2024 March 28
صلح امام حسنؑ کی حقیقت کیا ہے ۔ اصحاب اور امہات مومنین کا معاویہ کے ہاتھوں پر بیعت ۔۔۔۔
مندرجات: ١٨٨٨ تاریخ اشاعت: ٢٤ October ٢٠٢٢ - ٠١:٢٥ مشاہدات: 3646
یاداشتیں » پبلک
صلح امام حسنؑ کی حقیقت کیا ہے ۔ اصحاب اور امہات مومنین کا معاویہ کے ہاتھوں پر بیعت ۔۔۔۔

صلح امام  حسنؑ .

اصحاب اور امہات مومنین کا معاویہ کے ہاتھوں پر بیعت کی حقیقت :

بعض لوگ  جب شیعوں کے منطق اور استدلال کے سامنے عاجز ہوجاتے ہیں تو  آخرمیں یہ کہتے ہیں کہ  معاویہ اور یزید  کے ہاتھوں پر اصحاب اور امہات مئومنین  نے بیعت کی ہیں ،امام حسنؑ نے معاویہ کے ساتھ صلح  کی  ہے . لہذا  معاویہ اور یزید  کے خلاف باتیں  ان بیعت کرنے والوں  کی شان میں گستاخی ہے ؛

اس قسم کے مغالطوں کا جواب :

ہمارا کچھ سوالات  :

کیا امام اگر صلح نہ کرتے یا بیعت نہ کرتے تو معاویہ انہیں آزاد چھوڑتا ؟ کیا امام مجبور نہ ہوتے تو آپ معاویہ سے صلح کرتے یا اسکی بیعت کرتے؟

کیا صلح کرنا طرف مقابل کے حق پر ہونے کی دلیل ہے ؟

کیا امام حسن ع نے معاویہ کو اس مقام کا اہل سمجھ کر حکومت اس کے حوالے کیا ؟

کیا امام حسن ع کی فوج ساتھ دیتی تو آپ پھر بھی صلح کرتے ؟

 کیا صلح کرنا امام کی راے تھی یا آپ پر صلح کو مسلط کیا اور لوگوں کی راے کے مطابق آپ نے جنگ بندی کی اور صلح کرنے پر تیار ہوئے ؟

چند اہم نکات پر توجہ دیں :

1: یہ بات قابل انکار نہیں کہ اصحاب  کی اکثریت امام علیؑ کی حمایت  میں معاویہ  سے جنگ کرنے صفین  میں حاضر تھے , معاویہ کے ساتھ جو لوگ تھے ان میں چند گنے چنے  افراد ہی صحابہ  میں سے تھے, جیسے  عمر و  بن العاص اور عبد الله بن عمرو  وغیرہ  ، جبکہ بدری اور بیعت رضوان میں شریک اصحاب میں سے جو اس وقت زندہ تھے اور جنگ میں شریک ہوسکتے تھے وہ سب امام علی  کی حمایت میں  باقاعدہ طور پر جنگوں میں شریک ہوئے یہاں تک کہ جنگ جمل میں اصحاب  اور تابعین  میں سے  چار ہزار  افراد مدینہ سے آپکی  کی حمایت کے لیے روانہ ہویے  اور ۸۰۰ انصار، ۴۰۰بیعت رضوان  اور 70 جنگ بدر  میں شریک اصحاب نے اس جنگ میں امام علیؑ کے مخالفین سے جنگ کی[i]   .جنگ صفین میں بھی معاویہ کے مقابلے  میں بھی یہی صورت حال تھی [ii]،بیعت رضوان میں شریک  ۸۰۰ اصحاب نے معاویہ کے خلاف اس جنگ میں میں حصہ لیا اور ان میں سے ’’۶۳‘‘اسی جنگ میں شہید ہوے۔[iii]بدری صحابہ میں سے پچیس  اس جنگ میں امام علیؑ کی حمایت کرتے ہوےشہید ہوے  [iv] ۔ یہ اصحاب جہالت  کا شکار  ہو کر ،یا کسی کے  دھوکھے میں  معاویہ سے جنگ کرنے نہیں آئے تھےبلکہ  یہ اصحاب معاویہ سے جنگ کرنے کو اپنا دینی وظیفہ سمجھتے تھے ۔لہذا  معاویہ کا اپنے چالوں کے ذریعے اپنے دشمنوں پر غلبے کو ان کی بیعت سے تعبیر کرنا حقائق  میں تحریف کرنا اور مغالطے سے کام لینا ہے ۔

2: امام حسنؑ کے ساتھ صلح کے بعد  بعض اصحاب  کی خاموشی  یا  بعض کی بیعت کو  اس کی حکومت پر اصحاب کی رضایت کہنا بھی ایک واضح مغالطہ ہے کیونکہ  امام علیؑ کی  شہادت  اور امام حسنؑ کی صلح کے بعد اصحاب اور تابعین نہ  منظم انداز میں معاویہ  سے جنگ کرسکتے تھے نہ اس کی مخالفت کا پرچم  ہاتھ میں لے  کر  اس کے ظالم کمانڈروں کے غیض و غضب کا سامنا کرسکتے تھے، سکوت کے علاوہ کوئی راہ  ان کے پاس باقی نہیں رہا تھا ۔  کیونکہ معاویہ نے اپنے کمانڈروں اور  گورنروں کے  زریعے سے اپنے مخالفین کے ساتھ جو سلوک کیا ان کا مطالعہ کیا جاے تو معلوم  ہوگا کہ  معاویہ کی مخالفت  اور  اس سے دشمنی موت ،  زندان اور ظلم کی چکی میں خود کو ڈال دینے کی مانند   تھی۔ :چند نمونے ملاحظہ کریں  

جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو امام علیؑ پر لعن طعن  کرنے والوں پر  اعتراض کرنے کے  جرم میں شام کی طرف گرفتار کر کے لے جایا گیا اور معاویہ کے حکم سے امام علیؑ سے اظہار برات نہ کرنے کے جرم میں  شہید کردیا  گیا۔[v] جناب عمرو بن حمق کے سر کو  تن سے جدا کر کے معاویہ کے لیے تحفہ میں دمشق بھیجا گیا [vi]جبکہ  جناب حجر بن عدی اور عمروبن حمق دونوں صحابی پیامبر تھے اور یہ دونوں امام علیؑ سے دفاع کرتے اور  شیعہ ان کے ارد گرد جمع ہوتے تھے[vii] لیکن معاویہ اور اس کے گورنروں نے  پیامبر کے ان دو  اصحاب کو شہید کردیا .

جناب جابر بن عبد اللہ  انصاری جب معاویہ کے ظالم کمانڈر کے خوف سے ام المئومنین ام سلمہ کے پاس پناہ لینے آیا تو اس وقت یہ کہہ رہے تھے کہ مجھے جان کا خطرہ ہے جبکہ  معاویہ کی بیعت کرنا گمراہی  ہے اور ام المومنین جناب ام سلمہ بھی صاف کہتی تھی کہ یہ بیعت مجھے پسند نہیں ہے لیکن جان بچانے کے لئے جاکر بیعت کرو۔[viii] معاویہ نے  اپنے  کمانڈروں کو  واضح طور پر بیعت نہ کرنے اور اس کی اطاعت نہ کرنے والوں کے قتل کا حکم دیا ہوا تھا اور بیعت کرنے پر نہ چاہتے ہوئے مجبور تھے ،اصحاب ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے تاکہ کسی طریقے سے معاویہ کے ظالم کمانڈروں کے ظلم و ستم سے بچ کر نکل سکے[ix]۔

لہذا معاویہ  کے کمانڈروں  کے ظلم و ستم  اور گستاخی  سے  محفوظ رہنے کے لئے  بعض  کی خاموشی یا بیعت  کو ان اصحاب کی طرف سے  معاویہ  کی حمایت اور تائید سے تعبیر  کرنا ،اصحاب کی شان میں گستاخی اور بعض جاہلوں کو دھوکے میں رکھنے کے لئے تاریخی حقائق کا مزاق  اڑانا  ہے ۔

3 : امام حسنؑ سے صلح کی داستان کو امام کا معاویہ کی حکومت پر رضایت  سے تفسیر کرنا بھی بنی امیہ کے طرفداروں کی ایک ناکام  کوشش ہے۔ کسی سے صلح کرنا مخالف کی حقانیت   اور صلح کرنے والے کی بذدلی کی دلیل نہیں ہے ، اسی طرح  ہر بیعت کو رضایت کی دلیل کہنا بھی غیر منطقی بات ہے،جیساکہ  رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کفار قریش کے ساتھ صلح کیا ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ  نعوذ باللہ آپ بزدل تھے یا  کفار قریش  حق پر تھے ۔ اور جناب جابر بن عبد الله کہ جو بزرگان اصحاب میں سے ہیں آپ معاویہ کی بیعت کو گمراہی سمجھتے تھے لیکن جان  بچانے کی خاطر  معاویہ  کی بیعت کی،یہاں  کوئی یہ نہیں  کہہ سکتا ہے کہ جناب جابر بن عبد اللہ  انصاری معاویہ کی خلافت پر راضی تھے اور  انہیں شرعی خلیفہ مانتے تھے. 

امام حسنؑ کی صلح میں بھی یہ واضح  حقائق میں سے ہے کہ  یہ  سب  معاویہ کے چالوں کی وجہ سے امام حسنؑ  پر مسلط ہوا ، معاویہ نے امام کی فوج میں پروپگنڈے اور افواہوں کے ذریعے پھوٹ ڈالا ، بعض کو درہم اور مقام کی لالچ دے کر خرید لیا  بعض دوسرے وجو ہات سے جنگ سے گریزاں  ہوئے اور جب امام کے ساتھ اتنی قابل توجہ فوج باقی نہ رہی جن کے ساتھ  آپ معاویہ کا مقابلہ کر سکے  تو  آپ نے مصلحت  صلح  میں دیکھی[x]۔تاکہ صلح کے ذریعے سے اپنے کم تعداد مخلص ساتھیوں  اور  دوسرے مسلمانوں کے خون بہانے کا راستہ روک سکے[xi]۔ ورنہ خود  امام تو  لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ تم لوگ  تیار ہیں تو میں اس سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوں.

معاویہ کے چالوں کی وجہ سے  امام کے سامنے دو ہی راہ باقی تھی؛

 الف:  قلیل تعداد  فوج کے ساتھ معاویہ سے جنگ کرے۔

ب : صلح کے زریعے سے ظاہری حکومت کو معاویہ کے حوالے کر کے اپنی اور اپنے مخلص ساتھیوں اور دوسرے مسلمانوں کی جان بچا کر مزید خون خرابے کے آگے بند باندھنا ۔

  اس وقت کی حالات کے پیش نظر امام کے  پاس حکومت معاویہ کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور یہی حکمت عملی ہی اس وقت کی حالات کے تناظر میں مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کی تنہا راہ تھی ۔

لہذا ہر کز  ایسا نہیں ہوا تھا  کہ امام   معاویہ کو  اس مقام کا لائق اور حق دار  سمجھ کر  خوشی  سے حکومت کو اس کے حوالے کیا ہو، امام نے صاٖف طور پر  معاویہ  کے سامنے  اعلان کردیا کہ خلافت میرا حق تھا معاویہ نے میرے اس حق کے بارے میں مجھ سے جنگ کی اور میں نے  امت کو خون خرابے سے بچانے  کے لئے اس کو معاویہ کے لئے چھوڑ دیا [xii] معاویہ کو اس پر غصہ آیا اور امام کو مزید بولنے سے منع کیا  [xiii]۔

جیساکہ  امام نے ایسی شروط  صلح کے لئے بیان کیا  کہ معاویہ نے ان شروط  کو  حکومت ملنے تک قبول کیا لیکن جوں ہی سب کچھ اپنے ہاتھ میں لیا تو صلح کے شروط کو پاوں تلے روند دینے کا اعلان کردیا [xiv]۔ اور واضح طور پر کہا : وَلَكِنْ إنَّمَا قَاتَلْتُكُمْ لأَتَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ ، فَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ ذَلِكَ وَأَنْتُمْ كَارِهُونَ۔۔۔ میں نے حکومت کی خاطر تم لوگوں سے جنگ کی ہے[xv] ۔ لہذا یہ  خود اس بات پر دلیل ہے کہ امام کس حد تک صلح کرنے کے سلسلے میں مجبور تھے اور معاویہ  امام کی اس مجبوری سے غلط فائدہ اٹھا رہا تھا ۔یہاں تک کہ امام نے صلح کی ایک شرط کے طور پرامیر المومنین علیہ السلام کو برا بلا نہ کہنا قرار دیا ، یہ سب اس وقت کی حالات اور امام کے سامنے موجود گھٹن ماحول کے بیان کے لئے کافی ہے۔[xvi]۔

اگر تعصب کے بجاے حقیقت بینی سے کام  لے تو امام کی بیعت  جناب جابر کی بیعت جیسی اور امام کی صلح بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صلح جیسی ہے ۔

لہذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ معاویہ امام  حسنؑ کے بھی امام ہے اور شیعہ اپنے امام کو نہیں مانتے، یہ ایک مغالطہ ہے، کوئی اسلحہ کے زور پر  کسی  سے  کوئی چیز چھین لے  اور  کسی معاہدے پر دستخط  کراے تو کیا یہ کہہ سکتا ہے  کہ مجبور شخص نے رضایت کے ساتھ یہ کام انجام  دیا ہے اور دستخط لینے والے کے لئے وہ چیز  حلال اور جائز ہے ؟

کیا امام اگر صلح نہ کرتے یا بیعت نہ کرتے تو معاویہ انہیں آزاد چھوڑتا ؟ کیا امام مجبور نہ ہوتے تو آپ معاویہ سے صلح کرتے یا اسکی بیعت کرتے؟

یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ امام مجبور نہ تھے تو یہ تاریخی  حقائق  کے خلاف ہے  اور اس کو   امام حسن ؑ کی رضایت سے تعبیر کرنا اور یہ کہنا کہ آپ معاویہ کو اس کا اہل سمجھتے تھے  یہ امام کی  شان میں گستاخی ہے، اسی طرح  یہ کہنا بھی حقائق کے خلاف بات ہے کہ صلح نہ کرنے کی صورت میں آپ، معاویہ کی شر سے امان سے میں رہتے. 

حقیقت یہ ہے کہ  معاویہ نے امام حسنؑ سے حکومت چھین لی تھی اور امام نے معاویہ کو اس مقام کا اھل سمجھ کر ،رضایت کے ساتھ اس صلح نامے پر دستخط  نہیں کیا تھا۔ لہذا مجبور ہوکر انجام دینے والے  اس قسم کی  صلح کو بزدلی اور رضایت کہنا  یا  مد مقابل  کی حقانیت کی دلیل قرار دینا  کسی صورت میں منطقی نہیں ہے ۔

4 : امام  حسنؑ کی صلح کے مسئلہ میں بعض لوگ یہ مغالطہ بھی کرتے ہیں کہ اگر معاویہ کا امام علیؑ کو گالی دینے کی بات صحیح ہوتی تو امام حسنؑ اپنے باپ کو گالی دینے والے کے ساتھ صلح نہ کرتے۔ لیکن یہ لوگ اس چیز سے غافل ہیں  کہ معاویہ وہی تو تھا جس نے امام علیؑ  سے جنگ کی۔ لہذا  جب باپ کے ساتھ جنگ کرنے والے سے مجبوری کی حالت میں صلح کرسکتا ہے تو باپ کو گالی  دینے والے کے ساتھ کیوں صلح نہیں کرسکتا ؟  

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ  یہاں امام حسنؑ کے بجاے امام حسینؑ ہوتے تو آپ بھی یہی کام انجام دیتے اور اگر  کربلا میں امام حسین ؑ کے بجاے امام حسن ؑ ہوتے تو آپ  بھی وہی کام انجام دیتے جو امام  حسینؑ نے انجام دیا ، ان دونوں اماموں کی سیرت اور فکر میں فرق  نہیں  تھا یہ حالات کے مختلف تقاضے کا  اثر تھا لہذا جب بعض لوگوں نے امام حسین ؑ سے کہا کہ صلح کے بجاے جنگ جاری رکھے تو آپ نے  امام حسن ؑ کی نظر کے خلاف  کام  انجام دینے سے انکار کیا[xvii]۔

امام حسنؑ اور امام حسینؑ جانتے تھے کہ لوگ ابھی تک معاویہ کو صحیح  طورسے نہیں پہچانتے ، آپ دونوں بخوبی اس چیز سے آگاہ تھے کہ معاویہ کے ساتھ اس صورت حال میں ٹکراو،  اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون کو ضائع کرنا ہے کیونکہ معاویہ  جو جناب عثمان کے خون خواہی کا بہانا بنا کر علی مرتضی اور رسول پاک ؐ کے بزرگ اصحاب  کے مقابلے میں ہزاروں کا لشکر لے کر صفین میں حاضر ہوا ، سینکڑوں اصحاب کی شہادت کا باعث بنا اور آسانی سے ان سب پر پردہ ڈال سکا، اس کے لئے اپنی چالوں کے ذریعے سے  امام حسنؑ اور امام حسینؑ  کے خون میں ہاتھ  ڈالنا  اور اس کو  دبانا بھی  آسان کام تھا اور ایسا کرنے کی صورت میں عالم اسلام بہت سخت خطرات   سے دوچار ہوتا۔ لہذا معاویہ کے دور میں ان کے خون اتنا اثر نہ دکھا سکتا جو معاویہ کے بعد یزید کی بیوقوفی اور امام حسین ؑ کی تدبیر کے نتیجے میں  سامنے  آیا اور بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا .



منابع کی فہرست


[i]   ۔ كنا مع علي أربعة آلاف من أهل المدينة  ۔۔۔۔  كان مع علي يوم الجمل ثماني مائة من الأنصار وأربعة مائة ممن شهد بيعة الرضوان .۔۔ تاريخ خليفة بن خياط [ص 42] تاريخ أبى الفداء [1 /267]تاريخ ابن الوردي [1 /148] تاريخ الإسلام للإمام الذهبي [3 /484]

منهما سبعون بدرِيّاً وباقيهم من الصحابة / مروج الذهب (1/ 316،) البدء والتاريخ (ص: 321)

[ii]   ۔ ورأيت عمارا لا يأخذ واديا من أودية صفين إلا اتبعه من كان هناك من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم   البداية والنهاية [7 /299] تاريخ الطبري [4 /28] قصة الفتنة [ص 185]حياة الصحابة للكاندهلوى [2 /103]الإستيعاب [1 /352]

[iii]   ۔شهدنا مع علي رضي الله عنه صفين في ثمانمائة من بايع بيعة الرضوان قتل منهم ثلاثة وستون منهم عمار بن ياسر.۔۔۔۔-الإستيعاب [1 /351]  تاريخ ابن أبي خيثمة 2 [2 /993]  تاريخ الإسلام لذهبي [3 /545] تاريخ خليفة بن خياط [ص 46]الإصابة في تمييز الصحابة [4 /282] السيرة الحلبية [2 /265]

[iv]   ۔۔ قتل بصفين.. فمن أصحاب أمير المؤمنين علي خمسة وعشرون بدريا - عمدة القاري - [16 /141] نهاية الأرب [20 /93] البداية والنهاية [7 /304] المنتظم [2 /110] تاريخ الإسلام لذهبي [3 /543] مروج الذهب [1 /331]

[v] ۔  فقال لهم رسول معاوية إنا قد أمرنا أن نعرض عليكم البراءة من على واللعن له فإن فعلتم تركناكم وإن أبيتم قتلناكم وإن أمير المؤمنين يزعم أن دماءكم قد حلت له بشهادة -   تاريخ الطبري [4 /205الكامل في التاريخ [3 /335]تاريخ ابن خلدون [3 /12] أنساب الأشراف [2 /167]

[vi]   ۔۔]  - فكان أول رأس حمل في الاسلام. رأس عمرو بن الحمق إلى معاوية -- الإستيعاب في معرفة الأصحاب [1 /363] الثقات لابن حبان [3 /275] -الكامل في التاريخ [2 /179] المعارف [ص 66] أنساب الأشراف [2 /173] أسد الغابة [2 /346] الأعلام للزركلي [5 /77]

[vii]    ۔[7]حجر يجتمع إليه شيعة علي ويظهرون لعن معاوية والبراءة منه . زياد قال ، ولست بشيء إن لم أمنع الكوفة من حجر وأدعه نكالاً لمن بعده، 

الكامل في التاريخ [2 /131] تاريخ ابن خلدون [3 /11]   تاريخ الطبري [4 /190] البداية والنهاية [8 /55]

إن عمر بن الحمق يجتمع إليه شيعة علي فأرسل إليه زياد و نهاه عن الاجتماع عنده - -تاريخ ابن خلدون [3 /12]

[viii]    ۔ يا أماه ! إني خشيت على دمي و هذه بيعة ضلالة  السيرة لابن حبان [ص 548] تاريخ الطبري [3 /153]الكامل في التاريخ [2 /100] تاريخ اليعقوبي [ص 186] البداية والنهاية [7 /322] المنتظم [2 /128] الوافي في الوفيات [ص 1372]

تاريخ مدينة دمشق (11/ 235 . میں اس طرح نقل ہوا ہے ۔

قال لما قدم بسر بن أرطأة المدينة أخذ الناس بالبيعة قال فجاءت بنو سلمة وتغيب جابر قال فقال لا أبايعكم حتى يجيء جابر قال فانطلق جابر إلى أم سلمة فسألها فقالت هذه بيعة لا أرضاها اذهب فبايع تحقن بها دمك

[ix]   ۔ وأمره ؛ اقتل كل من كان في طاعة علي إذا امتنع من بيعتنا، وخذ ما وجدت لهم من مال-   أنساب الأشراف [1 /366] تاريخ الطبري [4 /107]

دعا الناس إلى بيعة معاوية ۔۔۔، وقتل جماعة من شيعة علي./ أنساب الأشراف [1 /366] المنتظم [2 /128 الكامل في التاريخ [2 /100]

[x]  ۔ خود امام لوگوں سے یوں مخاطب ہوے؛ ۔و أن معاوية دعانا إلى أمر ليس فيه عز و لا نصفة فإن أردتم الموت رددناه عليه و حاكمناه إلى الله بظبا السيوف و إن أردتم الحياة قبلنا و أخذنا لكم الرضى فناداه الناس من كل جانب البقية البقية فأمضى الصلح۔۔۔۔۔ تاريخ ابن خلدون [2 /648] تاريخ دمشق [13 /268] الكامل في التاريخ [3 /272] تاريخ ابن خلدون [2 /648]سير أعلام النبلاء [5 /262] أسد الغابة [1 /261]

فلما رأى الحسن أن لا قوة به، وأن أصحابه قد افترقوا عنه فلم يقوموا له، صالح معاوية/ تاريخ اليعقوبي (ص: 194،  )

[xi]   ۔ الفتوح ۔ج4 ص 158۔۔160   (إني رأيت هوى عظم الناس في الصلح، وكرهوا الحرب،۔۔۔۔فصالحت بقيا على شيعتنا خاصة من القتل، ۔۔الأخبار الطوال [ص 220]

يا حجر ليس كل الناس يحب ما تحب ولا رأيه كرأيك ، وما فعلت إلا إبقاء عليك ،شرح نهج البلاغة [16 /15]

امام سے جب شیعوں نے جنگ جاری رکھنے کا اصرا کیا تو آپ نے فرمایا : بعد فإنكم شيعتنا وأهل مودتنا ومن نعرفه بالنصيحة والصحبة والإستقامة لنا وقد فهمت ما ذكرتم ۔۔۔ ولكان رأيي غير ما رأيتم ولكني أشهد الله وإياكم أني لم أرد بما رأيتم إلا حقن دمائكم /  الإمامة والسياسة (1/ 134)

 

[xii]   ۔  إن معاوية نازعني حقاً هولي فتركته لصلاح الأمة وحقن دمائها۔/البدء والتاريخ ص328 أنساب الأشراف (1/ 386۔

[xiii]    ۔۔ فاشتد ذلك على معاوية/ البدء والتاريخ (ص: 328

فلما قالها غضب معاوية وأمره بالجلوس/  البداية والنهاية (8/ 20

 خشي معاوية الاختلاف فقال له معاوية اقعد/ تاريخ ابن خلدون (2/ 648) . فلما قاله قال له معاوية: اجلس، وحقدها على عمرو وقال: هذا من رأيك. الكامل في التاريخ (2/ 108)

 

[xiv]   ۔ ثم قام معاوية فخطب الناس فقال في خطبته: ألا إني شرطت في الفتنة شروطاً أردت بها الألفة ووضع الحرب، ألا وإنها تحت قدمي/  البدء والتاريخ (ص: 328 أنساب الأشراف (1/ 387 ) الفتوح ،ج 4 ص 163

[xv]   ۔ لما دخل معاوية الكوفة صعد المنبر ۔۔ ثم قال أيها الناس إني والله ما قاتلتكم على الصوم والصلاة والزكاة وإني لأعلم أنكم تصومون وتصلون وتزكون ولكن قاتلتكم لأتأمر عليكم / تاريخ مدينة دمشق [52 /380]

 31197- حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْد ، قَالَ : صَلَّى بِنَا مُعَاوِيَةُ الْجُمُعَةَ بِالنُّخَيلَةِ فِي الضُّحَى ، ثُمَّ خَطَبْنَا فَقَالَ : مَا قَاتَلْتُكُمْ لِتُصَلُّوا وَلاَ لِتَصُومُوا وَلاَ لِتَحُجُّوا وَلاَ لِتُزَكُّوا ، وَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّكُمْ تَفْعَلُونَ ذَلِكَ ، وَلَكِنْ إنَّمَا قَاتَلْتُكُمْ لأَتَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ ، فَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ ذَلِكَ وَأَنْتُمْ كَارِهُونَ۔۔۔

 مصنف ابن أبي شيبة (11/ 93):  البداية والنهاية (8/ 140):

 

[xvi]   ۔ صلح امام حسن علیہ السلام میں امیر المومنین علیہ السلام کو گالی نہ دینے کی شرط 

عجیب مظلومیت ۔۔۔ عجیب تاریخی حقیقت ہے کہ امام حسن علیہ السلام اس منحوس سلسلے کو روکنے کے لئے صلح نامے میں امیر المومنین کو برا بلا نہ کہنے کی شرط رکھتے ہیں لیکن یہ شرط جب قبول نہیں ہوتی تو آپ یہ شرط رکھتے ہیں کہ کم از کم ان کے حضور میں ایسا نہ کیا جائے ۔۔۔۔

: ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع ۔۔۔۔۔

ترجمہ: یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ "۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔
ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے، جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔
 ۔۔۔ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:
فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع
ترجمہ:[حسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہ کیا جائے جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔  

 ابن كثير إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء،البداية والنهاية۔ ۔ج ۸ ص ۱۴: مكتبة المعارف - بيروت
علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ الکامل میں لکھتے ہیں:
وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.
ترجمہ:امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دار ابجرد کا خراج انہیں دیا جائے [تاکہ وہ اپنی فوج کا خرچ ادا کر سکیں]اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں

الكامل في التاريخ ،ج ۳ ص ۲۷۲: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي

المختصر في أخبار البشر (1/ 126،  ) :

  امام الذھبی اپنی کتاب "العبر في خبر من غبر ، ج ۱ ص ۳۵" میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔

ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة‏.‏

العبر في خبر من غبر۔ المؤلف : الذهبي محمد بن أحمد بن عثمان ،المحقق : أبو هاجر محمد السعيد بن بسيوني زغلول،الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت

امام الذھبی نے سير أعلام النبلاء میں لکھا ہے ۔

ثُمَّ كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ فِي الصُّلْحِ عَلَى أَنْ يُسِلِّمَ لَهُ ثَلاَثَ خِصَالٍ: يُسلِّمَ لَهُ بَيْتَ المَالِ فَيَقْضِي مِنْهُ دَيْنَهُ وَمَوَاعِيدَهُ وَيَتحمَّلَ مِنْهُ هُوَ وَآلُهُ، وَلاَ يُسَبَّ عَلِيٌّ وَهُوَ يَسَمَعُ،۔۔۔۔۔ سير أعلام النبلاء   (5/ 256):

یعنی جس وقت امام حسن علیہ السلام سن رہے ہو اس وقت کم از کم امیر المومنین علی علیہ السلام کو برا بلا نہ کہنا ۔۔۔۔

   ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں۔

وقد كان صالح الحسن معاوية على أن جعل له ما في بيت ماله وخرج دارا بجرد على ألا يشتم علي وهو يسمع۔۔  تاريخ الطبري (3/ 165 :

  تاريخ مدينة دمشق میں بھی یہ روایت موجود ہے ؛۔۔۔۔۔ولا يسب علي وهو يسمع

تاريخ مدينة دمشق (13/ 264۔ إبن هبة الله علي بن الحسن الشافعي ، {م 571 }،تحقيق محب الدين العمري،الناشر دار الفكر 1995،مكان النشر بيروت

 کہ امام حسن نے معاویہ سے اس شرط پر صلح کی کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے گا ایسے وقت میں جبکہ وہ اسے سن رہے ہوں۔  

   ابن خلدون نے  [تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 648]: میں لکھا ہے
فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع
ترجمہ: یعنی امام حسن نے شرط رکھی کہ علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔

علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی تاریخ ابوالفداء جلد اول، صفحہ 648 پر لکھتے ہیں:

وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به
ترجمہ:   یعنی علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔

 

[xvii]   ۔۔  ليكن كل رجل منكم حلسا من أحلاس بيته، ما دام معاوية حيا / الامامة والسياسة - ابن قتيبة الدينوري، (1/ 259)

(صدق أبو محمد، فليكن كل رجل منكم حلسا  من إحلاس بيته، مادام هذا الإنسان حيا /الأخبار الطوال (ص: 221)

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی