2024 March 19
کیا عمر نے غدیر خم کے مقام پر امیر المؤمنین علی (ع) کی بیعت کی تھی ؟
مندرجات: ١٠٠٢ تاریخ اشاعت: ١٠ September ٢٠١٧ - ١٧:٤٢ مشاہدات: 6123
سوال و جواب » امامت
جدید
کیا عمر نے غدیر خم کے مقام پر امیر المؤمنین علی (ع) کی بیعت کی تھی ؟

عمر کا غدیر خم میں امیر المؤمنین علی (ع) کی بیعت کرنا:

رسول خدا (ص) نے جب امیر المؤمنین علی (ع) کو اپنے خلیفہ و جانشین کے طور پر انتخاب کر لیا اور اس کے بعد، وہاں پر موجود تمام مسلمانوں کے لیے اعلان کرنے کے بعد، سب کو حکم دیا کہ ایک ایک کر کے سب علی (ع) کی امیر المؤمنین کے عنوان سے بیعت کریں اور اس نئے عہدے و منصب کی انکو مبارک باد دیں۔

ان صحیح روایات کی صحیح اسناد کے مطابق کہ جنکو علمائے اہل سنت نے اپنی معتبر کتب میں ذکر کیا ہے کہ، عمر ابن الخطاب نے خود کو لوگوں کے رش سے نکالتے ہوئے، امیر المؤمنین تک پہنچایا اور انکی بیعت کرنے کے بعد انکو اس عہدے پر مبارک باد پیش کی۔

غزالی کہ چھٹی صدی ہجری کا اہل سنت کا امام و مشہور عالم ہے، اس نے عمر کی علی (ع) کو مبارک باد دینے اور چند دن کے بعد عمر کا اس بیعت و مبارک باد کو بھول جانے کے بارے میں لکھا ہے کہ:

واجمع الجماهير علي متن الحديث من خطبته في يوم عيد يزحم باتفاق الجميع وهو يقول: « من كنت مولاه فعلي مولاه » فقال عمر بخ بخ يا أبا الحسن لقد أصبحت مولاي ومولي كل مولي فهذا تسليم ورضي وتحكيم ثم بعد هذا غلب الهوي تحب الرياسة وحمل عمود الخلافة وعقود النبوة وخفقان الهوي في قعقعة الرايات واشتباك ازدحام الخيول وفتح الأمصار وسقاهم كأس الهوي فعادوا إلي الخلاف الأول: فنبذوه وراء ظهورهم واشتروا به ثمناً قليلا.

رسول خدا کے خطبوں میں سے ایک خطبہ غدیر ہے کہ جسکی عبارت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ رسول خدا نے فرمایا: جس جس کا میں مولا و سرپرست ہوں، علی بھی اس اس کے مولا و سرپرست ہیں۔ عمر نے رسول خدا کے اس فرمان کے بعد علی (ع) کو اس طرح مبارک باد دی:

مبارک ہو، مبارک ہو، اے ابو الحسن کہ، اب آپ میرے اور سب مسلمانوں کے مولا و راہبر بن گئے ہو۔

عمر کے یہ الفاظ اسکے رسول خدا کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور علی کے اس امت کے امام و راہبر بننے پر راضی ہونے پر دلالت کرتے ہیں، لیکن چند دن گزرنے کے بعد عمر ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے اور حبّ ریاست کی وجہ سے ، اس نے خلافت کو اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیا اور اپنے طرف داروں کے لشکر سے، پرچموں کو لہراتے ہوئے اور دوسرے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے، امت میں اختلاف کا اور زمانہ جاہلیت کی طرف واپس پلٹنے کا نئا دروازہ کھول دیا اور واضح طور پر اس آیت :( فنبذوه وراء ظهورهم واشتروا به ثمناً قليلا) کا مصداق قرار پایا، پس اس نے اس بیعت و مبارک باد کو پس پشت ڈال دیا اور اسکے بدلے میں بہت حقیر اور ناچیز کامیابی کو حاصل کیا اور اس نے کتنے نقصان کا معاملہ انجام دیا تھا۔

الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد، سر العالمين وكشف ما في الدارين، ج 1، ص 18، باب في ترتيب الخلافة والمملكة، تحقيق: محمد حسن محمد حسن إسماعيل وأحمد فريد المزيدي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1424هـ 2003م.

اہل سنت کی کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں کہ جو امام غزالی کے قول کو صحیح ثابت کرتی ہیں، لیکن ہم اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان میں سے فقط دو روایت کو سند کے صحیح ہونے کی بحث کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:

روايت اول: روايت براء                        ا بن عازب:

احمد ابن حنبل اور اہل سنت کے بہت سے بزرگان نے عمر کی بیعت کرنے کے واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے کہ:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا عَفَّانُ ثنا حَمَّادُ بن سَلَمَةَ أنا عَلِيُّ بن زَيْدٍ عن عَدِيِّ بن ثَابِتٍ (وأبي هارون العبدي) عَنِ الْبَرَاءِ بن عَازِبٍ قال كنا مع رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم في سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ فنودي فِينَا الصَّلاَةُ جَامِعَةٌ وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ فَصَلَّي الظُّهْرَ وَأَخَذَ بِيَدِ علي رضي الله عنه فقال أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ اني أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ من أَنْفُسِهِمْ قالوا بَلَي قال أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ اني أَوْلَي بِكُلِّ مُؤْمِنٍ من نَفْسِهِ قالوا بَلَي قال فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فقال من كنت مَوْلاَهُ فعلي مَوْلاَهُ اللهم وَالِ من ولاه وَعَادِ من عَادَاهُ قال فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذلك فقال له هنياء يا بن أبي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مولي كل مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ.

براء ابن عازب کہتا ہے کہ: میں حجۃ الوداع میں رسول خدا کے ساتھ تھا، درختوں کے نیچے سے صفائی کی گئی، نماز با جماعت پڑھنے کا حکم دیا گیا، پھر رسول خدا نے علی کا ہاتھ پکڑ کر انکو اپنے دائیں طرف کھڑا کر لیا اور فرمایا:

کیا تمام مؤمنین کی جانوں پر خود انکی نسبت میرا زیادہ حق نہیں ہے ؟ سب نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے، پھر فرمایا: کیا میری زوجات تمہاری مائیں نہیں ہیں ؟ سب نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، پھر فرمایا: جس جس کا میں مولا و راہبر ہوں، علی بھی اس اس کے مولا و راہبر ہیں، خداوندا اس سے محبت فرما، جو علی سے محبت کرے، اور اس سے دشمنی فرما، جو علی سے دشمنی کرے، عمر نے کہا: مبارک ہو اے فرزند ابو طالب، اب آپ ہر مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کے مولا و راہبر بن گئے ہیں۔

الشيباني، أحمد بن حنبل ابو عبد الله (متوفي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 4، ص 281، ح18502، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر؛

همو: فضائل الصحابة لابن حنبل ج 2، ص 596، 1016 و ج 2، ص 610، ح1042، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ - 1983م؛

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص 372، ح32118، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ.؛

الآجري،أبي بكر محمد بن الحسين (متوفي360هـ، الشريعة، ج 4، ص 2051، تحقيق الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، ناشر:دار الوطن - الرياض/السعودية، الطبعة: الثانية، 1420 هـ -1999م.

الشجري الجرجاني، المرشد بالله يحيي بن الحسين بن إسماعيل الحسني (متوفي499 هـ)، كتاب الأمالي وهي المعروفة بالأمالي الخميسية، ج 1، ص 190، تحقيق: محمد حسن اسماعيل، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1422 هـ - 2001م؛

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص 221، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995؛

الطبري، ابوجعفر محب الدين أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفي694هـ)، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، ج 1، ص 67، ناشر: دار الكتب المصرية - مصر؛

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 3، ص 632، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م؛

ابن كثير الدمشقي، إسماعيل بن عمر ابوالفداء القرشي (متوفي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 350، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت؛

السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفي911هـ)، الحاوي للفتاوي في الفقه وعلوم التفسير والحديث والاصول والنحو والاعراب وسائر الفنون، ج 1، ص 78، تحقيق: عبد اللطيف حسن عبد الرحمن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1421هـ - 2000م.

ملا علی ہروی نے اس روایت اور اسکی شرح کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

(رواه أحمد) أي في مسنده، وأقل مرتبته أن يكون حسنا فلا التفات لمن قدح في ثبوت هذا الحديث.

اس روایت کو احمد نے اپنی کتاب مسند احمد میں نقل کیا ہے، راویوں کے مرتبے کے لحاظ سے، اس روایت کا کم ترین مرتبہ یہ ہے کہ، یہ روایت (علم حدیث کی زبان میں) حسن ہے، پس جو بھی اس روایت کے بارے میں اشکال کرے گا، اسکی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔

ملا علي القاري، نور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد الهروي (متوفاي1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 11، ص 78، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ - 2001م.

اس روایت کی سند کے بارے میں بحث و تحقیق:

عفان ابن مسلم ابن عبد الله البا ہلی (219 ھ)

یہ صحيح بخاری، مسلم، أبو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے راویوں میں سے ایک راوی ہے۔

حماد ابن سلمۃ                       (167ھ):

یہ صحيح بخاری (تعليقا)، مسلم، أبو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے راویوں میں سے ایک راوی ہے۔

علی ابن زيد ابن جدعان (131ھ):

یہ صحيح مسلم اور بقيہ صحاح ستہ اور بخاری کی کتاب أدب المفرد کا راوی ہے۔

عن عدی ابن ثابت (116ھ):

یہ بخاری، مسلم، أبو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے راویوں میں سے ایک راوی ہے۔

ابی ہارون العبدی (134ھ):

یہ بخاری، ترمذی اور إبن ماجہ کے راویوں میں سے ایک راوی ہے۔

اہل سنت کے علم حدیث اور علم رجال کے قواعد کے مطابق، جس راوی کی روایت کو کتاب صحیح بخاری اور کتاب صحیح مسلم میں نقل کیا گیا ہو تو، ایسا راوی صد در صد ثقہ و عادل ہوتا ہے۔

 جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے کتاب فتح الباري ميں لکھا ہے کہ:

وقد نقل بن دقيق العيد عن بن المفضل وكان شيخ والده انه كان يقول فيمن خرج له في الصحيحين هذا جاز القنطرة.

ابن دقيق العيد نے ابن مفضل كہ جو اسکے والد کا استاد تھا، سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: جو راوی بھی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہو تو، وہ پل سے پار ہو چکا ہوتا ہے، یعنی اس نے ثقہ و عادل ہونے کے تمام مراحل کو طے کر لیا ہوتا ہے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 13، ص 457، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

اور ابن تيميہ حرّانی کتاب صحيح بخاری و صحیح مسلم کے بارے میں کہتا ہے کہ:

ولكن جمهور متون الصحيحين متفق عليها بين أئمة الحديث تلقوها بالقبول وأجمعوا عليها وهم يعلمون علما قطعيا أن النبي قالها.

آئمہ بزرگ حدیث نے کتاب صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایات پر اتفاق کیا ہے اور ان روایات کے صحیح ہونے کو قبول کیا ہے، اور سب نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ قطعی و یقینی طور پر ان دو کتابوں میں جو احادیث ہیں، وہ رسول خدا کی زبان سے صادر ہوئیں ہیں۔

الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة، ج 1، ص 87، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت تحقيق: زهير الشاويش، 1390هـ - 1970م.

البانی کا بھی سند کو صحیح قرار دینا:

مورد بحث حدیث کہ جو ابن ماجہ قزوینی کی (از حماد ابن سلمہ تا براء ابن عازب) غدیر کے بارے میں روایت ہے، اس روایت کو امیر المؤمنین فی احادیث یعنی محمد ناصر البانی نے بھی اپنی کتاب السلسلۃ الصحيحۃ، میں صحیح قرار دیا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں:

ابن ماجه القزويني، محمد بن يزيد (متوفي275 هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 43، ح116، باب فَضْلِ عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ رضي الله عنه، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت.

الألباني، محمّد ناصر، صحيح ابن ماجة، ج 1، ص 26، ح113، طبق برنامه المكتبة الشاملة.

لہذا نتیجے کے طور پر اہل سنت کے بعض علماء کہ جو دعوی کرتے ہیں کہ:

وهذا ضعيف فقد نصوا أن علي بن زيد وأبا هرون وموسي ضعفاء لايعتمد علي روايتهم وفي السند أيضا أبو إسحق وهو شيعي مردود الرواية.

یعنی یہ روایت ضعیف ہے، علماء نے واضح کہا ہے کہ علی ابن زيد و أبا ہارون ضعيف ہیں، اور انکی نقل کردہ روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اس روایت کی سند میں ابو اسحاق موجود ہے کہ جو شیعہ ہے اور اسکی روایت قابل قبول نہیں ہے۔

الآلوسي البغدادي الحنفي، أبو الفضل شهاب الدين السيد محمود بن عبد الله (متوفاي1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج 6، ص 194، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ان سنّی علماء کے اس دعوی کو قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اگر انکے اس دعوی کو قبول کیا جائے تو پھر کتاب صحیح بخاری، صحیح مسلم اور اہل سنت کی باقی صحاح ستۃ کی بہت سی روایات باطل اور غلط ہو جائیں گی۔

ابن ماجہ اور عبد الرزّاق کی روایت میں تحریف:

ابن كثير دمشقی سلفی نے اس روایت کو ایسے نقل کیا ہے کہ:

وقال عبد الرزاق: أنا معمر عن علي بن زيد بن جدعان، عن عدي بن ثابت، عن البراء بن عازب قال: خرجنا مع رسول الله حتي نزلنا غدير خم بعث مناديا ينادي، فلما اجتمعا قال: " ألست أولي بكم من أنفسكم؟ قلنا: بلي يا رسول الله ! قال: ألست أولي بكم من أمهاتكم؟ قلنا: بلي يا رسول الله قال: ألست أولي بكم من آبائكم؟ قلنا: بلي يا رسول الله ! قال: ألست ألست ألست؟ قلنا: بلي يا رسول الله قال: من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه " فقال عمر بن الخطاب: هنيئا لك يا ابن أبي طالب أصبحت اليوم ولي كل مؤمن.

وكذا رواه ابن ماجة من حديث حماد بن سلمة عن علي بن زيد وأبي هارون العبدي عن عدي بن ثابت عن البراء به. وهكذا رواه موسي بن عثمان الحضرمي عن أبي إسحاق عن البراء به. وقد روي هذا الحديث عن سعد وطلحة بن عبيد الله وجابر بن عبد الله وله طرق عنه وأبي سعيد الخدري وحبشي بن جنادة وجرير بن عبد الله وعمر بن الخطاب وأبي هريرة.

براء ابن عازب کہتا ہے کہ: ہم رسول خدا کے ساتھ باہر نکلے، یہاں تک کہ غدیر خم کے مقام پر پہنچ گئے، ان حضرت نے کسی کو بھیجا تا کہ وہ سب لوگوں کو جمع کرے، جب سب جمع ہو گئے تو رسول خدا نے فرمایا:

کیا تمام مؤمنین کی جانوں پر خود انکی نسبت میرا زیادہ حق نہیں ہے ؟ سب نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے، پھر فرمایا: کیا میں تمہاری ماؤں کی نسبت تم پر زیادہ حق نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا ہاں، اے اللہ کے رسول، پھر فرمایا: کیا میں تمہارے والد کی نسبت تم پر زیادہ حق نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا، ہاں ایسا ہی ہے اے رسول خدا، پھر فرمایا: کیا میں نہیں ہوں ؟ کیا میں نہیں ہوں ؟ کیا میں نہیں ہوں ؟ انھوں نے کہا: ہاں اے رسول خدا، پھر فرمایا:

جس جس کا میں مولا و راہبر ہوں، علی بھی اس اے کے مولا و راہبر ہیں، خداوندا اس سے محبت فرما، جو علی سے محبت کرے، اور اس سے دشمنی فرما، جو علی سے دشمنی کرے، پھر عمر نے کہا: مبارک ہو اے فرزند ابو طالب، اب آپ میرے اور ہر مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کے مولا و راہبر بن گئے ہو۔

اس روایت کو اسی صورت میں ابن ماجہ نے حماد ابن سلمہ اور اس نے علی ابن زید سے اور اس نے ابی ہارون عبدی سے اور اس نے عدی ابن ثابت سے اور اس نے براء ابن عازب سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح موسی ابن عثمان خضرمی نے ابی اسحاق اور اس نے براء ابن عازب سے نقل کیا ہے، اور اسکے علاوہ یہ حدیث سعد (ابن أبی وقاص)، طلحة ابن عبيد الله، جابر بن عبد الله، أبو سعيد خدری، حبشی ابن جناده، جرير ابن عبد الله، عمر ابن خطاب اور أبو ہريره سے بھی نقل ہوئی ہے۔

ابن كثير الدمشقي، إسماعيل بن عمر ابوالفداء القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 350، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت.

جلال الدين سيوطی نے بھی اس روایت کو ابن ماجہ سے تھوڑے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

وأخرج أحمد، وابن ماجه عن البراء بن عازب قال: (كنا مع رسول الله صلي الله عليه وسلّم في سفر فنزلنا بغدير خم فنودي فينا الصلاة جامعة فصلي الظهر وأخذ بيد علي فقال... فلقيه عمر بعد ذلك فقال له: (هنيئاً لك يا ابن أبي طالب أصبحت وأمسيت مولي كل مؤمن ومؤمنة).

السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، الحاوي للفتاوي في الفقه وعلوم التفسير والحديث والاصول والنحو والاعراب وسائر الفنون، ج 1، ص 78، تحقيق: عبد اللطيف حسن عبد الرحمن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1421هـ - 2000م.

حالانکہ بہت ہی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ سنن ابن ماجہ کہ جو اب چھپ کر شائع ہو رہی ہے، اس میں بنی امیہ کی ناجائز اولاد کی ناجائز خیانت کی وجہ سے، روایت کا یہ جملہ:

فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذلك فقال له هنياء يا بن أبي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مولي كل مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ ، موجود نہیں ہے اور حذف کر دیا گیا ہے۔

اس علمی خیانت کا یہ مطلب ہے کہ انکو اچھی طرح معلوم ہے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولا کا کیا معنی ہے اور اسکے علاوہ وہ خائن یہ بھی جانتے ہیں کہ عمر کی اس موقع پر امیر المؤمنین علی (ع) کو مبارک باد دینے کا کیا معنی ہے !!!

ملاحظہ فرمائیں:

ابن ماجه القزويني، محمد بن يزيد (متوفي275 هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 43، ح116، باب فَضْلِ عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ رضي الله عنه، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت.

ذہبی بھی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

ورواه عبد الرزاق، عن معمر، عن علي بن زيد.

حالانکہ ہمیں یہ روایت کتاب مصنف عبد الرزاق سے بھی نہیں ملی، البتہ ممکن ہے کہ عبد الرزاق نے اس روایت کو اپنی کسی دوسری ایسی کتاب میں نقل کیا ہو کہ جو کتاب ابن کثیر اور ذہبی کے پاس موجود تھی۔ 

روايت دوم: روايت ابو ہريره:

خطيب بغدادی نے حبشون ابن موسی کے بارے میں لکھا ہے کہ:

أنبأنا عبد الله بن علي بن محمد بن بشران أنبأنا علي بن عمر الحافظ حدثنا أبو نصر حبشون بن موسي بن أيوب الخلال حدثنا علي بن سعيد الرملي حدثنا ضمرة بن ربيعة القرشي عن بن شوذب عن مطر الوراق عن شهر بن حوشب عن أبي هريرة قال: من صام يوم ثمان عشرة من ذي الحجة كتب له صيام ستين شهرا وهو يوم غدير خم لما أخذ النبي صلي الله عليه وسلم بيد علي بن أبي طالب فقال ألست ولي المؤمنين قالوا بلي يا رسول الله قال من كنت مولاه فعلي مولاه.فقال عمر بن الخطاب بخ بخ لك يا بن أبي طالب أصبحت مولاي ومولي كل مسلم فأنزل الله اليوم أكملت لكم دينكم.

اشتهر هذا الحديث من رواية حبشون وكان يقال إنه تفرد به وقد تابعه عليه أحمد بن عبد الله بن النيري فرواه عن علي بن سعيد أخبرنيه الأزهري حدثنا محمد بن عبد الله بن أخي ميمي حدثنا أحمد بن عبد الله بن أحمد بن العباس بن سالم بن مهران المعروف بابن النيري إملاء حدثنا علي بن سعيد الشامي حدثنا ضمرة بن ربيعة عن بن شوذب عن مطر عن شهر بن حوشب عن أبي هريرة قال من صام يوم ثمانية عشر من ذي الحجة وذكر مثل ما تقدم أو نحوه.

ومن صام يوم سبعة وعشرين من رجب كتب له صيام ستين شهرا وهو أول يوم نزل جبريل عليه السلام علي محمد صلي الله عليه وسلم بالرسالة.

ابو ہریرہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ: جو بھی 18 ذی الحجہ کو روزہ رکھے تو اسکو 60 مہینے کے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا، یہ دن غدیر خم کا دن ہے کہ جس دن رسول خدا نے علی کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا:

کیا میں مؤمنین کا مولا و راہبر نہیں ہوں ؟ سب نے کہا: کیوں کیا ہوا ہے اے رسول خدا، انھوں نے فرمایا: جس جس کا میں مولا و راہبر ہوں، علی بھی اس اے کے مولا و راہبر ہیں، عمر نے کہا: مبارک ہو، مبارک ہو اے فرزند ابو طالب، اب تم میرے مولا اور ہر مسلمان کے مولا بن گئے ہو، پھر یہ آیت نازل ہوئی: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے۔

یہ حدیث ، حبشون کی روایت کے عنوان سے مشہور ہے، کہا گیا ہے کہ فقط اس نے اس روایت کو نقل کیا ہے، حالانکہ احمد ابن عبد الله نے بھی اس روایت کو علی سعيد سے اور اس نے ابو ہريره سے نقل کیا ہے۔

الخطيب البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر (متوفاي 463هـ)، تاريخ بغداد، ج 8، ص 289، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

اس روایت کو الشجری الجرجانی (متوفي499 ھ) نے كتاب الأمالی میں اسی سند کے ساتھ اپنی کتاب میں تین جگہ پر اور ابن عساکر نے اپنی کتاب تاریخ مدینہ دمشق میں نقل کیا ہے:

الشجري الجرجاني، المرشد بالله يحيي بن الحسين بن إسماعيل الحسني، كتاب الأمالي وهي المعروفة بالأمالي الخميسية، ج 1، ص 192، و ج1، ص 343، و ج2، ص102، تحقيق: محمد حسن اسماعيل، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1422 هـ - 2001م؛

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص 233، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

اس روایت کی سند کے بارے میں بحث و تحقیق:

عبد الله ابن علی ابن محمد ابن بشران:

یہ خطیب بغدادی کا استاد اور ثقہ ہے، جیسا کہ ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

عبد الله بن عليّ بن محمد بن عبد الله بن بشران البغدادي الشاهد... قال الخطيب: كان سماعه صحيحاً. وتوفي في شوال.

عبد الله ابن علی..... خطيب نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ: اسکی سنی ہوئی روایات صحیح ہیں، وہ ماہ شوال میں فوت ہوا تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 29، ص 264، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م؛

البغدادي، أحمد بن علي ابوبكر الخطيب (متوفي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 10، ص 14، رقم: 5130، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

 علی ابن عمر الحافظ:

علی ابن عمر یہ وہی دار قطنی معروف ہے کہ جو صاحب سنن ہے کہ اسکے ثقہ ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہے، جیسا کہ ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

قال أبو بكر الخطيب كان الدار قطني فريد عصره وقريع دهره ونسيج وحده وامام وقته انتهي اليه علو الاثر والمعرفة بعلل الحديث واسماء الرجال مع الصدق والثقة وصحة الإعتقاد والاضطلاع من علوم سوي الحديث منها القراءات.

دار قطنی اپنے زمانے میں منفرد اور بے نظیر عالم تھا، وہ اپنے زمانے کا امام تھا، حدیث کی شناخت کا علم اور راویوں کے اسماء کا علم، اس پر ختم تھا (یعنی ان علوم میں کوئی بھی اس کا ثانی نہیں تھا)، وہ ایک سچا، قابل اعتماد اور صحیح عقیدہ رکھنے والا انسان تھا اور وہ علم حدیث کے علاوہ دوسرے علوم میں، جیسے علم قراآت میں بھی مہارت رکھتا تھا۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 16، ص 452، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

ابو نصر حبشون ابن موسی ابن ايوب الخلال:

ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

حبشون بن موسي بن أيوب الشيخ أبو نصر البغدادي الخلال... وكان أحد الثقات.

حبشون ابن موسی قابل اعتماد افراد میں سے ایک تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 15، ص 317، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

خطيب بغدادی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

وكان ثقة يسكن باب البصرة.

حبشون مورد اعتماد تھا اور باب البصرہ میں رہتا تھا۔

البغدادي، أحمد بن علي ابوبكر الخطيب (متوفي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 8، ص 289، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

اور روایت اکمال کو نقل کرنے کے بعد، دوسری روایت کو بھی نقل کیا ہے اور کہتا ہے کہ:

الأزهري أنبأنا علي بن عمر الحافظ قال حبشون بن موسي بن أيوب الخلال صدوق....

علی ابن عمر الحافظ کہتا ہے کہ: حبشون ابن موسی سچا انسان ہے۔

تاريخ بغداد، ج 8، ص 4391.

علی ابن سعيد الرملی:

ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

علي بن أبي حملة شيخ ضمرة بن ربيعة ما علمت به بأسا ولا رأيت أحدا الآن تكلم فيه وهو صالح الأمر ولم يخرج له أحد من أصحاب الكتب الستة مع ثقته.

علی ابن ابی حملہ قبیلہ ضمرہ کا بزرگ سردار ہے، میں نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی، اور میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے اسکے بارے میں کچھ کہا ہو، وہ اچھے کام کرنے والا تھا، اسکے باوجود کہ وہ ثقہ ہے، لیکن صاحبان کتب صحاح ستۃ نے اس سے روایت کو نقل نہیں کیا۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان أبو عبد الله (متوفي 748 هـ) ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 5، ص 153 ـ 154، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

وإذا كان ثقة ولم يتكلم فيه أحد فكيف نذكره في الضعفاء.

علی ابن سعيد رملی ثقہ ہے اور کسی نے اسکے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا، پس کیوں اسکے نام کو ضعیف راویوں کے ساتھ لایا جائے ؟

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفي852هـ) لسان الميزان، ج 4، ص 227، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ - 1986م.

ضمرةابن ربيعۃ   القرشی:

ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

ضمرة بن ربيعة. الإمام الحافظ القدوة محدث فلسطين أبو عبد الله الرملي...

روي عبد الله بن أحمد بن حنبل عن أبيه قال ضمرة رجل صالح صالح الحديث من الثقات المأمونين لم يكن بالشام رجل يشبهه هو أحب إلينا من بقية بقية كان لا يبالي عمن حدث وقال ابن معين والنسائي ثقة.

وقال أبو حاتم صالح قال آدم بن أبي إياس ما رأيت أحدا أعقل لما يخرج من رأسه من ضمرة

وقال ابن سعد كان ثقة مأمونا خيرا لم يكن هناك أفضل منه ثم قال مات في أول رمضان سنة اثنتين ومئتين .

وقال أبو سعيد بن يونس كان فقيههم في زمانه مات في رمضان سنة اثنتين ومئتين ،

ضمرة ابن ربيعہ امام، حافظ، محدث فلسطین تھا۔ عبد الله ابن احمد ابن حنبل نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ: ضمرہ پاک فطرت انسان تھا اور حدیث کو نقل کرنے میں نیک و صالح تھا، وہ مورد اعتماد افراد میں سے تھا، شام میں کوئی بھی اسکی طرح کا نہیں تھا۔ وہ میرے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ محبوت تھا کہ جو احادیث کو نقل کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تھے۔ ابن معین اور نسائی نے کہا ہے کہ: ابو حاتم کہتا ہے کہ: اس کا کام ٹھیک تھا،

آدم ابن إياس نے کہا ہے کہ: میں نے اس سے عقل مند کسی کو نہیں دیکھا۔

ابن سعد نے کہا ہے کہ: وہ مورد اعتماد و اطمینان و اچھا انسان تھا، اس جگہ پر کوئی اس سے بہتر نہیں ہے۔

ابو سعيد ابن يونس نے کہا ہے کہ: وہ اپنے زمانے کا عالم و فقیہ تھا۔۔۔۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 9، ص 106، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

عبد الله ابن شوذب:

عبد الله بن شوذب. البلخي ثم البصري الإمام العالم أبو عبد الرحمن نزيل بيت المقدس... وثقه أحمد بن حنبل وغيره. قال أبو عمير بن النحاس حدثنا كثير بن الوليد قال كنت إذا رأيت ابن شوذب ذكرت الملائكة. قال أبو عامر العقدي سمعت الثوري يقول كان ابن شوذب عندنا ونحن نعده من ثقات مشايخنا وقال يحيي بن معين كان ثقة.

عبد الله ابن شوذب امام و عالم تھا، احمد ابن حنبل اور دوسروں نے اسکو ثقہ قرار دیا ہے،

ابو عمير نحاس کہتا ہے کہ کثیر ابن ولید نے کہا ہے کہ: میں جب بھی ابن شوذب کو دیکھتا ہوں تو مجھے ملائکہ یاد آ جاتے ہیں۔

ابو عامر عقدی نے کہا ہے کہ: میں نے ثوری سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ: ابن شوذب ہمارے پاس تھا اور ہم اسکو قابل اعتماد اساتذہ میں شمار کرتے تھے،

يحيی ابن معين نے کہا ہے کہ: وہ قابل اعتماد راوی تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 7، ص 92، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

اور ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ:

عبد الله بن شوذب الخراساني أبو عبد الرحمن سكن البصرة ثم الشام صدوق عابد من السابعة.

عبد الله ابن شوذب خراسانی بصرے میں رہتا تھا، پھر وہ شام چلا گیا، وہ سچا اور عبادت گزار انسان تھا، وہ محدثین کے ساتویں طبقے میں سے تھا۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفی[ي852هـ)، تقريب التهذيب، ج 1، ص 3386، رقم:3387، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986 م.

مطر الوراق:

ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

مطر الوراق. الإمام الزاهد الصادق أبو رجاء بن طهمان الخراساني نزيل البصرة مولي علباء بن أحمر اليشكري كان من العلماء العاملين وكان يكتب المصاحف ويتقن ذلك

مطر الوراق امام، زاہد، سچا تھا، وہ اہل خراسان ہے کہ جو بصرے میں رہتا تھا، وہ عالم با عمل تھا، وہ بہت اچھے طریقے سے قرآن کو لکھتا بھی تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 5، ص 452، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ..

اور اس نے اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھا ہے کہ:

فمطر من رجال مسلم حسن الحديث.

مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں اس سے روایت کو نقل کیا ہے اور وہ اس کتاب کے راویوں میں سے ہے، اور اسکی نقل کردہ روایات صحیح و اچھی ہیں۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 6، ص 445، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

شہر ابن حوشب:

شہر ابن حوشب کتاب صحیح مسلم کے راویوں میں سے ایک راوی ہے اور اسکے ثقہ ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہے، جیسا کہ ذہبی نے اپنی کتاب تاريخ الإسلام میں اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

قال حرب الكرماني: قلت لأحمد بن حنبل: شهر بن حوشب، فوثقه وقال: ما أحسن حديثه. وقال حنبل: سمعت أبا عبد الله يقول: شهر ليس به بأس. قال الترمذي: قال محمد يعني البخاري: شهر حسن الحديث، وقوي أمره.

شہر ابن حوشب میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، ترمذی نے کہا ہے کہ محمد یعنی بخاری نے کہا ہے کہ: اسکی احادیث اچھی (صحیح) ہیں، اور وہ اپنے کام میں ماہر انسان تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 6، ص 387، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م.

ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں اس روایت کو، کہ جس کے سلسلہ سند میں شہر ابن حوشب ہے، نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بن إسماعيل عن شَهْرِ بن حَوْشَبٍ فَوَثَّقَهُ وقال إنما يَتَكَلَّمُ فيه بن عَوْنٍ ثُمَّ رَوَي بن عَوْنٍ عن هِلَالِ بن أبي زَيْنَبَ عن شَهْرِ بن حَوْشَبٍ قال أبو عِيسَي هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

بخاری نے شہر ابن حوشب کو ثقہ قرار دیا ہے اور اسکی روایات کو حسن و صحیح قرار دیا ہے۔

الترمذي السلمي، محمد بن عيسي أبو عيسي (متوفي 279هـ)، سنن الترمذي، ج 4، ص 434،، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

عجلی نے کتاب معرفۃ                   الثقات ميں لکھا ہے کہ:

شهر بن حوشب شامي تابعي ثقة.

شہر ابن حوشب اہل شام ، تابعین میں سے اور ثقہ تھا۔

العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفاي 261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج 1، ص 461، رقم: 741، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولي، 1405 - 1985م.

نتیجے کے طور پر اس روایت کی بھی سند مکمل طور پر صحیح ہے اور اسکی سند میں کسی قسم کا بھی کوئی اشکال نظر نہیں آتا۔

نتيجہ کلی:

غدیر خم کے مقام پر تمام لوگوں کا اور خاص طور پر عمر کا امیر المؤمنین علی (ع) کو مبارک باد پیش کرنے کا معنی یہ ہے کہ رسول خدا کی مراد اپنے اس جملے « من كنت مولاه فعلي مولاه » علی (ع) کی ولایت اور امامت تھی، نہ کہ مراد اس جملے سے علی (ع) سے محبت اور دوستی کرنا تھی،

کیونکہ اگر مراد فقط دوستی اور محبت کرنا ہوتی تو پھر مبارک باد دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، دوستی کیسے مراد ہو سکتی ہے، حالانکہ عمر نے کہا کہ: « أصبحت مولاي ومولي كل مولي ، کہ آپ آج سے میرے مولا بن گئے ہو،

اس لیے کہ اگر لفظ مولا سے دوستی و محبت مراد لی جائے تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ غدیر والے دن سے پہلے علی (ع) عمر اور تمام لوگوں کے دشمن تھے، حالانکہ خود سنی اور وہابی بھی بالکل اس بات کو ماننے کے تیار نہیں ہیں۔

اور ابن كثير دمشقی کی روایت میں ذکر ہوا کہ: « اصبحت اليوم ولي كل مؤمن، یعنی آپ آج سے ہر مؤمن کے سرپرست بن گئے ہیں، حالانکہ تمام لوگوں سے محبت کرنا، یہ ایسا واجب کام تھا کہ جو خداوند نے بہت پہلے سے نازل کر دیا تھا،

اور اگر لفظ مولا کا معنی محبت و دوستی کریں تو پھر عمر نے اپنی بیعت اور مبارک باد دینے سے گویا یہ کہا ہے کہ اے علی آج سے پہلے ہم سب تمہارے دشمن تھے، لیکن آج سے ہم تمہارے دوست بن گئے ہیں، کیا خود اہل سنت اور وہابی اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہیں ؟ !

لہذا حدیث غدیر کو امامت و ولایت کے معنی پر حمل کرنے کے علاوہ مسلمانوں کے پاس کوئی راہ فرار نہیں ہے۔

قابل توجہ بات ہے کہ اگر چلو ہم شیعہ مان بھی لیتے ہیں کہ غدیر خم کے مقام پر رسول خدا (ص) نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ امیر المؤمنین علی (ع) سے دوستی اور محبت کرنا، تو کیا اسی رسول خدا (ص) کے دنیا سے جانے کے بعد اسی علی (ع) سے دوستی اور محبت کی گئی،

 یا خلافت کے پیاسوں نے فوری اسی اپنے دوست کے گھر کو آگ لگا دی، اسی دوست کے گلے میں رسی ڈال دی،

اسی اپنے دوست کے بیٹے کو دنیا میں سے آنے سے پہلے ہی سقط کر دیا، اپنے اسی دوست کے مسلّم حق کو غصب کر لیا،

اپنے اسی دوست کو 70 ہزار منبروں سے سبّ و شتم کرتے رہے،

 اپنے اسی دوست کے ظاہری طور پر چوتھا خلیفہ بننے کے بعد چار سال کے عرصے میں تین بڑی جنگیں لڑئیں، پہلی جنگ عائشہ، طلحہ و زبیر نے برپا کی، (جنگ جمل)، دوسری جنگ معاویہ علیہ الھاویہ نے برپا کی، (جنگ صفین)، تیسری جنگ خوارج نے برپا کی، (جنگ نہروان)،

کیا کوئی اپنے دوست کی جان کا دشمن بھی ہوتا ہے ،

کیا کوئی اپنے دوست کے قاتل کی مدح میں اشعار بھی پڑھتا ہے، جیسے عائشہ نے ابن ملجم کی شان میں اشعار کہے تھے۔ کیا کوئی اپنے دوست کے قاتل کو رضی اللہ عنہ کہتا ہے۔

آخر تم لوگ کس اہل بیت کی محبت کے دعوے کرتے ہو،

ایسے اہل بیت جو صحابہ کے ما تحت رہ کر زندگی گزاریں،

 ایسے اہل بیت جو اہل اور قابل ہونے کے باوجود چپ رہیں یا گھر میں بیٹھے رہیں،

 ایسے اہل بیت جو رسول خدا (ص) کی ہر چیز کے وارث ہوتے ہوئے بھی ، رسول خدا کے منبر و تخت سے دور رہیں۔

کیا ان جھوٹے اور خالی دعووں کا کوئی فائدہ بھی ہے، آخر تمہارا اہل بیت (ع) سے سوتیلی ماؤں والا سلوک کب ختم ہو گا، تم کو رسول خدا (ص) کے اہل بیت میں کیا کم نظر آیا ہے جو تم دوسروں کو ان حضرت کا خلیفہ اور وارث قرار دے دیا ہے۔ آخر آخر آخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

التماس دعا۔۔۔۔۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی