موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
نہج البلاغہ مکتوب ششم کی تحلیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا امام علی علیہ السلام خلفاء کی خلافت کے لئے شرعی حیثیت کے قائل تھے ؟
مندرجات: 1900 تاریخ اشاعت: 18 دي 2021 - 15:45 مشاہدات: 3170
یاداشتیں » پبلک
نہج البلاغہ مکتوب ششم کی تحلیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا امام علی علیہ السلام خلفاء کی خلافت کے لئے شرعی حیثیت کے قائل تھے ؟

 

نہج البلاغہ  مکتوب ششم کی تحلیل

کیا امام علی علیہ السلام  خلفاء کی خلافت کے لئے شرعی کے قائل تھے  ؟

اعتراض:

امام علیؑ نے نہج البلاغہ مکتوب ششم میں واضح طور پر سقیفہ میں امام کی تقرری کو  رضائے الہی  بیان فرمایا ہے آپؑ  نے اس بارے میں فرمایا: " شوریٰ کا اختیار بھی صرف مہاجرین و انصار کو ہوتا ہے لہٰذاوہ کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام نامزد کردیں تو گویا کہ اسی میں رضائے الٰہی ہے " اس ے واضح ہوتا ہے کہ آپ ابوبکر کی خلافت کے مخالف کو حکم خدا کے مخالف جانتے تھے۔لیکن شیعوں کو اس میں اپنا فائدہ نظر نہیں آتا لہذا کبھی بھی اپنے امام کی  بات پر کان نہیں دھریں گے۔

 

سند کی تحقیق 

ہم تحریر کے آخری حصے میں اس روایت کی سند اور اہل سنت کی نگاہ میں اس کے بعض  راویوں کی راے پیش کرتے ہیں ؛

 

تحلیل اور جائزہ

 

تاریخی شواہد کے مطابق جب معاویہ نے امام علیؑ کی بیعت سے مخالفت کی تو معاویہ اور حضرت علی کے درمیان ۳۰ مکتوب رد و بدل ہوئے جن میں ۱۶ مکتوب کو سید رضی نے نہج الباغہ میں بیان کیا ہے۔

[1]

مکتوب ششم کو حضرت علی ؑنے جنگ جمل کے بعد  معاویہ کے اعتراض کے جواب میں لکھاتھا۔معاویہ نے اعتراض کر کے حضرت علیؑ کی بیعت کی مشروعیت پر سوال اٹھایا تھا۔ امام علی نے اس کے اعتراضات کے جواب میں اپنی خلافت کی مشروعیت  کو ثابت کرنے کے لیے معاویہ کے  معیار کے مطابق جواب دیا  اور لکھا: "إِنَّه بَايَعَنِي الْقَوْمُ الَّذِينَ بَايَعُوا أَبَا بَكْرٍ وعُمَرَ وعُثْمَانَ - عَلَى مَا بَايَعُوهُمْ عَلَيْه - فَلَمْ يَكُنْ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَخْتَارَ - ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَرُدَّ - وإِنَّمَا الشُّورَى لِلْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وسَمَّوْه إِمَاماً كَانَ ذَلِكَ لِلَّه رِضًا،

دیکھ میری بیعت اسی قوم  نے کی ہے جس نے ابوبکر و عمر  و عثمان  کی بیعت کی تھی اور اسی طرح کی ہے جس طرح ان کی بیعت کی تھی کہ نہ کسی حاضر کو نظر ثانی کا حق تھا اورنہ کسی غائب کو رد کردینے کا اختیار تھا۔ شوریٰ کا اختیار بھی صرف مہاجرین و انصار کو ہوتا ہے لہٰذاوہ کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام نامزد کردیں تو گویا کہ اسی میں رضائے الٰہی ہے۔"[2]

امام کی  اس بات  کو ان لوگوں نے ذریعہ بنایا کہ آپ مہاجر و انصار کے شورا سے راضی تھے اور ان کے کام کو رضائے الہِی سمجھتے تھے  اور اس سے یہ لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سقیفہ میں خلیفہ اول  کی تقرری  رضائے الہی کے مطابق تھا۔

 

جواب میں چند نکات کی دادہانی ضروری ہے :

 

پہلا نکتہ:  اگر وہابیت اس مکتوب  سے یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں تو  نہج البلاغہ کے بقیہ متون میں ان کے عقیدہ کے برخلاف جو کچھ بھی بیان ہوا ہے ان کی تشریح کرے۔ امام علی نے اس مکتوب سے پہلے مختلف خطبوں  اور مکتوبات میں واضح طور سے بیان کر چکے تھے کہ امامت اور رہبری کا مسئلہ  ایسا نہیں جس کی تقرری میں لوگوں کا کوئی کردار ہو۔بلکہ یہ عہد الہی ہے  اورآپؑ خدا کی طرف سے منصوب ہوئے ہیں جس کا ابلاغ پیغمبرؐ کے توسط ہوا۔لہذا صرف آپ اور آپ کا خاندان ولایت کے حقدار ہیں۔نہج البلاغہ میں یہ مسئلہ مکرراً بیان ہوچکا ہے یہاں کچھ نمونے بیان کرں گے :

الف) خطبہ دوم میں اہل بیتؑ کا تعارف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "«لایقاس بآل محمد(ص) من هذه الأمّة أحد، و لایسوّی بهم من جرت نعمتهم علیه أبدا،ً هم أساس الدین و عماد الیقین، إلیهم یفيء الغالي و بهم یلحق التالي و لهم خصائص حقّ الولایة و فیهم الوصیّة و الوراثة؛آل محمد(ص) دین کی اساس اوریقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کرانہیں کی طرف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے۔ان کے پاس حق و لایت کے خصوصیات ہیں اور انہیں کے درمیان پیغمبر(ص) کی وصیت اور ان کی وراثت ہے۔"[3]

ب) امام صرف خود کو شرعی خلیفہ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ خلافت کو "اپنا غصب شدہ حق" اور " غارت شدہ حق " سے یاد کرتے ہیں۔اگر امام علی خلافت ابوبکر کو درست سمجھتے تھے تو  غصب شدہ  اور غارت شدہ  حق کیوں کہتے ؟

آپ اس بارے میں فرمات ہیں: "أری تراثي نهباً،  میں دیکھا کہ میری میراث غارت ہوگئ۔" [4]

آپ نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں فرمایا : "فوالله ما زلت مدفوعاً عن حقّي مستأثراًعليَ منذ قبض الله نبیّه حتّی یوم الناس هذا؛ خدا گواہ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے حق سے محروم رکھا گیا ہوں اور دوسروں کو مجھ پرمقدم کیا گیا ہے جب سے سرکار دو عالم(ص) کا انتقال ہوا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔"[5]

ج) آپ خلافت کو صرف بنی ہاشم کا حق  مانتے ہوئے فرماتے ہیں: " «إنّ الأئمّة من قریش غُرسوا في هذا البطن من هاشم لاتصلح علی سواهم ولاتصلح الولاة من غیرهم؛  ائمہ صرف قریش سے ہیں، بلکہ صرف ایک قبیلہ، وہ بھی بنی ہاشم،  کے لیے ردای امامت صرف انہیں  کے لائق ہے ان کے علاوہ کوئی اور شائستہ  نہیں ہے۔"

یہ الفاظ امامت کے بارے  میں آپ کے نقطہ نظر کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ لہذ ا مکتوب ششم میں مہاجرین و انصار کے شورا سے تمسک کی کوئی اور دلیل ہے۔

اگر واقعی ابوبکر کی خلافت  امام علی کی نگاہ میں مثبت تھی تو آپ اور حضرت زہرا نے اس کی بیعت کیوں  نہیں کی؟[6] بخاری نے واضحانہ لکھا ہے کہ امام علی اور ایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا۔[7]

لہذا گر وہابیت ابوبکر  کی خلافت سے  رضایت کو امام علی اور نہج البلاغہ سے منسوب کرتے ہیں تو ان کو ابہامات اور  اعتراضات  کا جواب دینا پڑے گا۔ورنہ ایسے تعارض و تناقض کا شکار ہوجائے جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں۔

دوسرا نکتہ :  اگر  حضرت علی نے اس مکتوب میں مہاجر و انصار کے شورا سے تمسک کیا ہے تو اس لیے کہ فرد مقابل معاویہ تھا  ۔مسئلہ امامت میں  نصب الہی اور ابلاغ پیغمبرؐ  کے وہ قائل نہ تھا ۔ وہ صرف شورا اور لوگوں کی بیعت  کو تسلیم کرتا تھا۔ اس نے اسی حربے سے عوام کو فریب دے کر لوگوں کی نگاہ میں امامؑ کی بیعت کو مشکوک بنایا تھا یہاں تک کہ چونکہ وہ خود مدینہ میں نہیں تھا تو حقیقت میں مہاجر و انصار کا شورا برقرار نہ ہوا تھا لہذا لوگوں کی امام علی سے  کی گئی بیعت  درست نہیں ہے۔

معاویہ کا  خلافت کے بارے میں نظریہ صرف شورائے  مہاجر و انصار اور لوگوں کی بیعت تھا۔ لہذا امام علی نے معاویہ کو قائل کرنے کے لیے اسی کے عقیدے کے مطابق اس طرح جواب دیا:تم   شورائے مسلمین اورعوام کی بیعت  کے دعویدار ہو اگر تمہاری رائے میں امامت کی تقرری کا معیار شورا ہے تو مہاجرین و انصار کے شورا نے مجھے منتخب کیا ہے اور اگر تمارا معیارعوام کی بیعت ہے تو انہوں نے میری بیعت کی ہے۔ لیکن جس شورا سے تم استناد کرتے ہو کہ مہاجر و انصار سے تشکیل پایا ہو تو تم نہ مہاجر ہو  اور نہ ہی انصار، کیونکہ یثرب کے لوگوں کو انصار کہا جاتا ہے اور مہاجرین وہ لوگ ہیں جنہوں نے مکہ فتح ہونے سے پہلے مدینہ  ہجرت کی ہو لیکن تم تو آزاد ہونے والوں میں سے ہو۔

اس کے علاوہ تم جیسے لوگوں کی موجودگی یا عدم موجودگی  شورا کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں رکھتا کیونکہ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے شورا اور انہیں شرائط کے مطابق عثمان کی بیعت کی گئی تھی جبکہ اس وقت بھی تم مدینہ میں نہ تھا لیکن وہ بیعت تیرے لیے ضروری ہوگئی  اور تم نے بھی اسے تسلیم کر لیا تھا۔

 یہ وہ روش تھی جسے امام علی نے معاویہ کو جواب دینے کے لیے اختیار کیا۔ایسی روش جس میں فرد مقابل کے عقیدے کے مطابق استدلال کی گیا ہے۔اور قائدہ الزام کے مطابق، دشمن کو قائل کرنے کے لیے قیاس کے صغری اور کبری میں اسی کے عقیدے   کو بیان کیا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ مناظرہ کرتے وقت اس قسم کی روش  کاا ستعمال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ   استدلال کرنے والے   نے اس معیار کو قبول کیا ہے۔لہذا امامت کی تقرری میں   امام علی کا عقیدہ یہ نہیں ہے بلکہ آپ نے معاویہ کو قائل کرانے کے لیے   اس روش سے استفادہ کیا جس سے وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہا تھا۔حقیقت میں امام علی اسی حربے کے ساتھ معاویہ کی جنگ کو گئے جس سے وہ آپ کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔

تیسرا نکتہ :  یہ جملہ"فإن اجتمعوا علی رجل و سمّوه إماماً کان ذلک لله رضاً " شورائے مہاجرین و انصار سےخد اکی رضایت کو بیان کرتا ہے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ: بعض دوسرے نسخوں میں اس جملہ کی جگہ " کان ذلک رضاً" کا جملہ آیا ہے  جس سے خدا کی رضایت ثابت نہیں ہوتی ہے۔

اگر یہی جملہ" کان ذلک لله رضاً" درست ہو تو بھی شیعہ اصول کے مطابق  اس کا معنی یہ ہوگا کہ اگر حقیقت میں مہاجر و انصار کسی امر پر اجماع کرے تو اس کام سے خدا راضی ہوگا۔کیونکہ معصوم شخصیات حضرت علی، امام حسن و امام حسین  بھی مہاجرین  و انصار میں شامل ہیں جب یہ لفظ بطور مطلق استعمال  جائے۔(امام علی مہاجر اور امام حسن و حسین انصار میں شمار ہونگے)۔بے شک جس اجماع میں معصومینؑ موجود ہوں  اسے سے خدا راضی ہوگا۔اس بحث کو ابن حزم اندلسی نے بھی بیان کیا ہے  وہ لکھتے ہیں: "خدا کی لعنت ہو اس اجماع پر جس میں علی بن ابی طالب اور ان کے ساتھی موجود نہ ہوں"۔[8]

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ سید رضی نے مکتوب کا  ابتدائی حصے کوحذف کردیا ہے اگر ابتدائے مکتوب جو معاویہ کے جواب میں لکھا گیا ہے توجہ کریں تو  یہ اعتراض پیش نہیں آئے گا۔

نتیجہ:

مکتوب ششم میں امام علی  کا بیان قائدہ الزام کی بنیا دپر معاویہ کو قائل کرنے کے لیے  ہے  اور اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے کہ اسلام میں امام اور رہبر کی تقرری شورا کے حوالے کیا گیا ہے۔

 اس خط کی سند بھی ملاحظہ فرمائیں

سند اگر صحیح نہیں ہے تو روایت قابل استدلال نہیں ہے ۔

اس خط کو نصر ابن مزاحم نے کتاب صفين میں ، ابن قتيبة  نے الامامة والسياسة میں ، ابن عبد ربه  نے عقد

الفريد میں اور طبری نے اپنی تاريخ میں اور  ابن عساکر نے تاريخ مدينه دمشق میں نقل کیا ہے ۔۔

   أخبرنا أبو عبد الله البلخي أنا أحمد بن الحسن بن خيرون أنا الحسن بن أحمد بن إبراهيم أنا أحمد بن إسحاق الطيبي نا أبو إسحاق إبراهيم بن الحسين نا أبو سعيد يحيى ابن سليمان الجعفي نا نصر بن مزاحم نا عمر بن سعد الأسدي عن نمير بن وعلة عن عامر الشعبي
 أن عليا بعد قدومه الكوفة نزع جرير بن عبد الله البجلي عن همدان فأقبل جرير حتى قدم الكوفة على علي بن أبي طالب فبايعه ثم إن عليا أراد أن يبعث إلى معاوية بالشام رسولا وكتابا فقال له جرير يا أمير المؤمنين ابعثني إليه فإنه لم يزل لي مستنصحا وودا فآتيه فأدعوه على أن يسلم هذا الأمر لك ويجامعك على الحق وأن يكون أميرا من أمرائك وعاملا من عمالك ما عمل بطاعة الله واتبع ما في كتاب الله وأدعو أهل الشام إلى طاعتك وولايتك فإن جلهم قومي وقد رجوت ألا يعصوني فقال له الأشتر لا تبعثه ولا تصدقه فوالله إني لأظن هواه هواهم ونيته نيتهم فقال له دعه حتى ننظر ما يرجع به إلينا فبعثه علي إلى معاوية فقال له حين أراد أن يوجهه إن حولي من قد علمت من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل الدين والرأي وقد اخترتك عليهم لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم فيك من خير ذي يمن فائت معاوية بكتابي فإن دخل فيما دخل فيه المسلمون وإلا فانبذ إليه على سواء وأعلمه أني لا أرضى به أميرا وإن العامة لا ترضى به خليفة
 فانطلق جرير حتى نزل بمعاوية فدخل عليه فقام جرير فحمد الله وأثنى عليه ثم

 قال أما بعد يا معاوية فإنه قد اجتمع لابن عمك أهل الحرمين وأهل المصرين وأهل الحجاز واليمن ومصر وعمان والبحرين واليمامة فلم يبق إلا أهل هذه الحصون التي أنت فيها لو سال عليها من أوديته سيل غرقها وقد أتيتك أدعوك إلى ما يرشدك ويهديك إلى متابعة أمير المؤمنين علي
 ودفع إليه كتابه قال وكانت نسخته بسم الله الرحمن الرحيم
 من عبد الله علي أمير المؤمنين إلى معاوية بن أبي سفيان أما بعد فإن بيعتي لزمتك وأنت بالشام لأنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوا عليه فلم يكن لشاهد أن يختار ولا لغائب أن يرد وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار فإذا اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك رضا فإن خرج من أمرهم خارج بطعن أو رغبة ردوه إلى ما خرج منه فإن أبى قاتلوه على اتباعه غير سبيل المؤمنين وولاه الله ما تولى ويصله جهنم وساءت مصيرا وإن طلحة والزبير بايعاني ثم نقضا بيعتي وكان نقضها كردهما فجاهدتهما على ذلك حتى جاء الحق وظهر أمر الله وهم كارهون فادخل فيما دخل فيه المسلمون فإن أحب الأمور إلي فيك العافية إلا أن تعرض للبلاء فإن تعرضت له قاتلتك واستعنت الله عليك

وقد أكثرت في قتلة عثمان فادخل فيما دخل في الناس ثم حاكم القوم إلي أحملك وإياهم على كتاب الله فأما تلك التي تريدها يا معاوية فهي خدعة الصبي عن اللبن ولعمري لئن نظرت بعقلك دون هواك لتجدني أبرأ قريش من دم عثمان

واعلم يا معاوية أنك من الطلقاء الذين لا تحل لهم الخلافة ولا تعرض فيهم الشورى وقد أرسلت إليك وإلى من قبلك جرير بن عبد الله وهو من أهل الإيمان والهجرة فبايع ولا قوة إلا بالله 

تاريخ مدينة دمشق (59/ 128):

 

 

اس روایت کے  تین راویوں  کے بارے اہل سنت کے علما کی راے ملاحظہ کریں

 

نصر بن مزاحم أبو الفضل المنقري الكوفي:

كان عارفا بالتاريخ والأخبار، وهو شيعي من الغلاة جلد في ذلك. روى عنه أبو سعيد الأشج ونوح بن حبيب وغيرهما، وروى هو عن شعبة بن الحجاح، واتهمه جماعة من المحدّثين بالكذب، وضعّفه آخرون.
وصنف كتاب الغارات. وكتاب الجمل. وكتاب صفين. وكتاب مقتل حجر بن عدي. وكتاب مقتل الحسين بن علي رضي الله عنهما، وغير ذلك. مات سنة اثنتي عشرة ومائتين.

موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله (2/ 680):
3678 - نصر بن مزاحم العطار، أبو الفضل المنقري، الكُوفِيّ، سكن بغداد.
• قال السُّلَمِيُّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن نصر بن مزاحم، فقال: ضعيف. (353) .


• وذكره الدَّارَقُطْنِيّ في «الضعفاء والمتروكين» (547) .


- نمير بن وعلة.


مجهول .

ميزان الاعتدال (4/ 273):

عمر بن سعد الأسدي
595 - عمر بن سعد الأسدي روى عن الأعمش والشيباني وليث وخصيف روى عنه أبو سعيد الأشج وغيره ثنا عبد الرحمن قال سألت أبى عنه فقال شيخ قديم من عتق الشيعة متروك الحديث

 الجرح والتعديل (6/ 112):

 

۔۔۔تحریر : استاد رستمی نژاد                       ۔ ترجمہ : اعجاز حیدر



[1][1] ۔ملاحظہ ہو: نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، مکتوبات

[2] ۔نہج البلاغہ مکتوب ۶

[3] ۔نہج البلاغہ خطبہ دوم

[4] ۔ نہج البلاغہ خطبہ دوم

[5] ۔ نهج البلاغه، خطبه۶

[6] ۔ملاحظہ ہو: صحیح البخاری، ج  ،5ص « .82وعاشت بعد النبيّ ستّة أشهر...ولم یکن یبایع تلک الأشهر.

[7] ۔ صحیح البخاری، ج ،8ص « .27- 26حین تاوفّي نبیّاه (ص) أنّ الأنصاار خالفوناا و اجتمعاوا بأسارهم فاي ساقیفة بناي ساعدة و خالف عنّا عليّ و الزبیر ومن معهما"

[8] ۔. المحلّی، ج  ،9ص.345، لعنة الله علی کلّ إجماعٍ یخرج عنه عليّ بن أبي طالب و من بحضرته من الصحابة.





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: