہ سے بعض صحابہ ابوبکر کی بیعت سے متنفر تھے۔ یہ دعویٰ صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے۔

پھر اس کے حاشیے میں لکھتے ہیں:

کنت اظن المداهمة مکذوبة لا تصح، حتی وجدت لها اسانید قویة منها ما اخرجه ابن ابی شیبة فی المصنف. اقول: اذن هی ثابتة باسانید صحیحیة. بل هی ذکری مؤلمة کما قرر هذا الاستاذ المالکی

میں پہلے سوچتا تھا کہ حملے کا واقعہ جھوٹ ہے اور صحیح نہیں ہے مگر جب میں نے تحقیق کی تو اس کیلئے مضبوط اسناد مل گئیں کہ جن میں سے ایک سند ابن ابی شیبہ کا اپنی کتاب المصنف میں کلام ہے، پس یہ دلخراش سانحہ صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے۔ [۷]

←← راویوں پر تحقیق

اگرچہ ڈاکٹر فرحان مالکی کی یہی صراحت سند کی صحت کے اثبات کیلئے کافی ہے مگر اس کے باوجود اس روایت کی سند کا اہل سنت علمائے رجال کے نظریات کی روشنی میں جائزہ لیں گے۔

  محمد بن بشر

ابن‌حجر اس کے بارے میں لکھتے ہیں: محمد بن بشر العبدی ابو عبدالله الکوفی ثقة حافظ من التاسعة مات سنة ثلاث ومائتین

محمد بُشر، ثقہ، حافظ اور راویوں کے نویں طبقے سے ہے، اس کی وفات سنہ ۲۰۳ھ کو ہوئی۔ [۸]

عبید اللہ بن عمر

عبید اللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب العمری المدنی ابو عثمان ثقة ثبت قدمه احمد بن صالح علی مالک فی نافع وقدمه بن معین فی القاسم عن عائشة علی الزهری عن عروة عنها من الخامسة مات سنة بضع واربعین.

عبیدالله بن عمر... ثقہ اور عقیدے میں مضبوط ہے۔ [۹]

 زید بن اسلم قرشی

 

زید بن اسلم العدوی مولی عمر ابو عبدالله وابو اسامة المدنی ثقة عالم...

زید بن اسلم، ثقہ اور عالم تھا۔ [۱۰]

اسلم القرشی العدوی، ابو خالد و یقال ابو زید، المدنی، مولی عمر بن الخطاب: اسلم العدوی مولی عمر ثقة مخضرم مات سنة ثمانین وقیل بعد سنة ستین وهو بن اربع عشرة ومائة سنة ع

اسلم عدوی، ثقہ ہے۔ وہ سنہ ۸۰ھ میں فوت ہوا۔ بعض کے بقول اس کا انتقال سنہ ۶۰ھ میں ۱۱۴ برس کے سن میں ہوا۔ [۱۱]

حتی یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ صحابی تھا؛ کیونکہ اسلم یمن کی فتح کے زمانے میں کافر تھا اور امیر المومنینؑ کی سربراہی میں یمن کی جنگ کے دوران مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوا اور مسلمانوں کا غلام بن گیا اور غلام کے عنوان سے رسول خداؐ کے ہمراہ دو سفر کیے۔ وہ اسی طرح غلام رہا یہاں تک کہ عمر نے اسے ابوبکر کی خلافت کے دوران مکہ میں خرید کر لیا۔

بخاری اپنی تاریخ کبیر میں لکھتے ہیں: اسلم مولی عمر بن الخطاب القرشی العدوی المدنی ابو خالد کان من سبی الیمن... عن بن اسحاق بعث ابو بکر عمر بن الخطاب سنة احدی عشرة فاقام للناس الحج وابتاع فیها اسلم

عمر کا غلام اسلم، یمن کے قیدیوں میں سے تھا۔ ابن اسحاق سے منقول ہے کہ عمر نے اسے سنہ ۱۱ ہجری میں خرید کیا کہ جب ابوبکر نے اسے حجاج کا سرپرست مقرر کیا تھا۔ [۱۲]

اسی طرح اہل سنت روایات کے مطابق یمن کے غنائم کو امیر المومنینؑ حجۃ الوداع میں اپنے ہمراہ رسول خداؐ کے پاس لے آئے تھے تو یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حجۃ الوداع میں تھا مگر رسول خداؐ کا دیدار نہیں کر سکا!! کیونکہ اہل سنت علما صحابی ہونے کی ایک دلیل حجۃ الوداع میں اس کی موجودگی کو قرار دیتے ہیں۔

 

ابن حجر الاصابۃ میں اس کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ اس نے رسول خداؐ کی معیت میں دو سفر کیے: اسلم مولی عمر روی بن منده من طریق عبد المنعم بن بشیر عن عبد الرحمن بن زید بن اسلم عن ابیه عن جده انه سافر مع النبی صلی الله علیه وسلم سفرتین والمعروف ان عمر اشتری اسلم بعد وفاة النبی صلی الله علیه وسلم کذلک ذکره بن اسحاق وغیره

اسلم، عمر کے غلام نے رسول خداؐ کے ہمراہ دو سفر کیے۔ مشہور یہ ہے کہ عمر نے اسے سنہ ۱۱ ہجری میں رسول خداؐ کی رحلت کے بعد خریدا تھا۔ ابن اسحاق اور دوسروں نے اس قول کو ذکر کیا ہے۔ [۱۳]

حتی اگر یہ مطلب بھی درست ہو اور عمر نے اسے رسول خداؐ کی وفات کے بعد مکہ میں خرید کیا ہو تو یہ دلیل نہیں ہے کہ اس نے عمر کے خریدنے سے قبل اپنے پہلے مالک کے ساتھ رسول خداؐ کے ہمراہ سفر نہ کیا ہو یا وہ مدینہ میں نہ رہا ہو۔

لہٰذا ان دو نظریات کے مابین جمع کی صورت یہ ہے کہ اسلم اپنے سابقہ آقا کے ہمراہ رسول خداؐ کے ساتھ دو بار سفر پر گیا، رسول خداؐ کی وفات کے بعد اپنے آقا کے ساتھ حج کے مناسک انجام دینے کیلئے مکہ گیا اور وہیں مکہ میں عمر نے اسے خرید کر لیا۔

بالفرض وہ صحابی نہ ہو مگر قطعی طور پر تابعی ہے اور تابعی کے مرسلات بھی اہل سنت کے نزدیک حجت ہیں۔

ملا علی قاری اس کلام کہ جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو، اس کا مرسل قابل قبول نہیں ہے؛ کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قلت: مرسل التابعی حجة عند الجمهور، فکیف مرسل من اختلف فی صحة صحبته

تابعی کا مرسل، تمام علما کے نزدیک حجت ہے تو جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو، اس کا مرسل بدرجہ اولیٰ حجت ہو گا۔ [۱۴]

پس اس روایت کی سند صحیح ہے۔

البتہ تابعی کے مرسل کی حجیت پر ان شاء اللہ بلاذری کی روایت کے ضمن میں تفصیلی بحث کریں گے۔

روایت کی دلالت کے حوالے سے شبہات کا جائزہ

اب ہم اس روایت کی دلالت سے متعلق شبہات کو نقل کر کے ان کا مناسب جواب بیان کریں گے۔

  فاطمہؑ کا خلیفہ دوم کے نزدیک مقام

روایت میں ہے کہ عمر ہر قسم کے اقدام سے پہلے ذاتی طور پر فاطمہؑ کے گھر گیا اور ان کے مقام و منزلت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: اے فاطمہؑ! خدا کی قسم، ہمارے نزدیک تمہارے پدر گرامی سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہے اور خدا کی قسم! تمہارے پدر بزرگوار کے بعد تجھ سے زیادہ ہمارے نزدیک کوئی محبوب نہیں ہے۔

عمر کا برتاؤ اور رسول اکرمؐ کی دختر گرامی کی منزلت کا بیان اس بات کی علامت ہے کہ وہ رسول اکرمؐ اور اہل بیت کا احترام کرتے تھے اور ان سے محبت کرتا تھے۔

جواب:

۱. یہ عبارت بظاہر بنو امیہ کے نوکروں نے روایت میں داخل کی ہے تاکہ خلیفہ کے عمل کو درست ظاہر کریں اور ابوبکر کی بیعت کے وقت منعقد ہونے والی افسانوی جمہوریت کی نمائش کر سکیں!! مگر پھر بھی وہ بیت پر حملے اور اسے جلا ڈالنے کی دھمکی کا انکار نہیں کر سکے!

۲. اگر بالفرض عمر نے یہ الفاظ کہے ہوں تو بھی یہ ایک سنجیدہ دھمکی ہے اور اس چیز کو بیان کر رہی ہے کہ عمر حضرت صدیقہ طاہرہ کے مقام کو اہمیت نہیں دے رہے؛ کیونکہ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمر خدا و رسولؐ کے نزدیک فاطمہؑ کے مقام و منزلت سے آگاہ تھے مگر اس کے باوجود یہ جرات کر رہا تھے کہ اس عظیم القدر خاتون کے گھر کو جلانے کی دھمکی دیں۔

  تفرقے سے دوری اور بیعت کی اہمیت

خلیفہ کی بیعت کا مسئلہ اس قدر اہم تھا کہ عمر نے سخت الفاظ کے ساتھ یہ بات فاطمہؑ کو سمجھائی اور فرمایا: خدا کی قسم! کوئی چیز اس امر سے مانع نہیں ہو گی کہ تمہارے گھر میں جمع ہونے والے افراد کے بارے میں حکم نہ دوں کہ ان کو گھر سمیت جلا دیں۔

بیعت کا مسئلہ مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی کے باعث خصوصی اہمیت کا حامل تھا اور پیغمبر اکرمؐ کی اتحاد و یکجہتی کی نصیحت اور تفرقے اور چند خلیفوں کی بیعت سے اجتناب کے پیش نظر عمر نے مصلحت اس بات میں دیکھی کہ ابوبکر کی بیعت کے مخالفین کو دھمکی دیں۔

زبردستی بیعت کا اجماع کے دعوے سے تعارض

اہل سنت ابوبکر کی بیعت کی مشروعیت کیلئے ایک طرف سے صحابہ کے اجماع کا سہارا لیتے ہیں اور دوسری طرف سے کہتے ہیں کہ حد اقل علیؑ اور ان کے گھر میں جمع ہونے والی جماعت نے بیعت سے انکار کیا یہاں تک کہ عمر مجبور ہوئے کہ دھمکیوں اور طاقت کے بل بوتے پر ان سے بیعت لیں۔

اس روایت سے حد اقل علیؑ کی جانب سے ابوبکر کی بیعت سے انکار ثابت ہوتا ہے اور علیؑ اور ان کے ناصرین کی غیر موجودگی کے باعث امت کا اجماع ہی منعقد نہیں ہوا تھا۔ ابن حزم اندلسی کے اس کلام کی طرف توجہ کریں کہ کہتا ہے: وَلَعْنَةُ اللَّهِ علی کل اجْمَاعٍ یَخْرُجُ عنه عَلِیُّ بن ابی طَالِبٍ وَمَنْ بِحَضْرَتِهِ من الصَّحَابَةِ

خدا کی لعنت ہو ہر اس اجماع پر کہ جس میں علی بن ابی طالبؑ اور ان کے اصحاب شامل نہ ہوں۔ [۱۵]

پیغمبر اکرمؐ کی حدیث علی مع الحق والحق مع علی(کہ علیؑ حق کے ساتھ ہیں اور حق علیؑ کے ساتھ ہے)[۱۶] [۱۷] [۱۸] [۱۹] [۲۰] [۲۱] کے مطابق جو کچھ سقیفہ بن ساعدہ میں ہوا، حق نہیں تھا بلکہ یقینی طور پر لوگوں کی سرنوشت پر باطل حکمفرما ہو چکا تھا۔

زبردستی بیعت مخالفِ قرآن

کیا خلیفہ کی بیعت کا درجہ خدا و پیغمبرؐ پر ایمان سے بالاتر ہے کہ جس میں خدا نے اکراہ و اجبار کو ممنوع قرار دیا ہے اور سورہ بقرہ کی آیت ۲۵۶ میں ارشاد ہوتا ہے: لا اِکْراهَ فِی الدِّین[۲۲]

اور سوره شعراء کی آیت ۳ میں ارشاد فرماتا ہے: لَعَلَّکَ باخِعٌ نَفْسَکَ اَلاَّ یَکُونُوا مُؤْمِنین[۲۳] شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔

مگر پھر بھی اپنے پیغمبرؐ کو یہ حکم نہیں دیتا کہ زبردستی کسی کو اسلام کی دعوت دیں بلکہ فرماتا ہے: قُلْ اَطِیعُوا اللَّهَ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِیعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَی الرَّسُولِ اِلا الْبَلاغُ الْمُبِینُ[۲۴]

کہہ دو کہ خدا کی فرمانبرداری کرو اور رسول خدا کے حکم پر چلو۔ اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو تمہارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا رستہ پالو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (احکام خدا کا) پہنچا دینا ہے۔

کیا آپ کو کوئی ایک ایسا مقام ملتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے کسی کو دھمکی دے کر اور زبردستی اسلام قبول کروایا ہو؟!

خلیفہ کا دوسرے مخالفین کو چھوڑ دینا

اگر بیعت سے انکار کا مسئلہ خلیفہ کیلئے اس قدر اہم تھا کہ اس کی خاطر بنت پیغمبرؐ کے گھر کو نذر آتش کرنے کو آمادہ تھے تو کیوں بیعت کے باقی مخالفین کی نسبت ایسا کوئی اقدام نہیں کیا؟! بہت سے اصحاب نے ابوبکر کی بیعت سے اجتناب کیا۔

بخاری عمر بن خطاب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حِینَ تَوَفَّی اللَّهُ نَبِیَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنَّ الْاَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِاَسْرِهِمْ فِی سَقِیفَةِ بَنِی سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا

جب رسول خداؐ کا وصال ہوا تو انصار نے ہماری مخالفت کی اور وہ سب سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے اور اسی طرح علیؑ، زبیر اور ان کے ساتھیوں نے ہماری مخالفت کی۔ [۲۵]

ابو الفداء اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:

فبایع عمر ابا بکر رضی الله عنهما وانثال الناس علیه یبایعونه فی العشر الاوسط من ربیع الاول سنة اِحدی عشرة خلا جماعة من بنی‌هاشم والزبیر وعتبة بن ابی لهب وخالد بن سعید ابن العاص والمقداد بن عمرو وسلمان الفارسی وابی ذر وعمار بن یاسر والبراء بن عازب وابی بن کعب ومالوا مع علی بن ابی طالب. وقال فی ذلک عتبة بن ابی لهب: ما کنت احسب ان الامر منصرف... عن‌هاشم ثم منهم عن ابی حسن عن اول الناس اِیماناً وسابقه... واعلم الناس بالقرآن والسنن وآخر الناس عهداً بالنبی من... جبریل عون له فی الغسل والکفن من فیه ما فیهم لا یمترون به... ولیس فی القوم ما فیه من الحسن وکذلک تخلف عن بیعة ابی بکر ابو سفیان من بنی امیة ثم ان ابا بکر بعث عمر بن الخطاب اِلی علی ومن معه لیخرجهم من بیت فاطمة رضی الله عنها، وقال: اِن ابوا علیک فقاتلهم. فاقبل عمر بشیء من نار علی ان یضرم الدار، فلقیته فاطمة رضی الله عنها وقالت: اِلی این یا ابن الخطاب اجئت لتحرق دارنا قال: نعم...

عمر نے ابوبکر کی بیعت کی، لوگ سنہ ۱۱ ہجری کے ربیع الاول کے دس درمیانی دنوں میں بیعت کیلئے جمع ہوئے مگر بنو ہاشم کی ایک جماعت، زبیر، عتبہ بن ابو لہب، خالد بن سعید بن عاص، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر، عمار یاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب علیؑ کے گرد جمع ہو گئے اور ان کی طرف مائل تھے۔

عتبہ بن ابو لہب نے اس بارے میں اشعار کہے ہیں:

مجھے گمان نہیں تھا کہ خلافت کو بنو ہاشم اور علیؑ سے ہتھیا لیا جائے گا، جو ایمان میں اول اور سب پر سابق تھا، وہ جو قرآن کے علم اور سنت کا سب سے بڑا عالم تھا اور وہ آخری فرد ہے جو پیغمبرؐ کے ساتھ رہا اور انہیں نہیں چھوڑا، وہ کہ جبرئیل نے رسول خداؐ کے غسل و کفن میں جس کا ساتھ دیا، وہ کہ مسلمانوں میں اس کی مانند کوئی بھی نہیں ہے اور تمام خوبیوں کا حامل تھا۔

اسی طرح ابوبکر کی بیعت سے بنو امیہ کے قبیلے سے ابوسفیان جیسے افراد نے انکار کیا، ابوبکر نے عمر کو بھیجا کہ علی اور ان کے ساتھیوں کو بیت فاطمہؑ سے باہر نکالا جائے اور حکم دیا کہ اگر انہوں نے اطاعت نہ کی تو ان کے ساتھ جنگ کرو، عمر آگ کا شعلہ لے کر بیت فاطمہؑ کی طرف آیا، فاطمہؑ نے اسے دیکھا، فرمایا: کہاں آئے ہو، کیا چاہتے ہو کہ میرے گھر کو آگ لگا دو؟! کہنے لگا: ہاں! .. [۲۶]

اسی طرح بارہویں صدی کے مشہور عالم عصامی مکی نے ابوبکر کی بیعت کے مخالفین کے بارے میں لکھا ہے: تخلف عن بیعة ابی بکر یومئذ سعد بن عبادة وطائفة من الخزرج وعلی بن ابی طالب وابناه والزبیر والعباس عم رسول الله وبنوه من بنی‌هاشم وطلحة وسلمان وعمار وابو ذر والمقداد وغیرهم وخالد بن سعید بن العاص

سعد بن عبادہ، خزرجیوں کے ایک گروہ، علی بن ابی طالب اور ان کے دونوں بیٹوں، زبیر، رسول خداؐ کے چچا عباس اور بنی ہاشم سے ان کی اولاد، طلحہ، سلمان فارسی، ابوذر، مقداد وغیرہ نیز خالد بن سعید بن عاص نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا۔ [۲۷]

ساتویں صدی ہجری کے مشہور اہل سنت عالم ابو جعفر طبری لکھتے ہیں: وتخلف عن بیعة ابی بکر یومئذ سعد بن عبادة فی طائفة من الخزرج وعلی بن ابی طالب وابناه والعباس عم رسول الله صلی الله علیه وسلم وبنوه فی بنی‌هاشم والزبیر وطلحة وسلمان وعمار وابو ذر والمقداد وغیرهم من المهاجرین وخالد بن سعید بن العاص[۲۸]

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں: وتخلف عن بیعة ابی بکر قوم من المهاجرین والانصار ومالوا مع علی بن ابی طالب منهم العباس بن عبد المطلب والفضل بن العباس والزبیر بن العوام بن العاص وخالد بن سعید والمقداد بن عمرو وسلمان الفارسی وابو ذر الغفاری وعمار بن یاسر والبراء بن عازب وابی بن کعب[۲۹]

اسی طرح ابن ‌اثیر جزری دو بزرگ صحابہ، خالد اور ابان بن سعید بن ابی ‌العاص، کے بارے میں لکھتے ہیں: وتاخر خالد واخوه ابان عن بیعة ابی بکر رضی الله عنه

خالد اور اس کے بھائی نے ابوبکر کی بیعت کو مؤخر کر دیا۔ [۳۰]

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: وکان ابان احد من تخلّف عن بیعة ابی بکر...

ابان، ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ [۳۱]

ابن ‌اثیر لکھتے ہیں: وتخلّف عن بیعته علی و بنو‌هاشم والزیبر ابن العوام وخالد بن سعید بن العاص وسعد بن عبادة الانصاری ثم ان الجمیع بایعوا بعد موت فاطمة بنت رسول اللّه صلی اللّه علیه وسلم الا سعد بن عبادة فانه لم یبایع احدا الی ان مات وکانت بیعتهم بعد ستة اشهر علی القول الصحیح وقیل غیر ذلک

علی اور بنی ہاشم، زبیر، خالد بن سعید بن عاص، سعد بن عباده انصاری ننے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا، پھر فاطمہؑ کی رحلت کے بعد سب نے بیعت کر لی مگر سعد بن عبادہ نے زندگی کے آخری لمحات تک کسی کی بیعت نہیں کی یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ ان افراد کی بیعت صحیح قول کے مطابق چھ ماہ گزرنے کے بعد تھی، اگرچہ اس کے علاوہ اور اقوال بھی موجود ہیں۔ [۳۲]

سعد بن عبادہ کی مخالفت

رسول خداؐ کے مشہور صحابی سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج کے سربراہ تھے۔ انہوں نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی مگر تاریخ میں نہیں ملتا کہ خلیفہ کے طرفداروں نے ان کے گھر پر حملہ کیا ہو اور زبردستی ان سے بیعت لی ہو۔

ابن ‌عبد البر قرطبی، الاستیعاب میں لکھتے ہیں: وتخلف سعد بن عبادة عن بیعة ابی بکر رضی الله عنه وخرج من المدینة ولم ینصرف الیها الی ان مات بحوران من ارض الشام لسنتین ونصف مضتا من خلافة عمر رضی الله عنه

سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا اور گوشہ نشین ہو گئے، اسی وجہ سے مدینہ سے خارج ہو گئے پھر کبھی واپس نہیں آئے یہاں تک کہ شام کے اندر حوران نامی جگہ پر عمر کی خلافت کے ڈھائی سال گزرنے کے بعد انتقال کر گئے۔ [۳۳] [۳۴]

ابن حجر لکھتے ہیں: وقصته فی تخلفه عن بیعة ابی بکر مشهورة

سعد بن عبادہ کے ابوبکر کی بیعت سے انکار کی داستان مشہور ہے۔ [۳۵]

ابن ‌قتیبہ دینوری الامامۃ والسیاسۃ میں، طبری اور ابن‌اثیر اپنی تواریخ میں، نویری نهایة الارب میں اور حلبی السیرة الحلبیه میں لکھتے ہیں:

 

ثم بُعث الیه ان اقبل فبایع فقد بایع الناس وبایع قومک فقال: اما والله حتی ارمیکم بما فی کنانتی من نبل واخضب سنان رمحی واضربکم بسیفی ما ملکته یدی واقاتلکم باهل بیتی ومن اطاعنی من قومی فلا افعل. وایم الله لو ان الجن اجتمعت لکم مع الانس ما بایعتکم حتی اعرض علی ربی واعلم ما حسابی. فلما اتی ابو بکر بذلک قال له عمر لا تدعه حتی یبایع فقال له بشیر بن سعد انه قد لج وابی ولیس بمبایعکم حتی یقتل ولیس بمقتول حتی یقتل معه ولده واهل بیته وطائفة من عشیرته فاترکوه فلیس ترکه بضارکم انما هو رجل واحد فترکوه وقبلوا مشورة بشیر بن سعد واستنصحوه لما بدا لهم منه فکان سعد لا یصلی بصلاتهم ولا یجمع معهم ویحج ولا یفیض معهم بافاضتهم فلم یزل کذلک حتی هلک ابو بکر رحمه اللّه

کچھ افراد کو سعد بن عبادہ کے پاس بھیجا گیا کہ سب لوگ بیعت کر چکے ہیں تم بھی بیعت کرو، انہوں نے کہا: خدا کی قسم! خواہ مجھے نیزوں کے ساتھ تم پر حملہ کرنا پڑے اور میرا نیزہ تمہارے خون سے رنگین ہو جائے اور جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے، اس سے تمہارے اوپر ضربیں لگانا پڑیں اور تمہارے خلاف اپنے خاندان والوں اور پیروکاروں کے ساتھ جنگ کرنی پڑے پھر بھی تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ خدا کی قسم! اگر انسان و جن تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں تو بھی میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا یہاں تک کہ اپنے خدا سے ملاقات کر لوں اور اپنا حساب دیکھ لوں۔

جب ابوبکر کو ساری رپورٹ دی گئی تو عمر نے کہا: اسے مت چھوڑو یہاں تک کہ بیعت کر لے، بشیر بن سعد کہتا ہے: اس نے حکم عدولی کی ہے اور آپ کی بیعت نہیں کرے گا، سوائے یہ کہ اپنے آپ کو، اپنی اولاد کو اور قبیلے کو قربانی کی بھینٹ چڑھا دے گا، اسے چھوڑ دو کہ اس میں تمہارا نقصان نہیں ہے۔

پس انہیں چھوڑ دیا گیا اور بشیر بن سعید کی نصیحت کو مان لیا گیا۔ سعد ان کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے تھے اور ان کی نماز جمعہ میں شرکت نہیں کرتے تھے اور سفرِ حج میں ان کے ہمراہ نہیں جاتے تھے یہاں تک کہ ابوبکر کا انتقال ہو گیا۔ [۳۶] [۳۷] [۳۸] [۳۹] [۴۰]

اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیوں ابوبکر اور ان کے ساتھیوں نے بیعت کے دیگر مخالفین کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جو انہوں نے فاطمہ زہراؑ کے ساتھ کیا؟!

کیوں، مدینہ کے تمام گھروں میں سے صرف بنت رسولؐ کا گھر غیر محفوظ تھا؟!

تیسرا شبہہ

عبدالرحمن دمشقیہ نے اس روایت پر دلالت کے اعتبار سے یہ اشکال کیا ہے:

ولئن احتججتم بهذه الروایة ابطلتم اعتقادکم بحصول التحریق الی التهدید بالتحریق. وابطلتم اعتقادکم بان علیا لم یبایع لان هذه الروایة تقول: فلم یرجعوا الی فاطمة حتی بایعوا ابا بکر

اگر آپ اس روایت سے استدلال کریں تو آپ جلانے کی نسبت اپنا عقیدہ باطل اور صرف جلانے کی دھمکی کو ثابت کر رہے ہیں اور اسی طرح آپ کا یہ عقیدہ کہ علیؑ نے بیعت نہیں کی، بھی باطل ٹھہرتا ہے؛کیونکہ یہ روایت کہتی ہے: گھر واپس نہیں آئے جب تک ابوبکر کی بیعت نہ کر لی!

جواب:

اولاً: حدیث کے آخری حصے میں حضرت فاطمہؑ کا فرمان، عمر کی دھمکی کے سنجیدہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔

ثانیا: دھمکی کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، حضرت فاطمہؑ گھر کو آگ سے بچانے اور پیغمبرؐ کی اولاد کی حفاظت کی غرض سے انہیں کہتی ہیں کہ دوبارہ یہاں مت آنا۔

ثالثاً: عبارت فلم یرجعوا الیها حتی بایعوا لا بی بکرسفید جھوٹ ہے جس کا بنو امیہ کے نوکروں نے روایت میں اضافہ کیا ہے تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ دھمکی عملی نہیں ہوئی ہے حالانکہ صحیح بخاری اور مسلم میں واضح طور پر آیا ہے کہ حضرت علیؑ نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔

بخاری لکھتے ہیں: فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ علی ابی بَکْرٍ فی ذلک فَهَجَرَتْهُ فلم تُکَلِّمْهُ حتی تُوُفِّیَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النبی صلی الله علیه وسلم سِتَّةَ اَشْهُرٍ فلما تُوُفِّیَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِیٌّ لَیْلًا ولم یُؤْذِنْ بها اَبَا بَکْرٍ وَصَلَّی علیها وکان لِعَلِیٍّ من الناس وَجْهٌ حَیَاةَ فَاطِمَةَ فلما تُوُفِّیَتْ اسْتَنْکَرَ عَلِیٌّ وُجُوهَ الناس فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ ابی بَکْرٍ وَمُبَایَعَتَهُ ولم یَکُنْ یُبَایِعُ تِلْکَ الْاَشْهُرَ فَاَرْسَلَ الی ابی بَکْرٍ اَنْ ائْتِنَا ولا یَاْتِنَا اَحَدٌ مَعَکَ کَرَاهِیَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ

فاطمہ ابوبکر پر غضبناک ہو گئیں اور ان سے کلام نہیں کیا یہاں تک کہ دنیا سے چلی گئیں اور رسول خداؐ کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں، جب رحلت ہوئی تو ان کے شوہر نے انہیں رات کو دفن کیا اور ان کے دفن کی ابوبکر کو اطلاع نہیں دی، خود ان پر نماز ادا کی، جب تک فاطمہؑ زندہ تھیں علیؑ کی ایک خاص آبرو تھی۔ جب فاطمہؑ دنیا سے چلی گئیں تو آپؑ نے لوگوں سے اچھا سلوک نہیں دیکھا اور مصلحت اسی میں دیکھی کہ ابوبکر کی بیعت کر لیں کیونکہ اس وقت تک بیعت نہیں کی تھی۔ لہٰذا انہوں نے ایک شخص کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ تم اکیلے ہمارے پاس آؤ اور تیرے ساتھ کوئی اور نہ ہو؛ کیونکہ عمر کی موجودگی انہیں پسند نہیں تھی۔ [۴۱] [۴۲]

اس روایت کے نتائج

ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس روایت کے مطابق گھر پر حملے اور نذر آتش کیے جانے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ روایت چند دوسری چیزوں کو ثابت کرتی ہے کہ جس کے نتائج اہل سنت کیلئے خانہ وحی پر حملے اور ۔۔۔ سے کم نہیں ہیں اور ابوبکر کی خلافت کی مشروعت کو ہی زیر سوال لے جاتے ہیں۔

عمر کا بیتِ فاطمہؑ کو جلانے کا ارادہ

 

بہت زیادہ اچھے گمان کی صورت میں یہ روایت بیت زہراؑ کو جلانے پر مبنی عمر کے قصد کو ثابت کرتی ہے اور حضرت زہراؑ کا یہ کلام ایم الله لیمضین لما حلف علیهعمر کے سنجیدہ عزم پر تاکید ہے، جبکہ اہل مدینہ کی نسبت برا قصد ناقابل بخشش گناہ ہے اور رسول خداؐ نے قسم کھائی ہے کہ خدا ایسے شخص کو آگ میں اس طرح پگھلائے گا جس طرح نمک پانی میں حل ہوتا ہے۔

مسلم نیشاپوری نے اپنی صحیح کے باب بَاب من اَرَادَ اَهْلَ الْمَدِینَةِ بِسُوءٍ اَذَابَهُ اللهمیں چھ روایات کو نقل کیا ہے کہ اگر کوئی اہل مدینہ کی نسبت برا قصد رکھتا ہو تو خدا اسے پانی میں نمک کی طرح آگ میں تحلیل کر دے گا۔

عن ابی عبد اللَّهِ الْقَرَّاظِ اَنَّهُ قال اَشْهَدُ علی ابی هُرَیْرَةَ اَنَّهُ قال قال ابو الْقَاسِمِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) من اَرَادَ اَهْلَ هذه الْبَلْدَةِ بِسُوءٍ یَعْنِی الْمَدِینَةَ اَذَابَهُ الله کما یَذُوبُ الْمِلْحُ فی الْمَاءِ

جو بھی مدینہ کے لوگوں کی نسبت برا ارادہ رکھے گا تو خدا اسے آگ میں اس طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں حل ہوتا ہے۔ [۴۳]

کیا کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ رسول خداؐ کی تنہا یادگار، سیدہ نساء اھل الجنۃ کو یہ دھمکی دے کہ تمہارے گھر کو جلا ڈالوں گا؟!

جمہوریت کی نمائش اور زبردستی دھمکا کر بیعت

یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ ابوبکر کی بیعت ڈرانے، دھمکانے اور زبردستی کے نتیجے میں منعقد ہوئی اور جمہوریت، صحابہ کے اجماع، اہل حل و عقد (سفید ریش بزرگوں) کے اتفاق، عوامی بیعت کی باتیں افسانوی ہیں اور یہی مطلب اہل سنت کی خلافت کے مشروع ہونے پر سوالیہ نشان لگانے کیلئے کافی ہے؛ کیونکہ اہل سنت کے اصول کی رو سے خلیفہ عوامی آرا سے منتخب ہوتا ہے جبکہ یہ روایت اس کے برعکس کو پیش کر رہی ہے۔

پس ابوبکر نہ خدا و رسول کی طرف سے منتخب ہوئے ہیں اور نہ ہی لوگوں نے انہیں خلافت کیلئے چنا ہے (اس روایت کے مطابق) بلکہ طاقت، تشدد اور دھمکیوں سے خلافت تک پہنچے ہیں۔

اس صورت میں ابوبکر اور ان ظالم و جابر بادشاہوں کی حکومت میں کیا فرق رہ جاتا ہے کہ جو نیزوں اور تلواروں کے سائے میں عوام پر مسلط ہوتے تھے؟!

امیر المومنینؑ اور اصحاب کی جانب سے خلافتِ ابوبکر کی مخالفت

تیسرا اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ فاطمہ زہراؑ، امیر المومنین اور آپ کے اصحاب و ناصرین نے ابوبکر کی خلافت سے اختلاف کیا اور وہ خلافت کو امیر المومنینؑ کا حق سمجھتے تھے۔ لہٰذا امیر المومنینؑ اصحاب کے ہمراہ بیت فاطمہ زہرا میں جمع ہوتے تھے تاکہ اپنے حق خلافت کی واپسی کیلئے کسی لائحہ عمل کی تدبیر کریں اور اس کا مطلب ہے کہ امیر المومنینؑ ابوبکر کی خلافت پر ہونے والے اجماع میں شامل نہیں تھے۔

اب ایک مرتبہ پھر ابن حزم اندلسی کے کلام کو دہرائیں گے کہ انہوں نے ایسے اجماع پر لعنت کی ہے جس میں امیر المومنینؑ حاضر نہ ہوں: وَلَعْنَةُ اللَّهِ علی کل اجْمَاعٍ یَخْرُجُ عنه عَلِیُّ بن ابی طَالِبٍ وَمَنْ بِحَضْرَتِهِ من الصَّحَابَةِ

خدا کی لعنت ہو ہر ایسے اجماع پر کہ جس میں علی بن ابی طالبؑ اور ان کے اصحاب شامل نہ ہوں۔ [۴۴]

اہل مدینہ کو ڈرانا

 

ایک اور مطلب جو اس روایت کو ثابت کرتا ہے؛ یہ ہے کہ خلیفہ دوم نے اس دھمکی کے ساتھ حد اقل اہل مدینہ کو ڈرایا ہے، پس اہل سنت کا اس صورت میں روایت من اخاف اهل المدینة اخافه الله، وعلیه لعنة الله والملائکة والناس اجمعینکے حوالے سے کیا جواب ہو گا؟

ذہبی، تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں: قال یزید بن الهاد، عن ابی بکر بن المنکدر، عن عطاء بن یسار، عن السائب بن خلاد، انه سمع رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول: من اخاف اهل المدینة اخافه الله، وعلیه لعنة الله والملائکة والناس اجمعین. رواه مسلم بن ابی مریم، وعبدالله بن عبد الرحمن بن ابی صعصعة، عن عطاء عن السائب، وخالفهم موسی بن عقبة، عن عطاء فقال: عن عبادة بن الصامت، والاول اصح

سائب بن خلاد کہتے ہیں: میں نے رسول خداؐ سے سنا کہ جو بھی اہل مدینہ کو خوفزدہ کرے، خدا اس کو خوفزدہ کرے اور ایسے شخص پر خدا، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو! [۴۵]

روایت کی سند کا جائزہ

اس روایت کی سند کا جائزہ لیتے ہیں:

یزید بن عبد الله

وہ بخاری کے راوی ہیں، ابن حجر نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور انہیں ان لوگوں میں سے قرار دیا ہے جنہوں نے زیادہ حدیثیں نقل کی ہیں۔

یزید بن عبدالله بن اسامة بن الهاد اللیثی ابو عبدالله المدنی ثقة مکثر من الخامسة[۴۶]

ابو بکر بن منکدر

یہ بخاری کے راویوں میں سے ہیں اور ابن حجر انہیں ثقہ کا نام دیتے ہیں۔

ابو بکر بن المنکدر بن عبدالله التیمی المدنی ثقة[۴۷]

 

عطاء بن یسار

یہ بخاری کے راوی ہیں اور ابن حجر انہیں ثقہ اور اہل فضل و موعظہ و عبادت شمار کرتے ہیں۔

عطاء بن یسار الهلالی ابو محمد المدنی مولی میمونة ثقة فاضل صاحب مواعظ وعبادة[۴۸]

سائب بن خلاد

یہ صحابی ہیں اور اہل سنت کے نقطہ نظر سے صحابہ کی عدالت قطعی ہے۔

محمدناصر البانی، السلسة الصحیحه میں لکھتے ہیں: (من اخاف اهل المدینة اخافه الله). (وهذا اسناد حسن) وروی عن جابر بن عبدالله به الا انه لم یقل: اخافه الله وزاد: فعلیه لعنة الله وغضبه لا یقبل منه صرفا ولا عدلا. واسناده صحیح. وقد صح الحدیث عن جابر بلفظ: من اخاف اهل المدینة فقد اخاف ما بین جنبیّ. اخرجه احمد

یہ روایت کہ اگر کوئی مدینہ کے لوگوں کو ڈرائے تو خدا اسے ڈرائے؛ کی سند صحیح ہے اور جابر سے یہ بھی نقل ہوا ہے کہ اس کی نقل میں فقط جملہ اخافہ اللہنہیں ہے، اگرچہ جملہ: پس اس پر خدا کی لعنت اور غضب ہو، موجود ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے۔

اسی طرح صحیح سند کے ساتھ جابر سے منقول ہے کہ فرمایا: جو کوئی اہل مدینہ کو ڈرائے تو اس نے میرے دل کو ڈرایا ہے۔ [۴۹]

نتیجہ

یہ روایت سندی اعتبار سے بالکل درست ہے اور دلالت کے اعتبار سے بھی حد اقل جلانے کی دھمکی، زبردستی بیعت لینے اور ۔۔۔ کو ثابت کرتی ہے اور یہ امر خلافتِ ابوبکر کی عدم مشروعیت کے مساوی ہے۔

 

حوالہ جات

۱.       ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، رقم۲۱۱۷۔

۲.       قادری، محمد بن ادریس، ازالة الدهش، ص۳۷۔

۳.       البانی، محمد ناصرالدین، معجم اسامی الرواة الذین ترجم لهم الالبانی، ج۲، ص۷۳۔   

۴.       ابن‌ابی شیبه، عبدالله بن محمد، المصنف فی الاحادیث والآثار، ج۷، ص۴۳۲، ح۳۷۰۴۵۔   

۵.       سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، جامع الاحادیث (الجامع الصغیر وزوائده والجامع الکبیر)، ج۲۶، ص۳۹۵۔   

۶.       متقی هندی، علی بن حسام‌الدین، کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، ج۵، ص۶۵۱۔   

۷.       مالکی، حسن بن فرحان، قراءةٌ فی کتب العقائد المذهبُ الحنبلی نَموذجاً، ص۵۲، ناشر: مرکز الدراسات التاریخیة ـ عمان ـ المملکة الاردنیة الهاشمیة، الطبعة الاولی، ۱۴۲۱ھ ـ ۲۰۰۰ء۔

۸.       ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، ج۱، ص۴۶۹، ناشر:دار الرشید - سوریا، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۶ھ - ۱۹۸۶ء۔   

۹.       ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، ج۱، ص۳۷۳، ناشر:دار الرشید - سوریا، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۶ھ - ۱۹۸۶ء۔   

۱۰.     ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، ج۱، ص۲۲۲، ناشر:دار الرشید - سوریا، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۶ھ - ۱۹۸۶ء۔   

۱۱.     ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، ج۱، ص۱۰۴، ناشر:دار الرشید - سوریا، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۶ھ - ۱۹۸۶ء۔   

۱۲.     بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر، ج۲، ص۲۳۔   

۱۳.     ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج۱، ص۱۳۱۔   

۱۴.     ملا علی القاری، علی بن سلطان محمد، مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ج۸، ص۳۲۸۴۔   

۱۵.     ابن‌حزم ظاهری، علی بن احمد، المحلی، ج۸، ص۳۹۸۔   

۱۶.     هیثمی، علی بن ابی‌بکر، مجمع الزوائد، ج۷، ص۲۳۵۔   

۱۷.     ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینة دمشق، ج۴۲، ص۴۴۹۔   

۱۸.     خطیب بغدادی، ابوبکر، تاریخ بغداد، ج۱۶، ص۴۷۰۔   

۱۹.     ابن‌قتیبة دینوری، عبدالله بن مسلم، الامامة والسیاسة، ج۱، ص۹۸۔   

۲۰.     فخر رازی، محمد بن عمر، تفسیر الکبیر، ج۱، ص۱۰۸۔   

۲۱.     حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک، ج۳، ص۱۳۴، ح ۴۶۲۹۔   

۲۲.     بقره/سوره۲، آیه۲۵۶۔   

۲۳.     شعراء/سوره۲۶، آیه۳۔   

۲۴.     نور/سوره۲۴، آیه۵۴۔   

۲۵.     بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج۸، ص۱۶۸۔   

۲۶.     ابوالفداء، اسماعیل بن علی، المختصر فی اخبار البشر، ۱، ص۱۰۷۔

۲۷.     عصامی مکی، عبدالملک بن حسین، سمط النجوم العوالی فی انباء الاوائل والتوالی، ج۲، ص۳۳۲، ناشر:دار الکتب العلمیة - بیروت - ۱۴۱۹ھ - ۱۹۹۸ء۔   

۲۸.     طبری، احمد بن عبدالله، الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ج۲، ص۲۴۱۔   

۲۹.     یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۲۴، ناشر:دار صادر - بیروت۔   

۳۰.     ابن‌اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج۲، ص۸۴۔   

۳۱.     ابن‌اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج۱، ص۳۷۔   

۳۲.     ابن‌اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج۳، ص۲۲۲۔   

۳۳.     ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۲، ص۵۹۹۔   

۳۴.     مزی، یوسف بن زکی، تهذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۱، ناشر:مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۰ھ - ۱۹۸۰ء۔   

۳۵.     عسقلانی، احمد بن علی، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج۳، ص۵۶۔   

۳۶.     ابن‌قتیبة دینوری، عبدالله بن مسلم، الامامة والسیاسة، ج۱، ص۲۷۔   

۳۷.     طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۲، ص۲۲۲۔   

۳۸.     شیبانی، علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۱۹۲۔   

۳۹.     نویری، احمد بن عبدالوهاب، نهایة الارب فی فنون الادب، ج۱۹، ص۳۷۔   

۴۰.     حلبی، علی بن برهان‌الدین، السیرة الحلبیة فی سیرة الامین المامون، ج۳، ص۵۰۷، ناشر:دار الکتب العلمیة۔   

۴۱.     بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج۵، ص۱۳۹۔   

۴۲.     نیسابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۳۸۰، ح ۱۷۵۹، ناشر:دار احیاء التراث العربی - بیروت۔   

۴۳.     نیسابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۲، ص۱۰۰۷، ح ۱۳۸۶، ناشر:دار احیاء التراث العربی - بیروت۔   

۴۴.     ابن‌حزم ظاهری، علی بن احمد، المحلی، ج۹، ص۳۴۵۔   

۴۵.     ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام ووفیات المشاهیر والاعلام، ج۵، ص۲۶، تحقیق د. عمر عبد السلام تدمری۔   

۴۶.     ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، ج۱، ص۶۰۲، ناشر:دار الرشید - سوریا، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۶ھ - ۱۹۸۶ء۔   

۴۷.     ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، ج۱، ص۶۲۴، ناشر:دار الرشید - سوریا، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۶ھ - ۱۹۸۶ء۔   

۴۸.     ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقریب التهذیب، ج۱، ص۳۹۲، ناشر:دار الرشید - سوریا، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۶ھ - ۱۹۸۶ء۔   

۴۹.     البانی، محمد ناصر (متوفای۱۴۲۰ھ )، السلسلة الصحیحة (مختصره)، ج۵، ص۳۸۲، رقم ۲۳۰۴، ناشر:مکتبة المعارف - الریاض۔   





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی