2024 April 24
امام بخاری کا عجیب اور نہایت جاہلانہ فتوا گائے اور بکری کا دودھ پی کر ایک دوسرے کا محرم بنا
مندرجات: ٢٠٨٤ تاریخ اشاعت: ٢٥ October ٢٠٢٢ - ١٠:٣٥ مشاہدات: 2067
وھابی فتنہ » پبلک
امام بخاری کا عجیب اور نہایت جاہلانہ فتوا گائے اور بکری کا دودھ پی کر ایک دوسرے کا محرم بنا

گائے اور بکری کا دودھ پی کر ایک دوسرے کا محرم بنا

امام بخاری کا عجیب اور نہایت جاہلانہ فتوا

 

تعجب نہ کرئے : اگر کچھ بچے اور بچیاں ایک گائے یا بکری وغیرہ کا دودھ  پی لے تو وہ سب ایک دوسرے کے محرم اور رضائی بھائی بہن بن جائیں گے ۔ لہذا اس طرح محرم ہونے کا دائرہ بڑے گا اور بہت سے مرد اور عورت ایک دوسرے سے شادی نہیں کرسکیں گے ۔

شاید آپ کے لئے یہ تعجب کا باعث ہو اور آپ مفتی کو تلاش کرنے لگے  اور پھر اس کو شرعی احکام سے جاہل اور عقل سے عاری ایک انسان فرض کرئے ۔

 لیکن جب آپ کو یہ معلوم ہو کہ اس فتوے کا مفتی اھل سنت کی سب سے معتبر کتاب صحیح بخاری کے مصنف ، جناب محمّد بن إسماعيل بخارى  ہے  تو آپ اور زیادہ تعجب کرنے لگے ۔

اھل سنت کے معتبر علما کے اعتراف کے مطابق یہ فتوا انہیں کا ہے اور ایک حقیقت ہے ۔

اس فتوا کو حنفی مذھب کے معروف عالم سرخسى نے اپنی کتاب المبسوط میں نقل کیا ہے اور امام بخاری کی مخالفت  میں کہا ہے : اگر دو بچے ایک ساتھ ایک بکری یا  گائے کا دودھ پیے تو ان کے درمیان محرمیت پیدا نہیں ہوگی کیونکہ رضائی محرمیت میں حسب و نسب ضروری ہے اور انسان اور حیوان کے درمیان کوئی حسب و نسب نہیں ۔

امام سرخی آگے لکھتے ہیں : اسی فتوا کی وجہ سے امام بخاری کو بخارا سے ملک بدر کردیا.

 

ذرا سوچیں۔

کیا جانتے ہو مسلمانوں کے صحیح ترین حدیث کی کتاب کے مصنف کی طرف سے اس قسم کے فتوا مسلمانوں کے اعتقادات پر سخت ضربہ ہے  ؟

کیا اس قسم کے فتوا مسلمانوں کے تمسخر اور اسلام کے دشمنوں کا قرآن و سنت اور شریعت اور صاحب شریعت کے خلاف انگلی اٹھانے کا موجب نہیں ہوگا؟

 

عربي   متن

لبن البهيمة ينشر الحرمة ويوجب الأخوة

وأفتى محمد بن إسماعيل البخاري صاحب الصحيح بأن لبن البهيمة ينشر الحرمة ، فلو شرب اثنان أو أكثر من لبن شاة واحدة صاروا إخوة أو أخوات من الرضاعة.

قال السرخسي في المبسوط : ولو أن صبيين شربا من لبن شاة أو بقرة لم تثبت به حرمة الرضاع ، لأن الرضاع معتبر بالنسب ، وكما لا يتحقق النسب بين آدمي وبين البهائم فكذلك لا تثبت حرمة الرضاع بشرب لبن البهائم.

وكان محمد بن إسماعيل البخاري صاحب التاريخ رضي الله عنه يقول : تثبت الحرمة.

هذه المسألة كانت سبب إخراجه من بخارا ، فإنه قدم بخارا في زمن أبي حفص الكبير رحمه الله ، وجعل يفتي فنهاه أبو حفص رحمه الله ، وقال : لست بأهل له.

فلم ينته ، حتى سئل عن هذه المسألة فأفتى بالحرمة ، فاجتمع الناس وأخرجوه. المبسوط 30 / 297 ، 1 / 139

 

ایک معروف سائٹ پر اس سلسلے میں یہ سوال اور جواب اس سلسلے میں موجود ہے ۔۔

السؤال

ما هو تعليقكم عن هذه الرواية : أفتى محمد بن إسماعيل البخاري صاحب الصحيح بأن لبن البهيمة ينشر الحرمة ، فلو شرب اثنان أو أكثر من لبن شاة واحدة صاروا إخوة أو أخوات من الرضاعة قال السرخسي في المبسوط : ولو أن صبيّين شربا من لبن شاة أو بقرة لم تثبت به حرمة الرضاع ، لأن الرضاع معتبر بالنسب ، وكما لا يتحقق النسب بين آدمي وبين البهائم فكذلك لا تثبت حرمة الرضاع بشرب لبن البهائم. المبسوط 30|297 ، 1|139. فكيف أفتى الإمام البخاري بهذه الفتوى وهل تراجع عنها أم ماذا ؟؟

الإجابــة

الحمد لله والصلاة السلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
فقد ذكر هذه الرواية عن الإمام البخاري الإمام السرخسي في المبسوط 298/30 والإمام محمد بن محمد البابرتي صاحب العناية 3/457 والإمام كمال الدين بن الهمام في فتح القدير 3/462 ولا نعلم هل صحت هذه الفتوى عن البخاري أصلاً؟ وعلى افتراض أنها صدرت منه هل تراجع عنها أم لا؟
ومما لاشك فيه أن الإمام البخاري هو أمير المؤمنين في الحديث، ولا يقدح في علمه وفقهه ودرايته أن يكبو في مسألة، وهذا طبع البشر فما من عالم جليل القدر إلا وله زلة تُغمر في بحر حسناته، والمعصوم من عصمه الله تعالى، ورحم الله الإمام مالك حيث قال -وهو يشير إلى قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم- كل يؤخذ من قوله ويترك إلا صاحب هذا القبر.
والله أعلم.





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات