2024 March 28
کیا امام زمان (ع) ظہور فرمانے کے بعد مسجد الحرام اور مسجد النبی کو مسمار کریں گے ؟
مندرجات: ١٧٩٠ تاریخ اشاعت: ٢٢ February ٢٠٢٤ - ٠٤:٤٢ مشاہدات: 5594
سوال و جواب » Mahdism
جدید
کیا امام زمان (ع) ظہور فرمانے کے بعد مسجد الحرام اور مسجد النبی کو مسمار کریں گے ؟

سوال:

کیا امام زمان (ع) ظہور فرمانے کے بعد مسجد الحرام اور مسجد النبی کو مسمار کریں گے ؟

توضيح سؤال:

میں نے وہابیوں کی بعض سا‏یٹ میں دیکھا ہے کہ انھوں نے کتاب بحار الانوار سے روایت کو لکھا ہوا تھا کہ:

روي المجلسي: (إن القائم يهدم المسجد الحرام حتي يرده إلي أساسه، والمسجد النبوي إلي أساسه). 

بے شک قائم مسجد الحرام اور مسجد النبی کو مکمل طور پر مسمار کریں گے۔

بحار الأنوار ج 52 ص 338

الغيبة للطوسي ص 282

کیا یہ بات صحیح ہے ؟

کیا واقعا ایسا ہی ہے کہ حضرت مہدی (ع) خانہ کعبہ اور مسجد النبی کو ویران کر دیں گے ؟

جواب:

کیا بے شرم وہابیوں کو یہ اشکال کرتے وقت شرم نہیں آتی ؟

قابل توجہ ہے کہ وہابی کہ جو فرصت ملتے ہی رسول خدا (ص) کے حرم کے گنبد کو مسمار کر کے ان حضرت کی قبر مبارک کو مسجد النبی سے باہر منتقل کرنا چاہتے ہیں، اسی کام کے بارے میں انکے دین و ایمان فروش علماء نے فتوے بھی دئیے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ان نجس وہابیوں نے چند سال پہلے شام میں رسول خدا (ص) کے بزرگ صحابی حجر ابن عدی کی قبر کو کھود کر انکی میت کو نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا اور خود انہی انسان نما حیوانوں نے مسجد الحرام میں مرمت و تعمیر کے بہانوں سے بہت سی تبدیلیاں انجام دیں ہیں، یہ بے حیا قوم کس منہ سے شیعیان پر اور خاص طور پر امام زمان (ع) پر یہ اعتراض کرتے ہیں ؟ !

ایک کہاوت ہے کہ:

جسکا اپنا مکان شیشے کا ہو، اسے دوسروں کے گھر پر پتھر مارنا زیب نہیں دیتا۔

البانی وہابی : رسول خدا (ص) کی مسجد کو ویران کر کے اسے سابقہ حالت میں پلٹانا، واجب ہے !

البانی وہابی مشہور عالم نے اپنی كتاب « تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد » میں لکھا ہے کہ:

قلت : ومما يؤسف له أن هذا البناء قد بني عليه منذ قرون إن لم يكن قد أزيل تلك القبة الخضراء العالية.

وأحيط القبر الشريف بالنوافذ النحاسية والزخارف والسجف وغير ذلك مما لا يرضاه صاحب القبر نفسه صلي الله عليه و سلم؛ بل قد رأيت حين زرت المسجد النبوي الكريم وتشرفت بالسلام علي رسول الله صلي الله عليه و سلم سنة 1368 ه رأيت في أسفل حائط القبر الشمالي محرابا صغيرا ووراءه سدة مرتفعة عن أرض المسجد قليلا إشارة إلي أن هذا المكان خاص للصلاة وراء القبر فعجبت حينئذ كيف ضلت هذه الظاهرة الوثنية قائمة في عهد دولة التوحيد.

أقول هذا مع الاعتراف بأنني لم أر أحدا يأتي ذلك المكان للصلاة فيه لشدة المراقبة من قبل الحرس الموكلين علي منع الناس من يأتوا بما يخالف الشرع عند القبر الشريف فهذا مما تشكر عليه الدولة السعودية ولكن هذا لا يكفي ولا يشفي وقد كنت قلت منذ ثلاث سنوات في كتابي " أحكام الجنائز وبدعها " ( 208 من أصلي ) :

«فالواجب الرجوع بالمسجد النبوي إلي عهده السابق وذلك بالفصل بينه وبين القبر النبوي بحائط يمتد من الشمال إلي الجنوب بحيث أن الداخل إلي المسجد لا يري فيه أي محالفة لا ترضي مؤسسه صلي الله عليه و سلم.

اعتقد أن هذا من الواجب علي الدولة السعودية إذا كانت تريد أن تكون حامية التوحيد حقا وقد سمعنا أنها أمرت بتوسيع المسجد مجددا فلعلها تتبني اقتراحنا هذا وتجعل الزيادة من الجهة الغربية وغيرها وتسد بذلك النقص الذي سيصيبه سعة المسجد إذا نفذ الاقتراح أرجو أن يحقق الله ذلك علي يدها ومن أولي بذلك منها ؟»

ولكن المسجد وسع منذ سنتين تقريبا دون إرجاعه إلي ما كان عليه في عهد الصحابة والله المستعان.

وہ چیز کہ جس پر افسوس کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ عمارت چند صدیاں پہلے تعمیر کی گئی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کب کا یہ سبز و بلند گنبد ویران ہو گیا ہوتا۔

اور یہ قبر شریف کو پیتل کی بنی کھڑیوں، نقش و نگار والے پردوں وغیرہ نے اپنے احاطے میں لیا ہوا ہے کہ خود صاحب قبر اس کام سے راضی نہیں ہے۔

بلکہ جب میں سال 1368 ہجری قمری میں مسجد نبوی کی زیارت کرنے اور رسول خدا کو سلام کرنے کے لیے گیا، قبر کی شمال کی سمت والی دیوار کے نیچے میں نے ایک چھوٹے محراب کو دیکھا کہ اسکے پیچھے ایک چبوترہ تھا کہ جو مسجد کی سطح سے تھوڑا اونچا تھا اور اسکا یہ مطلب تھا کہ یہ جگہ قبر شریف کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے مخصوص ہے، پس اسی وقت میں حیران ہو گیا کہ توحید کی حکومت کے زمانے میں یہ بت پرستی کی علامت ابھی تک کیسے باقی ہے !

میں اعتراف کرتا ہوں کہ کوئی بھی اس جگہ پر نماز پڑھنے کے لیے نہیں آیا تھا، کیونکہ اس جگہ کی ان پہرے داروں کے ذریعے سے نگرانی ہوتی تھی کہ جو لوگوں کو اس قبر شریف کے نزدیک غیر شرعی کام انجام دینے سے منع کرتے تھے اور اس کام کے انجام دینے پر سعودی عرب کی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، لیکن صرف ایسا کرنا ہی کافی نہیں ہے اور اسکا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے، میں (البانی) نے تین سال پہلے اپنی کتاب «احكام الجنائز و بدعها» میں کہا تھا کہ:

پس واجب ہے کہ مسجد نبوی اپنی سابق شکل پر واپس پلٹ آئے اور مسجد و قبر پیغمبر کے درمیان شمال سے جنوب تک ایک دیوار بنا کر فاصلہ ایجاد کیا جائے تا کہ مسجد کے اندر کوئی ایسا غیر شرعی کام انجام نہ دیا جائے کہ جس سے رسول خدا راضی نہ ہوں۔ میری رائے میں سعودی حکومت پر یہ کام کرنا واجب ہے، البتہ اگر وہ حقیقی طور پر توحید کی حمایت کرنا چاہتے ہیں تو۔ میں نے سنا ہے کہ سعودی حکومت نے مسجد کو وسیع کرنے کا حکم دیا ہے، پس شاید وہ میرے اس مشورے پر بھی توجہ کریں اور مسجد کو مغرب کی طرف اور دوسری اطراف سے وسیع کریں اور مسجد کے وسیع ہونے کی وجہ سے پیش آنے والے نقص کو کنڑول کریں۔ اگر میرا مشورہ قبول ہو گیا تو مجھے امید ہے کہ خداوند اس کام کو سعودی حکومت کے ہاتھوں انجام دے اور  اس کام کے لیے ان سے بڑھ کر کون مناسب اور اہل ہو سکتا ہے ! لیکن تقریبا دو سال پہلے انھوں نے مسجد کو وسعت تو دی ہے لیکن انھوں نے مسجد کو صحابہ کے زمانے کی شکل میں تبدیل نہیں کیا۔

الألباني، محمد ناصر الدين (متوفي1420هـ)، تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد، ج1، ص68، ناشر : المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة : الرابعة.

شيخ مقبل ابن ہادی الوادعی : مسجد نبوی کو رسول خدا (ص) کے زمانے والی حالت میں بدلنا، واجب ہے !

یہ یمن کا مشہور وہابی مفتی ہے، اس نے اپنی دو کتابوں میں حرم رسول خدا (ص) کے گنبد کو مسمار کرنے اور مسجد نبوی کو رسول خدا کے زمانے کی حالت میں بدلنے کے واجب ہونے کا فتوا دیا ہے۔ اس نے كتاب « رياض الجنة في الرد علي أعداء السنة » میں لکھا ہے کہ:

وبعد هذا لا إخالك تتردد في أنه يجب علي المسلمين إعادة المسجد النبوي كما كان في عصر النبوة من الجهة الشرقية حتي لا يكون القبر داخل المسجد! وأنه يجب عليهم إزالة تلك القبة!

ان باتوں کے بعد آپکو یقین ہو گیا ہو گا کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ مسجد نبوی کو مشرق کی جانب سے خود رسول خدا کے زمانے کی شکل میں تبدیل کر دیں، تا کہ قبر رسول، مسجد کے اندر نہ رہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس حرم کے گنبد کو بھی مسمار کر دیں !

مقبل بن هادي الوادعي، رياض الجنة في الرد علي أعداء السنة ص 275

اسی طرح اس نے اپنی دوسری كتاب « تحفة المجيب علي أسئلة الحاضر والغريب » میں لکھا ہے کہ:

نحن نقول وتلكم قبة الهادي بجوارنا نتمني نتمني أن قد رأينا المساحي في ظهرها إلي أن تصل إلي الأرض ،

ہم کہتے ہیں کہ – حالانکہ گنبد پیغمبر ہمارے پہلو میں ہے – ہماری آرزو ہے، ہماری آرزو ہے، کہ ہم وہ دن بھی دیکھیں کہ جب بلڈوزر اس پر چڑھ کر اسے خاک میں ملا دیں گے !

مقبل بن هادي الوادعي، تحفة المجيب علي أسئلة الحاضر والغريب، ص 406 چاپ دار الآثار صنعاء

اب وہابیوں کے ان واضح فتووں کی روشنی میں کہ واجب ہے مسجد نبوی کو تبدیل کرنا، مسجد الحرام کو عملی طور پر تبدیل کرنا اور آب زمزم کے پینے والی جگہ کو خراب کرنا وغیرہ وغیرہ، ان تمام شرمناک فتووں کے بعد وہ کیسے کہتے ہیں یہی کام کرنا امام زمان (ع) کے لیے حرام ہے !

روایات کے بارے میں تحقیق:

ان مقدمات کو ذکر کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ وہ روایت کہ جو تم وہابیوں نے علامہ مجلسی اور شیخ طوسی سے نقل کی ہے، اس میں صرف مسجد الحرام کو مسمار کرنے کا ذکر آیا ہے اور مسجد النبی کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ یہ روایت بہت سی کتب میں نقل ہوئی ہے کہ اصل روایت ایسے ہے:

وَرَوَي أَبُو بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام إِذَا قَامَ الْقَائِمُ عليه السلام هَدَمَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ حَتَّي يَرُدَّهُ إِلَي أَسَاسِهِ وَحَوَّلَ الْمَقَامَ إِلَي الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَ فِيهِ وَقَطَعَ أَيْدِيَ بَنِي شَيْبَةَ وَعَلَّقَهَا بِالْكَعْبَةِ وَكَتَبَ عَلَيْهَا هَؤُلَاءِ سُرَّاقُ الْكَعْبَة.

ابو بصير کہتا ہے امام صادق (ع) نے فرمایا کہ جب حضرت قائم (ع) قیام کریں گے تو مسجد الحرام کو ویران کریں گے تا کہ اسے اپنی اصلی شکل میں تبدیل کر دیں، اور مقام (ابراہیم) کو اپنی پہلی جگہ پر پلٹا دیں گے اور قبیلہ بنی شیبہ (کہ کعبہ کی چابیاں انکے پاس تھیں) کے ہاتھوں کو کاٹ دیں گے اور انھیں کعبہ کے ساتھ آویزاں کر دیں گے اور ان ہاتھوں پر لکھیں گے: یہ کعبہ کے چور ہیں۔

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفي413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج2، ص 383، بيروت - لبنان،

النيسابوري، ابو علي محمد بن الفتال (الشهيد 508هـ)، روضة الواعظين، ص 265، تحقيق: السيد محمد مهدي السيد حسن الخرسان، ناشر: منشورات الرضي ـ قم؛

الطبرسي، أبي علي الفضل بن الحسن (متوفي548هـ)، إعلام الوري بأعلام الهدي، ج2، ص 289 ـ قم،

الإربلي، أبي الحسن علي بن عيسي بن أبي الفتح (متوفي693هـ)، كشف الغمة في معرفة الأئمة، ج3، ص 264، ناشر: دار الأضواء ـ بيروت،

العاملي النباطي، الشيخ زين الدين أبي محمد علي بن يونس (متوفي877هـ) الصراط المستقيم إلي مستحقي التقديم، ج2، ص 254،

المجلسي، محمد باقر (متوفي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج52، ص 338، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان،

البتہ یہی روایت بعض شیعہ کتب میں بھی روایت مرسلہ کی صورت میں ایسے نقل کی گئی ہے:

أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ وُهَيْبِ بْنِ حَفْصٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ إِنَّ الْقَائِمَ عليه السلام إِذَا قَامَ رَدَّ الْبَيْتَ الْحَرَامَ إِلَي أَسَاسِهِ وَمَسْجِدَ الرَّسُولِ صلي الله عليه وآله إِلَي أَسَاسِهِ وَمَسْجِدَ الْكُوفَةِ إِلَي أَسَاسِهِ وَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ إِلَي مَوْضِعِ التَّمَّارِينَ مِنَ الْمَسْجِد.

ابو بصير کہتا ہے کہ امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: جب حضرت قائم قیام کریں گے تو بيت الحرام، مسجد النبی اور مسجد كوفہ کو اپنی اصلی شکل میں بدل دیں گے ۔۔۔۔۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج4، ص 543،

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفي460هـ)، تهذيب الأحكام، ج5 ص 452،

المجلسي، محمد باقر (متوفي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج97 ص 459 - بيروت - لبنان،

اور شيخ طوسی نے اسی روایت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

عنه (الفضل بن شاذان) عن عبد الرحمان، عن ابن أبي حمزة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : القائم يهدم المسجد الحرام حتي يرده إلي أساسه، ومسجد الرسول صلي الله عليه وآله إلي أساسه، ويرد البيت إلي موضعه، وأقامه علي أساسه، وقطع أيدي بني شيبة السراق وعلقها علي الكعبة.

ابو بصير نے کہا ہے کہ امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ: جب حضرت قائم قیام کریں گے تو مسجد الحرام اور مسجد النبی کو ویران کر دیں گے تا کہ انکو اسکی اصلی بنیاد کی طرف پلٹا دیں، خانہ کعبہ کو اسکی اصلی جگہ پر واپس پلٹا دیں گے اور بنی شیبہ کے چوروں کے ہاتھوں کو کاٹ کر انھیں خانہ کعبہ کے ساتھ لٹکا دیں گے۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفي460هـ)، كتاب الغيبة، ص472، ح492،

روایات کی سند کے بارے میں تحقیق:

پہلی روایت:

جو شیخ مفید اور دوسرے علماء سے نقل ہوئی، سب نے اس روایت کو روایت مرسل کی صورت میں نقل کیا ہے اور اس روایت کی سند کو ذکر نہیں کیا اور علم حدیث کے مطابق حدیث مرسل کو دلیل اور علمی استدلال کے طور پر ذکر نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری روایت:

جسے مرحوم کلینی اور دوسرے علماء نے ذکر کیا، جیسا کہ اسکی سند سے واضح ہے، یہ بھی مرسل ہے، کیونکہ اس روایت کی سند میں لفظ ‎‎«عمن حدثه» آیا ہے اور معلوم نہیں ہے کہ یہ شخص کون ہے تا کہ اسکے بارے میں بحث کی جا سکے، پس علمی لحاظ سے اس روایت کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

تیسری روایت:

جسے شیخ طوسی نے کتاب الغیبۃ میں سند متصل کے ساتھ نقل کیا ہے، اس روایت میں بھی سند کے لحاظ سے اشکال ہے، کیونکہ اس روایت کی سند میں علی ابن ابی حمزه بطائنی ہے، یہ امام کاظم (ع) کا وکیل تھا، اسی نے امام کے اموال میں لالچ و خیانت کی وجہ سے فرقہ واقفہ کی بنیاد رکھی تھی۔

حضرت آيت الله العظمی خوئی نے اسکی زندگی کے بارے میں بہت سی روایات کو ذکر کیا ہے، جیسے:

وقال الكشي علي بن أبي حمزة البطائني : حدثني محمد بن مسعود، قال : حدثني علي بن الحسن (أبو الحسن)، قال : حدثني أبو داود المسترق، عن علي بن أبي حمزة، قال : قال أبو الحسن موسي عليه السلام : يا علي أنت وأصحابك شبه الحمير.

أقول : تأتي هذه الرواية بهذا السند وبسند آخر، صحيح أيضا، عن عيينة بياع القصب مرتين، قال ابن مسعود : قال أبو الحسن علي بن فضال : علي بن أبي حمزة كذاب متهم، روي أصحابنا أن أبا الحسن الرضا عليه السلام، قال بعد موت ابن أبي حمزة : إنه أقعد في قبره فسئل عن الأئمة عليهم السلام فأخبر بأسمائهم حتي انتهي إلي فسئل فوقف، فضرب علي رأسه ضربة امتلأ قبره نارا.

امام موسی كاظم عليہ السلام نے علی ابن ابی حمزه کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

اے علی ! تم اور تمہارے دوست گدھے کی مانند ہو۔

میں (خوئی) کہتا ہوں کہ: یہ روایت اسی سند اور ایک دوسری صحیح سند کے ساتھ عیینہ سے دو بار نقل ہوئی ہے، ابن مسعود نے ابو الحسن علی ابن فضال سے نقل کیا ہے کہ:

علی ابن حمزہ جھوٹا اور دنیا طلبی و مذہب سے خارج ہونے کے ساتھ متہم ہوا ہے،

ہمارے اصحاب نے امام رضا (ع) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا کہ:

اسکے مرنے کے بعد اس سے قبر میں اسکے آئمہ کے بارے میں سوال ہوا تو اس نے تمام آئمہ کے نام ذکر کیے، جب وہ میرے نام پر پہنچا تو اس سے سوال کیا گیا تو اسکے پاس کوئی جواب نہ تھا، پس اسکے سر پر ایسی ضرب لگائی گئی کہ جس سے اسکی قبر آگ سے بھر گئی۔

الموسوي الخوئي، السيد أبو القاسم (متوفي1411هـ)، معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة، ج12، ص 235،

پس نتیجے کے طور پر یہ تمام روایات سند کے لحاظ سے صحیح و معتبر اور قابل استدلال و استناد نہیں ہیں۔

روایات کے معنی و مفہوم کے بارے میں تحقیق:

روایات کی سند کے بارے میں بحث سے قطع نظر، واضح ہے کہ مسجد الحرام اور مسجد النبی کو مکمل طور پر مسمار و ویران کرنا، دین اسلام میں حرام ہے اور امام مہدی (ع) کہ جو تمام انسانوں کی نسبت خداوند کے حلال و حرام سے آگاہ تر ہیں، ہرگز دین اسلام کے خلاف کوئی کام انجام نہیں دیں گے، اسی طرح دوسری مساجد کو مسمار کرنا صرف خاص ضرورت کے تحت جائز ہے، (جیسے مسجد ضرار)

لیکن اگر وہ حقیقت میں ایسا کام انجام دیں گے تو، کیونکہ تمام مسلمانوں کا ایک نقطہ نظر ہے کہ وہ امام و خلیفہ بر حق ہیں اور وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہو گا کہ ان حضرت کا یہ کام خداوند کی رضایت و خشنودی کے لیے ہو گا، ورنہ کیسے ممکن ہے کہ ہم انکو امام عادل اور ظلم و جور کو ختم کرنے والا امام کہیں، اس لیے کہ امام معصوم کا ہر چھوٹا بڑا فعل، خداوند کے حکم اور رضایت کی وجہ سے انجام پاتا ہے۔

البتہ یہ بھی گمان ہے کہ ان حضرت کے پاس ان مساجد کو ویران کرنے کی دلیل (اگر فرض بھی کریں تو) ظالم و فاسق سلاطین کے آثار کو نابود کرنا ہو گا کہ جہنوں نے طول تاریخ میں ریا کی وجہ سے، یا ان مساجد کو حرام مال سے تعمیر کیا تھا اور کیونکہ امام کا وظیفہ ہے کہ دنیا کو ظالمین اور فاسقین کے آثار سے پاک کریں۔ اس پاک کرنے کا ایک مصداق، انہی مساجد میں تعمیر کیے گئے اضافی آثار کو مسمار کر کے دوبارہ مساجد کو حلال مال سے خداوند کی رضایت کے مطابق وہ امام تعمیر فرمائیں گے۔

یا وہ موارد کہ جو تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جنہیں غصب کر کے مساجد کا حصہ بنا دیا گیا ہے، جیسے مکہ کے بعض گھر کہ جنہیں انکے مالکان کی رضایت کے بغیر ان مساجد کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ درست ہے کہ یہ گھر وغیرہ اب ان مقدس مساجد کا حصہ شمار ہوتے ہیں لیکن پھر بھی غصب اور حرام شمار ہوتے ہیں، اس لیے انکو مسمار کر کے ان کے اصلی مالکوں کو واپس دینا ہو گا اور یہ کام امام عدل و انصاف حضرت مہدی (ع) ہی انجام دے سکتے ہیں۔

خلفاء بھی مسجد الحرام کو وسیع کرنے کے لیے غصب کرنے سے باز نہیں آتے تھے !

ان گھروں میں سے ایک گھر رسول خدا (ص) کے چچا عباس کا ہے کہ اہل سنت ایک طرف سے یہ کہتے ہیں عمر چاہتا تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو، عباس سے اس گھر کو لے لے، لیکن عباس نے بالکل قبول نہ کیا اور اس کام پر راضی نہیں ہوا، آخر کار عباس نے خود اس گھر کو مسجد کے لیے وقف کر دیا اور عمر نے اس گھر کو مسجد کا حصہ بنا دیا، تو دوسری طرف سے اہل سنت کہتے ہیں کہ عثمان یا ولید کے زمانے میں وہ گھر مسجد کا حصہ بنا تھا !

أخبرنا يزيد بن هارون قال أخبرنا أبو أمية بن يعلي عن سالم أبي النضر قال لما كثر المسلمون في عهد عمر ضاق بهم المسجد فاشتري عمر ما حول المسجد من الدور الا دار العباس بن عبد المطلب وحجر أمهات المؤمنين فقال عمر للعباس يا أبا الفضل ان مسجد المسلمين قد ضاق بهم وقد ابتعت ما حوله من المنازل نوسع به علي المسلمين في مسجدهم الا دارك وحجر أمهات المؤمنين فأما حجر أمهات المؤمنين فلا سبيل إليها واما دارك فبعنيها بما شئت من بيت مال المسلمين أوسع بها في مسجدهم فقال العباس ما كنت لأفعل قال فقال له عمر اختر مني إحدي ثلاث اما ان تبيعنيها بما شئت من بيت مال المسلمين واما ان اخططك حيث شئت من المدينة وابنيها لك من بيت مال المسلمين واما ان تصدق بها علي المسلمين فنوسع بها في مسجدهم فقال لا ولا واحده منها فقال عمر اجعل بيني وبينك من شئت فقال أبي بن كعب فانطلقا إلي أبي فقصا عليه القصة فقال أبي ان شئتما حدثتكما بحديث سمعته من النبي صلي الله عليه وسلم فقالا حدثنا فقال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول ان الله أوحي إلي داود ان بن لي بيتا أذكر فيه فخط له هذه الخطة بيت المقدس فإذا تربيعها بيت رجل من بني إسرائيل فسأله داود ان يبيعه إياه بأبي فحدث داود نفسه ان يأخذ منه فأوحي الله اليه ان يا داود أمرتك ان تبني لي بيتا اذكر فيه فأردت ان تدخل في بيتي الغصب وليس من شأني الغصب وان عقوبتك ان لا تبنيه قال يا رب فمن ولدي قال من ولدك قال فأخذ عمر بمجامع ثياب أبي بن كعب وقال جئتك بشيء فجئت بما هو أشد منه لتخرجن مما قلت فجاء يقوده حتي أدخله المسجد فأوقفه علي حلقة من أصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم فيهم أبو ذر فقال اني نشدت الله رجلا سمع رسول الله صلي الله عليه وسلم يذكر حديث بيت المقدس حين أمر الله داود أن يبنيه الا ذكره فقال أبو ذر انا سمعته من رسول الله قال آخر انا سمعته يعني من رسول الله صلي الله عليه وسلم قال فأرسل عمر أبيا قال وأقبل أبي علي عمر فقال يا عمر أتتهمني علي حديث رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال عمر يا أبا المنذر لا والله ما اتهمتك عليه ولكني كرهت ان يكون الحديث عن رسول الله صلي الله عليه وسلم ظاهرا قال وقال عمر للعباس اذهب فلا أعرض لك في دارك فقال العباس اما إذ فعلت هذا فاني قد تصدقت بها علي المسلمين أوسع بها عليهم في مسجدهم فأما وأنت تخاصمني فلا قال فخط عمر لهم دارهم التي هي اليوم وبناها من بيت مال المسلمين ،

جب عمر کے زمانے میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو مسجد انکے لیے چھوٹی ہو گئی، اسی وجہ سے عمر نے مسجد کے اطراف والے گھروں کو خرید لیا، سوائے رسول خدا (ص) کے چچا عباس اور رسول خدا (ص) کی زوجات کے گھر کے، عمر نے عباس سے کہا: اے ابا الفضل مسجد مسلمانوں کے لیے تنگ ہو گئی ہے اور میں نے مسجد کے اطراف کے گھروں کو خرید لیا ہے تا کہ مسجد کو تھوڑا وسیع کر سکوں، سوائے تمہارے گھر اور ازواج رسول کے گھروں کے، ازواج رسول کے گھروں کو تو کچھ نہیں کیا جا سکتا، لیکن اپنے گھر کو جتنی قیمت پر بھی چاہتے ہو مجھے فروخت کر دو !

عباس نے کہا: میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا !

عمر نے کہا: ان تین کاموں میں سے حتمی تم کو ایک کام کرنا ہو گا ! یا اپنے گھر کو جتنی بھی قیمت پر چاہتے ہو، مجھے فروخت کرنا ہو گا، یا مدینے میں جہاں پر بھی چاہو اس گھر کے بدلے میں اپنے اور اپنے بیٹوں کے لیے زمین لے لو، یا اس گھر کو مسلمانوں کو بخش دو تا کہ مسجد کو وسعت دی جا سکے !

عباس نے کہا: مجھے کچھ بھی قبول نہیں ہے !

عمر نے کہا: اپنے اور میرے درمیان کسی کو قاضی قرار دو، وہ دونوں ابی ابن کعب کے پاس گئے اور سارا ماجرا اسے بتا دیا ! ابی نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول خدا (ص) سے سنی ہوئی ایک حدیث کو نقل کرتا ہوں ؟

دونوں نے کہا: ہاں نقل کرو۔

ابی نے کہا: رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ خداوند نے حضرت داود کو وحی کی کہ میرے لیے گھر بناؤ تا کہ اس میں میرا ذکر کیا جائے، حضرت داود نے بیت المقدس میں اس کام کے لیے نقشہ کشی کی، لیکن اس نقشے میں بنی اسرائیل میں سے ایک کا گھر درمیان میں آتا تھا، حضرت داود نے اس سے چاہا کہ وہ اپنے گھر کو مجھے فروخت کر دے، مگر اس نے قبول نہ کیا، حضرت داود نے ارادہ کیا کہ جیسے بھی ہو اس سے وہ گھر لے لیں، لیکن خداوند نے اسے وحی کی کہ میں نے تم سے کہا ہے کہ میرے لیے گھر کو بناؤ کہ اس میں میرا ذکر کیا جائے، لیکن تم تو غصبی گھر کو میری مسجد میں شامل کرنا چاہتے ہو ؟ حالانکہ میں غصب کو پسند نہیں کرتا ! لہذا اب آپکی سزا یہ ہے کہ آپ میرے لیے اس گھر کو تعمیر نہ کریں، حضرت داود نے کہا: خدایا کیا میری اولاد میں سے کوئی یہ کام کر دے ؟ خداوند نے فرمایا: تمہاری اولاد میں سے کوئی ایسا کر دے !

جب ابی نے اس روایت کو نقل کیا تو عمر نے اسکو گریبان سے پکڑ لیا اور کہا: میں اپنی مشکل کو حل کرنے کے لیے تمہارے پاس آیا تھا لیکن تم نے اسکو خراب تر کر دیا ہے !

پھر زبردستی اسکو مسجد میں اصحاب کے سامنے لے کر آ گیا کہ وہاں پر ابوذر بھی تھا، عمر نے کہا: میں تم سب کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم میں سے کسی نے اس حدیث کو رسول خدا سے سنا ہے ؟

ابوذر نے کہا: ہاں میں نے اس حدیث کو رسول خدا سے سنا ہے، کسی دوسرے صحابی نے بھی ایسا ہی جواب دیا !

عمر نے ابی ابن كعب کو چھوڑ دیا تو ابی ابن کعب نے عمر سے کہا: اے عمر ! کیا تم مجھ پر رسول خدا کی طرف جھوٹ کی نسبت دینے کی تہمت لگاتے ہو ؟ !

عمر نے کہا: نہ، میں تم پر تہمت نہیں لگا رہا ! لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ رسول خدا کی اس کے بارے میں لوگوں کو پتا چلے !

اس واقعے کے بعد عمر نے عباس سے کہا: جاؤ چلے جاؤ میں اب تم کو تمہارے گھر کی وجہ سے تنگ نہیں کروں گا، عباس نے کہا: اب تم نے ایسا کیا ہے تو میں بھی اپنے گھر کو تمام مسلمانوں کو صدقے کے طور پر دیتا ہوں تا کہ تم مسجد کو ان کے لیے وسیع کر سکو، لیکن تم زبردستی مجھ سے میرے گھر کو نہیں لے سکتے تھے !

عمر نے عباس سے وہ گھر لے کر مسلمانوں کے مال کے عنوان سے اسے مسجد کا حصہ بنا دیا۔

الزهري، محمد بن سعد بن منيع ابو عبد الله البصري (متوفي230هـ)، الطبقات الكبري، ج4، ص21، ناشر: دار صادر - بيروت.

یہ روایت واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ اگر عمر، رسول خدا (ص) کی اس حدیث نہ سنتا تو اسکے خشن و تند روئیے کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ وہ جیسے تیسے بھی ممکن ہوتا، عباس سے اسکے گھر کو لے لیتا اور اسکا یہ کام غصب شمار کیا جانا تھا !

البتہ اسی روایت کے آخری حصے کے ساتھ کچھ متضاد مطالب علمائے اہل سنت نے بھی نقل کیے ہیں، ابن تیمیہ نے عباس کے گھر کے بارے میں کہا ہے کہ:

قال أبو زيد حدثنا محمد بن يحيي عن عبد الرحمن بن سعد عن أشياخه أن عثمان أدخل فيه دار العباس بن عبد المطلب مما يلي القبلة والشام والغرب.

عثمان نے عباس کے گھر کو قبلہ کی جانب سے مسجد میں داخل (شامل) کیا تھا !

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابو العباس أحمد عبد الحليم (متوفي 728 هـ)، الرد علي الأخنائي، ج1، ص123، ناشر : المطبعة السلفية - القاهرة.

سمہودی نے بھی کہا ہے کہ ولید کے دور میں عباس کا گھر مسجد میں داخل کیا گیا تھا۔

السمهودي الحسني، علي بن عبد الله بن أحمد (متوفي911هـ)، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفي ج1، ص133، طبق برنامه الجامع الكبير.

لہذا بالکل بعید نہیں ہے کہ بعض نے سنت رسول خدا (ص) سے لا علمی کی بناء پر لوگوں کو درہم و دینار دے کر زبردستی ان سے انکے گھروں اور زمینوں کو لے کر مسجد الحرام اور مسجد النبی کا حصہ بنا دیا ہو اور امام زمان (ع) انہی غصبی طور پر اضافہ کی گئی چیزوں کو ویران و مسمار کریں !

رسول خدا (ص) بھی خانہ کعبہ کو ویران کرنا چاہتے تھے !

ان تمام باتوں سے قطع نظر، اہل سنت نے اپنی صحیح ترین کتب میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) موجودہ خانہ کعبہ کو مسمار کر کے اسکو وہاں پر واپس پلٹانا چاہتے تھے کہ جہاں پر خود حضرت ابراہیم (ع) نے تعمیر کیا تھا، کیونکہ تاریخ میں ہے کہ مشرکین نے متعدد بار خانہ کعبہ کو تعمیر اور جہالت کی بناء پر اس میں بہت سی تبدیلیاں کیں تھیں کہ رسول خدا (ص) اسکو ویران کر کے اسکی اصلی جگہ پر تعمیر کرنا چاہتے تھے، لیکن اس وجہ سے کہ اہل قریش نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور وہ ہرگز اس کام کو قبول نہیں کر سکتے تھے، اسی لیے رسول خدا (ص) نے یہ کام کرنے سے صرف نظر کر دیا۔

محمد ابن اسماعيل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ:

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنهم زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوُا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ. فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ تَرُدُّهَا عَلَي قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ. قَالَ: « لَوْلاَ حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ».

رسول خدا کی بیوی عائشہ سے نقل ہوا ہے کہ ان حضرت نے فرمایا کہ: کیا تم نہیں جانتی کہ تمہاری قوم نے جب کعبہ کو تعمیر کیا تو انھوں نے اسکی بنیاد اور ستونوں کو حضرت ابراہیم کے تعمیر کردہ ستونوں سے چھوٹا بنایا تھا ؟

عائشہ کہتی ہے کہ میں نے کہا: آپ کعبہ کو اسکی پہلی حالت میں کیوں نہیں پلٹا دیتے ؟ رسول خدا نے فرمایا:

 اگر تمہاری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں یہ کام ضرور انجام دیتا۔

البخاري الجعفي، أبو عبد الله محمد بن إسماعيل (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج2، ص 573 ح 1506

و ج3، ص 1232، ح 3188 و ج4، ص1630، ح4214، ( ج2 ص 156 و ج4، ص 118 طبق برنامه مكتبه اهل البيت (ع) تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت،

اسی بخاری نے دوسری روایت میں لکھا ہے کہ:

عن عُرْوَةَ عن عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ النبي صلي الله عليه وسلم قال لها يا عَائِشَةُ لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ لَأَمَرْتُ بِالْبَيْتِ فَهُدِمَ فَأَدْخَلْتُ فيه ما أُخْرِجَ منه وَأَلْزَقْتُهُ بِالْأَرْضِ وَجَعَلْتُ له بَابَيْنِ بَابًا شَرْقِيًّا وَبَابًا غَرْبِيًّا فَبَلَغْتُ بِهِ أَسَاسَ إبراهيم.

عائشہ سے روایت ہوئی ہے کہ رسول خدا نے مجھ سے فرمایا کہ: اگر تمہاری قوم نئی نئی اپنے کفر سے الگ نہ ہوئی ہوتی تو حکم دیتا کہ کعبہ کو ویران کریں اور کعبہ کا وہ حصہ کہ جو اس سے باہر رہ گیا ہے، اسکو کعبہ کے اندر داخل کر دیتا اور اسکو مسمار کر دیتا اور مشرق و مغرب کی طرف کعبہ کے دو دروازے بناتا اور اسکو حضرت ابراہیم کے زمانے کی طرح بنا دیتا۔

البخاري الجعفي، أبو عبد الله محمد بن إسماعيل (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج2، ص 574، ح1509 (ج 2 ص 156 طبق مكتبه اهل البيت (ع)، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت،

اور مسلم نيشاپوری نے بھی اپنی کتاب صحيح مسلم میں لکھا ہے کہ:

وحدثني محمد بن حَاتِمٍ حدثني بن مَهْدِيٍّ حدثنا سَلِيمُ بن حَيَّانَ عن سَعِيدٍ يَعْنِي بن مِينَاءَ قال سمعت عَبْدَ اللَّهِ بن الزُّبَيْرِ يقول حَدَّثَتْنِي خَالَتِي يَعْنِي عَائِشَةَ قالت قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم يا عَائِشَةُ لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِشِرْكٍ لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ فَأَلْزَقْتُهَا بِالْأَرْضِ وَجَعَلْتُ لها بَابَيْنِ بَابًا شَرْقِيًّا وَبَابًا غَرْبِيًّا وَزِدْتُ فيها سِتَّةَ أَذْرُعٍ من الْحِجْرِ فإن قُرَيْشًا اقْتَصَرَتْهَا حَيْثُ بَنَتْ الْكَعْبَةَ.

عائشہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے اس سے فرمایا کہ: اگر تیری قوم نئی نئی شرک سے جدا نہ ہوئی ہوتی تو خانہ کعبہ کو ویران کر کے اسے زمین بوس کر دیتا، مشرق و مغرب کی طرف کعبہ کے دو دروازے بناتا اور چھ انچ حجر اسماعیل کی طرف سے اسکو بڑا کرتا، کیونکہ تیری قوم نے کعبے کو اسی اندازے (اپنے اصلی اندازے سے چھوٹا) تک ہی بنایا ہوا تھا۔

النيسابوري القشيري، ابو الحسين مسلم بن الحجاج (متوفي261هـ)، صحيح مسلم ج2، ص969، ح1333، كِتَاب الْحَجِّ، بَاب نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

البانی حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

أخرجه الإمام مسلم وأبو نعيم والطحاوي والبيهقي (5/89 ) وأحمد (6/179-180). قلت: وهذا إسناد صحيح علي شرط البخاري.

اس روايت کو امام مسلم، ابو نعيم، طحاوی، بيہقی اور احمد نے نقل کیا ہے اور میں بھی کہتا ہوں کہ یہ روایت بخاری کی شرائط کے مطابق، صحیح (معتبر) ہے۔

ألباني، محمد ناصر (متوفي1420هـ)، إرواء الغليل، كتاب الحج، ج4، ص305، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت - لبنان،

اور مسلم نے ایک دوسری روایت میں لکھا ہے کہ:

حدثنا يحيي بن يحيي أخبرنا أبو مُعَاوِيَةَ عن هِشَامِ بن عُرْوَةَ عن أبيه عن عَائِشَةَ قالت قال لي رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ وَلَجَعَلْتُهَا علي أَسَاسِ إبراهيم فإن قُرَيْشًا حين بَنَتْ الْبَيْتَ اسْتَقْصَرَتْ وَلَجَعَلْتُ لها خَلْفًا.

اس کا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

النيسابوري القشيري، ابو الحسين مسلم بن الحجاج (متوفي261هـ)، صحيح مسلم، ج2، ص968، ح1333، كِتَاب الْحَجِّ، بَاب نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ابن ماجہ قزوينی نے لکھا ہے کہ:

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- عَنِ الْحِجْرِ. فَقَالَ «هُوَ مِنَ الْبَيْتِ». قُلْتُ مَا مَنَعَهُمْ أَنْ يُدْخِلُوهُ فِيهِ قَالَ «عَجَزَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ». قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا لاَ يُصْعَدُ إِلَيْهِ إِلاَّ بِسُلَّمٍ قَالَ « ذَلِكَ فِعْلُ قَوْمِكِ لِيُدْخِلُوهُ مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوهُ مَنْ شَاءُوا وَلَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِكُفْرٍ مَخَافَةَ أَنْ تَنْفِرَ قُلُوبُهُمْ لَنَظَرْتُ هَلْ أُغَيِّرُهُ فَأُدْخِلَ فِيهِ مَا انْتَقَصَ مِنْهُ وَجَعَلْتُ بَابَهُ بِالأَرْضِ».

عائشہ سے روایت ہوئی ہے کہ میں نے حجر اسماعیل کے بارے میں رسول خدا سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: وہ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہے، پھر میں (عائشہ) نے پوچھا: تو پھر انھوں نے اس (حجر اسماعیل) کو کعبہ کے اندر داخل نہیں کیا ؟ فرمایا کہ: ان لوگوں کے پاس اس کام کے کرنے کا خرچہ نہیں تھا۔

عائشہ: کعبہ کا دروازہ کیوں اتنا اونچا ہے کہ صرف سیڑھی کے ذریعے سے ہی اس تک پہنچا جا سکتا ہے ؟ فرمایا:

تیری قوم نے خود ہی ایسا کیا ہے تا کہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل کریں اور جسے چاہیں اسے کعبہ میں داخل ہونے سے منع کر دیں اور اگر تیری قوم تازی ت‍‍‍‍ازی کفر سے دور نہ ہوئی ہوتی، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ انکے دل دین سے دور نہ ہو جائیں تو کعبہ کو اس حوالے سے تبدیل کر دیتا اور کعبہ کا وہ حصہ کہ جو اس سے باہر رہ گیا ہے، اسے کعبہ کے اندر داخل کر دیتا اور اسے زمین کے ساتھ برابر کر دیتا۔

القزويني، أبو عبد الله محمد بن يزيد (متوفي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج2، ص 985، ح2975، ناشر: دار الفكر - بيروت.

البانی نے اس روایت کو صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے:

الباني، محمد ناصر (متوفي1420هـ)، صحيح ابن ماجه، جزء 2، ص162، شماره 2946، طبق برنامه المكتبة الشاملة.

یہ تمام احادیث ثابت کرتی ہیں کہ رسول خدا (ص) نے کسی مصلحت کی بناء پر خانہ کعبہ کو ویران کرنے سے صرف نظر کیا تھا یعنی اگر وہ مصلحت و مجبوری وغیرہ نہ ہوتی تو وہ موجودہ خانہ کعبہ کے بعض تحریف شدہ حصے کو خراب کر کے اسے حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے کی طرح اپنی اصل شکل میں دوبارہ تعمیر و مرمت فرماتے، لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے، لیکن حضرت مہدی (ع) ان تمام مصلحتوں ، مجبوریوں اور تقیہ وغیرہ کرنے سے آزاد ہوں گے، اسی لیے وہ اپنے جدّ امجد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انکے ادھورے چھوڑے ہوئے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

مسلم کی نقل کردہ ایک دوسری روایت کے مطابق عبد اللہ ابن زبیر کا بھی ارادہ تھا کہ رسول خدا (ص) کے فرمان کے مطابق خانہ کعبہ کی تعمیر و مرمت کرے، لیکن حجاج ابن یوسف نے عبد الملک ابن مروان کے حکم کے مطابق کعبہ کو دو بار ویران کیا اور اسے زمانہ جاہلیت کی شکل میں دوبارہ تعمیر کر دیا:

حدثنا هَنَّادُ بن السَّرِيِّ حدثنا بن أبي زَائِدَةَ أخبرني بن أبي سُلَيْمَانَ عن عَطَاءٍ قال لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بن مُعَاوِيَةَ حين غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ فَكَانَ من أَمْرِهِ ما كان تَرَكَهُ بن الزُّبَيْرِ حتي قَدِمَ الناس الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ أو يجربهم علي أَهْلِ الشَّامِ فلما صَدَرَ الناس قال يا أَيُّهَا الناس أَشِيرُوا عَلَيَّ في الْكَعْبَةِ أَنْقُضُهَا ثُمَّ ابني بِنَاءَهَا أو أُصْلِحُ ما وهي منها قال بن عَبَّاسٍ فَإِنِّي قد فُرِقَ لي رَأْيٌ فيها أَرَي ان تُصْلِحَ ما وَهَي منها وَتَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ الناس عليه وَأَحْجَارًا أَسْلَمَ الناس عليها وَبُعِثَ عليها النبي صلي الله عليه وسلم فقال بن الزُّبَيْرِ لو كان أحدكم احْتَرَقَ بَيْتُهُ ما رضي حتي يُجِدَّهُ فَكَيْفَ بَيْتُ رَبِّكُمْ إني مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلَاثًا ثُمَّ عَازِمٌ علي أَمْرِي فلما مَضَي الثَّلَاثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ علي أَنْ يَنْقُضَهَا فَتَحَامَاهُ الناس أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ الناس يَصْعَدُ فيه أَمْرٌ من السَّمَاءِ حتي صَعِدَهُ رَجُلٌ فَأَلْقَي منه حِجَارَةً فلما لم يَرَهُ الناس أَصَابَهُ شَيْءٌ تَتَابَعُوا فَنَقَضُوهُ حتي بَلَغُوا بِهِ الْأَرْضَ فَجَعَلَ بن الزُّبَيْرِ أَعْمِدَةً فَسَتَّرَ عليها السُّتُورَ حتي ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ وقال بن الزُّبَيْرِ إني سمعت عَائِشَةَ تَقُولُ إِنَّ النبي صلي الله عليه وسلم قال لَوْلَا أَنَّ الناس حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ وَلَيْسَ عِنْدِي من النَّفَقَةِ ما يقوي علي بِنَائِهِ لَكُنْتُ أَدْخَلْتُ فيه من الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ وَلَجَعَلْتُ لها بَابًا يَدْخُلُ الناس منه وَبَابًا يَخْرُجُونَ منه قال فانا الْيَوْمَ أَجِدُ ما أُنْفِقُ وَلَسْتُ أَخَافُ الناس قال فَزَادَ فيه خَمْسَ أَذْرُعٍ من الْحِجْرِ حتي أَبْدَي أُسًّا نَظَرَ الناس إليه فَبَنَي عليه الْبِنَاءَ وكان طُولُ الْكَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا فلما زَادَ فيه اسْتَقْصَرَهُ فَزَادَ في طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ وَجَعَلَ له بَابَيْنِ أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ منه وَالْآخَرُ يُخْرَجُ منه فلما قُتِلَ بن الزُّبَيْرِ كَتَبَ الْحَجَّاجُ إلي عبد الْمَلِكِ بن مَرْوَانَ يُخْبِرُهُ بِذَلِكَ وَيُخْبِرُهُ أَنَّ بن الزُّبَيْرِ قد وَضَعَ الْبِنَاءَ علي أُسٍّ نَظَرَ إليه الْعُدُولُ من أَهْلِ مَكَّةَ فَكَتَبَ إليه عبد الْمَلِكِ أنا لَسْنَا من تَلْطِيخِ بن الزُّبَيْرِ في شَيْءٍ أَمَّا ما زَادَ في طُولِهِ فَأَقِرَّهُ وَأَمَّا ما زَادَ فيه من الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إلي بِنَائِهِ وَسُدَّ الْبَابَ الذي فَتَحَهُ فَنَقَضَهُ وَأَعَادَهُ إلي بِنَائِهِ.

خانہ کعبہ کو جب یزید ابن معاویہ کے دور میں اہل شام کے ساتھ جنگ میں آگ لگائی گئی اور وہ تمام واقعات پیش آئے تو ابن زبیر نے کعبہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیا، جب لوگ حج کرنے کے لیے مکہ آئے تو اسکا یہ ارادہ تھا کہ وہ لوگوں کا امتحان لے (یعنی دیکھے کہ وہ لوگ اہل شام کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے اسکی بات قبول کرتے ہیں ؟!)

اس نے لوگوں سے کہا: اے لوگو، تم لوگوں کی کعبہ کے بارے میں کیا رائے ہے، اسکو ویران کروں اور پھر دوبارہ اسے تعمیر و آباد کروں اور اسکی مرمت کروں !

ابن عباس نے کہا: میری ایک دوسری رائے ہے، کعبہ کے بعض خراب شدہ حصے کی مرمت کرو اور باقی کو چھوڑ دو، اور کعبہ کو جیسے ابتدائے اسلام میں تھا، ویسے ہی باقی رکھو۔

ابن زبير نے کہا: اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ اسکو نئے سرے سے تعمیر کیے بغیر نہیں چھوڑتا ! یہ تو پھر بھی تمہارے خداوند کا گھر ہے۔

میں تین بار استخارہ کر کے اپنے کام کو شروع کر دوں گا، جب اس نے تین بار استخارہ کیا تو لوگوں نے اسے ڈرایا کہ جو بھی پہلے کعبہ کے اوپر جائے گا تو اس پر عذاب نازل ہو گا ! جب ایک شخص اوپر گیا اور اس نے کعبہ سے ایک پتھر کو اکھاڑا تو اس پر کوئی عذاب نازل نہ ہوا ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب اوپر چلے گئے اور کعبہ کو مسمار کر کے صاف زمین میں تبدیل کر دیا، ابن زبیر نے ستونوں کو نصب کر کے ان پر لمبے لمبے پردے لگا دئیے، پھر اس نے کہا: میں نے عائشہ سے سنا تھا کہ اس نے کہا تھا کہ رسول خدا نے فرمایا کہ: اگر لوگ نئے نئے کفر سے دور نہ ہوئے ہوتے تو ۔۔۔۔۔۔ اور میرے پاس اس کام کے لیے مال نہیں ہے ورنہ کعبہ سے باہر نکلے ہوئے اس بڑے پتھر کو کعبہ کے اندر داخل کر دیتا اور ایک دروازہ کعبہ کے اندر جانے اور ایک دروازہ کعبہ سے باہر آنے کے لیے بھی بناتا !

(ابن زبیر کہتا ہے) لیکن آج میرے پاس اس کام کے لیے مال ہے اور مجھے لوگوں سے بھی کوئی خوف نہیں ہے، پس اس نے کعبے کو بڑا کر کے تعمیر کیا، کعبہ کی اونچائی 18 انچ تھی لیکن اس نے مزید 10 انچ اس میں اضافہ کر دیا اور کعبہ کے دو دروازے بھی بنائے۔

لیکن جب عبد اللہ ابن زبیر قتل ہو گیا تو حجاج نے عبد الملک کو خط لکھا اور اسے بتایا کہ عبد اللہ ابن زبیر نے کعبہ کی بنیاد کو مکہ کے سر کش لوگوں کی رائے کے مطابق رکھا ہے !

عبد الملک نے اسے لکھا کہ عبد اللہ ابن زبیر نے اپنے آپکو جس چیز سے آلودہ کیا تھا، ہم اپنے ہاتھوں کو اس میں داخل نہیں کریں گے، اس نے جو کعبہ کی اونچائی کو زیادہ کیا ہے، اسے ویسے ہی باقی رہنے دو، لیکن جو حجر اس نے کعبہ کے اندر داخل کیا ہے، اسکو کعبہ سے باہر نکال کر اسے پہلی حالت میں پلٹا دو اور جو اس نے اضافی ایک دروازہ کھولا ہے، اسے بند کر دو اور کعبہ کی صحیح طریقے سے مرمت بھی کرو۔

النيسابوري القشيري، ابو الحسين مسلم بن الحجاج (متوفي261هـ)، صحيح مسلم، ج2، ص970، ح1333، كِتَاب الْحَجِّ، بَاب نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا، ناشر: دار إحياء التراث العربي ـ بيروت.

ان روایات کے مطابق مشرکین قریش نے اور انکے بعد ظالم حکمرانوں نے اپنی مرضی سے خانہ کعبہ میں بہت سی تبدیلیاں ایجاد کیں تھیں۔ حضرت مہدی (عج) اپنے وظیفے کے مطابق خانہ کعبہ کو اپنی اسی اصلی شکل میں تبدیل کر دیں گے کہ جس شکل میں حضرت ابراہیم (ع) نے خداوند کے حکم کے مطابق تعمیر کیا تھا اور وہ ظہور کرنے کے بعد حتما اس کام کو انجام دیں گے۔

تعجب اور افسوس کی یہ بات ہے کہ علمائے اہل سنت اپنی صحیح ترین کتب میں مذکورہ ان روایات کو نہیں دیکھتے، یا دیکھنا نہیں چاہتے، لیکن وہ ضعیف روایات کہ جو بعض شیعہ کتب میں نقل ہوئی ہیں، اسکو بڑی آب و تاب کے ساتھ نقل کرتے ہیں، تا  کہ صرف شیعوں پر اعتراض کر سکیں اور اس طریقے سے اپنے باطنی نفاق و کینے کو ظاہر کر سکیں۔

قال الصادق (ع) إِذَا قَامَ الْقَائِمُ (ع) سَارَ إِلَي الْكوفَةِ وَ هَدَمَ بِهَا أَرْبَعَةَ مَسَاجِدَ وَ لَمْ يبْقَ مَسْجِدٌ عَلَي وَجْهِ الْأَرْضِ لَهُ شُرَفٌ إِلَّا هَدَمَهَا وَ جَعَلَهَا جَمَّاءَ وَ وَسَّعَ الطَّرِيقَ الْأَعْظَمَ وَ كسَّرَ كلَّ جَنَاحٍ خَارِجٍ فِي الطَّرِيقِ وَ أَبْطَلَ الْكنُفَ وَ الْمَيازِيبَ إِلَي الطُّرُقَاتِ فَلَا يتْرُك بِدْعَةً إِلَّا أَزَالَهَا وَ لَا سُنَّةً إِلَّا أَقَامَهَا،

امام صادق (ع) سے ایک طولانی روایت نقل ہوئی ہے کہ: جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو کوفہ میں چار مساجد کو مسمار کریں گے، کسی بھی مجلّل اور اونچے اونچے میناروں والی مسجد کو نہیں دیکھیں گے مگر یہ کہ اسکے میناروں کو خراب کر دیں گے اور اس مسجد کو سادہ حالت میں تبدیل کر دیں گے، سڑکوں کو کھلا اور وسیع کریں گے، جو گھر بھی کسی راستے میں مزاحمت ایجاد کر رہا ہو گا تو وہ اسے زمین بوس کر دیں گے اور پانی کے وہ پرنالے کہ جو لوگوں کے لیے راستے میں تکلیف دہ ہوں گے، وہ انھیں وہاں سے اتار دیں گے۔ وہ ہربدعت کو ختم کر دیں گے اور ہر سنت کو باقی رکھیں گے۔

الإرشاد: ج 2 ص 385،

إعلام الورى‏: ج 2 ص 291،

كشف الغمّة: ج 3 ص 256،

روضة الواعظين: ص 290،

بحار الأنوار: ج 52 ص 339 ح 84.

شيخ حر عاملى، وسائل الشيعة، ج25، ص436.

یہ روایت حقوق الناس کی رعایت کرنے کی اہمیت کو واضح کر رہی ہے، اس لیے کہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا، واجب ہے اور حتی امور دینی کی وجہ سے بھی لوگوں کے حقوق کو سلب کرنا اور انکو تکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے۔

کوفہ کی چار مساجد کی تخریب کے بارے میں جو روایات میں ذکر ہوا ہے تو اسکے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان مساجد سے مراد وہ مساجد ہیں کہ جو بنی امیہ کے زمانے میں بنائی گئی تھی، کیونکہ یہ امام حسین (ع) کے قتل کیے جانے پر شکرانے کے طور پر لشکر یزید کے ذریعے سے تعمیر کی گئی تھی کہ یہی مساجد بعد میں مساجد ملعونہ کے نام سے مشہور ہوئیں تھیں۔

الغارات، ج 2، ص 325.

ان مساجد کے نام امام باقر (ع) نے ایسے ذکر فرمائے ہیں:

کوفہ میں مبارک مساجد اور ملعون مساجد موجود ہیں، مساجد مبارک ۔۔۔۔۔ اور مساجد ملعونہ جیسے مسجد اشعث ابن قیس، مسجد جریر ابن عبد الله بجلی، مسجد ثقیف اور مسجد سماک ہیں۔

شیخ صدوق‏، الخصال، ج‏1، ص300، جامعه مدرسین‏، قم‏،

اسی طرح امیر المؤمنین علی (ع) نے کوفہ کی پانچ مساجد میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، وہ مساجد مسجد اشعث ابن قیس کندی، مسجد جریر ابن عبد الله بجلی، مسجد سماک ابن مخرمہ، مسجد شبث ابن ربعی اور مسجد تیم ہیں۔

الخصال، ج‏1، ص302.

امام باقر (ع) نے ان مساجد میں سے چار کو مساجد ملعونہ کہا ہے یعنی ممکن ہے کہ یہی مساجد حضرت قائم (ع) کے زمانے میں بھی ہوں اور وہ انکو تخریب فرمائیں گے۔

حضرت مہدی (عج) کا بھی جب بدعتوں اور اعتقادی خرافات سے سامنا ہو گا تو وہ بھی اپنے جدّ امجد رسول خدا (ص) کی سیرت پر عمل کریں گے۔ رسول خدا (ص) نے جب دیکھا کہ بعض منافقین عام سادہ لوگوں کے دینی جذبات سے غلط استفادہ کر کے مسجد ضرار کو تعمیر کیا ہے تا کہ ظاہری طور پر مسجد کا بہانہ بنا کر، مؤمنین میں تفرقہ اور جدائی ایجاد کرنا چاہتے ہیں۔

سورہ توبہ آیت 107

تو انھوں نے مسجد ضرار کے تخریب کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تمام لوگ آج کے بعد یہاں پر کوڑا کرکٹ پھینکا کریں۔

نفاق و منافقین کا موجود ہونا اور سادہ لوگوں کے احساسات و جذبات سے غلط استفادہ کرنا، یہ کام کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہی منافقین اور تفرقہ انگیز کام امام زمان (ع) کے دور میں اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ موجود ہوں گے، لہذا وہ بھی رسول خدا (ص) کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے، کفر و نفاق کے تمام مورچوں کو تخریب کریں گے، حتی یہ مورچے مساجد کی ہی شکل میں موجود کیوں نہ ہوں !

قابل ذکر و توجہ ہے کہ آج کے دور میں بہت سی مساجد اور مقدس مقامات، اسلامی فن تعمیر کے مطابق، تعمیر نہیں کیے گئے، بلکہ دینی مقامات، مسیحی کلیسا کی شکل پر اور مسیحی کلیسا، بت پرستوں کے معابد کی شکل پر بنائے گئے ہیں، بلکہ بعض مساجد وغیرہ روم و یونان کے معابد بت پرستی کی ھیکل و شکل پر بنائی گئی ہیں کہ یہ مساجد اسلامی و دینی عبادت کے لیے مناسب نہیں ہیں اور آئندہ دور میں ان مساجد پر پتا نہیں کیا کیا مصائب ڈھائے جائیں گے اور اگر کسی بھی دور میں حقیقی اسلامی حکومت حاکم ہو گئی تو وہ ان کلیسا اور کنیسا نما اسلامی مساجد کے ظاہر کو تخریب کرنے کا یقینی طور حکم دے گی۔

اصول کافى، ترجمه کمره‏اى، ج ‏3، ص 707 ، انتشارات اسوه‏، قم،

اور وہ حقیقی اسلامی حکومت رسول خدا (ص) کے دور کے بعد، انکے بیٹے حضرت مہدی (ع) کی ہو گی اور اسی لیے وہ بعض مساجد کو جڑ و بنیاد سے نہیں بلکہ انکے ظاہری حلیے کو تخریب کرنے کا حکم دیں گے۔ اس دور میں یہی مساجد عدل و انصاف کا منبع و مرکز ہوں گی، اس لیے کہ خود رسول خدا (ص) نے مکہ اور مدینہ میں اسی عدل، انصاف، برادری، اخوت، اتحاد اور معرفت کے قیام کے لیے ان مساجد کو تعمیر فرمایا تھا۔

قابل توجہ ہے کہ مسجد الحرام ، کعبے اور مسجد النبی کی تخریب کے بارے میں جو روایات ہیں کہ امام زمان (ع) اپنے قیام کے بعد انکو تخریب کریں گے تو خود انہی روایات میں واضح طور پر یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ اس تخریب سے مراد، انکو بالکل مسجد کی شکل سے خارج کرنا نہیں ہے یا انکی جگہ پر کوئی دوسری چیز تعمیر کرنا نہیں ہے، بلکہ تخریب سے مراد یہ ہے کہان مساجد کے بعض حصوں کو خراب کر کے انھیں اسلامی دینی طرز پر تعمیر کرنا ہے۔ اسکی زندہ مثال خود خانہ کعبہ ہے کہ طول تاریخ میں کن کن تعمیری مراحل سے گزرا ہے اور حتی آج تک گزر رہا ہے۔

حلی، یحیی بن حسن، العمدة، ص 317.‏

نوٹ:

حتی ان وہابی خبیثوں نے اسی خانہ کعبہ کی شان و شوکت و عظمت کو کم اور ختم کرنے کے لیے، یہودی طرز تعمیر پر گھڑیال والا ٹاور و مینار بنایا ہے۔ علماء کا بیان ہے کہ انشاء اللہ اس ٹاور کو بھی امام زمان (ع) آ کر تخریب کر کے خانہ کعبہ کو اسکی کھوئی ہوئی عظمت و شان و شوکت دوبارہ عطا کریں گے، کیونکہ

کلمۃ اللہ ھی العلیا و کلمۃ الکفر ھی السفلی،

حتی مسجد النبی بھی اس قاعدے سے مستثنا نہیں تھی، بعض روایات کی روشنی میں عمر نے مسجد النبی کو تخریب کر کے وسعت دیتے ہوئے، اس میں بعض چیزوں کا اضافہ کیا اور اسی وسعت دینے کے عمل کے دوران رسول خدا (ص) کے چچا حضرت عباس کے گھر کو مسجد کا حصہ بنا دیا گیا اور اسی طرح مقام ابراہیم کو کعبہ سے دور کر دیا گیا حالانکہ یہ مقام بیت اللہ کے نزدیک تھا !

بحار الأنوار، ج 31، ص 33، مؤسسة الوفاء، بیروت، لبنان‏،

بہر حال رسول خدا (ص) کے بعد دین میں ایجاد ہونے والی بدعتیں، مقامات مقدسہ میں بھی سرایت کر گئیں، اسی لیے امیر المؤمنین علی (ع) نے فرمایا کہ:

مجھ سے پہلے حکماء نے رسول خدا کی سنت کے خلاف بہت سے کاموں کو انجام دیا تھا۔۔۔۔۔ پس کیسا ہے کہ اگر میں حکم دوں کہ مقام ابراہیم کو اسی جگہ پر واپس پلٹا دیں کہ جہاں پر خود رسول خدا نے تعمیر کیا تھا۔۔۔۔۔۔ اور جعفر ابن ابی طالب کے گھر کو مسجد سے باہر نکال دیں۔

اصول کافی، ج 8، ص 58.

پس امام زمان (ع) کے دور میں انکی پورے جہان پر وسیع و عریض عادل حکومت کی وجہ سے ، دین میں ایجاد ہونے والی بہت سی بدعتیں، اصلاح کی جائیں گی اور ان بدعتوں میں بعض بدعتیں مساجد و مقامات مقدسہ میں ایجاد ہونے والی ہیں کہ جو طول تاریخ میں ایجاد ہو گئیں تھیں۔

بحار الأنوار، ج 34، ص 168

پس واضح ہو گیا کہ حضرت مہدی (ع) کے دور میں مساجد کا تخریب یا ویران ہونا، کوئی عجیب و غریب بات نہیں ہو گا۔ بعض مساجد اصول و ضوابط شرعی کی رعایت کیے بغیر تعمیر کی گئیں ہیں اور بعض تو اپنی دینی شکل سے ہی خارج ہو گئی ہیں اور بعض مسجد ہونے کے باوجود، خود دین کو نابود کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، روایات کے مطابق یہ مساجد تخریب کی جائیں گی، اور اسی طرح بعض مساجد طول زمان میں تغیّر و تبدل ہونے کی وجہ سے تخریب کی جائیں گی تا کہ انکو انکی اصلی دینی و شرعی شکل میں واپس پلٹایا جا سکے۔

کتاب الغيبۃ شیخ طوسى میں داوود ابن قاسم جعفری سے نقل ہوا ہے کہ میں امام عسکری (ع) کے پاس تھا کہ امام نے فرمایا: جب حضرت قائم قیام کریں گے تو وہ مساجد کے میناروں اور محراب کو منہدم کر دیں گے۔

ابن قاسم کہتا ہے کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اس کام کا کیا معنی ہے ؟ اس پر امام نے مجھ سے فرمایا: اسکا معنی یہ ہے کہ یہ کام نئے اور بدعت ہیں کہ انکو نہ کسی پیغمبر نے بنایا ہے اور نہ کسی حجت (امام) نے۔

الغيبة، طوسى: ص 206 ح 175 (با سند صحيح)

إعلام الورى: ج 2 ص 142،

الخرائج و الجرائح: ج 1 ص 453 ح 39،

كشف الغمّة: ج 3 ص 208، بحار الأنوار: ج 52 ص 323 ح 32.

دانشنامه امام مهدى «عج» بر پايه قرآن، حديث و تاريخ، ج‏9 ص243

خلاصہ یہ کہ امام زمان (ع) کے ذریعے سے مساجد کے میناروں کے مسمار ہونے کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ امام لوگوں کی طرف سے دین میں ایجاد کی گئی بدعتوں کا مقابلہ اور انکو نابود کریں گے اور مساجد کے مینارے اور انکی محلّوں جیسی شان و شوکت ان بدعتوں کے نمونے ہیں کہ انکو تعمیر کرنے کا حکم کسی نبی یا کسی امام نے نہیں دیا، لہذا اگر روایات میں مسجد الحرام یا مسجد النبی کا ذکر ہوا ہے تو انکا بھی یہی معنی ہو گا، یعنی وہ امام ان مساجد میں ایجاد ہونے والی بدعتوں کا مقابلہ اور آخر کار انکو نابود کریں گے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی