2024 March 19
کیا امام رضا (عليه السلام) کی وہ حدیث، حديث ثقلين سے تعارض رکھتی ہے جس میں آپ نے قرآن کو تنہا راہ نجات بتایا ہے؟
مندرجات: ١٠٦ تاریخ اشاعت: ١٣ August ٢٠١٦ - ١٨:٣٢ مشاہدات: 3563
سوال و جواب » شیعہ عقائد
کیا امام رضا (عليه السلام) کی وہ حدیث، حديث ثقلين سے تعارض رکھتی ہے جس میں آپ نے قرآن کو تنہا راہ نجات بتایا ہے؟

سؤال: محمد هادي

 سؤال کی وضاحت:

  

 

شیخ صدوق کی کتاب توحید میں امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث ہے جو بظاہر حدیث ثقلین کے منافی ہے۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

  

حدثنا جعفر بن محمد بن مسرور رضي‌الله‌عنه ، قال : حدثنا محمد بن عبد الله ابن جعفر الحميري ، عن أبيه ، عن إبراهيم بن هاشم ، عن الريان بن الصلت ، قال : قلت للرضا عليه‌السلام : ما تقول في القرآن؟ فقال : كلام الله لا تتجاوزوه ، ولا تطلبوا الهدى في غيره فتضلوا.

 

 اس روایت میں امام رضا علیہ السلام فر ماتے ہیں کہ صرف قرآن سے تمسک رکھو اور اگر غیر قرآن سے تمسک رکھو گے تو گمراہ ہو جاوٗ گے۔

  

التوحيد شيخ صدوق ج ۱ ص ۲۲۴

  

 

امام رضا علیہ السلام کی ان باتوں سے کیا مراد ہے؟  کیا واقعا صرف قرآن سے متمسک رہیں ؟

 

مذکورہ سوال کے جوابات کم سے کم دو طرح سے دیئے جا سکتے ہیں:

 

 

پہلا جواب: اس طرح کی روایات کا مطلب پیروی اہل بیت علیہ السلام کی مخالفت نہیں ہے۔

 

 

پہلاجواب یہ ہے کہ اس طرح کی روایت، دوسری روایت کی نفی نہیں کر تی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  غیر قرآن کی پیروی منع ہے بلکہ اس کا مطلب صرف اس بات پر زیادہ تاکید ہے کہ قرآن کی پیروی کی جائےجیسے کہ بعض روایات میں یہی تاکید اہل بیت علیہ السلام کے بارے میں بھی ہو ئی ہے۔ جس کے لئے بطور نمونہ حدیث سفینہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ 

حدیث سفینہ ان معتبر احادیث میں سے ہے جو مختلف شیعہ کتابوں من جملہ: عيون اخبار الرضا شيخ صدوق و امالي شيخ طوسي اور بہت سی اہل سنت کی کتب جیسے: فضائل الصحابة احمد بن حنبل و  المستدرك علي الصحيحين حاکم نيشابوري، میں نقل ہوئی ہے۔ یہ روایت بہت سے صحابہ جیسے: امام علي عليه السلام، ابوذر غفاري، ابن عباس  وانس بن مالک، متعدد اسناد اور مختلف الفاظ کے ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے۔ اور اس روایت کی اسناد کی تفصیل اس کے الفاظ کے ساتھ "حديث سفينه در ميرات اماميه و اهل سنت" نامی مقالہ میں مو جود ہے۔ یہاں پر ہم صرف بطور نمونہ مختلف الفاظ سے اس حدیث کو پیش کر رہے ہیں:

 

 

 

مَثَلُ‏ أَهْلِ‏ بَيتِي‏ فِيكُمْ كَمَثَلِ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا (فيها) نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرَق (هلک)

 

 

میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے رو گرداں ہوا وہ غرق ہو گیا [ہلاک ہو گیا]۔

 

 

الصفار، أبو جعفر محمد بن الحسن بن فروخ (متوفاي290هـ) بصائر الدرجات، ص 317، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الحاج ميرزا حسن كوچه باغي، ناشر: منشورات الأعلمي – طهران، سال چاپ : 1404 - 1362 .


الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاى241هـ)، فضائل الصحابة، ج 2، ص 785، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ – 1983م.

 

 

 

البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي  بن ثابت الخطيب (متوفاى463هـ)، تاريخ بغداد، ج 12، ص 91، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

 

 

الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفاى405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 2، ص 343، تحقيق: يوسف عبد الرحمن المرعشی.

 

 

 

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حاکم نیشاپوری اس روایت کو نقل کر نے بعد کہتے ہیں: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه یہ حدیث مسلم اور بخاری کے شرائط کی بنیاد پر صحیح ہے لیکن انھوں نے اس کو اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کیا ہے۔

 

 

یہ روایت دوسری کتابوں میں متعدد الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے: جیسے شیخ طوسی حدیث کو اس طرح سے نقل کر تے ہیں: من دخلها نجا  ومن تخلف عنها غرق اور دوسرے نقل کے مطابق اس طرح سے فر ما تے ہیں : 

من ركبها نجا ، ومن تركها هلك.

الأمالي، ص 482الطوسي، تحقيق : قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة، ناشر: دار الثقافة ـ قم ، الطبعة: الأولى، 1414هـ. ؛

 

 

شیخ صدوق روایت کی عبارت کو یوں نقل کر تے ہیں:

 مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا زُجَ‏ فِي النَّار،

  

 ابي جعفر الصدوق، محمد بن علي بن الحسين بن بابويه (متوفاي381هـ)، عيون أخبار الرضا عليه السلام ج 1 ، ص 30، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الشيخ حسين الأعلمي، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت – لبنان، سال چاپ: 1404 - 1984 م.

 

 

جیسے کہ یہاں پر اس روایت میں ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ اہل بیت علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کی پیروی کو منع کیا گیا ہے۔ ان روایتوں میں «من تخلف عنها غرق» «من تخلف عنها هلك» «من لم يدخلها هلك» «من تخلف عنها زج في النار» جیسی عبارتیں استعمال ہوءی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دو طرح کی روایتوں میں سے کس پر عمل کیا جائے؟ جواب یہ ہے کہ اس طرح کی روایت ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتیں یا یہ  کہ اصطلاحا ان میں کوئی تعارض نہیں پایا جاتا۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے زاویہ سے قرآن اور اہل بیت علیہ السلام کے سلسلہ میں تاکید کر رہی ہیں، اور اس طرح کی روایت کو حدیث ثقلین کے ذریعہ جمع اور حل کیا جا سکتا ہے، کہ جو دونوں یعنی قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کو رہنما اور ہادی کے عنوان سے پہچنوا رہی ہیں۔

 

 

دوسرا جواب: تعارض،کی صورت میں حدیث ثقلین مقدم ہے

 

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ اس روایت میں اور حدیث ثقلین میں تعارض پایا جاتا ہے تو قطعی طور پر حدیث ثقلین کو اس روایت پر مقدم کرنا ہوگا۔ اس لئے کہ شیخ صدوق، کی روایت خبر واحد اور غیر قطعی ہے اور حدیث ثقلین متواتر اور یقینی ہے۔ خبر قطعی کا غیر قطعی پر مقدم ہونا جہاں عقل کی نگاہ میں واضح اور روشن ہے، وہیں مسلمان علماء اور دانشوروں نے تائید بھی کی ہے۔ مسلم دانشوروں نے اس کو اپنی کتابوں میں بالخصوص تعارض کی بحث میں پیش کیا ہے۔ بطور مثال جناب مظفر، اصول فقہ میں اس طرح سے کہتے ہیں:

لا يتحقق هذا المعنى من التعارض إلا بشروط سبعة هي مقومات التعارض الاول: ألا يكون أحد الدليلين ... قطعيا لأنه لو كان أحدهما قطعيا فإنه يعلم منه كذب الآخر والمعلوم كذبه لا يعارض غيره.

 

 

تعارض اس صورت میں پیش آتا ہے جب اس کے لئے سات شرائط موجود ہوں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں دلیلوں میں سے کوئی بھی قطعی نہ ہو اس لئے کہ اگر ایک قطعی اور دوسری غیر قطعی ہوگی تو ایسی صورت میں غیر قطعی کو جھوٹا قرار دیا جائے گا۔ اور جس کا جھوٹا ہونا واضح ہو وہ کسی دوسری سے  تعارض نہیں رکھتا۔

 

 

المظفر، الشيخ محمد رضا (متوفاي1388هـ)، أصول الفقه، ج 3 ، ص 212، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المقدسة

 

 

 

شوکانی ان علماء اہل سنت میں سے ہیں کہ جنہوں نے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ امام الحرمین کے قول سے اس پر اتفاق رائے کا دعوی کر تے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: وللترجيح شروط ... الثاني التساوي في القوة فلا تعارض بين المتواتر والاحاد بل يقدم المتواتر بالاتفاق كما نقله امام الحرمين.

 

 

ترجیح کے لئے کچھ شرطیں پائی جاتی ہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ دونوں دلیلیں قوت کے اعتبار سے ایک جیسی ہوں، لہذا اگر ایک خبر متواتر اور دوسری خبر واحد ہے تو اس میں تعارض نہیں ہوگا، بلکہ علماء کا اتفاق اس بات پر ہے کہ خبر متواتر کو مقدم کیا جائے گا جیسے کہ امام الحرمین اس اتفاق رائے کو بیان کیا ہے۔

 

 

الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاى 1255هـ)، إرشاد الفحول إلي تحقيق علم الأصول، ج 1، ص 455، تحقيق: محمد سعيد البدري ابومصعب، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ ـ 1992م

 مجموعی نتيجه :

 

مذکورہ باتوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی حدیث جو نقل کی گئی ہے اس کا حدیث ثقلین سے کوئی تعارض نہیں ہے، اور اگر تعارض فرض بھی کر لیا جائے تب بھی حدیث ثقلین متواتر ہونے کی بنیاد پر مقدم ہوگی۔





Share
1 | Hasan | | ١٣:٢٤ - ٢٩ August ٢٠١٦ |
Bahut umda
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی