2024 March 29
امام حسين عليه السلام کی زیارت اربعین میں موجود اہم موضوعات اور پیغامات
مندرجات: ٢٠٦٦ تاریخ اشاعت: ٢١ August ٢٠٢٢ - ٠١:١٦ مشاہدات: 2227
یاداشتیں » پبلک
امام حسين عليه السلام کی زیارت اربعین میں موجود اہم موضوعات اور پیغامات

 

ماہ صفر کی ۲۰ تاریخ اربعين حسینی کے دن سے مشہور ہے ۔ شيخ مفيد اور شيخ طوسي کے قول کے مطابق اس دن امام حسين عليه السلام  کا لٹا ہوا کاروان اور خاندان شام  سے مدينه لوٹا اور اسی دن امام حسین علیہ السلام کے پہلے  زائر ،جناب جابربن عبدالله انصاري كربلا، میں امام عليه السلام کی زیارت کے لئے پہنچنے ۔دوسرے قول کے مطابق اسیران کربلا بھی اسی دن شام سے واپس کربلا پہنچے ۔

اربعین کے دن امام حسين عليه السلام  کی زيارت مستحب ہے اور امام حسن عسكري عليه السلام کے فرمان کے مطابق اربعین کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت مؤمن کی نشانیوں میں سے ایک ہے .

قال العسكري عليه السلام:

"علامات المؤمنين خمس : صلاةُ الاحدي و الخمسين و زيارةُ الاربعين والتـَختم في اليَمين و تـَعفيرُ الجـَبين و الجَهر ببسم الله الرحمن الرحيم."(1)

حضرت امام حسن عسكري عليه السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا :

مومن کی علامات پانچ ہیں :

1- دن اور رات میں ۵۱ رکعت نماز کا پڑھنا [17واجب اور 34 مستحب].

2- زيارت اربعين کا پڑھنا

3-  دائیں ہا تھ میں انگوٹھی پہننا.

4- سجدے میں پیشانی خاک پر رکھنا .

5- نماز میں بسم الله الرحمن الرحيم کو بلند آواز سے پڑھنا .

زيارت اربعين کی سند :

 یہ وہ زیارت ہے کہ جس شیخ طوسی نے اپنی دو کتابوں تہذیب الاحکام اور مصباح المتہجد میں صفوان جمال سے روایت کرتے ہوئے نقل کی ہے۔ صفوان جمال کہتے ہیں: میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے زیارت اربعین کے بارے میں مجھ سے فرمایا:

جب دن کا قابل توجہ حصہ چڑھ جائے تو زیارت اربعین کو پڑھو ،پھر زیارت کے بعد دو رکعت نماز بجا لاؤ اور جو حاجت چاہتے ہو، خداوند سے مانگو اور واپس چلے آؤ۔

  طوسی، تہذیب الاحکام، ج 6، ص 113   /        مصباح المتہجد، ص 787

ہم ذیل میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت اربعین میں موجود اہم نکات اور موضوعات کی طرف فہرست وار اشارہ کرتے ہیں ؛

 

زیارت کا پہلا حصہ :

امام حسین علیہ السلام کی صفات ۔

- السلامُ علي وَليِّ الله و حبيبه؛ اللہ کے ولی اور اللہ کے پیارے پر سلام ہو۔
السلامُ عـَلي خليلِ اللهِ وَ نجيبه؛ اللہ کے سچے دوست اور انتخاب کیے ہوئے پر سلام ہو۔
السلامُ علي صَفيِّ اللهِ و ابن ِ صَفيّـه؛ پسندیدہ اور اس کے پسندیدہ کے فرزند پر سلام ہو ۔
-
 السلامُ علي الحُسين ِ المظلوم الشهيد؛ حسین (ع) پر سلام ہو جو ستم دیدہ اور شہید ہیں ۔
السلامُ علي اسيرِ الكربات و قـَتيلِ العـَبرات؛ اس پر سلام ہو جو مشکلوں میں پڑے اور انکی شہادت پر آنسو بہے ۔

امام صادق علیہ السلام  زیارت کے شروع  میں ایک طرح سے امام حسین علیہ السلام کے خاندانی عظمت کے  کو بیان فرما رہے ہیں ،اس میں آپ فرماتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند ہیں ۔

اللہ کے بعض نبی ،خاص نام سے مشہور اور معروف ہیں مثلا حضرت ابراهيم(ع) ،خليل الله کے عنوان سے ، حضرت موسي(ع) ، كليم الله ، کے عنوان سے ، حضرت عيسي(ع)، كلمة الله کے عنوان سے ،حضرت نوح(ع) ، نبي الله کے عنوان سے ، حضرت آدم(ع) ، صفوة الله کے عنوان سے اور حضرت محمد(ص) ،حبيب الله کے عنوان سےمشہور ہیں ۔

لفظ سلام کے لئے مختلف معانی بیان کیے ہیں ہم مختصر طور پر ان معانی کو یہاں بیان کرتے ہیں۔

1- سلام، اللہ کے ناموں میں سے ایک ہے اور اس کا یہ معنی ہے کہ اللہ تمہارا محافظ ہے .

2- سلام یعنی تسلیم ہونا .

3- سلام یعنی سلامتی .

اب جب سلام کے معنی کا پتہ چلا تو ہم امام حسین علیہ السلام پر سلام کی تفسیر کرتے ہیں ۔ اب امام پر سلام اس طرح ہوگا کہ جو  امام کی قبر کے سامنے کھڑا ہو یا دور سے امام کی زیارت کرنے کا قصد کرتا ہے ۔ وہ امام پر سلام کرتا ہے اور اس کے دل میں یہ بات آتی ہے کہ اس کی طرف سے امام کو کسی قسم کا ضرر اور نقصان نہیں پہنچے گا، نہ اس وقت نہ اس کے بعد ،کیونکہ ان بزرگوں کا مقصد لوگوں کی ہدایت اور لوگوں کی اصلاح ، کلمہ توحید کی بلندی اور اللہ کی اطاعت کی طرف لوگوں کو بلانے کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں تھا ۔

لہذا اللہ کی نافرمانی ، اللہ کے اوامر اور نواہی سے روگردانی اور برئے اخلاق  مثلا تکبر لالچ، ريا، بخل، حّب قدرت، غيبت اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے جیسے کاموں سے  امام کو تکلیف ہوگی ۔ لہذا زائر کو چاہئے کہ وہ ایسی حالت میں رہے کہ امام اس سے راضی ہو اور امام کے لئے باعث تکلیف نہ ہو ، اگر ایسا کرئے تو وہ امام پر سلام کرنے میں سچا شمار ہوگا لہذا دل کو توبہ کے پانی سے دھوئے اور پشیمانی کے آنسو جاری کرئے ۔پھر جاکے امام کو سلام کرئے۔

  زائر گویا اپنے آپ کو معنوی اعتبار سے امام کے نذدیک کرتا ہے اور آدب کے الفاظ کا تکرار کرنے کے ذریعے امام سے اپنی روح و رواں کو نذدیک کرنے کے ذریعے سے اپنے آپ کو ناپاکی ، پستی،پلیدگی اور رذائل سے پاک کرتا ہے اور اس حد تک آدب ،خلوص اور گریہ و زاری کے ساتھ دل سے امام کو سلام کرتا ہے کہ مکمل سلامتی اور امام کی طرف سے جواب کا موجب بنتا ہے ۔

زائر اس طرح سلام کرنے کے زریعے سے اپنے اجتماعی اور سیاسی چہرے کو نمایاں کرتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم بھی امام کی طرح وقت کے طاغوت ، ظالم ،جابر اور خیانت کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے ذریعے سے اپنے آپ کو امام کے یار و انصار میں شامل کرتا ہے  ۔

 زیارت کا دوسرا حصہ  :

امام صادق عليه السلام کا امام حسين عليه السلام کی عظمت اور برتری کی گواہی ۔

اللهم اني اَشهَدُ أنـَّهُ وَليـُّكَ وَ ابنُ وَليِّك؛ خدایا میں گواهی دیتا هوں که وه تیرے دوست اور تیرے ولی کے فرزند ہیں ۔

 وَصَفيـُّكَ وَ ابنُ صَفيـِّك، الفائزُ بِكـَرامـَتـِك ؛ اور تیرے برگزیده اور برگزیده کے فرزند هیں

تیری کرامت پر فائز هیں ۔

اَكرَمتـَهُ بالشَّهادة ؛ تو نے ان کو شهادت کے ذریعه مکرم کیا هے.
و حَبوتـَهُ بالسـَّعادة ؛ اور ان کو سعادت سے مخصوص کیا هے.
-
 و اجتـَبـيتـَه بطيبِ الولادة ؛ اور ان کو منتخب کیا هے پاکیزگی ولادت کے ساتھ ۔

و جَعَلتـَه سيداً من السادة و قائِداً من القادة ؛ اور ان کو سردار بنایا هے سرداروں میں سے اور قائد بنایا هے قائدوں میں سے ۔

و ذائدً مِنَ الذادة اور اسلام سے دفاع کرنے والوں میں سے ایک بڑا دفاع کرنے والا بنایا هے ۔

و اَعطيتـَهُ مَواريثَ الانبياء اور تو نے ان کو انبیاء کی میراث عطا کی هے،

و جعلته حُجَة ًعلي خـَلقِك مِنَ الاوصِياء ؛ اور ان کو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا هے اوصیاء میں سے۔

فـَاَعذَرَ في الدُعاءِ وَ مَنَحَ النُصح ؛ تو انهوں نے بھی اتمام حجت سے تمام عذر کو دور کردیا اور امت کی نصیحت کو انجام دیا ۔

اس دنیا میں ھر کسی کو کسی چیز یا کام کی وجہ سے عزت ملتی ہے ۔امام صادق علیہ السلام نے اس حصے میں امام حسین علیہ السلام کی توصیف میں فرمایا کہ اے اللہ یہ آپ کے ولی اور آپ کے ولی کے فرزند ہیں ،یہ آپ کے برگزیده اور برگزیده کے فرزند هیں، یعنی آپ کے نذدیک ان کے تمام تر عزت اور احترام کے باجود آپ نے شہادت کے ذریعے ان کو عزت بخشی ۔

  اے اللہ آپ چاہتا تھا کہ شہادت کے زریعے سے انہیں عزت دی اور انہیں سعادت مند بنایا ۔
جبکہ یزید اور اس کے کارندے حقیقت میں دنیا کی تلاش میں تھے اور قدرت اور دنیوی مقام کے پیاسے تھے۔

لیکن امام حسین علیہ السلام دنیا اور دنیوی مقام کی چکر میں ہی نہیں تھے اور حکومت کو بھی دینی تعلیمات اور اسلام کے پرچم کو بلند کرنے اور عدالت قائم کرنے کے لئے چاہتے تھے۔لہذا اللہ نے انہیں شھادت کے ذریعے عزت دی ۔۔۔

امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان والوں کو دلخراش ترین لمحات سے گزرنے پڑے انتہائی درندگی، ظلم و بربریت کا سامنا کرنا پڑے ، اس جنایت اور ظلم کے سب سے واضح اور روشن چہرہ یہ تھا کہ یہ یہ ظلم معصوم امام پر ہوا ۔

شهيد مطهري(ره) اس سلسلے میں فرماتے ہیں: " میں نے ایک دفعہ نگاہ ڈالی اور غور کیا تو دیکھا اس میں مختلف قسم کے ۲۱ ایسے پست اور برئے کام انجام دیکھا کہ شاید دنیا میں کوئی ایسا  واقعہ رونما پوا ہو جس میں اس حد تک انواع و اقسام کے ظلم و پستی ہوں.(2)

اب ان سب کے باجود امام کو کرامت ،شرافت اور عزت سے نوازا گیا ۔

تیسرا حصہ :

قيام امام حسين عليه السلام کے اهداف۔

- و بَذلَ مُهجَتـَهُ فيكَ ليَستـَنقـِذَ عِبادكَ مِنَ الجَهالةِ وَ حَيرَةِ الضـَلالة َ؛ تیری خاطر اپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نادانی اورگمراہی کی پریشانیوں سے نجات دلائیں ۔

امام حسين عليه السلام نے مکہ سے نکلنے سے پہلے اپنے بھائی محمد حنفيه کو وصیت کے طور پر ایک خط لکھا اس میں آپ نے اپنے قیام کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : میں اپنے جد بزرگوار کے دین کی اصلاح اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے نکل رہا ہوں ۔

تاريخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ  امام حسين عليه السلام کے زمانے میں بہت سی بدعتیں ایجاد ہوئی تھیں دین میں بہت حد تک بگاڑ پیدا ہوا تھا ۔ امام نے قیام فرمایا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کی حفاظت کرسکے اور سالم اور خالص دین کو بعد کی نسلوں تک منتقل کرسکے۔

امام کے سامنے قیام کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں تھا اور آپ نے اس قیام کے زریعے اعلان کیا کہ حقیقی دین کو اغوا کیا گیا ہے اور موجودہ دین ایک تحریف شدہ دین ہے اسی تحریف کی وجہ سے خلفا نے لوگوں پر حکومت کے لئے جواز فراہم کیا ، یہ وہ دین نہیں جو میرے جد بزرگوار لے کر آئے تھے ۔ لہذا امام نے قیام فرمایا اور دین کے حقیقی پیغام کو  دنیا والوں کے کانوں تک پہنچایا ۔

چوتھا حصہ :

امام حسين عليه السلام کے قاتل کی معرفی

وَ قـَد تـَوازَرَ عـَلـَيه مَن غـَرَّته الدُنيا؛ جب کہ ان پر ان لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا۔

و باعَ حـَظـَّهُ بالاَرذَلِ الاَدني وشَري اخِرَتـَهُ بالثـَّمَنِ الاَوكـَس ِ؛ جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا ۔

و تـَغـَطرَسَ وتـَرَدّي في هواه؛ انہوں نے سر کشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے۔

و اَسخَطَكَ و اَسخَطَ نـَبيكَ ؛ انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی (ص) کو ناراض کیا ۔

و اَطاعَ مِن عِبادِكَ اهلَ الشـِّقاق ِ وَ النفاق؛ انہوں نے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو  شقی اور منافق تھے ۔

و حـَمـَلـَة َ الاوزارِ المـُستوجبينَ النار؛ یہ بندے اپنے گناہوں کا بوجھ لے کر جہنم کی طرف چلے گئے۔

فـَجاهدهُم فيكَ صابراً مُحتـَسـباً؛ پس حسین (ع) ان سے تیرے لیے لڑے جم کر ہوشمندی کیساتھ ،
حتي سُفـِكَ في طاعـَتِكَ دمه؛ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا

وَ استـُبيحَ حَريمَهُ ؛ اور انکے اہل حرم کی حرمت کو خیال نہیں رکھا۔

امام صادق عليه السلام نے اس حصے میں امام علیہ السلام کے قاتلوں کی معرفی فرمائی ۔۔۔۔

عمر بن سعد بن ابي وقاص کہ جس کا کربلا کے اس واقعے میں بہت بڑا کردار رہا ۔ اس کا بابا سعد ان لوگوں میں سے تھا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی سالوں میں مسلمان ہوئے اور دین کی راہ میں کافی مشکلات کا سامنا کیا ،ایران کو فتح کرنا اور کوفہ کی بنیاد اسی کے زریعے سی ہوئی ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے بہت سے  اصحاب کی طرح دنیا پرستی کا شکار ہوا اور امیر المومنین علیہ السلام کی بیعت نہیں کی اور تقریبا  55 يا 58 کو فوت ہوا  . عمربن سعد؛ اپنے باب کی وجہ سے معروف ہوا ،لیکن ایک دنیا پرست اور ایک بذدل انسان تھا ۔ روایات کے مطابق  رسول اكرم(ص) اور اميرالمؤمنين (ع) نے اس کی مذمت کی، اسی لئے اس کے والد بھی اس سے راضی نہیں تھا اور اس کو ارث پدری سے محروم کیا (3)

عمربن سعد کا کربلا کے واقعے میں بہت ہی بنیادی رہا کیونکہ اس جنگ کا اصلی سپہ سالار اور کمانڈر یہی تھا ۔ کربلا میں آنے سے پہلے اس کو ۴۰۰۰ہزار سپاہیوں کے ساتھ ایک شہر کو واپس لینے کے لئے روانہ کیا تھا اور ری کی حکومت بھی اس کے نام لکھ دی تھی۔

اسی طرح شمر بن ذی الجوشن بھی شروع میں امام علی علیہ السلام کے ساتھ معاویہ کے خلاف جنگوں میں شریک رہا (4)وہ امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ صفین میں شریک ہونے کے باوجود عاقبت بخیر نہ ہو سکا اور نفسیاتی اور فکری انحرافات کی وجہ سے امیرالمومنین علیہ السلام کے دشمنوں میں سے اور بنی امیہ کے طرفداروں میں سے ہوگیا۔

یہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے کچھ نمونے ہیں کہ جنہوں نے حب دنیا اور شیطانی وسوسوں کی وجہ سے پيامبر اكرم صلي الله عليه و آله کے فرزند سے جنگ کی اور انہیں شہید کردیا۔

تاریخی اور نقلی دلائل شاہد ہیں کہ دنیا پرستی اور منفعت طلبی کا کربلا کے واقعے میں بہت ہی بنیادی کردار ہے ، مشہور شاعر فرزدق کہتا ہے : من ساٹھ ہجری کو اپنی مان کے ساتھ حج کرنے کوفہ سےمکہ کی طرف نکلا اور امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے مجھ سے سوال کیا: کوفہ کی کیا حالت ہے ؟ میں نے جواب میں کہا : قلوب النّاس معك و سيوفهم مع بني اميّه و ...  لوگوں کے دلیں آپ کے ساتھ لیکن تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔...(5)

پھر امام حسین علیہ السلام نے اپنی گفتگو کے درمیان ارشاد فرمایا :

 "انّ النّاس عبيد الدّنيا و الدّين لعقٌ علي السنتهم يحوطونه مادرّت معائشهم فاذا محصوا باالبلاء قلّ الدّيّانون؛

لوگ دنیا کے غلام ہیں اور ظاہری طور پر اپنے آپ کو دیندار کہتے ہیں۔ جب تک ان کی زندگی کا سسٹم درست انداز میں چلتا رہے وہ(دین) کا دفاع کرتے ہیں لیکن جب انہیں آزمائش اور امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں ۔

طول تاریخ میں ہمیشہ دنیا پرستی اور قدرت طلبی لوگوں کے انحراف اور گمراہی کے اہم ترین عوامل میں سے رہی ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں میں سے بہت سے لوگ اسی بیماری میں مبتلاتھے ،دنیا کی غلامی اور ہوس پرستی کا شکار ہوئے تھے ۔لہذا جو اس سلسلے میں جو بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے خاص کر یزیدی لشکر کے کمانڈروں اور قبائل کے سرداروں کی دنیا پرستی اور قدرت طلبی نے کربلا کے واقعے میں بہت اہم کردار ادا کیا ، عمر سعد اور شمر جیسے لوگ یقینی طور پر امام حسین علیہ السلام کے مقام اور آپ کی حقانیت سے آگاہ تھے لیکن یہ لوگ دنیا اور قدرت کی حصول کی خاطر امام کے قتل پر راضی ہوئے ۔

 جیساکہ عامربن مجمع بعيدي نے  امام سے کہا : "امّا رؤساؤهم فقد اعظمت رشوتهم و ملئت غرائزهم؛  ان کے سرداروں کو خوب رشوت دی گئی ہیں اور ان کی جولیاں بھر دی ہیں لہذا یہ سب آپ کے خلاف ہیں ۔

قبائلی سرداروں کے علاوہ دشمن کے لشکر میں ایسے لوگ بھی تھے کہ جو امام کی حقانیت اور آپ کی مظلومیت سےآگاہ تھے لیکن دنیا اور بیوی ،بچوں کو ہاتھ سے دینے کی ڈر سے امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے ۔

اور یہ ایسے لوگ تھے جو نماز بھی پھڑتے تھے اور کلمہ شھادتین بھی زبان پر ادا کرتے تھے ، لیکن پیٹ اور دنیا کی خاطر ، مال اور بچوں کی خاطر اپنے نظریات کے خلاف امام سے جنگ کررہے تھے ۔

لہذا ابن زیاد کے اصحاب کی یہ جنگ  ایمان اور عقیدے کی جنگ نہیں تھی بلکہ اپنے ہی عقیدے سے اور خود اپنے آپ سے جنگ تھی، یعنی یہ ایسے لوگ تھے جو پیٹ کی خاطر اپنے ہی نظریات سے جنگ رہے تھے ۔ اسی لئے یہ لوگ ایسے کفار سے پست تر تھے کہ جو اپنے عقیدے کی راہ میں جنگ کرتے تھے ۔

عقاد نے اسی لئے میں کہا ہے : "

یزیدی لشکر والوں کی پستی کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ لوگ کربلا میں امام کی حقانیت اور احترام کے معتقد ہونے کی وجہ سے آمنے اور سامنے ہو کر امام کے مقابے میں آنے سے ڈرتے تھے لیکن آپ کی شہادت کے بعد امام اور ان کے گھر والوں کے لباسوں کو  بھی غارت کیے ہوئے مال سے رہے تھے  ۔ اب اگر یہ لوگ دین اور ان کے جد گرامی کی رسالت کے منکر بھی تھے پھر بھی ان کا یہ کام بہت ہی پست اور گرا ہوا کام تھا۔
البتہ اتنے عظیم واقعے اور ظلم بربریت کو صرف دنیا طلبی کے ساتھ جوڑنا صحیح نہیں ہے اگرچہ دنیا طلبی ہی بہت سے انسانوں کے انحراف کے اہم ترین اسباب میں سے ہے لیکن بعض دوسرے عوامل بھی اس واقعے میں دخیل ہیں ۔جیساکہ قتل و کشتار کی عادت کی وجہ سے انسان کی طبیعت اس خباثت سے اجین ہوجاتی ہے ، اسی طرح شہوات اور ہوس پرستی میں مگن رہنے کی وجہ سے  بھی مکمل غفلت کا شکار ہوکر ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔

جیساکہ  عقاد کہتے ہیں : "یہ مسخ شدہ ایسے بدشکل اور برئے لوگ تھے کہ جن کے دل انسانیت سے  کینے  سے برا ہوا تھا خاص کر ایسے انسانوں سے دشمنی کہ جو اخلاق اور نیک کردار کے مالک تھے ۔ لہذا اپنے سارے کینے کی وجہ سے ان پر کیا ۔لیکن اس کے صلے میں انہیں دنیا میں کچھ بھی انعام اور مال نہیں ملا ."(8)

لہذا کربلا میں دنیا نے یزید ،ابن زیاد ،عمر سعد اور شمر جیسے لوگوں کی آنکھوں پر پٹی لگائی تھی ۔ اسی لئے انتہائی بے دردی سے  پيغمبر صلي الله عليه وآله کے فرزند اور جناب فاطمه (س) کے نور چشم کو شہید کردیا ۔ اللہ کی لعنت ہوئے ایسے ظالم اور جابروں پر.

پانچواں حصہ :

شہدا کے سید و سالار سے درس عبرت لینا ۔

- اشهَدُ انـَّكَ اَمينُ الله وابنُ امينهِ؛  میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے آمین اور اللہ کے آمین کے فرزند ہیں ۔

- عِشتَ سَعيداً وَ مَضَيتَ حَميداً وَ متَّ فـَقيداً مـَظلوُماً شهيداً؛ آپ نیک بختی میں زندہ رہے قابل تعریف حال میں گزرے اور وفات پائی، وطن سے دور آپ ستم زدہ شہید ہیں

- و اشهـَدُ انَّ الله مـُنجـِزٌ ما وَعـَدَكَ ؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے جو آپ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کرئے گا .
-
و مُهلِكٌ مَن خـَذلـَكَ و مُعـَذبٌ مَن قتلكَ؛  اور اللہ اسکو تباہ کریگا وہ جس نے آپکا ساتھ چھوڑا اور اسکو عذاب دیگا جس نے آپکو قتل کیا
- و اشهـَدُ انـَّكَ وَفيتَ بِعَهدِ الله؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اللہ سے کیے اپنے وعدہ کے ساتھ وفا کیا ہے  .
-
و جاهـَدتَ في سـَبيلِهِ حتي اتيكَ اليـَقينُ ؛ آپ نے اسکی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہو گئے ۔

جو صورت حال آپ کی شخصیت کے پیش آٗئی ،آپ نے تمام انسانوں کے لئے بہت سے سبق آموش پہلو چھوڑے، ان میں سے بعض کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں ۔

 الف – شخصی اور ذاتی پہلو کے فضائل اور خصوصیات :

1- توحيد اور عرفان.
2- عبادت اوربندگي.
3- دنیا اور دنیا پرستی سے دوری .
4-  اللہ کی رضایت کے آگے سر تسلیم خم رہنا .
5- تمام الہی اور انسانی اقدار کی معرفت اور شناخت
6- شجاعت اور مردانگی .
7- سختیوں اور مشکلات کے سامنے صبر و استقامت.
8- عزّت نفس ۔
9- عفو  و درگزر .
10- موت اور شہادت سے نہ ڈرنا اور موت کا استقبال کرنا .

اس قسم کی دوسری خصوصیات اور فضائل دوسری کتابوں میں بھی نقل ہیں ۔

ب - اجتماعي  اور سياسي پہلو پر مشتمل فضائل اور خصوصیات

1- ايثار اور قربانی .
2- وفاداري.
3- مساوات [ امتیازی سلوک رکھنے سے دوری] .
4- عزّت سياسي.
5- امر به معروف  او نهي عن المنكر.
6- اکثریت میں ہونا حقیقی کامیابی کا معیار نہیں .
7- حقیقت کی راہ میں مصلحت اور مفادات کو قربان کرنا ؛

8- طاقت کا استعمال کرنے والوں اور ہمیشہ زور چلانے والوں سےمقابلہ اور ایسے لوگوں کی بیعت سے اجتناب ۔
9- حقیقی سیاست کا دین سے جدا نہ
ہونا ، جوش و جذبہ اور ولولہ و عرفان کا ایک ساتھ ہونا۔

مذکورہ پیغامات  اس واقعے کے پیغامات میں سے چند ایک ہیں اب جو لوگ ان چیزوں سے عبرت اور درس  حاصل کرئے اور امام علیہ السلام کے ساتھ ہماہنگ ہونے کی کوشش کرئے تو یقینا وہ اللہ کے نذدیک سرخرو ہوگا اور اسے عاقبت خیری نصیب ہوگی۔کیسے ممکن ہے انسان دنیا میں امام کے ساتھ ہم عقیدہ اور ہمسو  ہو، فردی ،اجتماعی اور سیاسی پہلوں سے امام کے راستے کے راہی ہو  لیکن قیامت کے دن مقام قرب ،اللہ کی رحمت اور مغفرت سے دور ہو ؟

یہ اصول ہے کہ قیامت کے دن کامیابی اور سعادت کا دارو مدار دنیا میں کامیابی اور سعادت کے ساتھ وابستہ ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ امام حسين عليه السلام کے ساتھ ہونا کتنا اہم کام ہے ۔لہذا انسان کو ایسے میں خضوع و خشوع کے ساتھ اللہ سے امام حسین علیہ السلام کے واسطہ دئے کرعزت اور مقبولیت کی دعا کرنی چاہئے ۔ 

چھٹا حصہ :

سید الشہدا امام حسين بن علي عليهما السلام سے عہد و پیمان

- اللهم انّي اُشهـِدُكَ اَنّي وَليٌ لِمَن والاهُ ؛ اے اللہ ! تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست ہوں۔

- و عـَدُوٌ لـِمَن عاداهُ ؛ اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں ۔  

- بِابي انتَ وَ اُمّي يابنَ رَسولِ الله ؛ میرے ماں باپ قربان آپ پر اے فرزند رسول خدا ۔

امام سے یہ عہد و پیمان اس حد تک اہم ہے کہ ہم حقیقت میں ان کے دوستوں کے ساتھ صلح کی حالت میں اور ان کے دشمنوں کے ساتھ جنگ اور محاربہ کی حالت میں ہیں۔

اس عہد و پیمان کا معنی یہ ہے کہ تمام مصائب اور مشکلات میں ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں اسی طرح تمام خوشیوں میں ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں ۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ صلح اور آرامش  کے وقت اهل بيت علیہم السلام کے ساتھ ہو لیکن جنگ و محاربه، کے وقت ان کے ساتھ نہ ہو۔ یا جنگ کے وقت ان کے ساتھ ہو لیکن صلح کے وقت ان کے ساتھ نہ ہو ۔

کیونکہ حقیقی شیعہ ہونے کا معنی تمام حالات میں ان کی پیروی کرنا ہے ،حقیقی پیروکار کی روح امام کے ساتھ ہماہنگ ہوتی ہے۔ لہذا امام کی صلح اس کی صلح ا، امام کی جنگ اس کی جنگ شمار ہوگی ،جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خامس آل عبا کو كساء کے نیچے قرار دئے کا دعا کہ

: "اللّهم انّ هؤلاء اهل بيتي و خاصّتي و حامّتي، لحمهم لحمي و دمهم دمي، يؤلمني ما يؤلمهم و يُحرجني ما يُحرجهم، انا حربٌ لمن حاربهم و سلمٌ لمن سالمهم و عدوٌّ لمن عاداهم و محبٌّ لمن احبّهم، انّهم مني و انا منهم... ؛

اے خدا! یقیناً یہ میرے اہل بیت(ع) ہیں، میرے خاص لوگ، اور میرے حامی،ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے، جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے ۔ جو ان سے لڑے میں بھی اس سے لڑوں گا جو ان سے صلح رکھے میں بھی اس سے صلح رکھوں گا، میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست  کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمت اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے اور ان کیلئے قرار دے، ان سے ناپاکی کو دور رکھ، انکو  اس طرح پاک کرئے جو پاک کرنے کا حق ہے(9)

نتیجہ : ہم اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ فکری ،عقیدتی اور عملی طور پر اس حد تک جوڑئے ہوئے ہوں کہ ان کے ساتھ صلح اور اچھا برتاو کرنے والوں سے ہماری بھی صلح ہو اور ان سے جنگ کرنے والوں سے ہماری بھی جنگ  ہو  ۔.

بابي انت و امّي : میری ماں اور باپ آپ پر فدا ہوں .

باء، "یہاں پر " تفديه (فدا اور قربان ہونے ) کے معنی میں ہے . یعنی میری ماں اور میرا باپ آپ پر فدا ہو ۔

یہ جمله "بابي انت و امي" حقیقت میں دعای تفديه ہے ،، اور اس کا معنی یہ ہے : اگر آپ کے اوپر کوئی مصیبت آئے تو اللہ میرے والدین کی جانوں کو آپ پر قربان کرئے او یہ امام کی عظمت اور جلالت کو بیان کرنے کے لئے ہے ۔ جیساکہ آج بھی ایسے الفاظ رائج ہیں کہ ہم کبھی کہتے ہیں: آپ پر قربان ہو ،آپ پر قربان جاوں جیسے الفاظ ۔۔۔ اس دور میں بھی یہ الفاظ احترام کے لئے استعمال ہوتے تھے ۔ لہذا اصل مقصود قربان ہونا نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے ایسے الفاظ کہتے وقت ماں باپ زندہ ہی نہ ہو ۔

دوسری جہت سے دیکھا جائے تو یہ لفظ زندوں کے بارے استعمال ہوتا ہے جبکہ ظاہری طور پر امام دنیا سے چلے گئے ہیں ۔

اب اس کا معنی یہ ہے اولا: ہماری نگاہ میں امام زندہ ہیں اور وہ بھی حیات ابدی۔

ثانیا :  ہم کبھی کسی دنیا سے گئے ہوئے شخص کے بارے میں بھی کہتے ہیں؛ اس پر قربان جاوں ، لہذا بابی و امی کا معنی یہ ہے آپ کا مقام اتنا بلند ہے کہ آگر میری ماں اور میرا باپ زندہ ہوتے تو میں انہیں آپ پر قربان کرتے ۔لہذا اس قسم کے استعمال میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

شاید اس کا ایک اور بلند معنی یہ بھی ہو گویا ہم امام سے اپنے قوی رابطے اور تعلق کو بیان کرنا چاہتے ہیں اور اس چیز کا اظہار کرتے ہیں کہ مولا آپ کی شہادت ایسا ہے گویا میں  اور میرے والدیں مرگئے ہوں ،یعنی جس وقت آپ شہید ہوئے اس وقت میں اور میرے والدین ہزار مرتبہ قتل ہوئے او زندہ ہوگئے جیساکہ خود امام نے فرمایا : اليوم مات جدّي رسول الله، آج میرے جد بزرگوار دنیا سے چلے گئے ،جبکہ آپ کے جد بزرگوار گئی سال پہلے دنیا سے چلے گئے تھے۔

لہذا اس کا واضح معنی یہ ہے کہ خدا پرست لوگ رضا اور غضب ،مرنے اور جینے ، خوشی اور  ناخوشی ، صلح اور جنگ کے اعتبار سے ایک ہی ہیں ۔

 ساتواں حصہ :

امام حسين عليه السلام کے خاندان کی اصالت ۔۔۔

 

ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاَصْلابِ الشَّامِخَۃِ، وَالْاَرْحامِ الْمُطَھَّرَۃِ،

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میں رہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں
-
لم تـُنَجـِّسك الجاهلية ُ بانجاسِها؛ جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست سے آلودہ نہ کیا۔

وَلَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَھِمَّاتُ مِنْ ثِیابِھا اور نہ ہی اس نے اپنے بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں ۔

- و اشهـَدُ انـَّكَ مِن دَعائم ِ الدّين ِ وَ اركان ِ المـُسلمين ومَعقــِلِ المـَؤمنين؛ گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں مسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں ۔
-
و اشهـَدُ انـَّكَ الامامُ البـِرُّ التـَّقي ِ الرَّضي الزَّكي ِالهادي المهدي ؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام (ع) ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ، پاکیزہ ،ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ ہیں۔

آٹھواں :

  امام حسين عليه السلام کے فرزندوں کی توصیف ۔۔۔

- و اشهـَدُ انَّ الائِمَة َ مِن وُلدِكَ كـَلِمَة ُ التـَّقوي ؛  میں گواهی دیتا هوں که ائمه آپ کی اولاد میں سے ہیں اور یہ  تقوی کی روح اور حقیقت هیں،

- و اعلامُ الهُدي وَ العـُروَة ُ الوثـقي وَ الحُجَّة ُعلي اَهلِ الدُّنيا؛ اور هدایت کی نشانیاں هیں اور مستحکم رشته ایمان اور دنیا پر حجت هیں ۔

دسواں حصہ :

اعتقادات شيعه

- و اشهـَدُ انّي بـِكُم مؤمِنٌ وَ بايابِكُم مُوقن بـِشرايع ِ ديني و خـَواتيم ِ عَمـَلي؛ میں گواهی دیتا هوں که میں آپ پر ایمان رکھنے والا اور آپ کی رجعت کا یقین رکهنے والا هوں اپنے دین کی شریعتوں اور عمل کے خاتمه کے ساته ۔

- وَ قـَلبي لـِقـَلبـِكـُم سـِلم ؛  اور میرا دل آپ کے سامنے سراپا تسلیم هے
-
و اَمري لامرِكـُم مـُتـَّبـِع وَ نُصرَتي لـَكُم مُعدَّة ، حتي ياذنَ اللهُ لـَكـُم ؛ اور میرا امر آپ کے امر کے تابع هے، اور میری مدد آپ کے لئے مهیا هے یهاں تک که خدا آپ کو اجازت دے ۔

 - فمعكم لا مع عدوكم؛

 تو هم آپ کے ساتھ هیں آپ کے دشمنوں کے ساتھ نهیں،

فراز دهم:

صلوات بر اهل بيت عليهم السلام

- صلواتُ اللهِ علـَيكـُم و علي ارواحِكـُم وَ اجسادِكُم؛ الله کا درود و سلام هو آپ لوگوں پر، آپ کی روحوں پر اور آپ کے جسموں پر،

- وَ شاهـِدِكـُم و غائبـِكـُم وَ ظاهـِرِكـُم و باطنكم؛  آپ کے ظاهر پر، آپ کے غائب پر اور آپ کے ظاهر اور آپ کے باطن پر۔

آمینَ رَبَّ الْعالَمینَ.

اے عالمین کے رب اس دعا کو قبول کرلے ۔

منابع ۔

1- مصباح المتهجد، شيخ طوسي، ص 730 .

2- حماسه حسيني، ج 3، ص 121.

3- سيد هاشم محلاتي، زندگاني امام حسين(ع)، ص 378.

4- تاريخ طبري، ج 6، ص 16.

5- مقتل مقرم، ص 206.

6- كشف الغمه، ج 2، ص 308.

7- حماسه حسيني، ج 3، ص 145.

8- همان، ص 49.

9- فاطمه زهرا(س) سيد محمدكاظم قزويني، ص 92، به نقل از عوالم الكبير.




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی