2024 April 24
ابن تيميه کا خاندان رسول خدا (ص) کی شان میں گستاخی
مندرجات: ١٩٣٥ تاریخ اشاعت: ٠٣ May ٢٠٢١ - ٠٢:٢١ مشاہدات: 5282
مضامین و مقالات » پبلک
ابن تيميه کا خاندان رسول خدا (ص) کی شان میں گستاخی

 

ناصبی اور ناصبی کا حکم

1  : ابن تيميه ، پيامبر اسلام صلي الله عليه وآله وسلم کے والد کو کافر سمجھتا تھا  :

 امير المؤمنین (عليه السلام) کی شان میں توھین :

 ابن تيميه کا  امير المؤمنين علیہ السلام کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال

   :  شراب والی آیت کا حضرت  امير المؤمنين علیہ السلام کے حق میں نازل ہونا :

    :  حضرت علی علیہ السلام کے قاتل ابن ملجم سے دفاع :

    : امير المؤمنين عليه السلام  کی جنگوں کے بارے میں ابن تیمیہ کی نظر :

 : حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی میں اصحاب کی طرف جھوٹی نسبت

  اھل سنت کی کتابیں مولا علی علیہ السلام کی تعلیمات سے خالی ہونے کی توجیہ

حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تکلیف پہنچانا

       : ابن تیمیہ اور امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل کا انکار

     : امير المؤمنين عليه السلام کے علمی مقام کا انکار  :

 حضرت علی علیہ السلام کے مقام قضاوت کا انکار  :

 4  : حضرت صدّيقه سلام اللّه عليہا کی شان میں گستاخی

 5. امام حسين (عليه السلام) کی شان میں گستاخی

 مقدمہ ۔۔

 

ابن تيميه کی برئ صفات میں سے ایک، پیغمبر صلي الله عليه وآله وسلم کے خاندان کے ساتھ علی الاعلان دشمنی اور ان کی مخالفت ہے اور وہ بھی خاص کر حضرت امير المؤمنين عليه السلام سے دشمنی کا اظہار . اس نے بہت سے موارد میں امير المؤمنين اور حضرت زهرا اور خاندان پیغمبر علیہم السلام کے افراد کی شان میں گساخی کی ہے ۔ہم ان میں سے کچھ موارد یہاں ذکر کریں گے۔

ناصبی اور ناصبی کا حکم

 اصلی بحث کو شروع کرنے سے پہلے « ناصبي » کا معنی اور ناصبی کے حکم کے بارے میں اهل سنت کے علماء کی نظر بیان کریں گے ،تاکہ بحث کے ضمن میں  یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ابن تیمیہ کو ناصبی کہنا صحیح ہے یا صحیح نہیں ہے  :

زبيدي نے تاج العروس میں لکھا ہے  :

النواصب ، والناصبية ، وأهل النصب : وهم المتدينون ببغضة سيدنا أمير المؤمنين ويعسوب المسلمين أبي الحسن علي بن أبي طالب ، رضي الله تعالي عنه وكرم وجهه ؛ لأنهم نصبوا له ، أي : عادوه .

تاج العروس ، ج2 ، ص436 ، ماده «نصب» .

نواصب ، ناصبية اور اهل نصب وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے دین کی بنیاد ہمارے مولا امیر المومنین، مسلمانوں کے بادشاہ ، ابو الحسن علي بن ابي طالب رضي الله عنه وكرم الله وجهه سے دشمنی پر رکھتا ہو ؛ کیونکہ یہ لوگ ان کی نسبت سے نصب رکھتے ہیں ؛ یعنی ان سے دشمنی رکھتے ہیں،

 ابن حجر عسقلاني لکھتے ہیں  :

والنصب، بغض علي وتقديم غيره عليه .

مقدمة فتح الباري ، ص460 .

علي سے دشمنی  اور ان کے غیر {معاویہ } کو  ان پر مقدم کرنا نصب اور ناصبیت ہے۔   

 حسن بن فرحان مالكي کہ جو  سعودی عرب کے مشہور علماء میں سے ہے ۔وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

النصب فهو كل انحراف عن علي واهل البيت سواء بلعنه أو تفسيقه ، كما كان يفعل بعض بني أمية أو بالتقليل من فضائله كما يفعل محبّوهم أو تضعيف الأحاديث الصحيحة في فضله أو عدم تصويبه في حروبه أو التشكيك في شرعيّة خلافته وبيعته أو المبالغة في مدح خصومه ، فهذا وأمثاله هو النصب .

نحو إنقاذ التاريخ الإسلامي ، ص 298، الناشر مؤسسة اليمامة الصحفيّة ، الاردن ، ط . 1418 هجرية .

 نصب ، علي اور اهل بيت علیہم السلام سے ھر قسم کے انحراف کا نام ہے ؛ چاہئے یہ ان پر لعن کرنے طور پر ہو یا انہیں فاسق جاننے کے ذریعے سے ہو – {وہی کام جو بعض  بني اميه والے انجام دیتے تھے} ۔  یا ان کے فضائل کو کم کر کے دکھانا– {وہی کام جو بنی امیہ سے محبت کرنے والے انجام دیتے ہیں} - يا ان کی شان میں موجود صحیح روايات کی تضعیف کرنا یا یہ نظریہ رکھتا ہو کہ حضرت علی علیہ السلام نے جنگوں میں{جنگ جمل ، جنگ صفین اور جنگ نہروان } میں غلطی کی ،  یا ان کی خلافت کے شرعی ہونے میں شک کرتا ، ان کی بیعت میں شک کرنا ،یا ان کے دشمنوں کی مدح و سرائی میں مبالغہ سے کام لیتا ۔ لہذا اس قسم کے موارد نصب شمار ہوتے ہیں۔

ناصبي کے حکم کے بارے میں اھل سنت کے بزرگ عالم  ابن حبان نے لکھا ہے :

أن رسول الله (صلي الله عليه وآله وسلم) قال : والذي نفسي بيده لا يبغضنا أهل البيت رجل إلا أدخله الله النار .

صحيح ابن حبان ، ج15 ص435 .

رسول خدا ( صلي الله عليه وآله وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،کوئی بھی ہم اھل بیت سے دشمنی کرئے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔   

حاكم نيشابوري نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے  :

هذا حديث صحيح علي شرط مسلم ولم يخرجاه .

المستدرك: ج3 ص162، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ط1 سنة 1990، دار الكتب العلمية - بيروت  

یہ روایت صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے  .

الباني کہ جو معاصر وھابی علماء میں سے ہے اس نے اس روایت کو السلسلہ الاحادیث الصحیحہ میں نقل کیا ہے  .

السلسلة ، ج5 ص643، مكتبة الم   عارف - الرياض .

بہت سی روایات کے مطابق جو بھی اهل بيت سے بغض دل میں رکھتا ہو اس کے حلال زادہ ہونے میں شک کرنا چاہئے ، جیساکہ حافظ حمويني نے  فرائد السمطين میں نقل کیا ہے  :

عن زيد بن يثيع قال سمعت أبا بكر الصديق يقول: قال: رأيت رسول اللّه (ص) خيّم خيمة وهو متكئ علي قوس عربيّة، وفي الخيمة علي وفاطمة والحسن والحسين فقال: «معشر المسلمين أنا سلم لمن سالم هل الخيمة، حرب لمن حاربهم، ولي لمن والاهم، لا يحبّهم إلاّ سعيد الجد طيب المولد، ولا يبغضهم إلاّ شقي الجد رديء المولد»، فقال رجل يازيد أ أنت سمعت منه؟ قال: أي وربّ الكعبة.

فرائد السمطين ، ج2 ، ص40 ، ح 373 و المناقب ، الخوارزمي ، ص 297 ، ح 291 (211) و جواهر المطالب ، محمد بن الدمشقي الشافعي ، ج1 ، ص174 .

زيد بن يثيع کہتا ہے کہ میں نے ابو بكر ، سے سنا ہے : ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک خیمہ لگایا ہوا تھا اور ایک عربی کمان پر تکیہ کیے ہوئے تھے، حضرت علي ، فاطمه اور حسنين عليهم السّلام خیمہ میں تھے  ، رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا  : اے مسلمانو ! میری اس سے صلح ہے جو خیمے میں موجود ان لوگوں سے حالت صلح میں ہو اور ان سے اچھے انداز میں پیش آئےاور میری اس سے جنگ ہے جو ان سے جنگ کرے ۔

جو ان سے محبت کرئے میں ان سے محبت کرتا ہوں ، ان سے محبت وہی کرئے گا  جس کا جد سعید اور اس کی ولادت طیب ہو اور جو ان سے دشمنی کرتا ہے اس کا جد بدبخت اور اس کا نطفہ ناپاک ہوگا ۔  

اسی طرح ابن مردويه لکھتا ہے :

عن عبد الله بن أحمد بن حنبل ، عن أحمد ، قال : سمعت الشافعي يقول : سمعت مالك بن أنس يقول : قال أنس بن مالك : ما كنا نعرف الرجل لغير أبيه إلا ببغض علي ابن أبي طالب .

مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) - أبي بكر أحمد بن موسي ابن مردويه الأصفهاني - ص 76 .

عبد الله بن احمد بن حنبل نے اپنے والد سے نقل کیا ہے  : میں نے امام شافعی سے سنا ہے  انہوں نے کہا : مالك بن أنس کو یہ کہتے سنا ہوں : أنس بن مالك کہتا تھا  : ہم کسی کو بھی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت نہیں دیتے تھے سوای اس کے کہ جو علي بن أبي طالب عليه السلام سے دل میں بغض رکھتا ہو .

يعني ان کے نذدیک حلال زاده یا حرام زاده ہونے کا معیار ، حب و بغض علي بن أبي طالب عليه السلام تھا . جو بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے محبت کرتا ہو وہ یقینا حلال زادہ ہے اور جو ان سے دشمنی کرتا ہو وہ یقینا حرام زادہ ہے ۔ اس سلسلے میں اھل سنت کے ہاں بہت سی روایات موجود ہیں لیکن ہم یہاں انہیں دو پر اکتفاء کرتے ہیں  .

اب ہم ابن تیمیہ کی ان باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اس نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، حضرت امیر المومنین ، جناب فاطمہ اور باقی ائمہ اھل بیت علیہم السلام کے بارے میں کہی ہیں ؛

1   ابن تيميه ، پيامبر اسلام صلي الله عليه وآله وسلم کے والد کو کافر سمجھتا تھا  :

مجموع الفتاوي میں وہ لکھتا ہے  :

التوسل بدعائه - اي النبي - وشفاعته ينفع مع الايمان به، واما بدون الايمان به فالكفار والمنافقون لا تغني عنهم شفاعه الشافعين في الاخره، ولهذا نهي عن الاستغفار لعمه وابيه وغيرهما من الكفار !.

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا سے توسل اور ان کی شفاعت اس صورت میں فائدہ مند ہے جب ان پر ایمان بھی رکھتا ہو ،ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہے ۔لہذا شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ،کافروں اور منافقوں کو  قیامت میں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے چچا اور والد اور دوسرے کفار کے لئے استغفار کرنے سے منع کیا ہے ؛

وہ آگے لکھتا ہے  :

وقد يدعو - اي النبي - لبعض الكفار بأن يهديه اللّه او يرزقه، فيهديه او يرزقه، كما دعا لأمّ أبي هريره حتي هداها اللّه ! . وكما دعا لدوس - قبيله ابي هريره - فقال: «اللهم اهد دوسا وائت بهم» فهداهم اللّه ! .

کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعض کفار کی ہدایت اور انہیں رزق دینے کے لئے دعا کرتے تھے ،جیساکہ ابوھریرہ کی ماں کی ہدایت کے لئے آپ نے دعا کی۔۔۔۔۔مجموع الفتاوي ، ج1 ، ص145 و التوسل والوسيلة ، ص 7.

  اب کیا ابوھریرہ کے والدین کا مقام پیغمر اسلام اور خاتم انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام سے زیادہ تھا ؟

ہم یہاں پر انبیاء کے والدین کے ایمان کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنا نہیں چاہتے، صرف مختصر انداز میں اس سلسلے میں بعض مطالب یہاں نقل کرتے ہیں؛

فخر رازي ، کہ جو اھل سنت کے مشھور مفسر ہیں ،آپ آذر کو جناب ابراھیم علیہ السلام کے والد نہیں سمجھتا اور اس کو جناب ابراہیم علیہ السلام کا چچا ہونے کے اثبات میں لکھتا ہے ؛

أن آباء الأنبياء ما كانوا كفارا ويدل عليه وجوه : منها قوله تعالي : * ( الذي يراك حين تقوم * وتقلبك في الساجدين ) * ( الشعراء : 218 ، 219 ) . قيل معناه : إنه كان ينقل روحه من ساجد إلي ساجد وبهذا التقدير : فالآية دالة علي أن جميع آباء محمد عليه السلام كانوا مسلمين .

تحقیقی بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے آباء و اجداد کافر نہیں تھے،اس سلسلے میں بہت سے دلائل موجود ہیں:انہیں دلائل میں سے ایک اللہ کا یہ کلام ہے ؛

 " جو آپ کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ قیام کرتے ہیں اور پھر سجدہ گزاروں کے درمیان آپ کا اٹھنا بیٹھنا بھی دیکھتا ہے " اس کے معنی میں یہ کہا گیا ہے کہ سجدہ کرنے والے کی روح سجدہ کرنے  والے میں منتقل ہوتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ لہذا  رسول خدا عليه السلام کے سارے اجداد مسلمان تھے  .

آگے لکھتا ہے  :

ومما يدل أيضا علي أن أحدا من آباء محمد عليه السلام ما كان من المشركين قوله عليه السلام : " لم أزل أنقل من أصلاب الطاهرين إلي أرحام الطاهرات " وقال تعالي : * ( إنما المشركون نجس ) * ( التوبة : 28 ) وذلك يوجب أن يقال : إن أحدا من أجداده ما كان من المشركين .

تفسير الرازي - الرازي - ج 13 - ص 39 .

ان دلائل میں سے ایک جن کے مطابق یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آباء و اجداد کا مشرک نہ ہونا ثابت ہوتا ہے،خود آپ کا یہ کلام ہے: میں ہمیشہ  پاک لوگوں کے صلب سے پاک عورتوں کے ارحام میں منتقل ہوتا رہا ؛ اللہ نے فرمایا ہے :" مشرک نجس ہے  ) اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ  : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آباء و اجداد سے کوئی بھی مشرک نہیں تھے ۔

  آلوسي نے بھی اس سلسلے میں لکھا ہے  :

  أنّه ليس في آباء النبي صلي اللّه عليه وسلّم كافر أصلا لقوله (ع) «لم أزل انقل من اصلاب الطاهرين الي ارحام الطاهرات». والمشركون نجس، وتخصيص الطهارة بالطهارة من السفاح لا دليل له يعول عليه والعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب. وقد ألّفوا في هذا المطلب الرسائل واستدلّوا له بما استدلوا والقول بأنّ ذلك قول الشيعة كما ادعاه الإمام الرازي ناشيء من قلّة التتبع .

تفسير الآلوسي ، ج7 ، ص195.

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد میں سے کوئی کافر نہیں تھے ؛ کیونکہ خود آپ نے فرمایا ہے  : میں ہمیشہ  پاک لوگوں کے صلب سے پاک عورتوں کے ارحام میں منتقل ہوتا رہا ؛ اللہ نے فرمایا ہے :" مشرک نجس ہے  ) ؛ اگر یہ کہے کہ یہاں پاک صلب اور پاک رحم سے مراد زنا سے پاک ہونا ہے تو اس باپ پر کوئی دلیل نہیں ہے ،یہاں پر جو چیز قابل توجہ ہے وہ اس لفظ کا اعم ( اصلاب پاک )  ہونا ہے ، یہاں خاص جہت مراد نہیں ہے ۔جیساکہ اس سلسلے میں بہت سے مقالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں اور بہت سے دلائل پیش کیے ہیں اب اس نظریے کو صرف شیعوں کا نظریہ کہا جائے تو { جیساکہ فخر رازی نے ادعا کیا ہے } تو یہ کم علمی اور عدم تحقیق کا نتیجہ ہے ۔

اس کے علاوہ  صالحي شامي نے سبل الهدي والرشاد میں لکھا ہے  :

وسئل القاضي أبو بكر بن العربي أحد الأئمة المالكية رحمه الله تعالي عن رجل قال : إن أبا النبي صلي الله عليه وسلم في النار . فأجاب : بأن من قال ذلك فهو ملعون لقوله تعالي : ( إن الذين يؤذون الله ورسوله لعنهم الله في الدنيا والآخرة ) قال ولا أذي أعظم من أن يقال عن أبيه : إنه في النار .

سبل الهدي والرشاد - الصالحي الشامي - ج 1 - ص 260 .

  قاضي ابو بكر بن عربي کہ جو ائمه مالكيه  میں سے ہیں ،ان سے کسی ایسے شخص کے بارے میں سوال ہوا کہ جو یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد جہنم میں ہے ، تو آپ نے کہا : جو اس طرح کہتا ہے وہ ملعون ہے" یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے !!! اس سے زیادہ آذیت کیا ہے کہ کسی سے کہے ؛ تیرا باپ جہنم میں ہے؟

یہ روایت ایسے شخص کے ملعون یا کافر ہونے کو ثابت کرتی ہے جو یہ کہتا ہے کہ رسول صلي الله عليه وآله وسلم کے والد کافر تھا  .

2. اھل بیت علیہم السلام کے فضائل کا انکار  :

ابن تيميه نے رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم کے خاندان کے فضائل کے انکار میں بہت حد تک بے حیائی اور زیادہ روی سے کام لیا ہے ،یہاں تک کہ اس نے اھل بیت علیہم السلام کی افضیلت اور ان کی دوسروں کی نسبت سے برتری کے نظریے کو جاھلی افکار کا نتیجہ کہا ہے :

إنّ فكرة تقديم آل الرسول هي من اثر الجاهليه في تقديم اهل بيت الروساء !!.

منهاج السنة ، ج 3 ، ص269.

آل رسول کے مقدم ہونے کی فکر جاھلیت کی فکر کا اثر ہے کیونکہ  عرب جاھلی دور میں عرب والے اپنے قبلیہ کے رئیس کے خاندان کو مقدم رکھتے تھے !

ایک اور جگہ پر لکھتا ہے  :

قالت الشيعه: لا تصلح الامامه الا في ولد علي . وقالت اليهود: لا يصلح الملك الا في آل داود !.

منهاج السنّة ، ج1 ، ص6.

شيعہ کہتے ہیں کہ امامت صرف  علي کی اولاد میں صحیح ہے ، يهودیوں نے کہا ہے کہ باد شاھت صرف آل داود میں صحیح ہے ۔

جبکہ ابن تیمیہ کا یہ انکار  ،اللہ کا انکار ہے کیونکہ اللہ نے قرآن کی بہت سی آیات میں انہیں دوسروں پر مقدم اور دوسروں پر برتری دی ہے ،

ہم یہاں ان میں سے چند آیات کی طرف مختصر انداز میں اشارہ کرتے ہیں :

:  اللہ نے قرآن مجید میں اپنے  18 انبیاء کے نام لینےکے بعد کہا ہے  :

وَ كُلاًّ فَضَّلْنَا عَليَ الْعَلَمِينَ وَ مِنْ ءَابَائهِمْ وَ ذُرِّيَّاتهِمْ وَ إِخْوَانهِمْ وَ اجْتَبَيْنَاهُمْ وَ هَدَيْنَاهُمْ إِليَ صرِاطٍ مُّسْتَقِيم . االأنعام / 86 و 87 .

و اور اسماعیل، یسع، یونس اور لوط اور سب کو عالمین پر فضیلت ہم نے عطا کی اور اسی طرح ان کے آبا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں کو بھی (فضیلت دی) اور ہم نے انہیں منتخب کر لیا اور ہم نے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

ہم ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں سے کہتے ہیں کہ ان آیات میں انبیاء کے خاندان کو برتری دینے اور ان کے چناو کی کیا دلیل تھی ؟ کیا یہ سب جاھلی افکار کا اثر ہے ؟  

 

 

  :  إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَي ءَادَمَ وَ نُوحًا وَ ءَالَ إِبْرَاهِيمَ وَ ءَالَ عِمْرَانَ عَليَ الْعَالَمِين آل عمران / 33 . بے شک اللہ نے حضرت آدم، حضرت نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر پر برتری دی ہے ۔

کیا اللہ کی طرف سے  «آل ابراهيم » اور «آل عمران» کو تمام جہان والوں پر برتری دینا یہود اور جاھلی افکار سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہے ؟  

جیساکہ ایک اور  آیت میں ہے  :

وَ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَ يَعْقُوبَ وَ جَعَلْنَا فيِ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتَابَ وَ ءَاتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فيِ الدُّنْيَا وَ إِنَّهُ فيِ الاَْخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِين . العنكبوت / 27 .

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی اور انہیں دنیا ہی میں اجر دے دیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے۔

کیا نبوت اور اللہ کی کتاب کو حضرت ابراهيم  علیہ السلام کی نسل میں قرار دینا اور انہیں دوسروں پر مقدم رکھنا ، جاھلی افکار کا نتیجہ ہے ؟  

اسی طرح جب اللہ حضرت ابراهيم عليه السلام سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے  :

  إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماما .

میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: ۔

حضرت ابراهيم نے فرمایا  :

  وَ مِنْ ذُرِّيَّتي . البقره / 124 .

اور میری اولاد سے بھی{کوئی اس مقام کو پاسکے گا }؟

اب کیا حضرت ابراهيم علیہ السلام کی یہ درخواست  ، جاھلی افكار اور عقائد يا يهودي افکار کا نتیجہ ہے اور وہ بھی ایسی قوم یہود کہ جو حضرت ابراهيم عليه السلام کے کئی صدی بعد میں میں آئی ؟

  اب شیعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھل بیت کو دوسروں پر مقدم رکھتے ہیں اور امامت و خلافت کو انہیں سے مخصوص سمجھتے ہیں تو یہ بھی قرآن اور  خود آنحضرت  صلي الله عليه وآله وسلم کے فرامین سے آخذ شدہ نظریہ ہے، یعنی حقیقت میں اللہ تعالی نے ان ہستیوں کو دوسروں سے مقدم رکھا ہے اور انہیں دوسروں پر برتری دی ہے ؛جیساکہ اس سلسلے میں بہت سی آیات موجود ہیں؛

آيه مباهله :

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَي الْكَاذِبِينَ . آل عمران / 61 .

آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہہ دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیںاور تم اپنی عورتوں کوبلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوںفریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔.

مباهله کا واقعہ اهل سنت کے بہت سے صحاح اور مسانيد میں معتبر سند کے ساتھ موجود ہے انہیں میں سے ایک ،مسلم نیشاپوری ہے  :

وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ « فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ » دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي .

صحيح مسلم ، ج7 ، ص120 ط. محمد علي صبيح ، بمصر ، ودار الفكر ـ بيروت ، (5/23 ح32) ، كتاب فضائل الصحابة ، باب فضائل علي رضي اللّه عنه و مسند أحمد ، ج1 ، ص185 و صحيح الترمذي ، ج5 ، ص596 و المستدرك علي الصحيحين ، ج3 ، ص150 و فتح الباري ، ج7 ، ص60 و تفسير الطبري ، ج3 ، ص212 و الدر المنثور ، ج2 ، ص38 و الكامل في التاريخ ، ج2 ، ص293 .

جب یہ آیت نازل ہوئی  نازل ہوئی " آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ،  ... تو  رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے حضرت علي ، فاطمه ، حسن اور حسين کو بلایا اور فرمایا : اے اللہ! یہی  میرے گھر والے ہیں  .

ابن كثير دمشقي سلفي  لکھتا ہے  :

قال جابر " أنفسنا وأنفسكم " رسول الله صلي الله عليه وسلم وعلي بن أبي طالب " وأبناءنا " الحسن والحسين " ونساءنا " فاطمة . وهكذا رواه الحاكم في مستدركه عن علي بن عيسي عن أحمد بن محمد بن الأزهري عن علي بن حجر عن علي بن مسهر عن داود بن أبي هند به بمعناه . ثم قال : صحيح علي شرط مسلم ولم يخرجاه هكذا .

تفسير ابن كثير - ابن كثير - ج 1 - ص 379 .

جابر نے کہا ہے  : "اپنے نفسوں  سے " سے مراد یہاں رسول خدا صلي الله عليه وسلم اور علي ابن ابی طالب ہیں " اور بیٹوں سے مراد  " حسن اور حسين ہیں  " عورتوں سے مراد یہاں" فاطمه ہیں ؛ اسی طرح کی ایک اور روایت کو حاکم نیشاپوری نے علي بن عيسي سے ،انہوں نے احمد بن محمد بن الازهري سے ، انہوں نے  علي بن حجر سے ،انہوں نے علي بن مسهر سے ،انہوں نے داود بن ابي هند سے اسی مضمون کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

اس کے بعد حاکم کہتے ہیں : یہ روایت صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن بخاری اور مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کی حقانیت اور صداقت کو ثابت کرنے کے لئے اھل بیت علیہم السلام کا انتخاب کیا ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اللہ کے حکم کے بغیر تو یہ کام انجام نہیں دیتے۔

آيه تطهير :

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا . الأحزاب / 33 .

بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیہم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

مسلم نيشابوري نے نے صحيح مسلم میں لکھا ہے  :

قَالَتْ عَائِشَةُ خَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْر أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا .صحيح مسلم ، ج7 ، ص130 ، ح 6414 ، كتاب الفضائل، باب فضائل أهل البيت .

   عائشہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم صبح کو نکلے اور آپ  ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کالے بالوں کی کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں ، اتنے میں حسن علیہ السلام  آئے، آپ  نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا، پھر حسین علیہ السلام  آئے، آُ نے ان کو بھی چادر کے اندر بٹھایا، پھر جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام  آئیں ان کو بھی چادر میں داخل کر لیا، پھر علی علیہ السلام  آئے ان کو بھی چادر کے اندر داخل کردیا  اور پھر  فرمایا: ” «إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا» (٣٣-الأحزاب: ۳۳یعنی اللہ تعالیٰ جل جلالہ چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے ناپاکی کو اور پاک کرے تم کو اے گھر والو!۔

 

۔۔۔جیساکہ اس آیت کی شان نزول کے بارے میں سب نے یہی کہا ہے کہ یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔۔

 

 آيه صلوات :

 

 إِنَّ اللَّهَ وَ مَلَـلـِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَي النَّبِيِّ يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيمًا ). الأحزاب / 56 .

بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو ۔

مذکورہ آیت کے نزول کے بعد اصحاب نے ،رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم سے سوال کیا ؛ ہم کس طرح ان پر درود بھیجیں ؟ آپ  نے فرمایا :

قولو اللهم صل علي محمد وعلي آل محمد كما صليت علي ابراهيم وعلي آل ابراهيم، وبارك علي محمد وعلي آل محمد كما باركت علي ابراهيم وعلي آل ابراهيم .

کہو: اے اللہ ! حضرت محمد اور ان کے آل پر اسی طرح درود بھیجے جس  طرح آپ نے حضرت ابراهيم  اور ان کے آل پر درود بھیجا، محمد اور ان کے آل پر برکت نازل کرئے جس طرح آپ نے جناب ابراھیم  اور ان کے آل پر برکت نازل فرمائی ۔

جیساکہ  محمد بن اسماعيل بخاري نے صحیح بخاری میں لکھا ہے  :

عن عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَي، قَالَ لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فَقَالَ أَلاَ أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ، صلي الله عليه وسلم فَقُلْتُ بَلَي، فَأَهْدِهَا لِي. فَقَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ. قَالَ " قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَي مُحَمَّد، وَعَلَي آلِ مُحَمَّد، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَي إِبْرَاهِيمَ وَعَلَي آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَي مُحَمَّد، وَعَلَي آلِ مُحَمَّد، كَمَا بَارَكْتَ عَلَي إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَي آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .

صحيح البخاري ، ج4 ، ص119 ، ح 3405 ، كتاب بدء الخلق .

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ کعب بن عجرہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کیوں نہ تمہیں (حدیث کاایک تحفہ پہنچا دوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا تھا۔ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے یہ تحفہ ضرور عنایت فرمائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت سے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر کس طرح درود بھیجیں؟ اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو «اللهم صل على محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك حميد مجيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم بارك على محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما باركت على إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك حميد مجيد‏"‏‏.‏» اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی، ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔.

آيه مودت :

قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيهِ أَجْرَاً إِلاّ المَوَدَّةَ فِي القُرْبَي . الشوري / 23.

تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدرداں ہے۔

یہ آیت اھل بیت کے پاکیزہ خاندان سے محبت کو واجب قرار دیتی ہے جیساکہ اھل سنت کے بہت سے علماء نے اس کا اعتراف کیا ہے ؛

شيخ حسن بن علي السقاف نے « صحيح شرح العقيدة الطحاوية » میں لکھا ہے:

محبة آل بيت رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم فريضة عقائدية من الله تعالي علي كل مسلم ومؤمن ، والدليل عليها من القرآن قوله تعالي ( قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربي ) الشوري : 23 . والدليل علي تفضيل الله لهم قوله تعالي ( إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ) الأحزاب : 33 .

صحيح شرح العقيدة الطحاوية - حسن بن علي السقاف - ص 653

رسول خدا صلي الله عليه وسلم ، کے اهل بيت سے محبت واجب ہے اور یہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے  اور یہ اللہ کی طرف سے ھر مسلمان اور مئومن کے لئے ضروری ہے۔ اس مطلب پر دلیل اللہ کا ہی کلام ہے  " آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو " اور ان کو باقیوں پر فضیلت اور برتری دینے پر دلیل اللہ کا یہ قول ہے  : بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیہم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔."

آگے لکھتے ہیں :

والمراد بالأخذ بآل البيت والتمسك بهم هو محبتهم والمحافظة علي حرمتهم والتأدب معهم والاهتداء بهديهم وسيرتهم والعمل برواياتهم والاعتماد علي رأيهم ومقالتهم واجتهادهم وتقديمهم في ذلك علي غيرهم .

صحيح شرح العقيدة الطحاوية - حسن بن علي السقاف - ص 654 .

اھل بیت کو پکڑے رہنے اور ان سے تمسک کا معنی ان سے محبت اور کے احترام کا خیال رکھنا ہے ۔اسی طرح اس کا معنی ان کی ہدایت کے مطابق چلنا ، ان کی سیرت اور تعلیمات کے مطابق عمل کرنا ، ان کے کلام اور ان کے نظریات کے مطابق ان کو دوسروں پر مقدم رکھنا ہے ۔ان کے اجتھاد کو دوسروں پر مقدم رکھنا، ان مسائل میں ان کو دوسروں پر ترجیح دینا ہے ۔  .

« ذوي القربي » اور اھل بیت سے مراد کون ہے ؟ وہ اس سلسلے میں لکھتا  :

وأهل البيت هم سيدنا علي والسيدة فاطمة وسيدنا الحسن وسيدنا الحسين عليهم السلام وذريتهم من بعدهم ومن تناسل منهم للحديث الصحيح الذي نص النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيه علي ذلك ، ففي الحديث الصحيح : [ نزلت هذه الآية علي النبي صلي الله عليه وسلم ( إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ) في بيت أم سلمة ، فدعا النبي صلي الله عليه وسلم فاطمة وحسنا وحسينا فجللهم بكساء وعلي خلف ظهره فجلله بكساء ثم قال : " اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا " . قالت أم سلمة : وأنا معهم يا نبي الله ؟ قال : " أنت علي مكانك وأنت إلي خير " . هذا لفظ الترمذي ( 5 / 663 برقم 3787 ) من حديث عمرو بن أبي سلمة ، وهو في " صحيح مسلم " ( 4 / 1883 برقم 2424 ) من حديث السيدة عائشة .

صحيح شرح العقيدة الطحاوية - حسن بن علي السقاف - ص 655 .

ان کے اهل بيت سے مراد ، ہمارے سردار علی ، عورتوں کی سردار  فاطمه ، ہمارے سید و سردار حسن حسين عليهم السلام ؛ اور ان کے بعد ان کی نسل مراد ہیں جو بھی ان کی نسل سے ہو۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس سلسلے میں واضح حدیث موجود ہے اور صحیح سند روایت میں آیا ہےکہ یہ آیت " إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ) جس وقت أم سلمة کے گھر میں رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و السلام پر نازل ہوئی ۔  تو اس وقت آپ نے جناب فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین علیہہم السلام کو بلایا اور ان کے اوپر ایک چادر ڈال دی اور حضرت علی علیہ السلام آپ کے پیچھے تھے اور آپ نے عباء کو ان کے اوپر بھی ڈال دی اور یہ فرمایا : اے اللہ میرے اہل بیت یہی لوگ ہیں ۔آپ ان سے ناپاکی کو دور کرئے اور انہیں پاک کر دئے ۔ ام سلمہ کہتی ہے : یا رسول اللہ کیا ہم بھی ان میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا : نہیں؛آپ اپنی جگہ پر رہے ، آپ خیر پر ہے { یعنی آپ اھل بیت میں سے نہیں ہے لیکن آپ کا خاص مقام ہے ۔}جیساکہ جو روایت  ترمذی میں عمرو بن  ابی سلمہ سے نقل ہوئی ہے ۔یہی روایت مسلم میں عائشہ نے نقل ہوئی ہے ۔

اب کیا پھر بھی ابن تیمیہ یہی کہے گا کہ یہ جاھلی افکار کا نتیجہ ہے اور یہ یہودی افکار میں سے ہے ؟کیا اللہ اور اللہ کے رسول نعوذ باللہ جاھلی افکار کی ترویج کرنے والے تھے ؟ کیا یہ اللہ پر اعتراض نہیں ہے ؟

حديث سفينة  کا انکار :

اهل بيت طاهرين عليهم السلام کی شان میں موجود ایک معروف اور مشھور حدیث "حدیث سفینہ" ہے۔

مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي كَمَثَلِ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا ، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ ۔۔

لیکن ابن تیمیہ اور اس کے ہمفکر لوگ اس حدیث کے انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ابن تیمیہ منهاج السنة میں لکھتا ہے  :

وأما قوله مثل أهل بيتي مثل سفينة نوح فهذا لا يعرف له إسناد لا صحيح ولا هو في شيء من كتب الحديث التي يعتمد عليها فإن كان قد رواه مثل من يروي أمثاله من حطاب الليل الذين يروون الموضوعات فهذا ما يزيده وهنا.

منهاج السنّة ، ج7 ، ص 395 .

رسول خدا کی حدیث : میرے اھل بیت کی مثال جناب نوح کے کشتی کی مثل ہے ۔۔۔۔۔ کی کوئی ایسی سند نہیں ہے کہ جو صحیح ہو یا حدیث کی کسی قابل اعتماد کتاب میں یہ نقل ہو ۔ جس نے بھی اس کو نقل کیا ہے وہ ایسے لوگوں کی طرح ہے جو  جو  ادھی رات کو لکڑیا جمع کرتے ہیں {جھوٹا ہونے کی طرف اشارہ }، ایسے لوگوں کی طرف سے اس روایت کو نقل کرنا اس روایت کی کمزوری کو بیان کرتا ہے .

ابن تیمیہ کے اس بیان کے خلاف  بہت سے حدیث نقل کرنے والوں نے اس کو نقل کیا ہے  ، جیسے  : 1. أمير المؤمنين ؛ 2. أبو ذر ؛ 3. عبدالله بن عباس ؛ 4. أبو سعيد خدري ؛ 5. أبو الطفيل ؛ 6. أنس بن مالك ؛ 7. عبدالله بن الزبير ؛ 8 . سلمة بن الأكوع و ...

اهل سنت کے بہت سے علماء نے اس روایت کو  اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے مثلا ، 1. أحمد بن حنبل ؛ 2. بزّار ؛ 3 . أبو يعلي ؛ 4. ابن جرير طبري ؛ 5 . نسائي ؛ 6. طبراني ؛ 7 . دارقطني ؛ 8 . حاكم نيشابوري ؛ 9 . ابن مردويه ؛ 10. أبو نعيم إصفهاني ؛ 11. خطيب بغدادي ؛ 12 أبو مظفّر سمعاني ؛ 13. ابن اثير ؛ 14 . محب الطبري ؛ 15 . ذهبي ؛ 16 . ابن حجر عسقلاني ؛ 17 . سخاوي ؛ 18 . سيوطي ؛ 19 . ابن حجر مكّي ؛ 20 . متقي هندي ؛ 21 . شيخ علي قاري ؛ 22 . منّاوي و ...

اگر ابن تیمیہ کے بقول یہ لوگ  «حطاب الليل = آدھی رات کو لکڑیاں جمع کرنے والے ہیں » تو ہم بھی اس کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں.

3 . امير المؤمنین (عليه السلام) کی شان میں توھین :

ابن حجر عسقلاني ، کہ جو علم حديث اور علم رجال میں اھل سنت کے بہت بڑے عالم ہیں اور انہیں « حافظ » ( علم رجال کا سب سے بڑا مرتبہ ) کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ،انہوں نے اپنی کتاب لسان الميزان {کہ جو اھل سنت کے اہم ترین رجالی کتاب ہے } ، میں لکھتا ہے :

وكم من مبالغة لتوهين كلام الرافضي أدّته أحياناً إلي تنقيص عليّ رضي اللّه عنه

لسان الميزان ، ج 6 ، ص319.

ابن تيميّه ، نے  علاّمه حلّي کو جواب دیتے ہوئے زیادہ روی سے کام لیا ہے اور ان کو رد کرتے کرتے علي بن ابي طالب (عليه السلام) کی بھی تنقیص کر بیٹھا ہے  .

اس حد تک ابن تیمیہ نے امير المؤمنین (عليه السلام) کی شان میں گستاخی کی ہے کہ ابن حجر عسقلاني اپنی کتاب "الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة ، ج 1 ، ص155 " میں لکھتا ہے  :

وقال ابن تيميّة في حقّ عليّ: أخطأ في سبعة عشر شيئاً، ثمّ خالف فيها نصّ الكتاب ...

علي (نستجير باللّه) نے 17 ایسی غلطیاں  کی ہیں کہ جن میں قرآنی نص کی مخالفت ہوئی ہے ۔

اسی طرح ابن حجر لکھتا ہے  :

وافترق الناس فيه شيعاً ، فمنهم من نسبه إلي التجسيم ، لما ذكر في العقيدة الحمويّة والواسطيّة وغيرهما من ذلك كقوله : "إنّ اليد والقدم والساق والوجه صفات حقيقيةّ للّه، وأنّه مستو علي العرش بذاته ".

اهل سنت کے بزرگ علماء  « ابن تيميّه » کے بارے میں مختلف نظریہ رکھتے ہیں : بعض کہتے ہیں وہ  تجسيم کے قائل تھا اور اس الزام کی وجہ اس کی اپنی کتاب« العقيدة الحمويّة » میں اللہ تعالی کے لئے  ہاتھ ، پاوں ،پنڈلی اور چہرہ وغیرہ ہونے کا خیال کرنا ہے۔

یہاں تک کہ ابن حجر لکھتا ہے  :

ومنهم من ينسبه إلي الزندقة ، لقوله : النبيّ ( صلّي اللّه عليه وسلّم ) لا يستغاث به ، وأنّ في ذلك تنقيصاً ومنعاً من تعظيم النبيّ ( صلّي اللّه عليه وسلّم ) .

بعض نے  رسول اكرم (صلي الله عليه وآله وسلم) سے استغاثہ اور توسل کرنے کی مخالفت کی وجہ سے اس کو زندیق اور بے دین کہا ہے، کیونکہ یہ حقیقت میں مقام نبوت اور نبی کی تنقیص اور ان کی عظمت کی مخالفت شمار ہوتا ہے ۔

1  :  ابن حجر اگے لکھتا ہے  :

ومنهم من ينسبه إلي النفاق، لقوله في عليّ ما تقدّم - أي أنّه أخطأ في سبعة عشر شيئاً - ولقوله: إنّه - أي عليّ - كان مخذولاً حيثما توجّه ، وأنّه حاول الخلافة مراراً فلم ينلها ، وإنّما قاتل للرئاسة لا للديانة ، ولقوله: إنّه كان يحبّ الرئاسة، ولقوله: أسلم أبو بكر شيخاً يدري ما يقول، وعليّ أسلم صبيّاً ، والصبيّ لا يصحّ إسلامه ، وبكلامه في قصّة خطبة بنت أبي جهل ... فإنّه شنع في ذلك ، فألزموه بالنفاق ، لقوله صلّي اللّه عليه وسلّم : ولا يبغضك إلاّ منافق .

بعض نے امير المؤمنین (عليه السلام) کے بارے میں اس کے ناروا اور نازیبا الفاظ کی وجہ سے اس کو  منافق کہا ہے  .

کیونکہ اس نے کہا ہے  : علي بن أبي طالب نے ۱۷ غلطیاں کی ہیں،انہوں نے بہت مرتبہ خلافت پر قبضہ جمانے کے لئے کوشش کی، لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی ،ان کی جنگ دین کے لئے نہیں تھی بلکہ ریاست طلبی کے لئے تھی اور آپ مقام اور ریاست کو چاہتا تھا ، ابوبکر کا اسلام لانا علی کے اسلام لانے سے زیادہ مھم تھا کیونکہ ابوبکر بڑا تھا وہ سمجھتا تھا لیکن حضرت علی علیہ السلام بچہ تھا اور بچے کا اسلام صحیح نہیں ہوتا اور اسی طرح ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ طلب کرنے کی وجہ سے بھی ان پر اعتراض کیا ہے۔۔۔

« ابن تيميّه » کہ یہ ساری باتیں نفاق کی نشانی ہیں ؛ کیونکہ پيامبر گرامي (صلي الله عليه وآله وسلم) نے حضرت علي (عليه السلام) سے فرمایا ہے  : منافق کے علاوہ کوئی آپ سے دشمنی نہیں کرتا ۔

اب یہ کسی شیعہ عالم کی باتیں نہیں ہیں ؛ بلکہ یہ ابن حجر عسقلاني کی باتیں ہیں کہ جو  شیعوں کی مخالفت میں خاص تعصب سے کام لیتا ہے ۔۔

2 : ابن تيميه کا  امير المؤمنين علیہ السلام کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال  :

 

 أمّا أهل السنة فأصلهم مستقيم مطرد في هذا الباب وأما أنتم فمتناقضون وذلك أن النواصب من الخوارج وغيرهم الذين يكفرون عليا أو يفسقونه أو يشكون في عدالته من المعتزلة والمروانية وغيرهم لو قالوا لكم ما الدليل علي إيمان علي وإمامته وعدله لم يكن لكم حجة .

اھل سنت کا طریقہ کار اس سلسلے میں مستقیم اور صحیح ہے ؛ لیکن تم (شیعہ حضرات) آپس میں تناقض کا شکار ہو ۔اسی لئے خوارج میں سے نواصب اور دوسرے کہ جو علی علیہ السلام کو کافر اور فاسق سمجھتے ہیں اور معتزلہ اور مروانیوں میں سے جو لوگ ان کی عدالت میں شک کرتے ہیں ؛ اگر یہ لوگ تم لوگوں سے کہے کہ علی کے ایمان ،امامت اور عدالت پر دلیل لے آئے تو تم لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگا ۔

ابن تیمیہ کہ یہ باتیں اس شخصیت سے واضح دشمنی کی علامت ہے کہ جس کے بارے میں قرآن نے انہیں «مؤمن» اور «ولي» اور لوگوں کا سرپرست کہا ہے. اللہ نے سوره مائده آيه 55 میں فرمایا ہے  :

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَ هُمْ رَاكِعُون . المائده / 55 .

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں.

جیساکہ اھل سنت کے بہت سے علماء کے اعتراف کے مطابق یہ آیت حضرت امير المؤمنين عليه السلام کے حق میں نازل ہوئی ہے ؛ قاضي عضد الدين الإيجي ، متوفاي 756 هـ نے اس سلسلے میں کہا :

وأجمع أئمّة التفسير أنّ المراد علي .

المواقف في علم الكلام ، ص 405 .

سارے بڑے مفسروں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت امام علي عليه السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ .

  سعد الدين تفتازاني نے بھی واضح طور پر کہا ہے :

نزلت باتّفاق المفسّرين في علي بن أبي طالب ، رضي اللّه عنه ، حين أعطي خاتمه وهو راكع في صلاته .

شرح المقاصد في علم الكلام ، ج 5 ، ص270 .

تمام مفسروں کا اس پر اتفاق ہے کہ [یہ  آيه] حضرت علي بن أبي طالب (عليه السلام) کے بارے میں اس وقت  نازل ہوئی ،جب آپ نے رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی فقیر سائل کو بخش دی .

  علاء الدين علي بن محمد حنفي ، کہ جو قوشجي کے لقب سے مشھور ہے وہ اس آیت کے بارے میں لکھتا ہے  :

إنّها نزلت باتفاق المفسّرين في حق علي بن أبي طالب حين أعطي السائل خاتمه وهو راكع في صلاته .

شرح تجريد الاعتقاد ، ص 368 .

تمام مفسروں کا اس پر اتفاق ہے کہ [یہ  آيه] حضرت علي بن أبي طالب (عليه السلام) کے بارے میں اس وقت  نازل ہوئی جب آپ نے رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی فقیر کو بخش دی .

  آلوسي بھی کہتا ہے  :

غالب الأخباريّين علي أنّ هذه الآية نزلت في علي كرّم اللّه وجهه .

اخباري لوگوں میں سے اکثریت کا یہ نظریہ ہے کہ یہ آیت علي (عليه السلام) کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔

روح المعاني ، ج 6 ، ص168 .

اب اس آیت سے حضرت علی علیہ السلام کا خلیفہ بلا فصل ہونا ثابت ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے اور یہ ثابت بھی ہے ،لیکن کم از کم از آیت سے حضرت علی علیہ السلام کا اھل ایمان ہونا تو ضروری ثابت ہے ،

کیا ابن تیمیہ نے یہ والی آیت نہیں دیکھی تھی ؟ کیا حضرت امیر المؤمنين سے دشمنی اور ان کے فضائل دیکھ کر جلنے کی وجہ سے اس نے ایسی باتیں کہی ؟  

کم از کم یہ تو ثابت ہے کہ حضرت امير المؤمنين عليه السلام صحابه میں سے تو تھے، تم لوگ تو صحابہ کو مومن ہونا تو چھوڑے ،ان سب کے عادل ہونے کے بھی قائل ہیں،اب کیا امیر المومنین علیہ السلام اصحاب میں سے بھی نہیں تھے ؟ یا یہ کہے کہ سارے اصحاب عادل نہیں تھے اور ان کے ایمان اور عدالت پر کوئی دلیل بھی نہیں  ؟

 3  :  شراب والی آیت کا حضرت  امير المؤمنين علیہ السلام کے حق میں نازل ہونا :

وقد انزل الله تعالي في علي :"يا ايها الذين ءامنوا لا تقربوا الصلاة وانتم سكاري حتي تعلموا ما تقولون" لما صلي فقرأ وخلط ".

منهاج السنة ، ج 4 ، ص65 .

  اللہ نے  علي کے بارے میں نازل کیا   :" ایمان والو خبر دار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رہے ہو " یہ اس وقت نازل ہوئی کہ جب آپ نے نماز پڑھی اور نماز میں غلطی کی !!!

ابن تیمیہ یہ الزام تو ان پر لگاتا ہے ،جبکہ  شيعه اور اھل سنت کے ہاں اتفاقی مسئلہ کہ یہ والی آیت اور شراب کے بارے میں دوسری آیات جناب عمر بن الخطاب کے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ کیونکہ اس بحث میں ہمارے مخاطب وھابی لوگ ہیں لہذا ہم اس سلسلے میں ان کی اپنی قابل قبول کتابوں سے کچھ روایات نقل کرتے ہیں اور شیعہ کتابوں میں اس سلسلے میں موجود روایات کو نقل نہیں کرتے ؛

زمخشري کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،جیساکہ ذهبي نے سير اعلام النبلاء ، ج20 ، ص191 میں ان کی بڑی تعریف کی ہے اور انہیں علامه کا لقب دیا ہے  ، انہوں نے  كتاب "ربيع الأبرار " میں نقل کیا ہے  :

أنزل الله تعالي في الخمر ثلاث آيات، أولها يسألونك عن الخمر والميسر، فكان المسلمون بين شارب وتارك ، إلي أن شرب رجل ودخل في الصلاة فهجر ، فنزلت : يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكاري ، فشربها من شرب من المسلمين ، حتي شربها عمر فأخذ لحي بعير فشج رأس عبد الرحمن بن عوف ، ثم قعد ينوح علي قتلي بدر بشعر الأسود بن عبد يغوث .وكائن بالقليب قليب بدر ... فبلغ ذلك رسول الله صلي الله عليه وسلم ، فخرج مغضباً يجر رداءه ، فرفع شيئاً كان في يده ليضربه ، فقال : أعوذ بالله من غضب الله ورسوله . فأنزل الله تعالي : إنما يريد الشيطان ، إلي قوله : فهل أنتم منتهون . فقال عمر : انتهينا .

ربيع الأبرار ، زمخشري ، ج1 ، ص398 ، طبق برنامه المكتبة الشاملة الكبري ، الإصدار الثاني و با كمي تغيير در تاريخ المدنية ، ابن شبه ، ج3 ، ص863 طبق برنامه المكتبة الشاملة الكبري ، الإْصدار الثاني .

ان دو کتابوں کو اس ایڈرس سے حاصل کرسکتے ہیں  : http://www.alwarraq.com

 

 خداوند متعال نے شراب کے بارے میں تین آیات کو نازل کیا ۔ پہلی آیت: آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، پس مسلمانوں میں سے بعض نے شراب نوشی کی اور بعض نے شراب نوشی نہیں کی ، یہاں تک کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص ، شراب پی کر نماز پڑھنے کھڑا ہوا اور نماز میں ہذیان کہنے لگا، پس آیت نازل ہوئی کہ: اے ایمان والو، مستی و نشے کی حالت میں نماز کے نزدیک نہ جاؤ، پھر بھی بعض مسلمانوں نے شراب نوشی کی، یہاں تک کہ عمر ابن خطاب نے شراب پی کر عبد الرحمن ابن عوف کے سر کو اونٹ کے بدن کی ایک ہڈی مار کر پھاڑ دیا اور پھر بیٹھ کر جنگ بدر میں ہلاک ہونے کفار کی یاد میں اسود ابن عبد یغوث کے اشعار پڑھنا شروع کر دیا کہ: وہ جو اس کنوئیں میں تھے، بدر والے کنوئیں میں.....!!!

جب یہ خبر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنی تو کو غصہ آیا۔ آپ کی یہ حالت تھی آپ کی چادر زمین پر رگڑتی جا رہی تھی، آپ باہر آئے اور عمر کو مارنے کے لیے زمین سے ایک چیز اٹھا لی۔

عمر نے جب رسول خدا کو اس غصے کی حالت میں دیکھا تو کہا: خداوند اور اسکے رسول کے غضب سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اسی وقت خداوند نے آیت نازل فرمائی کہ: بے شک شیطان چاہتا ہے کہ...... اب کیا تم اسکے منع کرنے سے رک جاؤ گے ؟

پھر عمر نے کہا کہ: ہاں ہم رک جائیں گے، ہم رک جائیں گے۔ یعنی شراب نہیں پیئیں گے۔!!!

 البته عمر بن الخطاب ، نے یہاں « انتهينا = ہم نے ہاتھ اٹھایا » کہا ؛ لیکن حقیقت میں بھی ایسا کیا یا نہیں کیا ، یہ بات ثابت نہیں ہے کیونکہ اھل سنت کے ہی علماء کے اعتراف کے مطابق جناب عمر نے اپنی اس دور جاھلیت کی عادت کو بعد میں بھی نہیں چھوڑا ۔

 جیساکہ مالك بن أنس ، کہ جو مالکی فرقے کے امام ہیں ،انہوں نے آپنی کتاب " الموطأ {کہ جو بعض کے نذدیک صحاح ستۃ میں شمار ہوتی ہے } میں نقل کیا ہے :

عن عبد الرحمن بن القاسم ، أن أسلم مولي عمر بن الخطاب أخبره ، أنه زار عبد الله بن عياش المخزومي فرأي عنده نبيذا وهو بطريق مكة . فقال له أسلم : إن هذا الشراب يحبه عمر بن الخطاب . فحمل عبد الله بن عياش قدحا عظيما . فجاء به إلي عمر بن الخطاب فوضعه في يديه . فقربه عمر إلي فيه ثم رفع رأسه . فقال عمر : إن هذا لشراب طيب . فشرب منه .

عبد الرحمن ابن قاسم سے نقل ہوا ہے کہ: عمر کے غلام اسلم نے اسے بتایا : میں نے عبد اللہ ابن عیاش مخزومی کو مکے جاتے ہوئے راستے میں دیکھا اور اس اس کے پاس نبیذ کو بھی دیکھا!!! پس اسلم نے اس سے کہا : یہ (نبیذ) ایسی چیز ہے کہ جسکو عمر بھی بہت پسند کرتا ہے۔ عبد اللہ ابن عیاش، ایک بڑے برتن کو نبیذ سے بھر کر عمر کے پاس لا کر اسکے سامنے رکھ دیا۔ عمر نے اس برتن کو اپنے منہ کے نزدیک لایا اور کہا: یہ کتنی اچھی شراب ہے، پھر عمر نے شراب کو پیا۔.

  نبيذ کو لغت شناسوں نے اس طرح معنی کیا ہے  :

وإنما سمي نبيذا لأن الذي يتخذه يأخذ تمرا أو زبيبا فينبذه في وعاء أو سقاء عليه الماء ويتركه حتي يفور [ ويهدر ] فيصير مسكرا .

تاج العروس ، ج5 ، ص500 ، ماده نبذ .

اسکو نبیذ کہا جاتا ہے، کیونکہ جو بھی اسکو تیار کرتا ہے وہ کھجور اور کشمش کو لے کر ایک برتن یا مشک میں ڈالتا ہے اور پھر اس میں پانی ڈال کر رکھ دیتا ہے تا کہ وہ خود بخود گرم ہو کر ابل جائے کہ اس صورت میں وہ نشہ آور اور مست کرنے والی نبیذ بن جاتی ہے۔.

و محيي الدين نووي نے كتاب المجموع میں لکھا ہے  :

[ واما الخمر فهي نجسة لقوله عز وجل ( إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان ) ولأنه يحرم تناوله من غير ضرر فكان نجسا كالدم واما النبيذ فهو نجس لأنه شراب فيه شدة مطربة فكان نجسا كالخمر ] .

المجموع - محيي الدين النووي - ج 2 - ص 563 .

اور شراب نجس ہے، کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے کہ: شراب ، جوا ، بت اور فال کے تیر ، یہ سب شیطان کے گندے کام ہیں، لہذا اس کے پینے کا ضرر نہ بھی ہو تو بھی حرام ہے، لہذا یہ بھی خون کی طرح نجس ہے، اور نبیذ بھی نجس ہے، کیونکہ وہ ایسی شراب ہے کہ جو بہت خالص اور گاڑھی قسم کی ہے اور مست کرنے والی بھی ہے،لہذا یہ بھی شراب کی طرح نجس ہے۔.

قابل ذکر ہے کہ جناب عمر نے حتی اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی شراب شراب پینے کی عادت کو ترک نہیں کیا تھا، یہاں تک کہ حالت احتضار میں بھی ، کہ جو ایک انسان کی موت کا وقت ہوتا ہے، عمر نے حکم دیا کہ میرے لیے شراب لائی جائے۔

ابن سعد کہ جو اہل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے اپنی معتبر کتاب الطبقات الكبری ميں لکھا ہے : 

 عن عبد الله بن عبيد بن عمير أن عمر بن الخطاب لما طعن قال له الناس يا أمير المؤمنين لو شربت شربة فقال أسقوني نبيذا وكان من أحب الشراب إليه قال فخرج النبيذ من جرحه مع صديد الدم .

الطبقات الكبري - محمد بن سعد - ج 3 - ص 354 و تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر - ج 44 - ص 430 و با كمي تفاوت در : السنن الكبري - البيهقي - ج 3 - ص 113 و فتح الباري - ابن حجر - ج 7 - ص 52 و المصنف - ابن أبي شيبة الكوفي - ج 5 - ص 488 و الاستيعاب - ابن عبد البر - ج 3 - ص 1154 اور بھی منابع موجود ہیں .

عبد الله ابن عبيد بن عمير سے نقل ہوا ہے کہ: جب عمر ابن خطاب کو چاقو مارا گیا تو لوگوں نے اس سے کہا کہ: اے امیر المؤمنین آپکے لیے اس حالت میں بہتر ہے کہ کوئی پینے والی چیز پی لیں، پس عمر نے کہا کہ مجھے نبیذ (شراب) لا کر دو !!! اور پینے والی چیزوں میں سے نبیذ اسکی پسندیدہ ترین چیز تھی۔ عبد اللہ نے کہا کہ: جب عمر نے اس حالت میں نبیذ پی تو نبیذ اسکے زخموں سے خون کے لوتھڑوں کے ساتھ بہہ کر باہر نکل آتی تھی۔

4 :  اھل سنت کی کتابیں مولا علی علیہ السلام کی تعلیمات سے خالی ہونے کی توجیہ

وہ یہ کہتا ہے حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ دوسروں کی باتیں قرآن و سنت کے قریب تھیں اسی لئے حضرت علی سے کم روایات نقل ہوئی۔

 ابن تیمیہ اپنی کتاب" منهاج السنة " { بقول علامه اميني رحمة الله علیہ کے «منهاج البدعة» نام رکھنا چاہئے } میں لکھتا ہے :

وقد جمع الشافعيّ ومحمّد بن نصر المَرْوَزي كتاباً كبيراً فيما لم يأخذ به المسلمون من قول عليّ ؛ لكون قول غيره من الصحابة أتبع للكتاب والسنّة .

شافعي اور مَرْوَزي نے بہت بڑی کتابیں لکھی ہیں ،ان کتابوں میں میں مسلمانوں نے علی علیہ السلام سے کچھ نقل نہیں کیا ہے ۔کیونکہ ان کے علاوہ باقی اصحاب کی باتیں قرآن اور سنت کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی تھیں۔  {لہذا ان سے احادیث اور تعلیمات کو نقل نہیں کیا ہے اور ان کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا } .

ابن تیمیه اسی سلسلے میں آگے لکھتا ہے : 

وهذا ابن عباس نقل عنه من التفسير ما شاء الله بالأسانيد الثابتة ليس في شيء منها ذكر علي وابن عباس يروى عن غير واحد من الصحابة ۔۔۔۔۔۔وروايته عن علي قليلة جدا ولم يخرج أصحاب الصحيح شيئا من حديثه عن علي ۔۔ 

«  وهذه كتب الحديث والتفسير مملوءة بالآثار عن الصحابة والتابعين والذي فيها عن علي قليل جدا»

ابن عباس سے قرآن کی تفسیر میں بہت کچھ نقل کیا ہے اور وہ بھی مستحکم اسناد کے ساتھ ، ان میں کہیں پر بھی حضرت علی علیہ السلام کا ذکر نہیں ہے ،ابن اعباس نے دوسرے بہت سے اصحاب سے نقل کیا ہے ۔۔لیکن حضرت علی سے بہت کم روایت نقل کی ہے ۔ کتب صحاح کے موئلفین نے بھی  ابن عباس کے واسطے سے علی ابن ابی طالب کی کوئی حدیث نقل نہیں کی ہے ۔۔۔۔۔مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود حدیث اور تفسیر کی کتابیں اصحاب اور تابعین کے علمی آثار اور احادیث سے بری پڑی ہیں لیکن علی ابن ابی طالب سے بہت کم تعداد میں روایات اور علمی آثار ان میں نقل ہے ۔

منهاج السنة النبوية؛ اسم المؤلف:  أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس الوفاة: 728، دار النشر: مؤسسة قرطبة - 1406، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ج 8، ص 42

  اب ابن تیمیہ کس کے بارے میں ایسی باتیں کر رہا ہے، وہی  علي مرتضی (عليه السلام) کہ جو بچپنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات تک آپ کے ساتھ ہی رہیں اور سب سے زیادہ رسول للہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شاگرد اور آپ کے زیر تربیت رہیں ،یہاں تک کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں حق کا معیار قرا دیا ۔

 علي مع الحق والحق مع علي 

علي حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ .

اس روایت کو اهل سنت کے بہت سے علماء نے نقل کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ،جیسے  ابن حجر هيثمي نے  "مجمع الزوائد ، ج 7 ، ص235 میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : «رواه أبو يعلي ورجاله ثقات »  اس روایت کو ابویعلی نے نقل کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں ، حاكم نيشابوري نے المستدرك علي الصحيحين ، ج3 ، ص124 میں لکھا ہے  : 

هذا حديث صحيح علي شرط مسلم ولم يخرجاه »

 اسی طرح  تاريخ بغداد ، ج14 ، ص322  میں اور  ابن قتيبه دينوري ، نے  الإمامة والسياسة ، ج 1 ، ص98 میں ،فخرازی نے  تفسير كبير ، ج 1 ، ص میں 205 اور  المحصول ، ج6 ، ص134 و ... میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ؛

 مولا علی علیہ السلام اور قرآن کے ساتھ پکا رشتہ

علي مع القران مع والقرآن مع علي لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض .

علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کے کنارے مجھ  سے آملے۔

اس روایت کو  حاكم نيشابوري نے المستدرك علي الصحيحين میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے  :

هذا حديث صحيح الاسناد وأبو سعيد التيمي هو عقيصاء ثقة مأمون ولم يخرجاه .

المستدرك - الحاكم النيسابوري - ج 3 - ص 124 و الجامع الصغير - جلال الدين السيوطي - ج 2 - ص 177 .

یہ روایت صحیح السند ہے ، ابو سعيد تيمي کہ جن کا نام عقيصاء تھا اور یہ قابل اعتماد ہے  ۔لیکن اس روایت کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم نے نقل نہیں کیا ہے ۔

اب کیا ایسی شخصیت کے کلام اور سخن کے بارے میں یہ کہنا صحہح  کہ ان کا  کلام ان لوگوں سے بہتر ہے کہ جن لوگوں نے اپنی عمر کی دو تہائی کفر اور شرک کی حالت میں گزاری ہو ؟ جبکہ مولی علی علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے علم اور حکمت کے شہر کا دروازہ کہا اور ان سے دین لینے کی سفارش کی ۔خاص کر حدیث ثقلین میں ان کی پیروی کی صورت میں گمراہی سے نجات کی ضمانت دی ۔

اور جیساکہ سب کو معلوم ہے کہ اصحاب میں سے آپ سے زیادہ نہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شاگردی کی ہے، نہ آپ سے زیادہ کوئی آپ کی زیر تربیت رہا ہے ۔ اب ابن تیمیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے ممتاز شاگرد کے بارے میں اس طرح غلط بیانی سے کام لے تو کیا یہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتراض شمار نہیں ہوگا ۔۔

5 : حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی میں اصحاب کی طرف جھوٹی نسبت

 وَلَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ عَلِيٌّ، فَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ كَانُوا يُبْغِضُونَهُ  وَيَسُبُّونَهُ وَيُقَاتِلُونَهُ۔۔۔۔۔

حضرت علی باقی خلفاء کے برخلاف ، اکثر صحابہ اور تابعین ان سے دشمنی کرتے تھے ، انہیں برا بلا کہتے تھے ،ان سے جنگ کرتے تھے ۔

منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية (7/ 137): ،المؤلف:  أحمد بن عبد الحليم ۔۔ ابن تيمية الحراني الحنبلي الدمشقي (المتوفى: 728هـ) المحقق: محمد رشاد سالم الناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية ،الطبعة: الأولى، 1406 هـ

اب ابن تیمیہ کی ان نسبتوں کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔

الف : یہ نسبتیں جھوٹی ہیں ۔ ب : یہ نسبتیں سچی ہیں ۔

دونوں صورتوں میں ابن تیمیہ کے پیروکار مشکل میں پڑ جاتی ہے۔

جبکہ صحیح سند روایت کے مطابق علی ابن ابی طالب سے دشمنی منافق کی نشانی ہے اور انہیں برا بلا کہنا اور ان سے جنگ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو برا بلا کہنا اور ان سے جنگ کرنا ہے  ۔لہذا اگر یہ نسبتیں سچی ہیں تو اکثر صحابہ اور تابعین کا حکم بھی واضح ہے اور آگر اس نے یہ جھوٹی نسبتیں دی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابن تیمیہ نے مولا علی اور اصحاب اور تابعین کی شان میں گستاخی کی ہے ۔

لہذا ابن تیمیہ کے پیروکار ان دو میں سے جو بھی نتیجہ قبول کرنا چاہئے وہ ہمیں بھی منظور ہے ۔

6  :  حضرت علی علیہ السلام کے قاتل ابن ملجم سے دفاع :

ابن تيميه ، نہ صرف علی الاعلان  امير المؤمنين عليه السلام سے دشمنی کرتا ہے بلکہ اس نے تو ان کے قاتل سے بھی سخت انداز میں دفاع کیا ہے ؛

اس نے منهاج السنة میں لکھا ہے  :

والذي قتل عليّاً كان يصلّي ويصوم ويقرأ القرآن ، وقتله معتقداً أنّ اللّه ورسوله يحبّ قتل عليّ، وفعل ذلك محبّة للّه ورسوله في زعمه، وإن كان في ذلك ضالاًّ مبتدعاً .

منهاج السنة ، ج 1 ، ص153.

جس نے علي کو قتل کیا وہ اهل نماز اور اھل روزه تھا اور  قرآن  کی تلاوت کرنے والا تھا اور وہ اس چیز پر اعتقاد رکھتا تھا کہ علي کے قتل میں اللہ اور اللہ کے رسول کی رضایت ہے اور اس نے اس کام کو اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت حاصل کرنے کے لئے انجام دیا ، اگرچہ وہ اس نظریے میں گمراہی کا شکار تھا ۔

وہی آگے لکھتا ہے  :

قتله واحد منهم وهو عبدالرحمن بن ملجم المرادي مع كونه كان من أعبد الناس وأهل العلم .

 علي بن ابي طالب کو خوارج میں سے  عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قتل کیا جبکہ یہ عابدترین اور اھل علم انسان تھا۔

منهاج السنّة ، ج 5 ، ص47 .

دیکھیں ابن تیمیہ کس طرح ابن ملجم کی تعریف کرتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے آپ کے قاتل کو  سب سے زیادہ شقی اور جناب صالح کے ناقہ کے پاوں کاٹنے والوں کی طرح قرار دیا ہے  .

قال علي(عليه السلام) : « أخبرني الصادق المصدّق أنّي لا أموت حتي أضرب علي هذه ، وأشار إلي مقدّم رأسه الأيسر فتخضب هذه منها بدم، وأخذ بلحيته وقال لي: يقتلك أشقي هذه الأمّة كما عقر ناقة اللّه أشقي بني فلان من ثمود» .

مسند أبي يعلي ، ج 1 ، ص431 و المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 8 ، ص38 و كنز العمّال ، المتقي الهندي ، ج 13 ، ص192 و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 42 ، ص543 .

امیر المومنین علیہ السلام  فرماتے ہیں :  پیغمبر صادق اور مصدق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے یہ خبر دی ہے ؛میں اس وقت دنیا سے جاوں گا جب میرے سر پر ضربت لگے گی اور میری دھاڑی خون سے رنگین ہوگی ۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمایا اور اپنی دھاڑی پکڑ کر فرمایا : اے  علي! اس امت کے سب سے بدبخت انسان آپ کو شھید کرئے گا ،جس طرح بنی ثمود کےبدبخت ترین انسان نے حضرت صالح علیہ السلام کے ناقہ  کا پیر کاٹ دیا.

ھیثمی نے اسی مضمون کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

رواه الطبراني وأبو يعلي وفيه رشدين بن سعد وقد وثّق ، وبقيّة رجاله ثقات.

اس کو طبرانی اور ابویعلی نے نقل کیا ہے اور اس کی سند میں رشیدین بن سعد موجود ہے اس کی توثیق ہوئی ہے باقی راوی بھی ثقہ ہیں۔

پھر وہ اسی مضمون کے دوسری روایت نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

رواه أحمد والطبراني والبزّار باختصار، ورجال الجميع موثّقون .

مجمع الزوائد ، ج 9 ، ص136.

احمد ،طبراني اور بزّرا نے اس کو مختصر طور پر نقل کیا ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں ۔

7   : امير المؤمنين عليه السلام  کی جنگوں کے بارے میں ابن تیمیہ کی نظر :

  اس نے منھاج السنۃ میں لکھا ہے  :

ثم يقال لهؤلاء الرافضة لو قالت لكم النواصب علي قد استحل دماء المسلمين وقاتلهم بغير أمر الله ورسوله علي رياسته وقد قال النبي صلي الله عليه وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله كفر وقال ولا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض فيكون علي كافرا لذلك لم تكن حجتكم أقوي من حجتهم لأن الأحاديث التي احتجوا بها صحيحة

وأيضا فيقولون قتل النفوس فساد فمن قتل النفوس علي طاعته كان مريدا للعلو في الأرض والفساد وهذا حال فرعون والله تعالي يقول تلك الدار الاخرة نجعلها للذين لا يريدون علوا في الأرض ولا فسادا والعاقبة للمتقين فمن أراد العلو في الأرض والفساد لم يكن من أهل السعادة في الاخرة وليس هذا كقتال الصديق للمرتدين ولمانعي الزكاة فإن الصديق إنما قاتلهم علي طاعة الله ورسوله لا علي كاعته فإن الزكاة فرض عليهم فقاتلهم عللا الإقرار بها وعلي أدائها بخلاف من قاتل ليطاع هو .

منهاج السنة ، ج 4 ، ص 499_ 500 .

روافض سے اگر کوئی ناصبی کہے ؛ علی نے مسلمانوں کے خون بہانے کو حلال سمجھا اور مسلمانوں سے اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کے بغیر حکومت حاصل کرنے کے لئے جنگ کی ،جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کو گالی دینا فسق کا سبب بنتا ہے اور مسلمانوں سے جنگ، کفر کا باعث ہے اور یہ فرمایا تھا : میرے بعد دوبارہ کفر کی طرف پلٹ کر نہ جانا کہ ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگو   ۔ لہذا علی اس وجہ سے کافر ہوا {اگر ناصبی ایسا کہے تو } تو نواصب کے دلائل تم ( رافضی ) کے دلائل سے زیادہ قوی ہیں۔ کیونکہ نواصب جن روایات سے استدلال کرتے ہیں وہ صحیح سند روایات ہیں۔

اسی طرح ناصبی کہتے ہیں  : لوگوں کا قتل، فساد پھلانا ہے  ؛ اور جو بھی اپنے تسلط اور حکومت کی خاطر کسی کو قتل کرتا ہے تو وہ سرکشی اور زمین میں فساد پھلانے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ وہی فرعون والا کام ہے کہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے ؛ آخرت وہ ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں اور عاقبت تو صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے۔ ' لہذا جو زمین میں فساد پھلائے گا وہ سعادت سے بہرہ مند نہیں ہوگا ۔

اور یہ جنگ ابوبکر کی مرتد اور زکات کے مانعین سے جنگ کی طرح نہیں تھی ۔ صدیق  نے ان سے جنگ اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت میں کی ہے ،انہوں نے اپنی خاطر جنگ نہیں کی۔ زکات واجب تھا لہذا ان لوگوں سے اس کا اقرار لینے اور اس کو ادا کرنے کے لئے جنگ کی ۔ یہ اس کی جنگ کی طرح نہیں ہے جو علی ابن ابی طالب  نے اپنی اطاعت میں لانے کے جنگ کی .

 ایک اور جگہ وہ لکھتا ہے کہ مولا علی علیہ السلام کی جنگ دنیا کی خاطر تھی  :

 

وعلي يقاتل ليطاع ويتصرف في النفوس والأموال فكيف يجعل هذا قتالا علي الدين وأبو بكر يقاتل من ارتد عن الإسلام ومن ترك ما فرض الله ليطيع الله ورسوله فقط ولا يكون هذا قتالا علي الدين .

منهاج السنّة ، ج 8 ، ص 330 .

  علي نے اس لئے جنگ کی تاکہ لوگ اس کی اطاعت کرئے اور لوگوں کی جان و مال پر آپ کنڑول قائم کرسکے ،لہذا کیسے اس جنگ کو دین کی راہ میں جنگ قرار دیتے ہو ؟ابوبکر نے تو ان لوگوں سے جنگ کی جو مرتد ہوگئے تھے اور ان لوگوں سے جنگ کی جو اللہ کی طرف سے واجب شدہ چیز کا انکار کرتے تھے،جنگ کی تاکہ صرف اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت ہو ،لیکن علی کی یہ جنگیں دین کے لئے نہیں تھیں ۔

ابن تیمیہ کے ان خیالات کا ٹھوس جواب :

 حضرت علی علیہ السلام اور اصحاب ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے فرمان کے مطابق جنگ کر رہے تھے ۔

ابن تیمیہ اس طرح امیر المومنین علیہ السلام کی تنقیص کے لئے ادعا کرتا ہے جبکہ  رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم ، نے  اللہ کی طرف سے عطاء شدہ علم کی بناء پر اپنے بعد کی تمام جنگوں کے بارے میں اطلاع دی تھی اور امیر المومنین علیہ السلام اور دوسرے اصحاب کو ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھا ،حتی آپ نے اپنی بعض ازواج اور زبیر کو ان جنگوں میں شرکت کرنے اور مولا علی علیہ السلام کے مقابل کھڑا ہونے سے منع فرمایا تھا : جیساکہ اهل سنت کے بہت سے علماء نے « كلاب حوأب » والی حدیث کو نقل کیا ہے ، ابن حجر عسقلاني نے اپنی معتبر کتاب" فتح الباري " میں لکھا ہے  :

عن عكرمة عن ابن عباس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لنسائه أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ـ بهمزة مفتوحة ودال ساكنة ثم موحدتين الأولي مفتوحة ـ تخرج حتي تنبحها كلاب الحوأب يقتل عن يمينها وعن شمالها قتلي كثيرة وتنجو من بعد ما كادت . عكرمه نے ابن عباس سے نقل کیا ہے : پيامبر اسلام صلي الله عليه وآله وسلم نے اپنی ازواج سے مخاطب ہو کر فرمایا :تم میں سے وہ کون ہے جو زیادہ بال والے سرخ اونٹ پر سوار ہو کر خروج کرو گی اور حوأب کے کتے اس پر بھونگیں گی اور اس کے ارد گرد بہت سے لوگ مارے جاوگے اور آخر کار وہ خود اس مخمصے سے جان بچا سکے گی ؟ .

ابن حجر نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے  :

وهذا رواه البزار ورجاله ثقات .

فتح الباري - ابن حجر - ج 13 - ص 45 - 46 .

بزاز نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے راوی قابل اعتماد ہیں۔

  ابن كثير دمشقي سلفي نے اپنی کتاب " البداية والنهاية " میں لکھا ہے  :

عن قيس بن أبي حازم : أن عائشة لما أتت علي الحوأب فسمعت نباح الكلاب فقالت : ما أظنني إلا راجعة ، إن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لنا : أيتكن ينبح عليها كلاب الحوأب ، فقال لها الزبير : ترجعين ؟ عسي الله أن يصلح بك بين الناس .

جس وقت جناب «عايشه» حوأب پہنچی اور کتوں کے بھنوگنے کی آواز سنی تو کہنے لگی : اب مجبوری ہے، اب واپس ہی لوٹنا ہے ۔کیونکہ رسول اللہ  صلّي اللّه عليه نے ہم ازواج سے فرمایا تھا : تم میں سے وہ کون ہوگی کہ حوأب کے کتے اس پر بھونگیں گے ؟ «زبير» نے کہا : کیسے ممکن ہے ، اب پلٹ کر جائے جبکہ یہ امید ہے کہ اللہ آپ کے وسیلے سے لوگوں میں صلح قائم کرئے گا !

ابن كثير  اس کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے

وهذا إسناد علي شرط الصحيحين ولم يخرجوه .

البداية والنهاية - ابن كثير - ج 6 - ص 236 .

اس کی سند مسلم اور بخاري کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ، لیکن انہوں نے اس روایت کو نقل نہیں کا ہے ۔

یہ واقعہ اھل سنت کی بہت سی کتابوں میں موجود ہے ؛

مسند أحمد ، ج6 ، ص52 و97 و المستدرك ، حاكم نيشابوري ، ج3 ، ص120 و المصنف ، ابن أبي شيبة الكوفي ، ج8 ، ص708 و مسند ابن راهويه ، صج3 ، ص892 و مسند أبي يعلي ، ج8 ، ص282 و الفايق في غريب الحديث ، زمخشري ، ج1 ، ص353 و موارد الظمآن ، هيثمي ، ص 453 و كنز العمال ، ج11 ، ص197 و 334 و سير أعلام النبلاء ، ذهبي ، ج2 ، ص177 و أنساب الاشراف ، بلاذري ، ص 224 و معجم البلدان ، حموي ، ج2 ، ص314 و تاريخ يعقوبي ، ج2 ، ص181 و تاريخ طبري ، ج3 ، ص475 و ... .

ان روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ازواج  کو جنگ کرنے اور جنگ میں شرکت کرنے سے منع فرمایا اور یہی چیز ان لوگوں کے باطل پر ہونے اور امیر المومنین عليه السلام کے حق پر ہونے کی دلیل ہے .

اسی طرح بہت سی روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زبیر کو اس جنگ میں شرکت سے منع فرمایا ،یہاں تک کہ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے زبیر کو ظالم بھی کہا ، حاكم نيشابوري لکھتا ہے  :

عن أبي حرب بن أبي الأسود الديلي قال شهدت الزبير خرج يريد عليا فقال له علي أنشدك الله هل سمعت رسول الله صلي الله عليه وآله يقول تقاتله وأنت له ظالم فقال لم اذكر ثم مضي الزبير منصرفا .

حرب بن ابو الاسود دئلي،نقل کرتا ہے : جس وقت زبیر نے حضرت علي عليه السّلام کے خلاف خروج کی ، حضرت علي عليه السّلام نے اس سے خطاب میں فرمایا : اللہ کی قسم کیا تمہیں یاد ہے کہ  رسول اللہ صلّي اللّه عليه و آله نے تم سے فرمایا  : تم علی سے جنگ کروگے اور تم ظالم ہوگا ؟ «زبير» کہنے لگا جو کہہ رہے ہو مجھے یاد نہیں ہے : یا کسی اور نقل کے مطابق میں بول چکا تھا . یہ کہہ کر واپس پلٹا۔

حاکم اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

هذا حديث صحيح عن أبي حرب بن أبي الأسود .

المستدرك - الحاكم النيسابوري - ج 3 - ص 366 .

أبي حرب بن أبي اسود کی یہ روایت صحیح ہے  .

حاکم اس سلسلے کے بعض احادیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

هذه الأحاديث صحيحة عن أمير المؤمنين علي وإن لم يخرجاه بهذه الأسانيد .

المستدرك - الحاكم النيسابوري - ج 3 - ص367 .

اس قسم کی احادیث ، امير المؤمنين علي عليه السلام سے نقل ہوئی ہیں اور صحیح ہیں ؛ لیکن بخاری اور مسلم نے ان اسناد کے ساتھ اس کو نقل نہیں کیا ہے  .

اسی طرح وہ لکھتے ہیں :

وقد روي اقرار الزبير لعلي رضي الله عنهما بذلك من غير هذه الوجوه والروايات .

: زبیر نے جو حضرت علي عليه السّلام کے سامنے اقرار کیا وہ صرف روایت کے اس حصے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اور بھی روایات اور شواہد اس اقرار پر موجود ہیں۔

  

 
 

 اھل سنت کی کتابوں میں موجود بہت سی روایات کے مطابق رسول اللہ  صلي الله عليه وآله وسلم نے یہ اعلان فرمایا :جو بھی علی سے جنگ کرئے گا اس نے مجھ سے جنگ کی ہے ۔اس قسم کی بہت سی روایات اھل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں مثلا سنن ابن ماجہ {کہ جو اھل سنت کی صحاح میں سے ایک ہے } میں نقل ہوا ہے ؛

عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ أَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ .

سنن ابن ماجه ، ج1 ، ص166 ، ح142 و المستدرك علي الصحيحين ، ج 3 ، ص 149 ذهبي نے بھی اس روایت کو  تلخيص المستدرك میں ذکر کیا ہے ۔ اسی طرج  طبراني ، در معجم اوسط ، ج5 ، ص182 و معجم كبير ، ج 3 ، ص40 أسد الغابة ، ابن أثير ، ج5 ، ص 522 و البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج8 ، ص40 وغیرہ نے اس کو نقل کیا ہے ۔.

رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم نے امام علي ، فاطمه ، حسن اور حسين عليهم السلام سے خطاب میں فرمایا  : میری ان سے جنگ ہوگی جو تم لوگوں سے جنگ کرئے اور جو تم لوگوں سے صلح وصفائی کے ساتھ رہے اس کی مجھ سے بھی صلح و صفائی ہے۔

جصاص ، نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے  :

فاستحقّ من حاربهم اسم المحارب للّه ولرسوله.

أحكام القرآن ، ج2 ، ص 508 .

اس روایت کے مطابق جو ان لوگوں سے جنگ کرتا ہے وہ  اللہ اور اللہ کے رسول سے جنگ کرنے والا  ٹھیرے گا۔

عجیب بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم فکر لوگ ان لوگوں کو کافر اور مرتد کہتے ہیں کہ جنہوں نے ابوبکر کو زکات اداء کرنے سے انکار کیا اور ابوکر نے ان سے جنگ کی ،لیکن جو لوگ ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا موجب بنے، ابن تیمیہ انہیں نہ صرف مرتد نہیں سمجھتے بلکہ انہیں مجتہد سمجھتا ہے اور  اس کو ثواب کے مستحق بھی سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ روایات کے مطابق علی ابن ابی طالب سے جنگ کرنے والے، اللہ اور اللہ کے رسول سے جنگ کرنے والے کی طرح ہے .

  

 

 ابن تيميه "منهاج السنة 'میں لکھتا ہے  :

وعلي رضي الله عنه لم يكن قتاله يوم الجمل وصفين بأمر من النبي صلي الله عليه وسلم وإنّما كان رأي راہ .

منهاج السنّة ، ج4 ، ص496 .

علي عليه السلام نے جنگ جمل اور صفین رسول اللہ  صلي الله عليه وآله وسلم کے حکم سے نہیں لڑی بلکہ یہ ان کی اپنی نطر تھی ۔

جبکہ اھل سنت کی کتابوں میں ایسی بہت سی احادیث موجود ہیں جن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے اصحاب کو ان لوگوں سے جنگ کرنے کا خصوصی حکم دیا تھا ۔

عن أبي أيوب الأنصاري في خلافة عمر بن الخطاب رضي اللّه عنه قال: أمر رسول الله صلي الله عليه وإله وسلم ، علي بن أبي طالب بقتال الناكثين والقاسطين والمارقين

مستدرك الصحيحين ، ج 3 ، ص139 .

ابو ايوب انصاري نے جناب عمر کے دور حکومت میں نقل کیا ہے : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو  ناكثين ، قاسطين اور مارقين سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے .

اسی طرح ابن كثير دمشقي نے  البدايه والنهايه اور  ابن اثير نے اسد الغابه میں نقل کیا ہے :

عن أبي سعيد الخدري ، قال : أمرنا رسول الله صلي الله عليه وآله بقتال الناكثين ، والقاسطين ، والمارقين ! فقلنا : يا رسول الله ! أمرتنا بقتال هؤلاء ! فمع من ؟ فقال : مع علي بن أبي طالب ، معه يقتل عمار بن ياسر .

أسد الغابة ، ج4 ، ص32و البداية والنهاية ، ج7 ، ص 339 و المناقب ، خوارزمي ، ص 190 و تاريخ دمشق ، ابن عساكر ، ج42 ، ص471 .

ابوسعيد خدري سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے ہمیں ناكثين، قاسطين اور مارقين سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے ، میں نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم ان لوگوں سے جنگ کریں، تو ہم کسی کے رکاب اور پرچم تلے ان سے چند کریں ؟ فرمایا : علي بن أبي طالب کے پرچم تلے رہے ، عمار بھی ان کے ساتھ ہوں گے .

 

خطيب بغدادي بھی لکھتا ہے  :

عن علقمة بن قيس والأسود بن يزيد ، قالا : أتينا أبا أيوب الأنصاري عند منصرفه من صفين ، فقلنا له : يا أبا أيوب ، إن الله أكرمك بنزول محمد - ص - في بيتك ، وبمجئ ناقته ، تفضلا من الله تعالي وإكراما لك ، حتي أناخت ببابك دون الناس جميعا ، ثم جئت بسيفك علي عاتقك تضرب به أهل لا إله إلا الله ؟ ! . فقال : يا هذا إن الرائد لا يكذب أهله ، إن رسول الله ( صلي الله عليه وآله وسلم) أمرنا بقتال ثلاثة مع علي رضي الله عنه ، بقتال الناكثين والقاسطين والمارقين ، فأما الناكثون فقد قاتلناهم ، وهم أهل الجمل وطلحة والزبير وأما القاسطون فهذا منصرفنا من عندهم - يعني معاوية وعمرو بن العاص - ، وأما المارقون فهم أهل الطرفاوات وأهل السعيفات وأهل النخيلات وأهل النهروانات ، والله ما أدري أين هم ؟ ولكن لا بد من قتالهم إن شاء الله تعالي .

ثم قال : وسمعت رسول الله - ص - يقول لعمار : يا عمار تقتلك الفئة الباغية ، وأنت إذ ذاك مع الحق والحق معك . يا عمار بن ياسر ، إن رأيت عليا قد سلك واديا وسلك الناس كلهم واديا غيره ، فاسلك مع علي فإنه لن يدليك في ردي ، ولن يخرجك من هدي . يا عمار ، من تقلد سيفا وأعان به عليا - رضي الله عنه - علي عدوة قلده الله يوم القيامة وشاحين من در ، ومن تقلد سيفا أعان به عدو علي - رضي الله عنه - قلده الله يوم القيامة وشاحين من نار . قلنا : يا هذا ، حسبك رحمك الله ! حسبك رحمك الله .

تاريخ بغداد ، ج13 ، ص 188 و تاريخ مدينة دمشق ، ج42 ، ص472 .

علقمه اور اسود سے نقل ہوا ہے  : جس وقت  ابو ايوب صفین سے لوٹ رہے تھے ،اس وقت ہم ان سے ملیں اور ان سے کہا: اے ابو ايّوب! اللہ نے آپ کو عزت دی ہے اور حضرت محمد صلّي اللّه عليه و آله کو آپ کا مھمان بنایا ۔کیونکہ ان کے اونٹ آپ کے گھر کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا  اور یہ آپ کے مقام اور منزلت کی وجہ سے تھی جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی ۔

اب یہ کیا ہورہا ہے کہ اپنی تلوار کو  «لا اله إلا الله» کہنے والوں کے خلاف نیام سے نکال کر جنگ کر رہے ہیں ؟ (آپ سے اس کی توقع نہیں تھی ).

ابو ايوب نے جواب میں ایک ضرب المثل پیش بیان کیا : «انّ الرائد لا يكذب اهله»؛ قافلہ سالار قافلہ والوں سے جھوٹ نہیں بولتا . بتحقیق پيغمبر اكرم صلّي اللّه عليه و آله ، نے ہمیں علي عليه السّلام  کے ساتھ مل کر تین گروہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے، «ناكثن»، «قاسطن» اور «مارقن» سے . ناکثین ،طلحه اور زبیر کے پیروکار لوگ ہیں کہ جنہوں نے جنگ جمل کی آگ بڑھکائی، ہم نے ان سے جنگ کی ہیں، قاسطین بھی معاويه اور عمرو عاص کے پیروکار ہیں ، ہم نے ان سے بھی جنگ کی ہیں اور ابھی اسی گروہ سے جنگ کر کے واپس پلٹے ہیں؛ اور مارقین بھی راستے میں ہمارے منتظر ہیں وہ  کھجور کے باغات اور نھروں کے کنارے ہوں گے ۔ مجھے معلوم نہیں ابھی وہ لوگ کہاں ہیں ۔ لیکن ہم ان شاء اللہ  اس گروہ  سے بھی جنگ کریں گے ۔

ابو ايوب نے کہا  : رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله سے میں نے سنا کہ آپ جناب عمار سے مخاطب ہوکر فرمارہے تھے : اے عمار! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرئے گا جبکہ تم حق کے راستے پر ہوگا اور حق بھی تمہارے ساتھ ہوگا، اے عمار ياسر ! جب بھی علي عليه السّلام کو کسی راستے پر قدم اٹھاتے ہوئے دیکھے اور دوسرے لوگوں کو دوسرے راستے پر قدم اٹھاتے دیکھے تو  تم علي عليه السّلام کے ساتھ رہنا اور جو جس راستے پر وہ چل نکلے اس پر تم بھی چل نکلنا وہ تجھے غلط راستے پر نہیں لگائے گا اور ہدایت کے راستے سے دور نہیں کرئے گا ۔

اے عمّار ! جو علي عليه السّلام کی حمایت میں اس کے دشمن کو قتل کرنے کے لئے تلوار اٹھائے گا ،قیامت کے دن اللہ اس کی گردن میں موتی کے دو ہار ڈالے گا اور اس کو اس زینت سے نوازے گا ۔ لیکن جو لوگ تلوار اٹھاتا ہے اور علی علیہ السلام کےدشمنوں کی حمایت کرتا ہے ،تو اللہ قیامت کے دن آگ کے دو ہار اس کےگردن میں ڈال دئے گا.

جب جناب ابو ايوب کی بات یہاں ختم ہوئی تو ہم نے ان کی تائید اور ان کی تشویق کے لئے کہا: جی آپ کا یہی مقام آپ کے لئے کافی ہے ۔ اللہ اس وجہ سے آپ پر رحمت نازل کرئے ۔

احمد بن حنبل ، کہ جو  بخاري اور  مسلم کی بھی استاد ہے انہوں نے آپنی مسند میں لکھا ہے :

عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ كُنَّا جُلُوسًا نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ عَلَيْنَا مِنْ بَعْضِ بُيُوتِ نِسَائِهِ قَالَ فَقُمْنَا مَعَهُ فَانْقَطَعَتْ نَعْلُهُ فَتَخَلَّفَ عَلَيْهَا عَلِيٌّ يَخْصِفُهَا فَمَضَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَضَيْنَا مَعَهُ ثُمَّ قَامَ يَنْتَظِرُهُ وَقُمْنَا مَعَهُ فَقَالَ إِنَّ مِنْكُمْ مَنْ يُقَاتِلُ عَلَي تَأْوِيلِ هَذَا الْقُرْآنِ كَمَا قَاتَلْتُ عَلَي تَنْزِيلِهِ فَاسْتَشْرَفْنَا وَفِينَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَ لَا وَلَكِنَّهُ خَاصِفُ النَّعْلِ قَالَ فَجِئْنَا نُبَشِّرُهُ قَالَ وَكَأَنَّهُ قَدْ سَمِعَهُ .مسند أحمد ، احمد بن حنبل ، ج3 ، ص81 .

   ابو سعيد خدري سے نقل ہوا ہے کہ ہم  رسول اكرم صلّي اللّه عليه و آله کے تشریف آوری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلّي اللّه عليه و آله ازواج میں سے ایک کے گھر سے باھر نکلے اور ہم بھی اٹھ کر آپ سے ساتھ چلنے لگے ،ابھی حرکت ہی کی تھی کہ  پيغمبر اكرم صلّي اللّه عليه و آله کے جوتے کے بند ٹوٹ گیا . علي عليه السّلام نے جوتا لے کر اس کو سینا شروع کیا، رسول خدا صلّي اللّه عليه و آله آگے چلنے لگے اور ہم بھی ان کے ساتھ چلنے لگے ،کچھ آگے چلنے کے بعد آپ رگ گئے اور ہم بھی رگ گئے اور آپ صلّي اللّه عليه و آله ، علي عليه السّلام کے انتظار کرنے لگے. اسی دوران ، پيغمبر اكرم صلّي اللّه عليه و آله نے فرمایا : جس طرح میں نے قرآن کی تنزيل کی خاطر جنگ کی ،  یقینا تم میں سے ایک قرآن کی تأويل کی خاطر جنگ کرے گا ،

جناب ابو بكر اور عمر نے کہا  : کیا ہم وہی لوگ ہیں جو  تأويل قرآن کی خاطر جنگ کرو گے ؟ پيغمبر صلّي اللّه عليه و آله فرمایا  : نہیں ؛ بلکہ وہ جو میرے جوتے کو سی رہا ہے، یہی اپنے مخالفوں سے قرآن کی تاویل کے لئے جنگ کرئے گا ۔

میں علي عليه السّلام کے پاس ان سے ملنے گیا تاکہ آئندہ کی اس ذمہ داری پر انہیں مبارک بادی دوں . حضرت علي عليه السّلام نے اس خوشخبری پر کوئی خاص رد و ومل کا اظہار نہیں کیا ،گویا  انہوں نے رسول اكرم صلّي اللّه عليه و آله سے یہ پہلے سنی ہوئی تھی ۔ .

هيثمي نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے  :

رواه احمد وإسناده حسن . قلت: وله طريق أطول من هذه في مناقب علي وكذلك أحاديث فيمن يقاتله.

مجمع الزوائد ، ج6 ، ص 244 .

احمد بن حنبل نے اس روايت کو نقل کیا ہے اور اس کی سند بھی حسن ہے، میں کہتا ہوں: حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کے بیان میں  لمبی روایت نقل ہوئی ہے ۔ اسی طرح ان سے جنگ کرنے والوں کے بارے میں بھی احادیث نقل ہوئی ہیں .

ایک اور جگہ لکھا ہے  :

رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح غير فطر بن خليفة وهو ثقة.

مجمع الزوائد ، ج 9 ، ص133 .

اس روات کو احمد بن حنبل نے نقل کیا اور فطر بن خليفه کے علاوہ باقی سب صحیح بخاری کے راوی ہیں اور وہ بھی ثقہ ہے ۔.

جو بھی علی کی مدد نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔

ابن عساكر نے جناب عمار ياسر سے نقل کیا ہے  :

سمعت النبي صلي اللّه عليه وسلّم يقول: «يا علي! ستقاتلك الفئة الباغية وأنت علي الحق، فمن لم ينصرك يومئذ فليس منّي».

تاريخ مدينة دمشق ، ج42 ، ص473 و كنز العمال ، متقي هند ، ج 13 ، ص613 .

رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم سے سنا ہوں ؛ آپ فرمارہے تھے  : يا علي ! بہت  جلد آپ سے جنگ ہوگی اور اس میں تم حق پر ہوگا ۔اور جو اس جنگ میں تمہاری مدد نہیں کرے گا تو وہ مجھ سے نہیں ہوگا ،میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

8   :  حضرت علی علیہ السلام نے بیوی کی خاطر ہجرت کی ۔

ابن تیمیہ انتہائی گستاخانہ انداز میں کہتا ہے کہ ابوبکر کی ہجرت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی راہ میں ہجرت تھی جبکہ حضرت علی علیہ السلام کی ہجرت اپنی بیوی کی راہ میں ہجرت تھی ۔

وأبو بكر كان من جنس من هاجر إلى الله ورسوله وهذا لا يشبه من كان مقصوده امرأة يتزوجها ۔۔

ابوبکر ان لوگوں میں سے ہے جس نے اللہ اور اللہ کے رسول کی راہ میں ہجرت کی ،یہ اس شخص{ حضرت علی علیہ السلام } کی طرح نہیں ہے جس نے ایک عورت کی خاطر ہجرت کی جس سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا ۔

۔منهاج السنة النبوية (4/ 255):

حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تکلیف پہنچانا

9   : ابن تیمیہ کہتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام دوسری شادی کرنے کے ذریعے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تکلیف دینا چاہتا تھا  :

وعلي رضي الله عنه كان قصده ان يتزوج عليها ( علي فاطمة ) فله في أذاها غرض . منهاج السنة ، ج2 ، 171 .

علی علیہ السلام جناب فاطمہ سلام علیہا کی موجودگی میں ایک اور شادی کرنا چاہتے تھے اور اس شادی کے ذریعے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تکلیف پہنچانا مقصد تھا ۔

ابن تیمیہ اسی بہانے سے شیعوں کو الزامی جواب دینے کے لئے کہتا ہے کہ حضرت زہرا سلام علیہا ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ کرنے کی وجہ سے حضرت علی پر ناراض ہوئیں۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہیں جو انہیں تکلیف پہنچائے اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے ۔۔۔لہذا حضرت علی علیہ السلام اس ناراضگی اور ناراضگی کے لوازمات کے زیادہ مستحق ہے۔

 رابه ذلك واذاه فإن كان هذا وعيدا لاحقا بفاعله لزم أن يلحق هذا الوعيد علي بن أبي طالب وإن لم يكن وعيدا لاحقا بفاعله كان أبو بكر أبعد عن الوعيد من علي وإن قيل إن عليا تاب من تلك الخطبة ورجع عنها ۔۔

منهاج السنة النبوية (4/ 252):

یہ ابن تیمیہ اور اس کے ہمفکروں کی طرف سے بیان ہونے والا ایک انتہائی برا الزام ،یہی امير المؤمنين عليه السلام کا بوجهل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے والی جھوٹی داستان ہے ۔ ان لوگوں کا اس داستان کو بیان کرنے کا ایک مقصد امير المؤمنين علیہ سلام کے مقام کو گرانہ اور ساتھ ہی حضرت زهرا سلام الله عليها کا خلیفہ اول اور دوم پر غضبناک ہونے کے سلسلے میں ہونے والے اعتراضات کا جواب دینا ہے ، کیونکہ بہت سی روایات کے مطابق جناب فاطمه سلام الله کو ناراض کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ناراض کرنا ہے ؛ جیساکہ  بخاري میں نقل ہوا ہے :

3437 - حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي .

صحيح البخاري ، ج4 ، ص210، كتاب فضائل الصحابة، ب 12 ـ باب مَنَاقِبُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم.

پيامبر اسلام صلي الله عليه وآله وسلم نے فرمایا : فاطمه میرے وجود کا حصہ ہے ،جس نے انہیں غضبناک کیا ، اس نے مجھے غضبناک کیا .

دوسری طرف سے خود بخاری نے نقل کیا ہے ؛

فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَي أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّي تُوُفِّيَتْ .

جناب فاطمہ سلام علیہا ابوبکر پر ناراض ہوئی اور ان سے بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے چلی گئی اور مرتے دم تک ان سے بات بھی نہیں کی ۔

ابن تيميه  اور اس کے ہم فکر لوگوں کو اس اعتراض کا علم ہے لہذا یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غضب اور ناراضگی والی روایت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بیان ہوئی ہے ،انہوں نے ہی جناب فاطمہ سلام علیہا کو ناراض کیا تھا۔

ہم نے دوسری جگہ اس کا تفصیلی جواب دیا ہے ،یہاں بھی مختصر طور پر کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

  حضرت علي (عليه السلام) کا أبو جهل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کا افسانہ۔

اس سلسلے میں کچھ اہم نکات قابل توجہ ہے ۔

1 . مسور بن مخرمه جناب امير المؤمنين علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا  :

اس روایت کو نقل کرنے والا تنھا شخص مسور بن مخرمه ہے کسی اور صحابہ نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے ۔ وہ بنی امیہ کے سخت حامی اور معاوية بن أبي سفيان کے ساتھیوں میں سے تھا  اور یہ بھی احادیث جعل کرنے والی ٹیم کا حصہ تھا  ؛ جیساکہ ذهبي نے اس کے بارے میں لکھا ہے  :

كان يثني ويصلي علي معاوية ، قال عروة : فلم أسمع المسور ذكر معاوية إلاّ صلّي عليه .

سير أعلام النبلاء: ج 3 ص 392 .

جب بھی معاویہ کا نام لیا جاتا تو مسور اس پر درود پڑھتا تھا .

کیا ایسے آدمی کی طرف سے امير المؤمنين عليه السلام ،کے بارے میں کیجانے والی باتوں  کی کوئی قیمت ہے اور اس کی باتوں کے ذریعے سے استدلال کیا جاسکتا ؟

2 . مسور کی عمر بھی اس واقعے کے ساتھ سازگار نہیں :

وہ ہجرت کے دوسرے سال پیدا ہوا ہے  ؛ جیساکہ ابن حجر کہتا ہے :

ولد بمكّة بعد الهجرة بسنتين فقدم به المدينة في عقب ذي الحجة سنة ثمان ومات سنة أربع وستين .

مسور ، مکہ میں ہجرت کے دو سال بعد پیدا ہوا اور ۸ ہجری کو  ذي الحجه کے بعد مدینہ آیا اور 64 کو دنیا سے چلا گیا .

دوسری طرف بعض اھل سنت کے علماء نے اس چیز کااعتراف کیا ہے کہ رشتہ طلبی کا یہ معاملہ دو ہجری کو پیش آیا ، یعنی جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت مسور دنیا میں بھی نہیں آیا تھا اور واقعے کے چھے سال بعد وہ مدینہ میں آیا .

استاد توفيق ابو علم  کہ جو مصر کے بڑے استادوں میں سے ہے ۔ ان کی ایک کتاب" فاطمة الزهرا " کے نام سے ہے، انہوں نے اس کتاب میں لکھا ہے  :

« علي عليه السلام کا  ابوجهل کی بیٹی سے رشتے کا معاملہ  دوم ہجری کو پیش آیا » .

اگر ایسا ہے تو کیسے اس کی باتوں کو قبول کیا جائے گا  ؟

اگر یہ بھی کہا جائے کہ یہ واقعہ ۸ ہجری کو پیش آیا ہے تو بھی اس وقت اس کی عمر چھے سال کی تھی ، پھر بھی وہ اس واقعے کا عینی شاہد نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ حدیث میں کہتا ہے کہ  :و أنا محتلم .

يعني میں اس وقت بالغ تھا. یعنی وہ ایسے مرحلے میں تھا کہ اسے احتلام ہوتا تھا؛ اور وہ شادی کرنے کے مرحلے میں داخل ہوا تھا . کیا چھے سالہ بچہ کیسے ایسا  کہہ سکتا ہے :

3 . مسور کا ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے ننگا ہونا  :

اھل سنت کی کتابوں میں موجود شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جس وقت وہ مدینہ میں تھا اس وقت وہ عقلی اور ذھنی اعتبار سے اس  درجہ کا نہیں تھا کہ وہ کوئی حدیث نقل کرئے وہ ننگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے لوگوں کے درمیان راستہ چلتا تھا ۔ جیساکہ مسلم نيشابوري نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے  :

میں ایک پتھر لے کر مسجد کی تعمیر کے لئے لے جارہا تھا اور ایک لنگ بھی پہنا ہوا تھا وہ کھل گیا اور شرمگاہ ظاہر ہوئی میں اسی حالت میں جارہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا :

ارْجِعْ إِلَي ثَوْبِكَ فَخُذْهُ ، وَلاَ تَمْشُوا عُرَاةً .

صحيح مسلم: ج 1 ص 184، ح 660، كتاب الحيض، ب 19 باب الاِعْتِنَاءِ بِحِفْظِ الْعَوْرَةِ . واپس جاو ،شلوار بہنو اور ننگا راستہ مت چلو ۔

کیا ایسے بچے کی بات قابل قبول ہے کہ جس کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ننگا ہوکر لوگوں کے درمیان نہیں جانا چاہئے ، کیا ایسا بچہ قابل اعتماد ہے ؟ کیسے ہوا ان سارے اصحاب کے درمیان سے ایسے بچے نے واقعہ نقل کیا کہ جس کو یہ بھی شعور نہیں تھا کہ میں نابالغ ہوں اور یہ اس کو معلوم نہ ہو کہ لوگوں کے سامنے شرمگاہ کو نکالنا جائز نہیں۔ اب یہ آکر اس واقعے کو بیان کرئے اور دوسرے اصحاب کو اس واقعے کا علم ہی نہ ہو۔

4 . رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی اور ابوجھل کی بیٹی میں جمع کرنا حرام ہونا  :

بخاري نے اس واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام نے ابوجھل کی بیٹی کا رشتہ مانگا ہے تو آپ سخت ناراض ہوئے اور مسجد میں آکر فرمایا :

وَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسُوءَهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ .

صحيح البخاري - ج 4 - ص 212 - 213

فاطمه میرے وجود کا حصہ ہے ،مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی انہیں تکلیف پہنچائے ، اللہ کی قسم رسول اللہ ص کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی {دونوں ایک کی زوجیت میں آئے}

دوسری روایت یوں نقل کیا ہے؛

إِلَّا أَنْ يُرِيدَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي مَا أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا .

صحيح البخاري ج 6، ص 158، ح 5230، كتاب النكاح، ب 109 - باب ذَبِّ الرَّجُلِ عَنِ ابْنَتِهِ، فِي الْغَيْرَةِ وَالإِنْصَافِ و صحيح مسلم، ج 7، ص 141، ح 6201، كتاب فضائل الصحابة رضي الله تعالي عنهم، ب 15 -باب فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِيِّ عَلَيْهَا الصَّلاَةُ وَالسَّلام .

علي (عليه السلام) اگر بوجھل کی بیٹی سے رشتہ کرنا چاہتے ہیں تو میرے بیٹی کو طلاق دو،فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے، جو چیز فاطمہ کی تکلیف کا باعث ہو اس سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے... .

ان دو روایتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی میں قابل جمع نہں ہے۔

اب ایک بات تو یہ ہے کہ اگر ابوجہل کی بیٹی مسلمان ہو چکی تھی اور ایک مومنہ عورت شمار ہوتی تھی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آنحضرت شریعت کے حکم کے خلاف اور خود اپنی سیرت کے خلاف کوئی چیز بیان کریں۔ کیا شریعت میں دوسری شادی سے منع ہے ؟ کیا آپ کی اپنی کئی ازواج نہیں تھیں ، لہذا ایک ممکن نہیں آپ شرعی حکم کے خلاف کوئی حکم دئے ؟

 یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ ابوجہل کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن ہونے سے  اس کی مومنہ بیٹی کے خلاف حکم تو نہیں لگا جاسکتا ۔۔

وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى{ الإسراء : 15}  اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

دوسری بات یہاں یہ ہے کہ یہی کام عثمان بن عفان نے کئی دفعہ انجام دیا ہے۔

رملة بنت شيبة ، عثمان کی بیویوں میں سے ایک ہے ۔ مکہ میں اس سے شادی کی اور وہ عثمان کے ساتھ مدینہ آئی، ابن عبد البر نے اس سلسلے میں لکھا ہے  :

رملة بنت شيبة بن ربيعة كانت من المهاجرات هاجرت مع زوجها عثمان بن عفان .

الاستيعاب ، ج 4 ، ص 1846 رقم 3345 .

رملة ، شيبه کی بیٹی ان میں سے ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئی .

اور  شيبة پيامبر اسلام ص کے دشمنوں میں سے تھا  اور یہ جنگ بدر میں ہلاک بھی ہوا ؛ جیساکہ ابن حجر اس سلسلے میں لکھتا ہے :

رملة بنت شيبة بن ربيعة بن عبد شمس العبشمية قتل أبوها يوم بدر كافرا .

الإصابة، ج 8، ص 142 - 143 رقم 11192.

رمله ، شيبه کی بیٹی ... اس کا باپ جنگ بدر میں مارا گیا جبکہ وہ کافر تھا .

جبکہ لکھا ہے اسی وقت پیمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کی بیٹی ، رقيه اس کی زوجہ تھی ، ابن اثير نے اسد الغابة میں لکھا ہے  :

ولما أسلم عثمان زوجّه رسول الله صلي الله عليه وسلم بابنته رقية وهاجرا كلاهما إلي أرض الحبشة الهجرتين ثم عاد إلي مكة وهاجر إلي المدينة .

أسد الغابة، ج 3، ص 376 .

عثمان جب مسلمان ہوا، رسول خدا نے اپنی بیٹی ،رقیہ اس کی زوجیت میں دیا ، ان دونوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، جب وہاں سے واپس آئی تو مدینہ ہجرت کر کے مدینہ گئی ۔

اس کے علاوہ عثمان نے أم البنين بنت عيينة اور فاطمة بنت الوليد بن عبد شمس سے بھی شادی کی تھی ،جبکہ ان دونوں کے باپ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں میں سے تھا ۔

اگر رسول خدا کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کا ایک ساتھ کسی کی زوجیت میں آجانا حرام تھا تو جناب عثمان نے ایسا کام کیوں انجام دیا ۔کیوں عثمان نے اس کام کو بار بار انجام دیا  ؟ اور اگر یہ کام حرام نہیں تھا تو کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اهل سنت کے بقول اس کام کی اجازت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نہیں دی،کیا نعوذ باللہ، اللہ کے حلال شدہ کام کو حرام کرنا چاہتے تھے؟

5 . جويريه ، مدینہ میں ہی نہیں آئی تھی :

یہ مطلب بھی تاریخی حقیقتوں میں سے ایک ہے کہ ابوجهل کی بیٹی جويريه ، مدینہ میں ہی نہیں آئی تھی۔ جس کے بارے میں یہ ادعا ہو کہ امير المؤمنين نے اس سے رشتہ مانگا ہے وہ ۸ ہجری کو تازہ مسلمان ہوئی اور اسی وقت عتاب بن اسيد سے اس کی شادی بھی ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات تک مدینہ میں ہی نہیں آئی ہو ؛ جیساکہ ابن سعد نے الطبقات الكبري میں لکھا ہے  :

لما كان يوم الفتح أسلمت أم حكيم بنت الحارث... فبايعته جويرية بنت أبي جهل بن هشام ... وتزوجّها عتاب بن أسيد بن أبي العيص بن أمية ثم تزوجها أبان بن سعيد بن العاص بن أمية فلم تلد له شيئا.

الطبقات الكبري، ج 8، ص 261 - 262.

فتح مكه کے دن ، ام حكيم مسلمان ہوئی... ابوجهل کی بیٹی جويره نے اسی دن  پیغمبر کی بیعت کی .. اور عتاب ابن اسيد سے شادی کر لی ،اس کے بعد أبان بن سعيد سے اس کی شادی ہوئی لیکن دونوں سے اس کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

لہذا

اولاً : کسی بھی تاریخ نگار نے یہ نہیں کہا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسم کی زندگی میں مدینہ آئی ہو ، اور  امام علي عليه السلام نے اس سے رشتہ طلب کیا ہو ؛

ثانياً : اسلام لانے کے فورا بعد ، عتاب بن اسيد سے اس ک شادی ہوئی .

اب یہ کیسے قابل قبول بات ہوگئی کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہجرت کے دوسرے سال، یا ہجرت کے آٹھویں سال میں وہ بھی مدینہ میں ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگا ہو اور یہ بھی صرف مسوره کو پتہ چلا ہو ، کسی اور  کو اس کا علم نہیں ہوا ہو  ؟

 

 

10     : ابن تیمیہ اور امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل کا انکار

ابن تیمیہ نے بہت سے موارد میں امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل کا انکار کیا ہے؛

1   حدیث "هو ولي كل مؤمن بعدي " کا انکار

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے ؛

ما تريدون من علي ؟ إن عليا مني و أنا منه و هو ولي كل مؤمن بعدي

جیساکہ اس حدیث کو اھل سنت کے بڑے بڑے محدثین اور مصنفین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور اھل سنت کے بہت سے علماء نے اس کی سند صحیح ہونے کااعتراف کیا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود »ابن تیمیه» نے «منهاج السنه» میں لکھا ہے:

حدیث " هو ولي كل مؤمن بعدي كذب على رسول الله صلى الله عليه و سلم

: «علی میرے بعد مومنین کے ولی ہیں ». یہ ایسی جھوٹی باتیں جس کو  روافض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف نسبت دی ہے ۔  

  ابن تیمیه اس کو جھٹلاتا ہے جبکہ «البانی» مشهور سلفی عالم ، اپنی مشہور کتاب  «سلسله الاحادیث الصحیحه» میں اس حدیث کی مختلف سندوں کی تحقیق کے بعد یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی  ثقہ اور قابل اعتماد ہیں  اور یہ صحیح مسلم کی روایات کے برابر اعتبار رکھتی ہے ،جیساکہ  ترمذی، نسائی، طیالسی، احمد بن حنبل، ابن حبان اور ابن عدی وغیرہ نے اس روایت کو ذکر کیا ہے؛   «حاکم نیشابوری  اور «ذهبی» نے اس حدیث کے صحیح ہونے کو صحیح قرار دیا ہے اور یہ صحیح ہے ۔

اس کے بعد وہ ابن تیمیہ کی طرف سے اس حدیث کو جھٹلانے پر تعجب اور اس انکار کی وجہ کے بیان میں لکھتا ہے :

 من العجيب حقا أن يتجرأ شيخ الإسلام ابن تيمية على إنكار هذا الحديث و تكذيبه في " منهاج السنة " ( 4 / 104 ) ۔۔۔۔۔۔۔

 هذا كله من بيان شيخ الإسلام و هو قوي متين كما ترى ، فلا أدري بعد ذلك وجه تكذيبه للحديث إلا التسرع و المبالغة في الرد على الشيعة ، غفر الله لنا و له .

واقعا تعجب کا مقام ہے کہ شیخ السلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کا انکار کرنے کے لئے جرات سے کام لیا ہے { غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے} ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حقیقت کے باوجود { کہ یہ روایت صحیح السند ہے }شیخ الاسلام کی طرف سے اس کے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ،جبکہ یہ حدیث  انتہائی قوی اور متین ہے ، اب ان کی طرف سے اس حدیث کی تکذیب کی وجہ جلدی بازی اور شیعوں کو رد کرنے میں زیادہ روی سے کام لینا ہے ۔ ۔

السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9 (5/ 222):

11    : امير المؤمنين عليه السلام کے علمی مقام کا انکار  :

ابن تيميه ، نے بہت سے موارد میں امير المؤمنين عليه السلام کے علمي کو مقام کو گرانے کی کوشش کی ہے اور ان کے علمی مقام کو زیر سوال قرار دینے کے ذریعے دوسروں کے، مثلا ابوبکر اور عثمان کے علمی مقام کو اوپر لے جانے کی کوشش کی ہے  ۔ابن تیمیہ لکھتا ہے :

والمعروف أنّ عليّاً أخذ العلم عن أبي بكر .

منهاج السنّة ، ج 5 ، ص513 .

مشھور یہ ہے کہ علی نے ابوبکر سے علم حاصل کیا ہے ۔

ابوبکر کئی سال بعد تک «فاكهة وأبّا » کے معنی کو نہیں جاننتا تھا جبکہ عرب کے بیابان نشین بھی اس کے معنی سے واقف تھے ۔

وأخرج أبو عبيد في فضائله وعبد بن حميد عن إبراهيم التيمي قال سئل أبو بكر الصديق رضي الله عنه عن قوله « وأبا» فقال أي سماء تظلني وأي أرض تقلني إذا قلت في كتاب الله مالا أعلم .

الدر المنثور - جلال الدين السيوطي - ج 6 - ص 317 .

  ابو بكر سے  «وَأَبًّا» کے معنی کا سوال کیا  ( اس میں لفظ اب کا  معنی نہیں جانتا تھا او جب جواب نہیں دے سکا تو ) کہا  : کونسا آسمان ہمارے اوپر سائیہ ڈالے اور کونسی زمین ہمیں اپنے اوپر جگہ دئے کہ اگر ہم اللہ کی کتاب سے کسی چیز کے معنی کو نہ جاننےاور کوئی جواب  دے ۔

ہم یہاں مختصر طور پر  حضرت امير المؤمنين عليه السلام کے اعلمیت کے بارے میں کچھ مطالب نقل کرتے ہیں اور جو تفصیلی طور پر اس سلسلے میں جاننا چاہتے ہیں تو انہیں اس سلسلے میں لکھی ہوئی تفصیلی کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔

1. اھل سنت کے بہت سے علماء نے نقل کیا ہے کہ پيامبر اسلام صلي الله عليه وآله وسلم نے فرمایا :

أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأته من بابه .

المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 11 ، ص 55 و أسد الغابة ، ابن أثير ، ج 4 ، ص22 و تاريخ بغداد ، خطيب بغدادي ، ج 3 ، ص181و الجامع الصغير ، السيوطي ، ج 1 ، ص415 و ج3 ، ص60.

میں علم کا شھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے  ؛ لہذا جو بھی علم چاہتا ہے وہ دروزے سے آئے ۔

حاكم نيشابوري نے المستدرك ، ج 3 ، ص127ـ126 میں اس روایت کو کئ  اسناد اور طرق کے ساتھ نقل کیا ہے  اور اس کو صحیح قرار دیا ہے  ،اسی طرح متقي هندي نے كنز العمال ، ج 13 ، ص149 میں اس کو نقل کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے  .

2 . علي عليه السلام تنھا وہ شخصیت ہے جنہوں نے یہ ادعا کرتے تھے « سلوني قبل أن تفقدوني » ، آپ  سے پہلے آپ کے بعد کسی نے ایسا ادعا کرنے کی جرات نہیں  کی  جیساکہ اھل سنت کے بہت سے علماء نے نقل کیا ہے  :

لم يكن أحد من الصحابة يقول (سلوني) إلاّ عليّ بن أبي طالب .

المستدرك ، الحاكم ، ج3 ، ص122 و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج42 ، ص 387 و المناقب ، خوارزمي ، ص 329 و فضائل الصحابة ، أحمد بن حنبل ، ج2 ، ص646، و أسد الغابة ، ابن أثير ، ج4 ، ص22 و تهذيب الأسماء واللغات ، النووي ، ج1 ، ص317 و المناقب للخوارزمي ، ص 90.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے  (جو بھی چاہتا ہے ) مجھ سے پوچھو نہیں کہا ، سوای  علي بن ابي طالب کے (یہ اسی روایت کہ طرف اشارہ ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا : جو کچھ مجھ سے پوچھنا ہے پوچھ لو ،قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں  )

3 .   ابن عباس سے نقل ہوا ہے وہ کہتے تھے  :

والله لقد أعطي علي ابن أبي طالب تسعة أعشار العلم وأيم الله لقد شارككم في العشر العاشر .

اللہ کی قسم علي بن ابي طالب کو علم کے دس میں سے نو حصے عطاء ہوئے اور دسویں حصے میں بھی دوسروں کے ساتھ شریک ہیں۔

الاستيعاب - ابن عبد البر - ج 3 - ص 1104 و أسد الغابة - ابن الأثير - ج 4 - ص 22 و سبل الهدي والرشاد - الصالحي الشامي - ج 11 - ص 289 و ينابيع المودة لذوي القربي - القندوزي - ج 1 - ص 213 و تفسير الثعالبي ، ج ، ص52 و تهذيب الأسماء واللغات ، ج1 ، ص317 .

4 . بخاري نے تاريخ كبير میں لکھا ہے  :

سمعت عطاء : قالت عائشة : علي اعلم الناس بالسنة .

التاريخ الكبير - البخاري - ج 2 - ص 255 و ج 3 - ص 228 و تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر - ج 42 - ص 408 و ... .

عطاء  سے سنا ہے : عايشه نے کہا  : علی سب سے زیادہ سنت کو جاننے والا انسان ہے  .

12حضرت علی علیہ السلام کے مقام قضاوت کا انکار  :

علامہ حلی کے قول کو رد کرتے ہوئے لکھتا ہے :

وأما قوله : قال رسول الله «أقضاكم علي» والقضاء يستلزم العلم والدين ، فهذا الحديث لم يثبت وليس له إسناد تقوم به الحجة .

منهاج السنّة، ج4 ص 138.

اور رسول خدا ( کا یہ قول ): علي تم میں سب سے زیادہ قضاوت میں ماھر ہے ؛ قضاوت کے لئے علم اور دین ضروری ہے  ؛ لہذا یہ حدیث صحیح نہیں ہے  اس کی کوئی سند نہیں ہے ، لہذا اس سے استدلال نہیں کرسکتے  .

اسی طرح اس حدیث « اقضاكم علي » کے بارے میں لکھتا ہے  :

فهذا الحديث لم يثبت ، وليس له إسناد تقوم به الحجّة ... لم يروه أحد في السنن المشهورة، ولا المساند المعروفة، لا بإسناد صحيح ولا ضعيف، وإنّما يروي من طريق من هو معروف بالكذب

منهاج السنّة ، ج 7 ، ص512 .

یہ حدیث صحیح نہیں ہے اس کی کوئی سند نہیں ہے کہ جس سے استدلال کے سکے ؛ یہ کسی مشھور کتاب میں نقل نہیں ہوئی ہے  ؛ اور نہ کسی مشھور مسندوں میں یہ نقل ہوئی ہے ؛ نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے نہ ضعیف سند ؛ اس کو صرف اسی نے نقل کیا ہے کہ جو جھوٹ بولنے میں مشھور ہے۔

جبکہ محمد بن اسماعيل بخاري نے قرآن کے بعد  اهل سنت کی صحیح ترین کتاب میں   عمر بن خطاب کا یہ قول نقل کیا ہے  :

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ .

صحيح البخاري ، ج 5 ، ص149، كتاب التفسير ، باب قوله تعالي : ما ننسخ من آية أو ننسها .

  ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ : عمر کہتا تھا : ہم میں سے قرآن کی بہترین  تلاوت کرنے والا أُبَيٌّ ہے اور بہترین قضاوت کرنے والا علي ہیں،

محمد بن اسماعيل بخاري ، کی کتاب مشهور کتاب نہیں ہے اور اس میں موجود سند صحیح سند نہیں ہے تو ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کے بعد اھل سنت کی نظر میں صحیح ترین کتاب ، سند کے اعتبار سے کمزور ہے اور اس میں موجود روایات کو جھوٹے لوگوں نے نقل کیا ہے ، مرحبا بناصرنا .

 

4. 

حضرت صدّيقه سلام اللّه عليہا کی شان میں گستاخی .

استاد حسن سقّاف کہ جو  اردن کے علماء میں سے ہیں آپ اپنی کتاب «التنبّيه والردّ علي معتقد قِدَم العالم والحدّ» میں لکھتے ہیں  :

ابن تيميّة يحتجّ كثير من الناس بكلامه ، ويسمّيه بعضهم «شيخ الاسلام» ، وهو ناصبيّ، عدوّ لعليّ(عليه السلام)، واتّهم فاطمة(عليها السلام) بأنّ فيها شعبة من النفاق.

التنبيه والردّ ، ص 7 .

بعض لوگ ابن تیمیہ کی باتوں کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسکو شيخ الاسلام کہتے ہیں جبکہ وہ ناصبي اور امير المؤمنين (عليه السلام) کے دشمن ہے ، اس نے حضرت صدّيقه طاهره کی شان میں جسارت اور گستاخی کی ہے:

نعوذ باللہ اس نے جناب فاطمہ سلام علیہا کے بارے میں کہا ہے : ان کے اس کام میں ایک قسم کی منافقت موجود ہے ۔

ملاحظہ کریں ۔۔۔ منهاج السنة ، ج 4 ، ص 245.

  حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  نے ابوبکر کو نماز میں شرکت نہ دینے کی وصیت کر کے گناہ کیا ۔

علامہ حلی کی اس بات کو ذکر کرتا ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے رات کو دفن کرنے اور اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے کسی کو بھی نماز جنازہ میں شریک نہ ہونے کی وصیت کی۔ پھر ابن تیمیہ اس کو اس طرح رد کرتا ہے :

   لا يحكيه عن فاطمة ويحتج به إلا رجل جاهل يطرق على فاطمة ما لا يليق بها وهذا لو صح لكان بالذنب المغفور أولى منه بالسعي المشكور ۔۔۔۔۔۔۔

کوئی جاھل انسان ہی اس بات سے ابوبکر وغیرہ کے خلاف استدلال کرسکتا ہے اور اس واقعے کو ذکر کرسکتا ہے ۔یہ بات تو جناب فاطمہ سلام علیہما کی شایان شان نہیں ہے  اگر یہ بات صحیح ہو تو یہ تو ایک گناہ ہے ۔۔۔۔  { اس کے بعد ابن تیمیہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے اس کام کو قابل مذمت اور غیر شرعی کام دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔

منهاج السنة النبوية (4/ 247) :

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ کو یہ معلوم ہے کہ صحیحین میں ایسی صحیح سند روایات موجود ہیں کہ جن کے مطابق آپ نے ایسی وصیت  فرمائی اور آپ پر ظلم کرنے والوں کو نماز جنازے میں شریک نہ کرنے اور رات کو دفن کرنے کی وصیت کر کے دنیا سے چلی گئیں ۔۔۔ لہذا یہ سب جاننے کے باوجود وہ اس انداز میں بحث کرتا ہے اور غیر مستقیم طور پر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو گناہ گار اور ان کی اس وصیت کو غیر شرعی کام دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔

 

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے انتہائی جسورانہ اور گستاخانہ کلمات  کا استعمال :

ابوبکر اور جناب فاطمہ ع کے درمیان مقایسہ کرتا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر ان دونوں میں سے کسی کو ھوای نفس اور بدگمانی سے بری ذمہ قرار دینا ہو تو ابوبکر اس کے زیادہ مستحق ہے ۔

 وليس تبرئة الإنسان لفاطمة من الظن والهوى بأولى من تبرئة أبي بكر فإن أبا بكر إمام لا يتصرف لنفسه بل للمسلمين والمال لم يأخذه لنفسه بل للمسلمين وفاطمة تطلب لنفسها وبالضرورة نعلم أن بعد الحاكم عن اتباع الهوى أعظم من بعد الخصم الطالب لنفسه فإن علم أبي بكر وغيره بمثل هذه القضية لكثرة مباشرتهم للنبي صلى الله عليه و سلم أعظم من علم فاطمة۔۔۔

 

 

ان معاملات میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ھوای نفس اور بدگمانی سے بری ذمہ قرار دینے سے زیادہ ابوبکر  کو ان چیزوں سے بری ذمہ قرار دیا مناسب ہے  کیونکہ وہ اپنے لئے ان چیزوں کا مطالبہ نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ تو مسلمانوں کے لئے ان چیزوں کا مطالبہ کر رہا تھا جبکہ جناب زہرا سلام  اللہ علیہا اپنے لئے ان چیزوں کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ حاکم کا ھوا و ھوس سے دور ہونا ایسے خصم کا ھوا و ھوس سے دور  ہونے سے  زیادہ قوی ہے کہ جو اپنے لئے کسی چیز کا مطالبہ کر رہا ہو ۔ کیونکہ ابوبکر وغیرہ ان معاملات میں جناب فاطمہ سے زیادہ سروکار رکھتے تھے اور انہیں ان چیزوں کا جناب فاطمہ سے زیادہ علم تھا ۔{یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کو میراث ملنے یا ملنے کے مسائل کا علم  ابوبکر وغیرہ کو جناب زہراء سلام اللہ علیہا سے زیادہ تھا ۔}

منهاج السنة النبوية (5/ 522):

 فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کے بارے میں گستاخانہ رویہ :

 

 ابوبکر سے جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا اپنے حق کا مطالبہ کرنے اور مطالبہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے ناراض ہونا اور بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے جانے کے واقعے  میں ،ابن تیمیہ شیعوں کے موقف کو رد کرنے کے بہانے جو دل میں آیا ہے وہ اس نے کہہ دیا ہے یہاں تک کہ ان پر لالچ ، دنیا پرستی اور منفاقت کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کیا ہے {نعوذ باللہ } ؛

  «وَذَلِكَ الْحَاكِمُ يَقُولُ: إِنَّمَا أَمْنَعُ لِلَّهِ لِأَنِّي لَا يَحِلُّ لِي أَنْ آخُذَ الْمَالَ مِنْ مُسْتَحِقِّهِ فَأَدْفَعَهُ إِلَى غَيْرِ مُسْتَحِقِّهِ، وَالطَّالِبُ يَقُولُ: إِنَّمَا أَغْضَبُ لِحَظِّي الْقَلِيلِ مِنَ الْمَالِ. أَلَيْسَ مَنْ يَذْكُرُ [مِثْلَ] هَذَا عَنْ فَاطِمَةَ وَيَجْعَلُهُ مِنْ مَنَاقِبِهَا جَاهِلًا؟ أَوْ لَيْسَ اللَّهُ قَدْ ذَمَّ الْمُنَافِقِينَ الَّذِينَ قَالَ فِيهِمْ: (وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ - وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ) [سُورَةِ التَّوْبَةِ: 58، 59] فَذَكَرَ اللَّهُ قَوْمًا رَضُوا إِنْ أُعْطُوا، وَغَضِبُوا إِنْ لَمْ يُعْطُوا، فَذَمَّهُمْ بِذَلِكَ، فَمَنْ مَدَحَ فَاطِمَةَ بِمَا فِيهِ شَبَهٌ مِنْ هَؤُلَاءِ أَلَّا يَكُونَ قَادِحًا فِيهَا؟» ۔۔۔۔۔۔۔۔۔     منهاج السنه، ابن تیمیه، ج4، ص۔۔246

کَانَ بُغْضُهُ شُعْبَةً مِنْ شُعَبِ النِّفَاقِ   ۔

منهاج السنه، ابن تیمیه، ج4، ص۔۔300

 ابن تیمیہ کی پیروی میں اس کے ہمفکر ابن‌عثیمین  مشہور سلفی مولوی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ  جناب زہرا اس معاملے کے وقت اپنی عقل کھو چکی تھیں۔۔۔۔۔  

 نسأل الله أن يعفو عنها. وإلا فأبوبكر ما استند إلي رأي، وإنما استند إلي نص، وكان عليها رضي الله عنها أن تقبل قول النبي صلي الله عليه وسلم «لا نورث ما تركنا صدقه» ولكن كما قلت لكم قبل قليل: عند المخاصمه لا يبقي للإنسان عقل يدرك به ما يقول أو ما يفعل، او ما هو الصواب فيه؛ فنسأ الله أن يعفو عنها، وعن هجره خليفه رسول الله.

لتعليق علىٰ صحيح مسلم، جلد ٩، صفحه ٧۸، شرح صحيح مسلم، جلد ۶، صفحه ۷۴

 

 تبصرہ :  جیساکہ بیان ہوا کہ ابن تیمیہ یہ تمام گستاخانہ الفاظ شیعوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے بہانے استعمال کرتا ہے ۔لیکن اس کا یہ حملہ اور گستاخانہ رویہ حقیقت میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت پر حملہ اور ان کی شان میں توھین کے مترادف ہے ۔کیونکہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اپنے حق کا مطالبہ اور حق نہ ملنے کی وجہ سے خلفاء کو اپنے حق کا غاصب سمجھنا اور اس وجہ سے مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے جانا اور ان میں سے کسی کو جنازے ،میں شرکت کی اجازت نہ دینے کی وصیت ،یہ  ایسےمسلمہ امور ہیں جو قابل انکار نہیں۔ یہ سب باتیں صحاح ستہ میں صحیح سند طریقے سے ثابت ہیں۔[اس سلسلے میں اسناد کو دیکھنے کے لئے اس لینگ کی طرف رجوع کریں https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1876}

 

اب ان حقائق کو سامنے رکھا جائے تو ابن تیمیہ کی طرف سے شیعوں کو الزامی جواب دینے کے بہانے  بیان کردہ یہ ساری باتیں اور گستاخانہ کلمات حقیقت مِیں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا پر ہی حملہ ہے ۔لہذا جسطرح سے نواصب کے شبھات کا بہانہ بنا کر اس نے حضرت علی علیہ السلام پر حملہ کیا ہے اور ان کی شان میں گستاخانہ رویہ اپنایا ہے ۔اس نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں شیعوں کو الزامی جواب دینے کے بہانے جو دل میں آیا اس نے بیان کیا اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا اور یہی اس کے ناصبی ہونے کی بہترین دلیل ہے ۔

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شان پر ایک نطر 

شیعہ اور اھل سنت کا اس بات پر اتفاق نظر موجود ہے کہ پيامبر اسلام صلي الله عليه وآله وسلم نے حضرت زهرا  سلام اللہ علیہا کو «سيدة نساء العالمين » قرار دیا . بخاري نے لکھا ہے کہ پيامبر اسلام صلي الله عليه وآله وسلم نے حضرت صديقه طاهره سے خطاب میں فرمایا  :

اما ترضين ان تكوني سيدة نساء أهل الجنة أو نساء المؤمنين .

صحيح البخاري - البخاري - ج 4 - ص 183

کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ جنت کی عورتوں کی سردار {یا تمام مومنین کی عورتوں کی سردار ہوں ؟

دوسری جگہ نقل ہوا ہے :

وقال النبي صلي الله عليه وسلم فاطمة سيدة نساء أهل الجنة .

صحيح البخاري - البخاري - ج 4 - ص 219 .

  رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا : فاطمه جنت کی عورتوں کی سردار ہیں .

کیا نعوذ بااللہ ممکن ہے جنت کی عورتوں یا مومنوں کی عورتوں کی سردار  نے منافقت سے کام لیا ہو ؟ نعوذ باللہ ۔۔

حضرت زهرا سلام الله عليها کے فضائل کا انکار :

ابن تيميه نے نہ صرف حضرت زهرا سلام الله عليها کی شان میں توھین کی ہے بلکہ بہت سے موارد میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے ایسے فضائل کا بھی انکار کیا جن کو شیعہ اور اھل سنت والے دونوں مانتے ہیں ، منهاج السنة میں وہ لکھتا ہے  :

وأما قوله : ورووا جميعا أن النبي صلي الله عليه وسلم قال : يا فاطمة، إن الله يغضب لغضبك ويرضي لرضاك . فهذا كذب منه ، ما رووا هذا عن النبي صلي الله عليه وسلم ، ولا يعرف هذا في شئ من كتب الحديث المعروفة ، ولا له إسناد معروف عن النبي صلي الله عليه وسلم، لا صحيح ولا حسن .

منهاج السنة 4 / 248 .

یہ جو اس (علامہ حلّی) نے کہا ہے کہ: تمام محدثین نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: اے فاطمہ خداوند تیرے غضب کرنے سے غضبناک اور تیرے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے، یہ جھوٹ ہے اور اسطرح کی روایت رسول خدا سے بالکل نقل نہیں ہوئی اور یہ حدیث، حدیث کی معروف کتب میں سے کسی ایک میں بھی ذکر نہیں ہوئی اور یہ حدیث کسی معروف سند کے ساتھ رسول خدا سے نقل نہیں ہوئی، یہ حدیث کسی سند صحیح کے ساتھ یا حسن سند کے ساتھ  نقل نہیں ہوئی ہے ۔

ابن تیمیہ کے اس کلام کے بر خلاف اہل سنت کے بہت سے علماء اور محدثین نے اس حدیث کو اپنی کتب میں ذکر کیا ہے اور اس حدیث کی سند کے صحیح یا معتبر ہونے پر یقین اور اطمینان کا اظہار کیا ہے انہیں میں سے ایک حاکم نیشاپوری ہے۔

 اب ہم ان موارد میں سے بعض کو ذکر کرتے ہیں:

عن علي رضي اللّه عنه قال: قال رسول اللّه صلي اللّه عليه وآله وسلم لفاطمة: «إنّ اللّه يغضب لغضبك، ويرضي لرضاك.

علي عليه السلام نے نقل کیا ہے کہ  پيامبر اسلام صلي الله عليه وآله وسلم نے حضرت حضرت زهرا سلام الله عليها سے خطاب میں فرمایا  : بتحقیق اللہ آپ کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہےاور آپ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتا ہے ۔

حاكم نيشابوري نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے  :

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه .

المستدرك ، ج3 ، ص153 .

اس حدیث کی سند صحیح ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا۔

هيثمي نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے :

وإسناده حسن .

اس روایت کی سند حسن ہے ۔

مجمع الزوائد ، ج9 ، ص 203 .

جیساکہ بہت سے اھل سنت کے بزرگ علماء نے اس روایت کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ؛

الآحاد والمثاني الضحاك: 363/5، المعجم الكبير للطبراني: 108/1، 401/22، أسد الغابة :522/5، ذيل تاريخ بغداد: 140/2، 141/2، تهذيب الكمال: 35 / 250، ترجمة فاطمة عليها السلام، ميزان الاعتدال :492/2، الإصابة: 265/8، تهذيب التهذيب: 392/12، (441/12)، تاريخ مدينة دمشق : 156/3، الخصائص الكبري للسيوطي: 2 / 265، سبل الهدي والرشاد للصالحي الشامي: 11/ 44، الذرية الطاهرة النبوية للدولابي: 119، نظم درر السمطين للزرندي الحنفي: 178، كنز العمال 12 / 111 رقم 34238 .

اب دیکھے کون جھوٹا انسان ہے  ؟ کیا ابن تيمه نے یہ کتابیں نہیں پڑھی تھی ، یا پڑھی تو تھی لیکن جناب فاطمه زهرا سلام الله عليها سے کینہ توزی کی وجہ سے ان کے فضائل کا انکار کرنا چاہا ؟!

5. امام حسين (عليه السلام) کی شان میں گستاخی  :

ابن تيميه ،امام حسین علیہ کے قیام اور ان کی شہادت کے بارے میں خاص نظریہ رکھتا ہے اور اس نظریے کو بنی امیہ والوں کے علاوہ  کسی اور نے بیان نہیں کیا ہے اور کیونکہ ابن تیمیہ يزيد بن معاويه سے خاص محبت رکھتا ہے ، اسی لئے وہ امام حسين عليه السلام کے قیام کو نعوذ باللہ ایک قسم کی شرارت سے تعبیر کرتا ہے اور  بہت سے موارد میں يزيد بن معاويه سے دل کھول کر دفاع کرتا ہے اور تاریخ میں موجود یزید کے سیاہ گردار سے اس کے دامن کو پاک و صاف کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے ، یہاں پر اس کے چند نمونے .

وہ امام حسين عليه السلام کے قیام کے بارے میں کہتا ہے :

ولم يكن في الخروج لا مصلحة دين ولا مصلحة دنيا بل تمكن أولئك الظلمة الطغاة من سبط رسول الله صلي الله عليه وسلم حتي قتلوه مظلوما شهيدا وكان في خروجه وقتله من الفساد ما لم يكن حصل لو قعد في بلده فإن ما قصده من تحصيل الخير ودفع الشر لم يحصل منه شيء بل زاد الشر بخروجه وقتله ونقص الخير بذلك وصار ذلك سببا لشر عظيم وكان قتل الحسين مما أوجب الفتن كما كان قتل عثمان مما أوجب الفتن

وهذا كله مما يبين أن ما أمر به النبي صلي الله عليه وسلم من الصبر علي جور الأئمة وترك قتلاهم والخروج عليهم هو أصلح الأمور للعباد في المعاش والمعاد وأن من خالف ذلك متعمدا أو مخطئا لم يحصل بفعله صلاح بل فساد

منهاج السنة ، ج4 ، ص 530 .

ان کے قیام میں نہ دین کی مصلحت تھی نہ دنیا کی ۔اس قیام کی وجہ سے ظالم اور سرکش لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے پر مسلط ہوا اور ان کو مظلومانہ طور پر شہید کردیا ۔ آپ کے قیام اور شھادت کی وجہ سے بہت زیادہ فساد وجود میں آئے اور اگر آپ گھر میں  بیٹھے رہتے تو اتنے فساد نہیں ہوتے !!! لہذا جو اچھائی آپ حاصل کرنا چاہتے تھے اور جس بدی کو آپ دور کرنا چاہتے تھے وہ بلکل ہاتھ نہیں آیا ۔بلکہ آپ کے قیام کی وجہ سے برائی زیادہ ہوگئی ، نیکی کم ہوگئی ۔ لہذا آپ کا یہ قیام بہت زیادہ شر کا باعث بنا ، جس طرح سے جناب عثمان کے قتل کی وجہ سے بہت سے فتنے وجود میں آئے ، امام حسین علیہ السلام کے قتل سے بھی بہت سے فتنے برپا ہوئے ۔

اب دیکھے حد یہ ہے کہ ابن تیمیہ  فرزند رسول خدا اور جنت کے جوانوں کے سردار پر اعتراض کرتا ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حسين بن علي علیہما السلام ، ابن تیمیہ کے برابر بھی نہیں جانتے تھے کہ آپ کے اس کام میں مصلحت ہے یا نہیں؟

جبکہ امام حسين عليه السلام  نے خود ہی بہت سی روایات میں اس قسم کے اعتراضات کا جواب دیا ہے ۔؛ انہیں میں سے ایک مورد یہ ہے کہ جب حرّ بن يزيد رياحي کے لشکر سے آپ کا آمنا سامنا ہوا تو آپ نے اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا :

يا ايها الناس إن رسول الله قال من رأي سلطانا جائرا ، مستحلا لحرم الله ، ناكسا لعهدالله ، مخالفا لسنة رسول الله ، يعمل في عباد الله بالإثم و العدوان ، فلم يغير عليه بفعل و لا قول ، كان حقا علي الله أن يدخله مدخله ، ألا و إن هؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان ، و تركوا طاعة الرحمان ، أظهروا الفساد و عطلوا الحدود ، و أحلوا حرام الله و حرموا حلاله و أنا أحق من غير .

تاريخ طبري ، ج4 ، ص304 ، كامل ابن اثير ، ج4 ، ص48 ، الفتوح ابن اعصم ، ج5 ، ص81 .

: اے لوگو:رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:  جو  کسی ظالم فرمان روا کو دیکھے جو حرام الہی کو حلال  شمار کرتا ہو،خدا سے کئے گئے عہد و  پیمان کو کو توڑتا ہو، اسکے پیغمبر کی سنت کی مخالفت کرتا ہو،خدا کے بندوں کے درمیان ظلم و  تعدی کرتا ہو اور ان تمام  باتوں کے باوجود زبان و عمل سے اپنی مخالفت کا اظہار نہ کرے تو خدا  اس کو ظالم فرمان روا کے ساتھ ایک ہی جگہ جہنم میں  رکھے گا۔اے لوگو:بنو امیہ کے حکمرانوں نے شیطان کی اطاعت  اختیار کیا ہے خداے رحمن کی اطاعت ترک کردی ہے فساد پھیلا رکھا ہے، قوانین الہی کو معطل کر رکھا ہے۔ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال سمجھا ہے ایسے میں  قیام کرنے کا میں زیادہ مستحق ہوں ۔

 و اسی طرح اھل سنت کے بہت سے بزرگوں نے نقل کیا ہے ،انہیں میں سے ایک  ذهبي نے سير اعلام النبلا میں نقل کیا ہے کہ امام حسين عليه السلام نے سرزمین کربلا میں فرمایا:

ألا ترون الحق لا يعمل به و الباطل لا يتناهي عنه ، ليرغب المؤمن في لقاء الله ، فإني لا أري الموت إلا السعادة و الحياة مع الظالمين إلا برما .

کیا تم لوگ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے روکا نہیں جارہا ایسے میں مئومن کو خدا سے ملاقات کے لئے آمادہ ہونا چاہے کیونکہ میں اس راہمیں موت  کو شہادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو ننگ وعار سمجھتا ہوں!

سير اعلام النبلاء ، ذهبي ، ج3 ، ص310 و تاريخ اسلام ، ذهبي ، ج5 ، ص12 و معجم كبير ، طبراني ، ج3 ، ص115 و مجمع الزوائد ، هيثمي ، ج9، ص192 و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج14، ص217 .

اب کیا یہ قابل تصور بات ہے کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی مصلحت کے بغیر یہ قیام فرمایا ہو  ؟

امام حسين بن علي عليهما السلام کے یہی کلمات ابن تيميه جیسے یزیدی فکر رکھنے والوں کے لئے بہترین جواب ہے ۔ ان لوگوں کا ھم وغم جاھلی سنتوں کا احیاء  اور حقیقی اسلام کو نابود کرنا اور ابوسفیانی اسلام کو زندہ کرنا ہے ۔

  

 ابن تيميه بعض موارد میں بنی امیہ کے جرائم کو بنی اسرائل کے جرائم کے ساتھ موازنہ کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ بنی امیہ کے جرائم بنی اسرائیل کے جرائم سے زیادہ نہیں ہے  :

ان بني اميه ليسوا باعظم جرما من بني اسرائيل: فمعاويه حين أمر بسُمّ الحسن فهو من باب قتال بعضهم .

منهاج السنة ، ج 2 ، ص225 .

بني اميه کے جرائم بني اسرائيل کے جرایم سے زیادہ نہیں!: لہذا جس وقت معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کو زہر دینے کا حکم دیا تو یہ بعض جنگوں میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی طرح ہے  .

دوسری جگہ پر وہ یزید سے دفاع اور اس کے جرائم کو کم کر کے پیش کرنے کے لئے لکھتا ہے :

ويزيد ليس باعظم جرما من بني اسرائيل ، كان بنو اسرائيل يقتلون الانبياء ، وقتل الحسين ليس باعظم من قتل الانبياء !! .

منهاج السنة ، ج2 ، ص 247.

يزيد کا گناہ اور جرم بني اسرائيل سے زیادہ نہیں ہے  ؛ بني اسرائيل پیغبروں کو شہید کر دیتے تھے اور حسین علیہ السلام انبیاء سے افضل تو نہیں .

ہم یہاں ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں سے کہتے ہیں : اگرچہ یزید کا یہ کام بشری تاریخ میں سب سے زیادہ برا اور بڑا جرم تھا ، کوئی کام خاتم الأنبياء کے فرزند اور ان کے ناموس کو اسیر کرنے سے برا اور پست نہیں ہوسکتا ،لیکن ہم پھر بھی یہی کہتے ہیں ؛ چلو ہم یہ بھی قبول کرتے ہیں کہ یزید کا یہ کام بنی اسرائیل کے جرائم سے زیادہ نہیں تھا ،لہذا کم از کم بنی اسرائیل کے برابر تو اس کو سزا ملے ۔

جیساکہ قرآن کی بہت سی آیات میں بنی اسرائیل پر لعنت کی ہے اور انہیں عذاب کا وعدہ دیا ہے ،ہم بھی یزید کے بارے میں اسی پر اکتفاء کرتے ہیں :

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنيِ إِسرَْ ءِيلَ عَليَ لِسَانِ دَاوُدَ وَ عِيسيَ ابْنِ مَرْيَمَ ذَالِكَ بِمَا عَصَواْ وَّ كَانُواْ يَعْتَدُونَ . كَانُواْ لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُون . المائدة / 78 و 79 .

بنی اسرائیل میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر جناب داؤد علیھ السّلام اور جناب عیسٰی علیھ السّلامکی زبان سے لعنت کی جاچکی ہے کہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اور ہمیشہ حد سے تجاوز کیا کرتے تھے ۔

وَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ وَ بَآءُو بِغَضَب مِّنَ اللَّهِ ذَ لِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِـَايَـتِ اللَّهِ وَ يَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَ لِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ . البقرة / 61.

اب ان پر ذلّت اور محتاجی کی مار پڑ گئی اور وہ غضب الٰہی میں گرفتار ہوگئے. یہ سب اس لئے ہوا کہ یہ لوگ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیائ خدا کو قتل کردیا کرتے تھے. اس لئے کہ یہ سب نافرمان تھے اور ظلم کیا کرتے تھے ۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِـَايَـتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَاب أَلِيم . آلِ عِمْرَانَ / 21.

جو لوگ آیات الٰہیہ کا انکار کرتے ہیں اور ناحق انبیائ کو قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو عدل و انصاف کا حکم دینے والے ہیں انہیں دردناک عذاب کی خبرسنادیجئے!

يزيد ، نے امام حسين عليه السلام کو شھید کرنے کا حکم نہیں دیا تھا !

ابن تیمیہ ، یزید سے دفاع میں اتنے آگے نکل جاتا ہے کہ وہ تاریخی حقائق اور بدھیات کا انکار کرنے لگتا ہے وہ یزید کے نامہ اعمال کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور امام حسین علیہ السلام کی شھادت کو دوسرے کی گردن پر ڈال دیتا ہے ، جیساکہ وہ اس بارے میں لکھتا ہے :

وأما قتل الحسين فلم يأمر به ولم يرضي به بل ظهر منه التألم لقتله وذم من قتله ولم يحمل الرأس اليه وإنما حمل الي ابن زياد .

مجموع الفتاوي ، ج4 ، ص 486 .

يزد نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی وہ اس کام پر راضی تھا ،بلکہ اس نے اس پر افسوس اور درد کا اظہار کیا ہے ، امام حسین علیہ السلام کا سر اس کی طرف لے کر نہیں گیا بلکہ ان زیاد کی طرف لے کر گیا .

 يزيد کی طرف سے امام حسين عليه السلام  کو شہید کرنے کا حکم تاریخی حقائق اور متواترات میں سے ہے ۔سارے مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں ۔ جیساکہ ابن عماد حنبلي نے  كتاب شذرات الذهب میں لکھا ہے :

قال التفتازاني في (شرح العحقائد النسفيه): (اتفقوا علي جواز اللعن علي من قتل الحسين، او امر به، او اجازه، او رضي به، والحق ان رضا يزيد بقتل الحسين واستبشاره بذلك واهانته اهل بيت رسول اللّه (ص) مما تواتر معناه وان كان تفصيله آحادا، فنحن لا نتوقف في شانه، بل في كفره وايمانه، لعنه اللّه عليه وعلي انصاره واعوانه) .

شذرات الذهب ، ج1، ص 68 ـ 69.

تفتازاني نے شرح عقائد نسفيه میں لکھا ہے : امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر ،ان کے قتل کا حکم دینے والوں، اس قتل کی اجازت دینے والوں اور اس پر راضی ہونے والوں پر ، لعنت کرنا جائز ہونے پر سب کا اتفاق ہے ۔حق بات یہ ہے کہ یزید امام حسین علیہ السلام کے قتل پر راضی تھا اور یہ لوگ ایک دوسرے کو اسکی بشارت دیتے تھے ۔یزید نے اہل بیت کی اہانت کی اور یہ تمام امور ایسے مسائل ہیں جو معنوی تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچے ہیں گرچہ اس کی تفاصیل خبر واحد ہے ۔ مجھے اس کی بدزبانی بلکہ اس کی ایمان میں بھی توقف کا شکار نہیں [ وہ ایک بے ایمان آدمی تھا ]خدا کی لعنت ہو اس پر اور اسکے ساتھوں اور اس کی مدد کرنے والوں پر.

  اهل سنت کے علماء میں سے  شبراوي لکھتا ہے  :

ولا شك عاقل ان يزيد بن معاويه هو القاتل للحسين (رضي اللّه) لانه هو الذي ندب عبيداللّه بن زياد لقتل الحسين.

الإتحاف بحبّ الأشراف ، ص 62.

اس میں شک نہیں ہے کہ يزيد به معاويه ہی امام حسين کا قاتل ہے  ؛ کیونکہ اسی نے  عبيد الله بن زياد کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر مامور کیا تھا  .

اسی طرح  ذهبي  نے تاريخ الإسلام میں لکھا ہے  :

قلت : ولما فعل يزيد باهل المدينة ما فعل وقتل الحسين وإخوته وآله ، شرب يزيد الخمر وارتكب أشياء منكرة بغضه الناس ، وخرج عليه غير واحد ، ولم يبارك الله في عمره ...

تاريخ الاسلام ، وفيات 61 - 80 ، ص 30 .

میں کہتا ہوں : یزید نے مدینہ والوں کے ساتھ جو چاہا انجام دیا ،امام حسین علیہ السلام اور ان کے بھائیوں اور رشتہ داروں کو شہید کیا ،شراب پیا اور برے کام انجام دیا تو لوگوں نے اس س دشمنی کی اور بہت سے لوگوں نے اس کے خلاف قیام کیا اور اللہ نے بھی اس کی زندگی میں برکت نہیں رکھی .

اسی طرح ابن اثير نے الكامل میں اور يعقوبي نے اپنی تاریخ کی کتاب میں ، ابن قتيبه نے الإمامة والسياسة میں، يزيد بن معاويه کا مروان کے نام خط میں یزید کے اس حکم کو نقل کیا ہے :

أشدد يدك بالحسين ، فلا يخرج حتي يبايع ، فإن أبي فاضرب عنقه.

حسین بن علی پر سختی سے پیش آئے اور بیعت نہیں کی تو ان کی گردن اڑا دو  .

الكامل ابن اثير، ج4، ص15 و تاريخ يعقوبي، ج2، ص241 و الإمامة و السياسه ، ص175 .

اب کیا یہ امام حسين (ع) کے قتل کا حکم نہیں ہے ؟!

اسی طرح ابن أثير نے نقل کیا ہے کہ بعض لوگوں نے عبيد الله بن زياد کی سرزنش کرتے ہوئے کہا : تم نے کیوں فرزند پیغمبر کے خون سے میں ہاتھ ڈالا ؟ تو اس نے جواب میں کہا :

أما قتلي الحسين ، فإنه أشار إلي يزيد بقتله أو قتلي ، فأختار قتله .

الكامل ، ابن اثير، ج4، ص140

میں نے حسین کو یزدید کے حکم سے قتل کیا ، مجھ سے یہ کہا گیا کہ یا تم حسین کو قتل کرئے یا ہم تمہیں قتل کرتے ہیں؛میں نے بھی حسین کو قتل کیا تاکہ میں خود قتل نہ ہو جاوں۔

شبراوي نے  بھی الإتحاف بحب الأشراف، ص62 میں لکھا ہے  :

لا يشك عاقل أن يزيد بن معاويه هو قاتل الحسين ، لأنه هو الذي ندب عبيدالله بن زياد لقتل الحسين۔

کوئی بھی عقلمند انسان کو اس میں شک نہیں ہے کہ  يزيد بن معاويه ہی  امام حسين (عليه السلام) کا قاتل ہے  اسی نے ہی  عبيد الله بن زياد کو  امام حسين عليه السلام کے قتل کرنے کا حکم دیا ۔

کیا اھل سنت کے ہی علماء کے واضح موقف کے بعد بھی یزید کا امام حسین علیہ السلام کے قاتل ہونے میں کسی کو شک ہے ؟

صحابی پیغمبر جناب ابن عباس کی نظر میں یزید ہی قاتل تھا

۔جیساکہ ابن عباس نے بھی اس حقیقت کو یزید کے خط کے جواب میں یوں  لکھا :  فما أنسى من الأشياء فلست بناس اطرادك حسينًا رضي الله عنه من حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى حرم الله عز وجل وتسييرك إليه الرجال لتقتله في الحرم فما زلت بذلك وعلى ذلك حتى أشخصته من مكة إلى العراق ، فخرج خالفًا يترقب۔۔

۔أنساب الأشراف [2 /185] مجمع الزوائد [7 /500] المعجم الكبير [10 /241] ] الكامل في التاريخ [2 /194]

کیا میں بھول سکتا ہوں کہ تو نے حسینؑ  کو خوف اور پریشانی کی حالت میں حرم الہی اور حرم رسول خدا سے باہر نکالا  کیونکہ تم نے انہیں قتل کرنے لئے لوگوں کو وہاں روانہ کیا تھا ۔

یزید کے کچھ اچھے اعمال تھے کہ جو اس کے برے کاموں کے برے اثرات کو ختم کر دیتے ہیں۔

فمن أين يعلم الإنسان أن يزيد أو غيره من الظلمة لم يتب من هذه أو لم تكن له حسنات ماحية تمحو ظلمة ولم يبتل بمصائب تكفر عنه وأن الله لا يغفر له ذلك ؟ مع قوله تعالي إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء .

منهاج السنة ، ج 2 ، ص252 .

کہاں سے معلوم ہے کہ یزید اور اس جیسے ظالموں نے اپنے برے کاموں کی وجہ سے توبہ نہ کیا ہو ؛ یا ان کے ایسے کام ہو کہ جو ان کے ظالمانہ کاموں کے اثرات کو ختم کر دئے ،اور ایسی مصیبتیں ان پر نہ آئی ہوں کہ جو ان کے برے اعمال کا کفارہ شمار ہو ؟کیا اللہ ایسے لوگوں کی نہیں بخشتا ؟جبکہ اللہ نے خود ہی فرمایا ہے:  اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ جس کو چاہے بخش سکتا ہے ۔۔

یہ باتیں ابن تیمیہ کی جو  وھابی فکر کی بنیاد ڈالنے والا ہے ،یہ اس کی طرف سے رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم کے گھرانے کی توہین کے کچھ نمونے ہیں ۔اب ہم یہاں حسن بن فرحان المالكي کی طرف سے ناصبی کی پیش کردہ تعریف کو نقل کرتے ہیں تاکہ ہماری اس تحریر کا مطالعہ کرنے والے خود ہی فیصلہ کرئے  .

النصب فهو كل انحراف عن علي واهل البيت سواء بلعنه أو تفسيقه ، كما كان يفعل بعض بني أمية أو بالتقليل من فضائله كما يفعل محبّوهم أو تضعيف الأحاديث الصحيحة في فضله أو عدم تصويبه في حروبه أو التشكيك في شرعيّة خلافته وبيعته أو المبالغة في مدح خصومه ، فهذا وأمثاله هو النصب .

نحو إنقاذ التاريخ الإسلامي ، ص 298، الناشر مؤسسة اليمامة الصحفيّة ، الاردن ، ط. 1418 هجرية .

نصب ، علي اور اهل بيت علیہم السلام سے ھر قسم کے انحراف کا نام ہے ؛ چاہئے یہ ان پر لعن کرنے طور پر ہو یا انہیں فاسق جاننے کے ذریعے سے ہو – {وہی کام جو بعض  بني اميه والے انجام دیتے تھے} ۔  یا ان کے فضائل کو کم کر کے دکھانا– {وہی کام جو بنی امیہ سے محبت کرنے والے انجام دیتے ہیں} - يا ان کی شان میں موجود صحیح روايات کی تضعیف کرنا یا یہ نظریہ رکھتا ہو کہ حضرت علی علیہ السلام نے جنگوں میں{جنگ جمل ، جنگ صفین اور جنگ نہروان } میں غلطی کی ،  یا ان کی خلافت کے شرعی ہونے میں شک کرتا ، ان کی بیعت میں شک کرنا ،یا ان کے دشمنوں کی مدح و سرائی میں مبالغہ سے کام لیتا ۔ لہذا اس قسم کے موارد نصب شمار ہوتے ہیں۔

 

 

والسلام علي من اتبع الهدي

 

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی