2024 March 29
حديث قلم و قرطاس
مندرجات: ١٨٨٧ تاریخ اشاعت: ٠٥ October ٢٠٢٢ - ١٠:١٣ مشاہدات: 9055
یاداشتیں » پبلک
حديث قلم و قرطاس

 

25 صفر قلم و قرطاس کے واقعے کی مناسبت سے ۔

 حدیث قلم و قرطاس  کی تحقیق صحیح بخاری اور صحیح مسلم }

قلم و قرطاس(کاغذ) کا واقعہ کچھ اس طرح واقع ہوا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی زندگی کے آخری آیام میں جب بعض اصحاب آپ کی عیادت کے لئے آئے ہوئے تھے ،آپ نے اصحاب سے کہا :میرےلئے کاغذ اور قلم لے آئیں تاکہ ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔

اب یہاں بعض اصحاب نے مخالفت کرنا شروع کیا اور اس وصیت نامے کو لکھنے کی راہ میں رکاوٹ بنے۔  

یہ حدیث صحیح بخاری میں چھے جگہوں پر نقل ہوئی ہے(1) اور صحیح مسلم میں بھی تین جگہوں پر یہ حدیث نقل ہوئی ہے(2) اور جیساکہ واضح ہے کہ یہ دونوں اہل سنت کی معتبر ترین کتابیں ہیں۔

امام مسلم مسلم کے نقل کے مطابق اس واقعے کی ابتداء کچھ اس طرح ہوئی:

 سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیاہے: جمعرات کا دن ،جمعرات کا دن کیا دن تھا(3) ابن عباس نے یہ کلمات اپنی زبان پر جاری کیا اور رونے لگے ،یہاں تک کہ  آنسو کے قطرات ان کے رخسار  ہرجاری ہوئےاور کہا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مجھے قلم اور کاغذ لاکر دو، تاکہ میں ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہوجاو۔(4)

 ابتدا میں ایسا لگتا ہے کہ

 کہ گویا وہاں موجود سارے اصحاب آپ کا یہ فرمان سن کر سبھی انتہائی شوق اور ذوق سے کھڑے ہوئے ہوں گے اور کاغذ و قلم لاکرآنحضرت کو دے دیاہوگا۔تاکہ رسول اللہ(ص)  اپنی اس آخری وصیت کو لکھ سکے۔کیونکہ یہ کام ایک طرف سے رسول اللہ (ص) کی اطاعت شمار ہوتا ہے اس لئے کہ آپ کی اطاعت واجب ہے،دوسری طرف سے یہ تحریر ہمیشہ ہدایت کا سامان اور اس کا ترک کرنا ان کی گمراہی کا سبب ہے اور ساتھ ہی کیونکہ رسول اللہ(ص)  بستر بیماری پر تھے اور یقینا کوئی ایسے کلمات اور فرمان لکھتے کہ جو جامع اور ہدایت کے لحاظ سے انتہائی اہم ہوتے ۔لہذا ہونا یہی چاہئے تھا کہ بغیر کسی وقفے اور بدون تضییع وقت فورا اٹھتے اور اپنے  پیغمبر اور پیشوا کے اس دستور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کاغذ و قلم مہیا کرتے ۔

لیکن عجیب  بات یہ ہے کہ بعض اصحاب نے رسول اللہ(ص) کے اس دستور کی مخالفت کر دی ۔ 

مخالفت کرنے والے گروہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس خواہش کے مقابلے میں اس طرح رد عمل قابل فہم تو نہیں ہے۔ لیکن  حقیقت یہی ہے کہ جو بیان ہوا۔کیونکہ اہل سنت کی مشہور اور صحیح اور معروف تاریخی کتب میں یہ واقعہ ذکر ہوا ہے۔ 

اس روایت کے مطابق؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے سامنے بیماری کی حالت میں جھگڑا ہوا ۔بعض نے کہا: کاغذ و قلم حاضر کریں ،لیکن بعض نے کہا : ضرورت نہیں ہے۔ ان روایات میں سے بعض میں مخالفت کرنے والوں کے نام ذکر نہیں ہوئے ہیں (5)لیکن بعض میں واضح طور پر آیا ہے کہ جناب عمر نے کاغذ و قلم لانے کی مخالفت کر دی۔

صحیح بخاری میں آیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس خواہش اور دستور  کے بعد عمر نے کہا: «إنّ النّبيّ غلب عليه الوجع!!، وعندكم القرآن، حسبنا كتاب الله۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مرض کا غلبہ ہے،{اسی لئے ایسی بات کر رہے ہیں} قرآن ہمارے پاس ہے ،ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے.(6) 

بخاری نے اپنی کتاب میں ایک اور جگہ معمولی اختلاف کے ساتھ اسی بات کو نقل کیا ہے، بخاری لکھتے ہیں: ابن عباس نے کہا: جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری زیادہ شدید ہوئی تو آپ نے فرمایا: «ائتوني بكتاب اكتب لكم كتاباً لا تضلّوا بعده، قال عمر: إنّ النبيّ(صلي الله عليه وآله)غلبه الوجع، وعندنا كتاب الله حسبنا; میرے لئے کاغذ لاکردو ،میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم لوگ گمراہ نہ ہوں۔ یہاں پر عمر نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مرض کا غلبہ ہوا ہے، اللہ کی کتاب ہمارے پاس ہے۔ یہی ہمارے لئے کافی ہے۔(7)

صحيح مسلم نے بھی تین میں سے ایک مورد میں عمر کے نام کا ذکر کیا ہے .(8)

جیساکہ اس قسم کے دوسرے نقلوں کے پیش نظر یہ بات یقینی ہے کہ عمر نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کر دی تھی۔

  اگرچہ دوسرے نقلوں میں« فقالوا» لوگوں نے کہا (9) ہے اور بعض میں «فقال بعضهم»ان میں سے بعض نے کہا (10) جیسے جملات بھی ہیں۔لیکن اس کے باوجود رسول اللہ(ص) کے دستور کی مخالفت کرنے والوں میں سے ایک قطعی طور پر جناب عمر ہی ہے۔ 

اس واقعے کو اہل سنت کے اور  بھی بہت سے دانشمندوں نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے (11) لیکن ہم یہاں صرف صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس سلسلے  میں منقول احادیث سے متعلق تحقیق کریں گے، کیونکہ یہی دو ان کی اہم ترین کتابوں میں سے ہیں;

حدیث قرطاس کی مخالفت میں کہے گئے مختلف کلمات اور الفاظ :

ابھی ہم صحیح بخاری اور مسلم سے  ایسے کلمات کو نقل کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس  فرمان کی مخالفت کے سلسلے میں نقل ہوئے ہیں ۔

 جیساکہ نقل ہوا ہے: «فقال بعضهم: إنّ رسول الله قد غلبه الوجع، وعندكم القرآن، حسبنا كتاب الله».(12)

 ایک اور جگہ نقل ہوا ہے: «فقال عمر: انّ رسول الله قد غلب عليه الوجع، وعندكم القرآن، حسبنا كتاب الله».(13)

 پہلی تعبیر کے مشابہہ تعبیر : «فقال عمر: إنّ النّبي قد غلب عليه الوجع، وعندكم القرآن، حسبنا كتاب الله».(14)

 ایک اور جگہ پر اس طرح نقل ہوا ہے : «قال عمر: إنّ النّبي غلبه الوجع، وعندنا كتاب الله، حسبنا».(15)

ان تعبیرات کے مطابق عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تحریر لکھنے کی مخالفت میں یہ کہا : آپ پر مرض کا غلبہ ہے {نعوذ باللہ}  اس وجہ سے یہ معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں قرآن ہمارے پاس ہے، ہماری ہدایت کے لئے یہی کافی ہے۔

مندرجہ بالا نقل شدہ جملات میں سے پانچ میں لفظ «هجر» استعمال ہوا ہے، ان پانچ میں سے بعض مورد میں سوال کے طور پر اور ایک میں خبریہ انداز میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

 مثلا ایک جگہ ہر آیا ہے : «فقالوا: أهجر رسول الله».(16) دو جگہوں پر آیا ہے: «فقالوا: ما شأنه؟ أهجر؟ استفهموه».(17)

 

اهل لغت جب لفظ «هجر» کو کسی بیمار کے بارے میں استعمال کرتے ہیں تو اس کا معنی ہزیان گوئی کےلیتے ہیں ۔  

جیساکہ لغت شناس «فيومي» نے «مصباح المنير» میں لکھا ہے : «هجر المريض في كلامه هجراً ايضاً خلط وهذي; مريض نے ھجر کہا ، یعنی بے ربط بات اور ہزیان گوئی کی».(18)

لسان العرب میں اس کا معنی یوں نقل ہوا ہے : «الهَجْر: الهذيان والهُجْر بالضم: الاسم من الاهجار وهو الافحاش وهَجَر في نومه ومرضه يهجُر هجراً: هذي; «هَجر» کا معنی هذيان گويي ہے «هُجر» اسم مصدر ہے اس کے معنی بری بات کرنے کے ہیں اور جب اس لفظ کو کسی سوئے ہوئے شخص یا کسی بیمار کے بارے میں استعمال کیا جائے تو اس کا معنی ہے کہ اس نے نیند کی حالت میں یا بیماری کی حالت میں ہزیان گوئی اور بے ربط گفتگو کی(19)

سوال :

 واقعا کیسے ممکن ہے اللہ کے اس عظیم رسول (ص) کے بارے میں کہ جو اللہ اور اللہ کےبندوں کے درمیان واسطہ ہیں، ان کے بارے میں ایسے کلمات اور الفاظ استعمال کئے جائیں؟ جبکہ قرآن نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :  «(وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَي); وہ اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں کرتے »(20) اسی طرح کسی اور آیت میں یوں ارشاد الہی ہوتاہے : «(وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا); جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ  (21) نیز کسی اورجگہ فرمایا : «(فَلْيَحْذَرْ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ); تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیئے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو 22)

رسول اللہ کے حضور میں جگھڑا کرنا

اس قسم کی ناروا باتوں کے علاوہ بعض اصحاب تو آنحضرت کے حضور لڑنے اور جگھڑنے لگے۔ بعض نے جناب عمر کا ساتھ دیا اور بعض نے ان کی مخالفت کر دی اور کہنے لگے : رسول اللہ کو تحریر لکھنے دو ۔ جیساکہ صحیح بخاری کی بعض روایات میں ہے : «فاختلفوا وكثُر اللَّغَط; انہوں نے شور مچایا اور شور و غل کرنے لگے 23)

صحیح بخاری اور مسلم کی چار روایتوں میں ہے: «فتنازعوا ولاينبغي عند نبيّ تنازع; ان لوگوں نے جگھڑا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور میں اس طرح جگھڑا کرنا مناسب نہیں تھا ».(24)

 صحیح بخاری اور مسلم کی تین روایتوں میں معمولی اختلاف کے ساتھ نقل ہوا ہے : «فاختلف اهلُ البيت فاختصموا، فكان منهم من يقول: قرِّبوا يكتب لكم النبيّ كتاباً لن تضلوا بعده، ومنهم من يقول ما قال عمر;  گھر والے اختلاف اور ایک دوسرے سے لڑنے اور بحث لگے،ان میں سے بعض نے کہا قلم اور کاغذ لے آئیں ۔تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  تحریر لکھ  سکیں اور اس کے بعد تم لوگ ہر گز گمراہ نہ ہوں۔بعض نے عمر کی بات دہرائی {رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مرض کا غلبہ ہوا ہے} 25)

          ان مطالب سے واضح ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے آپ کے حضور میں جگھڑا کیا اور ایک دوسرے سے اس معاملے میں لڑنے لگے اور مندرجہ بالا الفاظ استعمال کیے ۔

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عکس العمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دستور کے مقابلے میں بعض اصحاب کامنفی رویہ اور ان کے سامنے نزاع اور جگھڑے کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رد عمل بھی قابل توجہ ہے ۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مطابق دو قسم کے رد عمل نقل ہوئے ہیں:

1. آپ نے فرمایا: «قوموا عنّي ولاينبغي عندي التنازع; میرے پاس سے چلے جاو، میرے پاس جگھڑا کرنا مناسب کام نہیں ہے ».(26)

ان الفاظ کے استعمال سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سخت غصہ آیا اور  آپ سخت ناراض ہوئے۔ 

 2. جب کشمکش اور جگھڑا ہوا اور آنحضرت کی طرف یہ غلط نسبت دی گئی تو آپ نے فرمایا:

  «ذروني، فالّذي أنا فيه خير ممّا تدعوني إليه; مجھے اپنی حالت پر چھوڑ دو ۔جس حالت پر میں ہوں وہی میرے لئے اس سے بہتر ہے جو حالت تم لوگ میرے لئے بنارہے ہو ».(27) (شاید یہ  آخری لمحات میں اللہ کی طرف خصوصی توجہ کی طرف اشارہ ہے)

 ابن عباس کے دکھ اور اظہار افسوس کی وجہ

صحیح بخاری کی پانچ روایات کے مطابق ابن عباس جب اس واقعے کے بارے میں وضاحت دیتے تو پہلے انتہائی غم و اندوہ کے ساتھ اس واقعے کو یاد کرتے،مثال کے طور پر  صحيح بخاري میں «سعيد بن جبير ـ کے نقل کے مطابق  ابن عباس نے کہا: «يوم الخميس و ما يوم الخميس; جمعرات کا دن ،کیا دن تھاجمعرات کا دن ؟!».

پھر  سعيد بن جبير کہتا ہے : «ثمّ بكي حتّي بلَّ دمعه الحصي; پھر ابن عباس اس قدر روئے کہ ان کے رخسار سے آنسو چھوٹے کنکریوں کی طرح زمین پر گرنے لگے ».(28)

ظاہر ہے ابن عباس کا غم اور اظہار تأسف اور آنسو بہانا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی شان کا خیال نہ رکھنے اور اس تحریر کی راہ میں رکاوٹ بننے کی وجہ سے تھا کیونکہ اس تحریر کو اگر لکھ  دی جاتی تو امت گمراہی سے بچ جاتی ۔ بخاری اور مسلم کے باقی چار نقلوں کے مطابق ابن عباس جب اس واقعے کو نقل کرتے اور تحریر کے لکھنے میں رکاوٹ بننے کا ذکر کرتے تو سخت انداز میں اظہار افسوس کرتے تھے؛ جیساکہ  ایک روایت میں عبیدہ اللہ بن عبیدہ اللہ، ابن عباس سے اس واقعے اور تحریر لکھنے میں رکاوٹ بننے کو یوں نقل کرتا ہے :

  « وكان ابن عباس يقول: إنّ الرزيّة كلّ الرزيّة ما حال بينَ رسول الله وبين أن يكتُبَ لهم ذلك الكتاب، من اختلافهم ولَغَطهم; عبيدالله کہتا ہے : ابن عباس ہمیشہ کہتے  تھے: تمام مصائب کی مصیبت اس وقت شروع ہوئی جب لوگوں نے شور وشرابا وجھگڑے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تحریر سے بازرکھا».(29)

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف اس طرح نسبت دے سکتے ہیں اور ان کی نافرمانی کر سکتے ہیں؟

جیساکہ صحاح کے شرح کرنے والوں نے اس حدیث کی تشریح میں اس بات کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ چاہے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحت مند ہوں یا بیمار ، ہر صورت میں آپ معصوم ہیں اور حق کے سوا کچھ نہیں فرماتے۔

ابن حجر عسقلاني نے «قرطبي» سے نقل کیا ہے«هجر» سے مراد اس حدیث میں ایک ایسا بیمار ہے کہ جو بیماری کی وجہ سے صحیح بات نہیں کرپاتے اسی وجہ سے ان کی بات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ وہ یہ بھی لکھتا ہے : « ووقوع ذلك من النبي(صلي الله عليه وآله) مستحيل لانّه معصوم في صحّته و مرضه لقوله تعالي (وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَي) و لقوله (صلي الله عليه وآله) إنّي لا اقول في الغضب والرضا إلاّ حَقّاً ; یہ ناممکن بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم هذيان گويي کریں ۔کیونکہ آپ چاہئے بیمار ہو یا تندرست دونوں صورت میں معصوم ہیں۔ اس کی دلیل اللہ کا یہ کلام ہے : «(وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَي); وہ اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں کرتے ۔ اس کی ایک اور دلیل خود آنحضرت کا یہ فرمان بھی ہے : میں رضااور غضب دونوں حالتوں میں حق بات کے سوا کچھ نہیں بولتا ہوں ».(30)

بدرالدين عيني نے بخاری نے اپنی شرح «عمدة القاري» میں بھی بالکل یہی بات کہی ہے .(31)

اہل سنت کے ہی مشہور عالم دین «نووي» نے  صحيح مسلم کی شرح میں لکھا ہے: «إعلم انّ النبي معصوم من الكذب و من تغيير شيء من الاحكام الشرعية في حال صحته وحال مرضه; جان لو ؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  یقینا جھوٹ نہیں بولتے ، نامناسب بات نہیں کہتے اور دین کے احکام کو بیان کرنے کے سلسلے میں معصوم ہیں چاہےآپ بیمار ہوں یا تندرست 32)

اس کے علاوہ قرآن مجید میں متعدد آیات موجود ہیں کہ جن میں سے بعض پہلے ذکر ہوئیں۔ یہ آیات اس بات پر گواہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام ان تمام نسبتوں سے بالاتر ہے اورآپ نے ہوری زندگی میں کوئی غلط بات نہیں کی ہے ۔

خود ساختہ تشریحات اور بے بنیاد تاویلات:

 یہاں پر قابل توجه بات یہ ہے کہ اہل سنت کے بعض دانشوروں نے اس واضح اور مسلم تاریخی مسئلے کے لئے جواز فراہم کرنے کی کوشش میں ایسی باتیں کہی ہیں جو واقعا عجیب ہیں۔ 

لیکن اس قدر واضح مسئلہ کی توجیہ اور تاویل نہیں ہوسکتی۔لہذا کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ واقعے کے لئے غیر منطقی جواز فراہم  کرنے کے بجائے ، پہلے سے بنائی ہوئی ذھنیت کو چھوڑ کر یہ کہتے کہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان جائز الخطاء ہے اور یہاں ایک شخص یا کئی اشخاص سے سخت غلطی سرزد ہوئی ہے؟

بے بنیاد تاویلات کا ایک نمونہ

نمونے کے طور پر ان توجیہات میں سے ایک «فتح الباري في شرح صحيح البخاري» میں دیکھے جو  اہل سنت برادران کی اہم کتابوں میں سے ایک ہے، اس میں آیاہے : علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عمر کا قول  {حسبنا كتاب الله یعنی اللہ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے}یہ ان کی فقہ میں قوی اور دقت نظر کی نشانی ہے۔33) 

ہمارا سوال :

  واقعا {حسبنا كتاب الله} سے قبل کا جملہ: « پیغمبر پر مرض کا غلبہ ہوا ہے اور آپ بے ربط گفتگو اور ہزیان گوئی کر رہے ہیں »کیا یہ جملہ فقہ میں قوی ہونے اور دقت نظر کی نشانی ہے؟

مزید یہ کہ کیا سنت کے بغیر صرف اللہ کی کتاب کافی ہے؟جبکہ نماز کی رکعات کی تعداد ، زکات کے نصاب،طواف کی تعداد، سعی اور رمی جمرات کی تعداد اور دوسرے بہت سے احکام کا ذکر صرف پیغمبر کی سنت میں ہی ملتا ہے۔ کیا ان امور کی نفی کرنا فقہ میں قوی ہونے اور دقت نظر کے مالک ہونے کی علامت ہے؟ ۔کیا حقائق کو تسلیم کرنا اس قسم کی توجیہات اور تاویلات کو بیان کرنے سے بہتر نہیں ہے{و اللہ اعلم }

ایک اہم مسئلہ !

اس قسم کی نامناسب اور تعجب آور گفتگو کو چھوڑ دیں{جو صحیح بخاری میں چھے جگہوں اور صحیح مسلم میں تین جگہوں پر  نقل ہوئی ہے۔ } لیکن یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ آخر رسول اللہ  ایسی کونسی اہم چیز لکھنا یا لکھوانا چاہتے تھےکہ جس کی اتنی سخت انداز میں مخالفت کی گئی ؟ 

پہلی بات  : یقینا یہ جو چیز رسول اللہ لکھنا چاہتے تھے وہ آپ کی زندگی کے آخری لمحات سے متناسب چیز تھی۔

 دوسری بات: ایک نہایت اہم مسئلہ بیان ہو رہا تھا کہ اگر اس پر عمل ہوتا تو ہر قسم کی گمراہی اور اختلاف سے نجات مل جاتی۔

تیسری بات : یقینا یہ ایسا مسئلہ تھا جو وہاں حاضر بعض لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں تھا اسی لئے اس انداز میں ان کی مخالفت کی گئی۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اس تحریر کو پڑھنے والے گزشتہ مطالب کی روشنی میں اب یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ خلافت اور ولایت کا مسئلہ ہی تھا اور جانشینی بھی علی ابن ابی طالب کی جانشینی تھی۔

ہم اس چیز کے معتقد ہیں کہ رسول اللہ نے مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کا تعارف کرایا اور خاص کر غدیر میں ان کی ولایت کا اعلان کرنے کے بعد ان کی امامت اور جانشینی کو  آپ مزید مضبوط کرنا چاہتے تھے، ہماری اس بات کی تصدیق اسی حدیث کے مشابہ عترت کے بارے میں بیان شدہ دوسری احادیث اور کلمات، خاص کر حدیث ثقلین  سے بھی ہوتی ہے۔ {ان شاء اللہ دوسری تحریر میں ہم حدیث غدیر اور حدیث ثقلین سے بھی بحث کریں گے }

اس تحریر کا مطالعہ کرنے والوں سے ہماری گزارش ہے کہ بہتر ہے ایک دفعہ پھر اس تحریر کا مطالعہ کریں، ہم کوئی فیصلہ نہیں کرتے، بہتر ہے آپ لوگ خود ہی فیصلہ کریں۔

والسلام علي من اتبع الهدي

ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر ہمارا سلام ہو ۔

--------------------------------------

مطالب کی فہرست :

1 . صحيح بخاري، كتاب العلم، باب 39 (باب كتابة العلم)، ح 4; كتاب الجهاد والسير; باب 175، ح 1; كتاب الجزية، باب 6، ح 2; كتاب المغازي، باب 84 (باب مرض النبي ووفاته)، ح 4; همان باب، ح 5; كتاب المرضي، باب 17 (باب قول المريض قوموا عني)، ح 1 .

2 . صحيح مسلم; كتاب الوصية،باب6، ح 6; همان باب، ح 7; همان باب، ح 8.

3 . اين حادثه در روز پنج شنبه اتفاق افتاد و مطابق نقل طبري آن حضرت در روز دوشنبه (چهار روز بعد) وفات يافت. طبري در حوادث سنه يازدهم هجري مي نويسد: «روزي كه رسول خدا رحلت فرمود همه مورخين اتفاق دارند كه روز دوشنبه بوده است». در فتح الباري نيز ابن حجر مي نويسد: آن حضرت روز پنج شنبه بيمار شد و روز دوشنبه رحلت كرد. (ج 7، ص 739) .

4 . صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 7 .

5 . صحيح بخاري، كتاب الجهاد و السير، باب 175، ح 1; كتاب الجزيه، باب 6، ح 2; كتاب المغازي، باب 84 (باب مرض النبي و وفاته)، ح 4 و 5; صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 6 و 7 .

6 . صحيح بخاري،كتاب المرضي،باب17 (باب قول المريض قوموا عني)،ح1.

 7 . همان مدرك، كتاب العلم، باب 39 (باب كتابة العلم)، ح 4 .

8 . صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 8 .

9 . صحيح بخاري، كتاب المغازي، باب 84، ح 4 و صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 6 و 7 .

10 . صحيح بخاري، كتاب المغازي، باب 84، ح 5 .

11 . رجوع كنيد به: مسنداحمد، ج 1، ص 222، 293، 324، 325 و 355; ج 3، ص 346; مسند ابي يعلي، ج 3، ص 395; صحيح ابن حبان، ج 8، ص 201; تاريخ طبري، ج 3، ص 193; كامل ابن اثير، ج 2، ص 185 وكتب ديگر .

12 . صحيح بخاري، كتاب المغازي، باب 84، ح 5 .

13 . صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 8 .

14 . صحيح بخاري، كتاب المرضي، باب 17، ح 1 .

15 . همان مدرك، كتاب العلم، باب 39 (باب كتابة العلم)، ح 4 .

16 . صحيح بخاري، كتاب الجهاد و السير، باب 175، ح 1 .

17 . همان مدرك، كتاب المغازي، باب 84، ح 4 و صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 6 .

18 . مصباح المنير، واژه هجر.

19 . لسان العرب، واژه هجر.

20 . نجم، آيه 3 .

21 . حشر، آيه 7 .

22 . نور، آيه 63. ابن كثير مي نويسد: «ضمير «امره» به رسول خدا(صلي الله عليه وآله) بر مي گردد» و در ادامه كه قرآن فرمود: (أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ) نيز مي نويسد: «اي في قلوبهم من كفر او نفاق او بدعة; (مخالفت با رسول خدا(صلي الله عليه وآله) سبب فتنه مي شود) يعني چنين افرادي در قلبشان به كفر، يا نفاق، و يا به بدعت دچار مي شوند». (تفسير ابن كثير، ج 5، ص 131)

23 . صحيح بخاري، كتاب العلم، باب 39، ح 4 .

24 . صحيح بخاري، كتاب الجهاد والسير،باب175،ح1;كتاب المغازي،باب84، ح 4; كتاب الجزيه، باب 6، ح 2; صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح6.

 

25 . صحيح بخاري، كتاب المرضي، باب 17، ح 1; كتاب المغازي، باب 84، ح5; صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 8.

 

26 . صحيح بخاري، كتاب العلم، باب 39، ح 4. در برخي از روايات فقط كلمه «قوموا» آمده است: همان مدرك، كتاب المغازي، باب 84، ح 5; كتاب المرضي، باب 17، ح 1; صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 8 .

 

27 . صحيح بخاري، كتاب الجزيه، باب 6، ح 2; كتاب المغازي، باب 84، ح 4; كتاب الجهاد والسير، باب 175، ح 1 (در اين حديث، به جاي «ذروني» كلمه «دعوني» آمده است). در صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 6، نيز آمده است: قال: «دعوني فالّذي أنا فيه خير».

 

28 . صحيح بخاري، كتاب الجزيه، باب 6، ح 2. شبيه همين مضمون در چند نقل ديگر نيز آمده است; ر.ك: صحيح بخاري، كتاب الجهاد والسير، باب 175، ح 1; كتاب المغازي، باب 84، ح 4 (بدون نقل گريستن ابن عباس); صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 60، ح 6 و ح 7 .

 

29 . صحيح بخاري، كتاب المرضي، باب 17، ح 1 ; شبيه به همين مضمون: كتاب العلم، باب 39، ح 4; كتاب المغازي، باب، 84، ح 5; صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 8 .

 

30 . فتح الباري، ج 7، ص 739 .-740

 

31 . عمدة القاري، ج 12، ص 388 (دارالفكر، بيروت، چاپ اوّل، 2005 م).

 

32 . صحيح مسلم، بشرح الامام محيي الدين نووي، ج 4، ص 257 .

 

33 . صحيح بخاري، كتاب المرضي و صحيح مسلم، كتاب الوصية.

 

------------------------------------------

منابع کی فہرست:

 

1. قرآن كريم

2. تاريخ طبري، محمد بن جرير طبري، مؤسّسه اعلمي، بيروت، چاپ چهارم، 1403ق.

3. تفسير القرآن العظيم، ابن كثير دمشقي، دارالاندلس، بيروت، 1996 ق.

4. صحيح ابن حبان، ابن حبان، تحقيق شعيب الأرنؤوط، مؤسسة الرسالة، چاپ دوم، 1414ق.

5. صحيح بخاري، ابوعبدالله محمّد بن اسماعيل بخاري، تحقيق صدقي جميل العطّار، دارالفكر، بيروت، چاپ اوّل، 2005م.

6. صحيح مسلم، ابوالحسين مسلم بن حجّاج نيشابوري، تحقيق صدقي جميل العطّار، دارالفكر، بيروت، چاپ اوّل، 2004م.

7. صحيح مسلم شرح محيي الدين نووي، شركة ابناء شريف الأنصاري، بيروت، 2007م.

8. عمدة القاري شرح صحيح بخاري، بدرالدين عيني، دارالفكر، بيروت، چاپ اوّل، 2005م.

9. فتح الباري، احمد بن علي بن حجر عسقلاني، مكتبة العبيكان، رياض، چاپ اوّل، 1421ق.

10. الكامل في التاريخ، ابن اثير جزري، تحقيق أبي الفداء عبدالله القاضي، دارالكتب العلمية، بيروت، چاپ سوم، 1418ق.

11. لسان العرب، ابن منظور افريقي، دار صادر، بيروت، چاپ اوّل، 1997م.

12. مسند ابي يعلي، ابويعلي موصلي، تحقيق حسين سليم اسد، دارالمأمون للتراث، چاپ دوم.

13. مسند احمد، احمد بن حنبل، دار صادر، بيروت.

14. مصباح المنير، فيّومي، تصحيح محمد عبدالحميد، 1347ق. سايت آيت الله مكارم شيرازي

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی